عشق میں پاگل

 

ازقلم: سحر نصیر (سیالکوٹ)

یہ جس کو ہنستے ہوئے دیکھتے ہیں سب

دنیا کے الزامات کی عادی ہے یہ لڑکی

وہ باہمت لڑکی،اندھیرے میں فروزاں جیسی،ہر مشکل میں اپنی ہمت آپ بننے والی، آنکھوں میں آنسوؤں کے ہوتے ہوئے مسکرانے والی، زندگی کی تمام نعمتوں کا شکر کرنے والی لڑکی تھی۔

گہرا دھندلا فلک پر ہر طرف سناٹا ہی سناٹا تھا۔فلک پر مکمل طور پر کالے بادلوں کا راج تھا۔ابرباراں کا موسم،خاموشی کا ڈیرا اور ایک لڑکی کالے رنگ کے لباس میں ملبوس بیٹھی پھولوں سے کھیلتے ہوئے اپنے اللہ سے باتیں کرنے میں مصروف تھی۔ہما اک باحیاء باکردار اور اللہ سے عشق کرنے والی لڑکی تھی۔اس نے اپنی ساری زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق گزاری تھی۔ہما سب کے دلوں پر راج کرتی تھی اوراپنے والدین کا فخر تھی۔پورے خاندان میں اپنے نیک اعمال کی وجہ سے مثالی لڑکی تھی۔ماشاءاللہ قرآن پاک کی حافظہ بھی تھی اورہمیشہ سے اپنی ہر بات اپنے اللہ سے کرتی تھی۔ہر دکھ ہر تکلیف ہر مشکل میں اللہ کو پکارتی تھی۔ اللہ سبحان و تعالیٰ جو اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے جب اس کا بندہ اس کو پکارتا ہے تو اللہ جی اس کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ ہما یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔اس کو کبھی کسی نامحرم نے نہیں دیکھا تھا۔وہ روزانہ گھر سے نکلنے سے پہلے اپنی امی سے باتیں کرتی تھی اور اپنے آپ کو مکمل طور پر چھپا کر نکلتی تھی۔یہاں تک کے ہما کی آواز بھی کبھی کسی نامحرم نے نہیں سنی تھی۔

اس کا ایک بھائی عمر اور ایک بہن سحر تھی وہ اپنے بہن اور بھائی سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔اور ان کو بھی اللہ سے عشق کرنے کو کہتی تھی۔لیکن ہر دفعہ کی طرح وہ دونوں ہاں میں سر ہلا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اپنے اللہ سے عشق کرتے ہیں۔لیکن جو عشق ہما اپنے اللہ سے کرتی تھی وہ کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ہما ایک نازک کلی تھی خوب صورت لمبے کالے بال، دلکش بھوری آنکھیں، سانولی رنگت،چھوٹے سے گلابی ہونٹ اور صبغت اللہ کا رنگ اس کی خوبصورتی پر چاندنی کی مانند چھایا ہوا تھا۔

اس کی زندگی مکمل تھی، پر وہ کیا جانتی تھی کہ اس کی زندگی میں ایک طوفان آنے والا ہے۔جو اس کی زندگی کی خوبصورتی پر کالی گھٹا کی مانند چھانے والا تھا۔اب تو سحر بھی پانچ وقت کی نماز پڑھتی تھی جو کے پہلے ہر وقت گانے سننے میں مصروف رہتی تھی۔عمر بھی پانچ وقت کی نماز اور ماشاءاللہ اب تو تہجد بھی ادا کرتا تھا۔جس کو پہلے اپنے کرکٹر بننے کا خواب ہی کچھ نہیں کرنے دیتا تھا۔

ہما اپنے بھائی کو بتاتی تھی کہ اگر اس کو اپنے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے تو اپنے اللہ کی طرف رجوع کرے۔عمر سمجھ گیا تھا کہ ہما کیا کہنا چاہتی ہے عمر نے کہا آپی جی میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد میری کوئی نماز قضاء نہیں ہو گی۔اپنے گھر میں یہ سب دیکھ کر تو ہما کے والدین ہر سجدے میں اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی خوبصورت کلی سے نوازا ہے۔

ہما کی یونیورسٹی کا ایک لڑکا اس کا پیچھا کرتا تھا وہ لڑکا روزانہ کالے رنگ کی لمبی کار میں اس کے پیچھے آتا تھا۔ہما نے کبھی غور نہیں کیا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔کچھ دنوں سے اس کو بھی محسوس ہونے لگا تھا کہ کوئی اس کے پیچھے آ رہا ہے۔ ہما ڈرتی نہیں تھی،وہ ایک باہمت چٹان کی مانند مضبوط لڑکی تھی اور ویسے بھی جو لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں وہ کسی سے نہیں ڈرتے۔ ہمانے اپنی دوست سے بات کی کے اس کو منع کرے کہ وہ میرے پیچھے نہ آیا کرے۔اس کو پتہ بھی نہیں تھا اور وہ لڑکا کافی دفعہ ہما کے پیچھے اس کے گھر تک آ چکا تھا ۔ محلے والوں نے اس لڑکے کو ہما کے پیچھے آتے دیکھا تھا۔اب محلے میں ہما کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جا رہی تھی۔ وہ عظیم لڑکی جو اپنے والدین کے لیے باعث فخر تھی آج وہ باعث ذلت بن رہی تھی۔

اس کے والدین اور بہن بھائی کو تو ہما پر پورا اعتبار تھا۔پر لوگوں کی باتوں نے ان کا جینا حرام کر دیا تھا۔وہ باہمت لڑکی ہمیشہ کی طرح جائے نماز پر خاموشی سے بیھٹی اپنے اللہ سے باتیں کرنے میں مصروف تھی آج اس کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ وہ اللہ سے کیا کہے شکایت کرے شکوہ کرے کیا کرے آخر کار اس کی خاموشی کا بل ٹوٹا اور ہما کے ہونٹوں سے چند خوبصورت الفاظ نکلے "اے محمدﷺ کے اللہ! بے شک ہما کی جان تیرے قبضے میں ہے، بےشک ہما کا جسم تیری امانت ہے، بے شک تو اپنے نیک بندوں کو آزماتا ہے، بےشک تو مجھ سے سترہ ماؤں سے بڑھ کر پیار کرتا ہے اے اللہ! میں کس طرح تجھ سے شکوہ کروں تیرے ہر کام میں بہتری ہے، اے غفور الرحیم! ہما تیرا اپنی ہر سانس کے ساتھ شکر ادا کرتی ہے اور تیری رضا میں راضی ہے”۔آج پھر اللہ کے سامنے بچوں کی طرح رو کر اس کی روح تک تسکین میں ڈھل گئی تھی۔

وہ لڑکا جو اس کے پیچھے آتا تھا ہما کی دوست نے جب اس سے بات کی تو وہ سمجھ گیا تھا کہ اب اس باحیاء لڑکی کو اپنی شریک حیات بنانے کا کیا طریقہ ہے۔وہ بھی جانے انجانے میں اس کی سادگی،اس کی حیا،اس کی روح تک سے محبت نہیں عشق کر بیٹھا تھا۔خوبصورت نیلی آنکھیں،بھورے بال جن کو بڑے نفیس انداز میں بنایا گیا تھا،لمبا قد،سفید رنگ،ہما کی محبت کا رنگ تو اس کی خوبصورتی پر چودھویں کے چاند کی مانند تھا۔اس لڑکے کا نام حاسن تھا یہ نام ہما کو بے حد پسند تھا۔حاسن کو اس لڑکی کی آنکھوں میں جو حیا تھی اور اس کا ہمیشہ نگاہیں نیچے کر کے چلنا بے حد پسند تھا۔حاسن اللہ سے بہت دور تھا سگریٹ پیتا تھا ہزاروں لڑکیوں سے باتیں کرتا تھا۔لیکن کبھی بھی اس کو ان کاموں میں سکون نہیں ملا تھا جتنا سکون اس کو ہما کو دیکھ کر ملتا تھا حالانکہ اس نے کبھی بھی ہما کو نہیں دیکھا تھا۔اس لڑکے کی خوبصورتی کو دیکھ کر کوئی بھی لڑکی اللہ کی بنائی شکل کو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ آج یہ خوبصورت لڑکا ہما کے عشق میں اس قدر پاگل ہو چکا تھا کہ اب وہ اللہ سے باتیں کرتا تھا اللہ سے اس باحیاء لڑکی کو مانگتا تھا کہتا تھا اے اللہ! میں نے کبھی تجھ سے کچھ نہیں مانگا اے اللہ! آج تجھ سے اک قیمتی چیز مانگتا ہوں ہما کا ساتھ مانگتا ہوں. میں بھی اس کی طرح تجھ سے عشق کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ جی نے اس لڑکے کی ہدایت کے لیے ہی اس باہمت لڑکی کو بنایا تھا اور اب اس لڑکے کو ہدایت دینے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کے لیے پہلی سیڑھی ہما تھی۔

ایک شام یہ عظیم لڑکی دسمبر کی سردی کی پرواہ کیے بغیر غروب ہوتے سورج کو دیکھتے ہوئے اپنے اللہ سے مخاطب تھی اے دن اور رات کے مالک،اے سب کی قسمت کو بہترین انداز میں لکھنے والے،اے آزمانے والے، میں جانتی ہوں کہ تو مجھے آزما رہا ہے اے اللہ! میں اس آزمائش میں بھی تیرا سہارا مانگتی ہوں، تیرا ساتھ چاہتی ہوں،اے اللہ مجھے تھام لے،اے اللہ مجھے ایسی ہدایت دے جس کے بعد گمراہی نہ ہو،اے اللہ مجھے حق پر قائم رکھنا،اے اللہ میں اپنی قسمت کا فیصلہ تیرے حوالے کرتی ہوں۔وہ سب کی باتوں کو خاموشی سے سنتی تھی اور اس کرب کے موسم میں بھی اللہ کا شکر ادا کرتی تھی۔اور اس درد ناک فضاء میں بھی خود کو سکون اور راحت بخشتی تھی۔جن کو اللہ پر کامل یقین ہوتا ہے ناں وہ لوگ درخت کی مضبوط جڑوں کی مانند ہوتے ہے جس کا کوئی بھی طوفاں کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

اس نےاپنی زندگی کا ہر فیصلہ اللہ کے سپرد کر دیاتھا۔اس کمال شخصیت کی مالک لڑکی کے عشق میں حاسن کہی نہ کہی اللہ سے بھی عشق کر رہا تھا۔وہ بھی ہما کی طرح اب ہر بات اللہ سے کیا کرتا تھا۔ اللہ سے اس کا ساتھ مانگتا تھا اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا تھا۔

آج حاسن کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان تھا۔ جس میں کامیابی کے لیے حاسن یچھلے ایک سال سے اپنے اللہ سے دعائیں کر رہا تھا۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک انسان اس قدر سچے دل سے اللہ سے کچھ مانگے اور اللہ جی اس کو نہ دے تو بس اللہ نے ہما کو حاسن کا نصیب بنا دیا تھا۔حاسن عزت دار انسان کی طرح ہما کا رشتہ لے کر گیا تھا۔اس مہ جبین لڑکی کے والدین نے سارا فیصلہ اس پر چھوڑا دیا تھا۔ہما نے سب سے پہلی شرط یہ رکھی کہ میں شادی کے بعد بھی مکمل پردہ کروں گی۔حاسن تو اس کی اسی سادگی پر مر مٹا تھا۔

اس کے بعد اللہ پر کامل یقین رکھنے والی ہما نے استخارہ کیا اور اللہ کی رضا جانے کے بعد نکاح کے لیے ہاں کر دی تھی۔حاسن اپنی اس کامیابی پر اللہ کے حضور سجدے میں سر رکھ کر کئی گھنٹے روتا رہا تھا۔اب وہ خوبصورت گھڑی آ گی تھی جس کا حاسن کو بے صبری سے انتظار تھا۔ آج ہما اور حاسن کا نکاح تھا۔ آج ہما نے سرخ رنگ کا لہنگا زیب تن کیا تھا،جس میں وہ اک خوبصورت حوا سے کم نہیں لگ رہی تھی اور دوسری طرف ہما کے مجازی خدا نے کالے رنگ کا سوٹ پہنا تھا جو اس کے سفید رنگ پر آفتاب کی مانند روشن تھا جس کی روشنی وہاں موجود ہر رنگ کو مدہم کر رہی تھی۔ آج ہما اللہ کی رضا کے ساتھ اپنے محرم کے پاس جا رہی تھی اور اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی۔اس لڑکی کو اپنے مجازی خدا سے کوئی گلہ شکوہ نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے اس کے کردار پر حرف آیا تھا۔ہما خوش تھی خوش کیوں نا ہوتی آج اس کی ساری دعائیں رنگ لائی تھیں۔

ہما نے ہمیشہ ایسا جیون ساتھی مانگا تھا جو اللہ سے عشق کرتا ہو۔ہما نے حاسن سے وعدہ لیا تھا کہ وہ بس اللہ سے عشق کریں گے نہیں بلکہ عشق کے تقاضوں کو بھی پورا کریں گے۔ آج حاسن کی فیضانِ نظر اس کے بستر پر بڑے ناز سے بیٹھی بالکل اک نازک کلی کی طرح اپنی جان ادا کا انتظار کر رہی تھی۔ آخر وہ اثنا آ گیا جب حاسن اندر داخل ہوا وہ اس کلی کے پاس بیٹھا اور سب سے پہلے اس سے معافی مانگی یہ سب دیکھ کر ہما کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔وہ بالکل خاموش بیٹھی بس اپنے دل کے سکون کی باتیں سن رہی تھی جس کی آواز نے ہما کو اپنے سحر میں لے لیا تھا۔

حاسن نے ہما سے کہا میں آپ کو پیارا سے کوئی نام دے سکتا ہوں۔ہما نے جواب دیا مجھ پر اللہ کے بعد آپ کا سب سے زیادہ حق ہے جی ضرور میری خوش قسمتی ہو گی۔حاسن نے ہما کو اک نیا نام دیا "حاسن کی دشمن جاں” ہما اس خوبصورت تحفے پر اللہ کے حضور سجدے میں جا کر بہت روئی تھی۔ آج ہما سکون میں تھی آج اس کے کرب میں گزرے تمام دنوں کا اللہ نے اس کو اک انمول انعام دیا تھا۔اس خوبصورت زندگی کا آغاز حاسن اور ہما نے اللہ کے حضور شکرنے کے نوافل ادا کر کے کیا۔

"بےشک اللہ اپنے پسندیدہ بندے کو آزما کر اس سے اپنا پسندیدہ کام لے لیتا ہے”۔ حاسن کو ہدایت دینے کے لیے اللہ نے ہما کو چن لیا تھا۔ حاسن جس قدر ہما سے محبت کرتا تھا ہما سکون میں آ جاتی تھی۔ اللہ کے بعد ہما کا سکون حاسن تھا جو ہما کا مجازی خدا تھا۔ اللہ کے بعد حاسن ہماکا تھا اور ہما حاسن کی کیا خوبصورتی ہے نہ نکاح کے رشتے میں اللہ نےکس قدر مضبوط رشتہ بنایا ہے۔جب اللہ نے ہر انسان کا ساتھی بنایا ہے تو پھر کیوں ہم حرام رشتوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔نکاح کا رشتہ بہت خوب صورت ہے اس رشتے جیسی خوبصورتی کسی بھی حرام رشتے میں کبھی نہیں مل سکتی۔خدارا اپنے آپ کو بچا لیں۔اور اللہ کے ہو جائے۔جب آپ اللہ کے ہو جائے گے تو اللہ جو اسی انتظار میں بیٹھا ہے وہ بھی آپ کا ہو جائے گا۔

Comments are closed.