مستقبل کا پاکستان

محمد عارف خٹک، اکوڑہ خٹک

[email protected]

ارضِ پاکستان اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا بڑا تحفہ اور عظیم نعمت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بزرگوں کی قربانی اور اکابرین کی مسلسل محنت کی بدولت ایک خوبصورت وطن ہمیں نصیب ہوا۔ اس مسلسل محنت کے پیچھے ہزاروں مسلمانوں کی قربانیاں تھیں ، جن کی بدولت یہاں کے باشندے غیروں کی تسلط سے آزاد ہو کر اپنے خودمختار ملک کے مالک ہوئے۔

تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کو آزادی اس وقت ملی جب بھارت میں پہلا ہندو مسلمان ہوا۔ یوں پاک ملک کی آزادی میں عروج و ترقی کا دور شروع ہوا ۔ نظریہ پاکستان کی کڑی اگر سرسیداحمدخان سے ملائی جائے تو تقریباً 70 سال کی مسلسل محنت کی بدولت یہ کامیابی اور آزادی ہمیں نصیب ہوئی، جو آنکھوں کی پلک جھپک اور لمحوں کا کام نہ تھا۔ اس مملکت کی آزادی میں مسلسل محنت ، مشقت اور قربانیاں سامنے آئیں جو اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ سرزمین، عوام اور اس مملکت کے ادارے اس طرح مزید محکم ، مستحکم اور مضبوط ہوں گے۔

تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو چند کوتاہیوں اور غلطیوں کی وجہ سے ارض پاک مسلسل ناپاک عزائم کی آماجگاہ بنا رہا۔ غیروں کی فساد اور بدامنی نے اس کے حسن و جمال کو بد صورتی اور بدنما کرنے کے مختلف منصوبے بنائیں، جس کی وجہ سے یہاں کی سر سبز و شاداب سر زمین بنجر اور صحرا کی صورت پیش کرنے لگا۔ پھولوں، پھلوں اور درختوں کی دلکش مہک کو بدبو اور تعفن میں تبدیل کیا گیا، پرامن لوگوں کی زندگی کو اجیرن اور مشکل بنا دی گئی، چین و سکون کو پریشانی اور بدامنی میں بدل دیا گیا۔

ماضی قریب میں چند واقعات کی بدولت دشمنوں کے ناپاک عزائم سے باخبر ہو کر ملکی اداروں نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیں ، ان سے پتہ چلتا ہے کہ پرامن پاکستان کی کوششیں اور قربانیاں رنگ لائیں ، ماضی کے معمول کے دھماکوں اور خونریزی ودہشت گردی میں نمایاں کمی آئی ہے اور ملک امن کی جانب رواں دواں دکھائی دے رہا ہے۔

قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی جگہ زندگی اور بودوباش اختیار کرنے کے لیے امن بنیادی چیز ہے۔ ابراہیم علیہ السلام عراق اور شام وغیرہ کے ممالک سے سفر کرکےسرزمینِ عرب اور مکہ تشریف لاتے ہیں ،خانہ کعبہ کی تعمیر کرتے ہیں، اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑتے ہیں اور ساتھ یہ دعا مانگتے ہیں کہ "اے اللہ! تو اس سرزمین عرب (مکہ) کو امن کا شہر بنا دے "جو پرسکون زندگی کی ضمانت ہے۔

پاکستان میں اللہ کے فضل و کرم سے امن و امان بحال ہونا شروع ہوا ہے ۔ بد امنی پرکسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ترقی اور تجارتی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔ مختلف ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے ہو چکے ہیں اور ان کے بہتر نتائج سامنے آ رہے ہیں۔جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ عنقریب ملک مزید ترقی سے ہمکنار ہوگا۔

موجودہ دور میں ملکی سطح پر کچھ مسائل بھی سامنے آ ئے ہیں جن میں سرفہرست مہنگائی ہے، جس کی وجہ سے ملک کے باسی کافی پریشان دکھائی دیتے ہیں، جس نے غریب کا جینا محال کر دیا ہے ۔ملکی سطح پر دوسرا بڑا مسئلہ غربت کا ہے جس کی وجہ سے امیر مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں اور غریب غربت کی چکی میں پستے جا رہے ہیں۔ تیسرا مسئلہ بے روزگاری کا ہے جس سے چوری اور ڈکیتی، قتل و غارت گری میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔جبکہ چوتھا اور اہم مسئلہ عدم اعتماد کی فضا ہے ، اس عدم اعتماد کی وجہ سے حکمرانوں، سربراہان، مختلف محکموں و اداروں کے افسران ِ بالا و ملازمین سے عوام نالاں نظر آتے ہیں اور جن سے ملک کے باسیوں کو شکایت رہتی ہے۔

مندرجہ بالا مسائل پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ جس کے حل سے نہ صرف ملک کے باشندے پرامن و پرسکون رہیں گے اور ملک کی ترقی میں کردار ادا کریں گے ، بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملک کا وقار بڑھے گا ۔بین الاقوامی ممالک کے سربراہان تجارتی معاہدوں اور سیر و سیاحت، صحت و تعلیم کے علاوہ توانائی کے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی غرض سے پاکستان کا رخ کریں گے۔

کسی ملک کی عروج و ترقی کا معیار عوام کی صحت، تعلیم و تربیت اور سڑکوں کے نظام سے لگائی جاتی ہے ،اس مقصد کے حصول کےلیے ملک میں یکساں نصاب تعلیم کی ضرورت ہے۔ جس سے معیار خواندگی بڑھے گی ، لوگ علم و ہنر سے مالامال ہونگے ۔صحت پر توجہ دینے سے دوسرے ممالک سے صحت کی بھیک نہ مانگنی پڑے گی۔ سڑکوں کے نظام میں بہتری سے ٹریفک حادثات میں کمی ،تجارتی اغراض و مقاصد بہتر طریقے سے حاصل ہوں گے ، آمد و رفت میں جدت آئے گی۔ جس سے ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو گا اور ترقی کی راہیں وا ہوں گی۔

بین الاقوامی جریدوں اور رپورٹس کے مطابق دنیا کا پسندیدہ صدر ترکی کے رجب طیب اردوان ہیں۔ ان کی اس مقبولیت کا راز عوام اور حکومت کا آپس میں ہم آہنگی ہے، عوام کے اعتماد پر پورا اترنا ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان ان خصوصیات سے عاری اور خالی ہے جس کی وجہ سے سرکاری اداروں ، ملکی حکمرانوں اور سرکاری ملازمین میں بڑی حد تک خلا پائی جاتی ہے اور ایک دوسرے سے میلوں دور نظر آتے ہیں ۔ سر براہان ِ مملکت عوام کے ٹیکسوں پر عیاشیوں میں مصروف جبکہ غریب عوام دو وقت کھانے کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔اس غریب اور مفلوک الحال عوام کا حکمران صرف نظارے دیکھتے اور تماشائی بن کر نظر آتے ہیں ۔ جس پر افسوس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟

موجودہ دور حکومت میں احتساب کے نام پر جو عمل شروع ہوا ہے اس پر اعتراضات اپنی جگہ لیکن اس میں شک نہیں کہ اس کے مثبت اثرات سے ملک میں کرپشن ، دھوکہ اور دغا بازی کی روک تھام میں مدد ملے گی، اس سے رشوت، مظالم اور دوسرے فساد اور بغاوت پر قابو پایا جاسکے گا۔سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت اور اقرباء پروری پر قابو پاکر سرکاری محکموں کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں اضافی اخراجات پر قابوپاکر اور خصوصاً سرکاری املاک میں جو فضول اور اسراف کی حد تک اخراجات خرچ کئے جاتےہیں یا سیاسی ممبران کو جو مراعات حاصل ہے ان میں اعتدال لا کر ملکی زرمبادلہ اور اپنے بجٹ اہداف میں خاطر خواہ کامیابی اور بچت لا سکتے ہیں۔

ملکی سطح پر مندرجہ بالا اصلاحات کی صورت میں بہت سی کمزوریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے جس سے تخریبی عمل کے مقابلے میں تعمیری سرگرمیاں پروان چڑھیں گی۔بین الاقوامی سطح پر کامیابی اور دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کچھ اصلاحات کی ضرورت ہےجس کا مختصراً تذکرہ کیا جاتا ہے۔

1. ملک کے تمام اداروں کو با اختیار اور خود مختار بنانا تاکہ بغیر کسی جھجک اور دباؤ کے تمام فیصلے آزادانہ اور منصفانہ طور پر کرسکیں۔ کسی کی دباؤ اور مداخلت نہ ہوں ، اور ساتھ ہی ان اداروں کی مانیٹرنگ اور احتساب کا عمل جاری ہو ۔

2. عوامی سطح پر ملکی مفاد اور وطن سے محبت کا شعور بیدار کرنا ہوگا جس کی بنیاد پر ملک کے باسی اس قوم و وطن سے محبت کی خاطر اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں ، وطن سے محبت کی خاطر وہ کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں۔

3. ملکی سطح پر اتحاد و اتفاق کا ماحول پیدا کرنا۔ بغاو ت، اختلافات خواہ مذہبی ہو یا معاشرتی، جغرافیائی ہو یا قومی و ملی، ہر قسم کےاختلافات بھلا کر متحد ہوں، تاکہ ملکی یکجہتی ممکن ہو اور سازشی عناصر و دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔

4. ملکی قوت و طاقت اور قدرتی وسائل پر صرف ارض پاک اور اس کے ہم وطنوں کا حق ہو، نہ کہ ان کو دوسروں کے سپرد کرکے اپنے عوام کو سبز باغ دکھا کر دھوکے میں رکھا جائے، ان تمام وسائل کو ملک کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔

5. اسلحہ ، بارود، ایمونیشن اور ایٹم بم تک کے اختیارات منتخب اور مخلص ماہرین کے ہاتھوں میں ہوں تاکہ خطرات یا بیرونی سازشوں اور اپنے ملک کے خلاف منصوبوں کا مناسب جواب اور دفاع ممکن ہو۔

محب وطن شہری کا کام اور مقصد وطن سے محبت کرنا ہےاور یہی محبین یکساں نصاب تعلیم اور وطن سے محبت کی قربانیوں کی صورت میں حاصل ہوں گے۔ بڑوں کی قربانیوں اور شہادت کے واقعات سے بچوں کے دلوں میں جزبے ابھریں گے اور وطن سے محبت پیدا کرنے کی جستجو کا ذریعہ بنے گا۔ جس کے لئے مذہبی و ملکی سطح پر ان بچوں کی تربیت کی ضرورت ہے۔

ملک سے محبت ، تعلیم و شعور اور شہریوں کی مناسب اور بنیادی ضروریات پوری کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر نا ملک کے باشندوں کی اولین ذمہ داری ہے۔ ارضِ پاک کو تحفظ اور امن کا گہوارہ بنا نا ہر شہری کا فرض ہے۔ ان فرائض کی بدولت نہ صرف مستقبل قریب بلکہ مستقبل بعید میں بھی دنیا کے دوسرے ممالک ہماری طرف دیکھیں گے۔ ارضِ پاکستان کا بول بالا ہوگا۔ اسلامی اور مغربی ممالک کی نظریں سرزمین پاک کی طرف ہوں گی ۔ اس طرح ایک وقت آئے گا کہ پاکستان دنیا کی توجہ کا مرکز ہوگا۔ جس کے لیے صرف دو کام ضروری ہیں، مخلص قیادت اور محب وطن شہری ۔

پاک جگہ، پاک مٹی اور پاک سرزمین کبھی ناپاک نہیں ہوتے۔ اگر کھبی ناپاک ہوں تو اس کی صفائی کے تین طریقے ہیں۔پہلا پانی سے دھویا جائے، دوسرا سورج کی تپش اور حرارت سے زمین کا پاک ہونا، تیسرا اس مٹی کو ہٹایا جائے یا اس پر مزید مٹی ڈالی جائے، زمین صاف و شفاف اور طہارت و پاکی سے دوبارہ مزین ہو جائے گی۔

Comments are closed.