والدین کی عظمت

 آمنہ طفیل

والدین کتناخوبصورت لفظ ہے اور اس سے بھی زیادہ خوبصورت تو یہ احساس اور یہ رشتہ ہے۔ میں بہت فخر محسوس کرتی ہوں کہ مجھے والدین کی عظمت کے بارے میں لکھنے کا موقع ملا ہے۔

سب سے پہلے تو میں خداوندتعالی کی شکر گزار ہوں کہ اس نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے؛ لیکن سب سے افضل اور سب سے خوبصورت نعمت جو اللہ تعالی نے ہمیں عطا کی ہے وہ والدین ہیں اس جہاں میں ان سے بڑھ کر اور خوبصورت رشتہ کوئی نہیں ہے۔میں اللہ تعالی کی بہت شکر گزار ہوں کہ یہ نعمت اللہ نے سب کو عطا کی ہے۔

والدین کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔میرے ان بے جان اور گناہگار ہاتھوں میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ والدین کی عظمت اور شان کو بیان کر سکیں؛ کیونکہ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کو اللہ نے بلند مرتبے پر فائزکیا ہے؛ لیکن آج کے جدید دور کی اولاد نے والدین کی عظمت کو پامال کر دیا ہے ۔ہمیں تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں اتنی عظیم نعمت سے نوازا ہے۔ میں نےاس جدید دور کی اولاد کے ہاتھوں والدین کو اکثر ذلیل و خوار ہوتے دیکھا ہے۔ جب یہ منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو دل پسیجتا ہے، خون کے آنسو روتا ہے تو اک سوال ذہن میں آتاہے کیسے اولاد ایسے کر سکتی ہے۔؟. میں جدید دور کی نوجوان نسل کو اک پیغام دینا چاہوں گی.

والدین ہی اس دنیا میں ہماری تخلیق کا موجب ہیں ان کی عظمت اور اہمیت کا نعم البدل اس دنیا میں کوئی نہیں ۔ہماری پیدائش سے لیکر ہماری جوانی تک والدین ہماری خوشیوں کے لیے کوشاں ہوتے ہیں اور ہر وہ ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنی اولاد کو کہیں نہ کہیں سے اور کسی نہ کسی طریقے سے خوشی دیں اور اس کی وجہ سے وہ خو د اپنی جائز ضروریات کو ترک کرتے رہتے ہیں، صرف اس لیے کہ ہم خوش رہیں، ہمیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، خود حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور ہم پر آنچ بھی نہیں آنے دیتے۔ کس قدر ان کے دل میں اپنی اولاد کے لیے محبت اور فکر ہوتی ہے کہ اگر کوئی چاہ کر بھی یہ بیان کرنا چاہے تو بھی نہیں کر سکتا ۔وہ اپنا آپ بھول جاتے ہیں صرف اور صرف اپنی اولاد کی خاطر اور اولاد بے مروت، نافرمان اک پل میں یہ سب خاک میں ملا دیتی ہے ۔

والدین کی عظمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ھیں:-

"اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراؤاور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ.”

(القرآن)

جیسے ایک بہت مشہور بات ہے کہ ایک بچے کی کامیابی کی خوشی صرف دو ہی لوگوں کو ہوتی ہے ایک والدین اور دوسرا وہ استاد ہے جس نے آپ کو تعلیم دی ہو تی ہے؛ کیونکہ باقی لوگ آپ سے مخلص نہیں ہوتے؛ اس لیے اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا بنو، انہیں کسی کے لیے بھی کھبی خود سے دور مت کرو؛ کیونکہ اک وہی ہیں جو تماری کامیابی کے لیے ہروقت دعاگو ہوتے ہیں۔ آج کی مصروف زندگی میں سے کچھ وقت نکالیں اپنے والدین کے لیے، ان کے پاس بیٹھیں، اپنے دل کی باتیں ان سے کریں، ان کے دل کی باتیں سنیں، بالکل اسی طرح جس طرح سے وہ تمہیں وقت دیا کرتے تھے، ہر وہ بات تمہاری سنتے تھے چاہے بے معنی ہی کیوں نہ ہو۔ان کا بڑھاپے میں خیال رکھو ہر لحاظ سے جیسے وہ بچپن میں تمہارا خیال رکھاکرتے تھے، بڑھاپے میں وہ تمہاری ذمہ داری ہیں؛ بلکہ ان کی خدمت کرنا فرض ہے تم پر، اس سے منہ نہ موڑو؛ بلکہ احسن طریقے سے اپنا فریضہ سرانجام دو؛ تاکہ یہ عمل تمارے لیےاس دنیا میں باعث کامیابی اور دوسری دنیا میں باعث نجات ہو۔

حضورپاک صلی الله علیہ وسلم نے تین شخص پر لعنت فرمائی ہے :-

1. ایک وہ شخص جس نےمیرا نام سنا اور مجھ پر درود پاک نہیں پڑھا۔

2 . دوسرا وہ شخص جسں نے والدین کو بڑھاپے میں پایا اور خدمت کر کے جنت حاصل نہیں کی۔

3 . تیسرا وہ شخص جس نے رمضان کے روزے پائے اور نہ رکھے۔

جدید دور کی رنگینیوں میں کھو کر اولاد والدین کو نظر انداز کرتی ہے، اولاد کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ دو گھڑی والدین کے پاس بیٹھ جائیں۔ بس آج کے دور میں لگے ہیں سب پیسہ کمانے، رشتوں کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔اپنے والدین کی آنکھوں میں کبھی دیکھنا کتنی آس لگاکے بیٹھے ہوتے ہیں کہ انکا کتنا دل کرتا ہے کہ ان کی اولاد ان کے پاس آکر بیٹھے اور ان کی خوشیاں اور غم بانٹیں۔

ایک حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:-

"ماں باپ کی طرف محبت سے دیکھنا مقبول حج کے برابر ہے۔”

 

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کچھ عرصہ ماں باپ کی خدمت کردی تو انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا، وہ غلط سمجھتے ہیں ۔ والدین نے جو اولاد کے لیے قربانیاں دی ہوتی ہیں اولاد کھبی تصور ہی نہیں کر سکتی۔ بہت ہی خوبصورت بات کہی گئی ہے کہ تم اگر ساری زندگی بھی والدین کی خدمت کرتے رہو تو بھی اس وقت کے درد کی ایک لہر کا بھی حق ادا نہیں کر سکتے جو درد تمہاری ماں تمہاری پیدأش کے وقت برداشت کرتی ہے ۔بالکل کھبی بھی اولاد کو اس درد کا اندازہ ہو ہی نہیں سکتا۔یہاں پے ایک قصہ سناتی ہوں۔

 

حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے اپنی ماں کو اپنے کندھوں پر بیٹھا کر پیدل حج کروایا ہے تو کیا میں نے اپنا حق ادا کر دیا تو رسول ﷺ نے جواب دیا کہ شاید تمہیں نہ پتہ ہو کہ جب تم بہت چھوٹے تھے اور سر دیوں کی راتوں میں جب اپنا بستر گیلا کر دیتے تھے تو تمہاری ماں تمہیں اپنی جگہ پر سلا دیتی اور خود گیلے بستر پر سو جاتی تھی۔تم نے ابھی اس اک رات کا بھی حق ادا نہیں کیا اور تم کہہ رہے ہو کہ میں نے ماں کا سارا حق ادا کر دیا ۔ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ میرے رب نے والدین کو کتنی بڑی شان عطا کی ہے اور وہ کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔ہمارے مذہب اسلام نے ہمیں والدین کے سامنے اف تک کر نے سے بھی منع کیا ہے؛ لیکن آج کے دور میں تو اولاد بوڑھے ماں باپ پر چلاتی ہے تو سمجھ جاؤ کہ تم خود اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے بربادی کا سامان خرید رہے ہو، اس جہاں کے لیے بھی اور اگلے جہاں کے لیے بھی ۔ابھی بھی وقت ہے والدین کا سہارا بنو سہارا بنو انہیں دنیا کی ٹھوکروں کے لیے اکیلا نہ چھوڑو۔

 

"” تیرا (والدین) سایہ میرے سر پر رہے تا حیات

یہ ہی دعا ہے میرے مولا تجھ سے "”

 

یا الله سب کے والدین کو لمبی عمر عطا فرما اور جن کے والدین بیمار ہیں ان کو صحت عطا فرما اور تندرستی والی لمبی عمر دے اور اس دنیا سے جن کے والدین رخصت ہو چکے ہیں ان کی مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔اور ہر اولاد کو نیک اور فرمانبردار بنا اور ایسا بنا کہ تجھے اور تیرے پیارے رسول ﷺ کو پسند آجائیں۔یا الله ہم سب بہت گناہ گار ہیں، ہمارے گناہ معاف فرما اور نیک راہ پر گامزن کر۔ آمین

Comments are closed.