احسان بالمقابل ربوبیت اور نظامِ ربوبیت

✒️ کلیم احمد نانوتوی
دنیائے فانی میں یوں تو بہت سے باطل مذاہب نے جنم لیا اور بہت سے محرومینِ عقل و دانش، حق کو رد کر کے خود ساختہ مذاہب پر عمل پیرا ہوئے ؛ لیکن جب سے منحوس بت پرستی کا باضابطہ آغاز ہوا، تب سے قدم قدم پر ایسے باطل نظریے کے حاملین، ڈیرا ڈالے مل جاتے ہیں جو شرک کے قائل اور ہزاروں معبودان باطلہ کی بہ یک وقت پرستش کو بھی حق مانتے ہیں ؛ بل کہ میں مشاہدے کی روشنی میں اس سے آگے بڑھ کر یہ عرض کروں گا کہ ہر خود سے زیادہ طاقت ور کو بلا تفریق حیوان ناطق و غیر ناطق، معبود مان لیتے ہیں اور اس کے سامنے سر خم کر دینے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔
چند روز قبل کا واقعہ ہے : ایک غیرمسلم خاتون ایک مسلمان عامل کے پاس آ کر اپنا دکھڑا سنانے لگی اور منت سماجت کرنے لگی کہ کوئی ایسا "چمتکار” کر دیں جس سے اس کی پریشانیاں کافور ہو جائے اور خوشی کے دن عود کر آئیں۔ عامل صاحب قرآن و سنت پر مضبوطی سے عمل پیرا تھے، فورا بول پڑے : میں خدا نہیں ہوں، رب تو اکیلا اللہ ہے، دکھ سکھ وہی دیتا ہے۔ اتنا سننا تھا کہ وہ عورت بلا توقف پر اعتماد لہجے میں بولی : آپ ہی ہمارے بھگوان ہیں اور آپ ہی ہمارے داتا۔ ہمارا وشواس تو آپ پر ہی ہے۔۔۔۔۔۔ یا للأسف
اس واقعے کو جب میں نے سنا تو غور و فکر کرتے ہوئے یہی خیال آیا کہ یہ لوگ محض اس وجہ سے اندھیارے میں پڑے ہوئے ہیں بندہ بھی کھانے پینے وغیرہ سے مدد کرتا ہے اور اللہ بھی ؛ لہذا دونوں میں یکسانیت ہے ؛ لیکن ان کے رسائی اس حقیقت تک نہیں ہوئی کہ بندہ کسی کا تعاون کرے، مال دیوے، کھانا کھلاوے یا کوئی الجھا ہوا معمہ حل کرا دے تو یہ اس کا فضل ہے، احسان ہے اور انسانیت ہے ؛ لیکن ربوبیت بالکل نہیں ہے ؛ کیوں کہ بندے کی جانب سے جو احسانات ہوتے ہیں، وہ غیر منتہی نہیں ہوتے ؛ بل کہ محدود ہوتے ہیں۔ انسان ایک دو بار نوازش کرتا ہے پھر ٹال مٹول کرتا ہے اور اس کے بعد مہذب یا غیر مہذب انداز میں اپنے در سے دھتکار دیتا ہے ؛ لیکن ربوبیت میں ایسا نہیں ہوتا۔ ربوبیت جب لوگوں کو کچھ بخشتی ہے تو بندوں کی طرح نہیں ؛ بل کہ ایک مقررہ انتظام اور منضبط ترتیب و مناسبت کے ساتھ بخشتی ہے۔ ہر وجود کے بقا کے لیے جس شیئ کی، جتنی مقدار میں اور جس وقت ضرورت ہوتی ہے، ربوبیت وہی شیئ، اسی مقدار میں اور اسی معینہ وقت پر فراہم کرتی ہے ؛ نیز یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، رکنے کا نام بھی نہیں لیتا۔
مثلاً : کسی کو پانی کی ضرورت ہے تو ایک شخص ترس کھا کر رحم دلی دکھاتے ہوئے اسے تھوڑا پانی پلا دیتا ہے اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتا ہے ؛ لیکن جب رب کسی بنجر زمین کا احیاء چاہتا ہے مناسب مقدار میں مناسب وقت پر پانی برساتا ہے۔ اور صرف برساتا نہیں ؛ بل کہ زمین کے ذرات کے اندر پانی کے بلبلوں کو سمانے کا محفوظ انتظام کرتا ہے اور زمین کے ایک ایک گوشے میں پانی کی اس طور پر حفاظت کرتا ہے کہ آنے والے جو قوم وہاں آباد ہوتی ہے، وہ بے فکر ہو کر اس پانی کو ضرورت میں لاتی اور لطف اندوز ہوتی ہے۔
یہ ہے اللہ کی ربوبیت۔۔۔ اور اسی ربوبیت پر سارا انصرام منحصر ہے۔ سود مند اشیاء کی اس منظم، فطری اور ابدی تقسیم پر صرف رب قادر ہو سکتا ہے، ماسوائے رب نہیں۔ اور جو اس طور پر ہونے والی تقسیم پر قدرت یافتہ نہ ہو وہ محسن، کرم فرما اور بہترین معاون ضرور ہو سکتا ہے ؛ مگر رب ہر گز نہیں…!
عباراتنا شتیٰ و حسنک واحد
و کلّ الی ذلک یشیر

Comments are closed.