سابق پولس کمشنر پرم بیر سنگھ کے ’خط‘ وازے کی گرفتاری اور بی جے پی کے جارحانہ حملے سے ادھو سرکار کویادآئے سنجیو بھٹ!

سنڈے اسٹوری: شکیل رشید
چلیے گجرات کے برطرف آئی پی ایس سنجیو بھٹ کسی کو یاد تو آئے !
گجرات کے 2002 کے مسلم کش فسادات کے بعد ، اس وقت کے ریاستی وزیراعلیٰ نریندر مودی پر ، فسادات کی چھوٹ دینے کے الزام کے بعد ہی سے سنجیو بھٹ یرقانیوں کے نشانے پر رہے ہیں ، پہلے یہ معطل کیے گیے ، پھر کچھ پرانے معاملات کھود کر نکالے گیے اور انہیں پریشان کرنے کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا ، اور 1990 کی حراستی موت کے معاملے میں 20 جون 2019 کو ایک عدالت نے انہیں عمرقید کی سزا سنا دی ، تب سے وہ سلاخوں کے پیچھے ہیں ، حالانکہ ان کی رہائی اور انہیں انصاف فراہم کرنے کے لیے آوازیں آٹھ رہی ہیں لیکن ملک کی عدالت عظمیٰ کے کان ابھی کھلے نہیں ہیں ۔ سنجیو بھٹ کی اپیلیں سماعت کی منتظر ہیں ۔ سنجیو بھٹ کے لیے آواز اٹھانے والوں میں نہ سیاست دان شامل ہیں اور نہ ہی وہ جماعتیں اور تنظیمیں جو انصاف کی گہار لگائے رہتی ہیں ، ان کے لیے جو سرگرم ہیں وہ عام لوگ ہیں یا حقوق انسانی کی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں ۔ سیاست دان تو جیسے انہیں بھول ہی گیے ہیں ، اسی لیے جب شیوسینا کے ترجمان مراٹھی روزنامہ سامنا میں ان کے تعلق سے ایک اداریہ شائع ہوا اور شیوسینا کے اہم پی سنجے راؤت نے بذات خود سنجیو بھٹ کے حوالے سے بی جے پی پر حملے کیے تو ، حیرت تو ہوئی مگر سنجیو بھٹ کے ذکر کا پھر سے عام ہونا اچھا لگا کہ اس کی اشد ضرورت تھی ۔ شیوسینا نے سنجیو بھٹ کا نام سابق پولیس کمشنر ممبئی پرمبیر سنگھ کے اس خط کے سیاق و سباق میں لیا ہے جس میں انہوں نے مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انیل دیشمکھ پر ، معطل و گرفتار اسسٹنٹ پولیس انسپکٹر سچن وازے سے ، ماہانہ سو کروڑ روپیے مانگنے کا الزام لگایا ہے ۔ معاملہ دھماکہ خیز مواد سے بھری اس اسکارپیو کار سے جڑا ہوا ہے جو دنیا کی مالدار ترین شخصیات میں سے ایک مکیش امبانی کی کثیر منزلہ رہائشی عمارت انٹیلیا کے قریب پارک کی گئی تھی ۔ کار کا مالک من سکھ ہیرین نامی ایک شخص تھا جس کی لاش کلوا ممبرا کے درمیان کی کھاڑی سے برآمد ہوئی تھی اور ابتدا میں یہ کہا گیا تھا کہ من سکھ نے خودکشی کی ہے ، لیکن مرکزی تفتیشی ایجنسی این آئی اے کی تفتیش اور من سکھ کی بیوہ وملا ہیرین کے اس بیان کے بعد کے اس کے شوہر کا قاتل وازے ہے سارے معاملے کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے ۔ وازے کو ، جس کی خواجہ یونس حراستی قتل معاملہ میں معطلی ختم کرکے کرائم برانچ میں تعیناتی کی گئی تھی ، اب من سکھ کے قتل کے الزام میں بھی اور دھماکہ خیز مواد سے بھری کار امبانی کی عمارت کے قریب کھڑی کرنے کے الزام میں بھی گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ این آئی اے مرکزی ایجنسی ہے اس لیے ریاست کی ادھو ٹھاکرے کی سرکار اس پر یہ الزام لگا رہی ہے، جو بڑی حد تک درست مانا جا سکتا ہے ، کہ مرکز اپنی ایجنسیوں کے ذریعے ریاستی سرکار کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اور یہ سچ بھی ہے کہ وازے کی گرفتاری اور پرمبیر سنگھ کے خط نے ادھو سرکار کو پریشانی میں ڈال دیا تھا، پریشانی اب بھی ہے مگر یہ سرکار فی الحال خطرے سے باہر ہے، شیوسینا، کانگریس اور این سی پی نے متحد ہو کر بی جے پی کا سامنا کیا ہے ۔ پرمبیر سنگھ انیل دیشمکھ کی جانچ کے لیے سپریم کورٹ گیے تھے، وہ سے ہائی کورٹ بھیج دیے گیے ہیں ، لیکن ان کی درخواست ہائی کورٹ میں ٹک سکے گی یا نہیں، یہ اہم سوال ہے اور لوگوں کی نظریں اس سوال کے جواب پر لگی ہوئی ہیں ۔ شیوسینا اور سنجے راؤت کا سنجیو بھٹ کا نام لینا ایک طرح سے بی جے پی پر ذاتی حملہ بھی ہے اور حملے کے انداز میں اپنا دفاع بھی ۔ راؤت نے سوال یہ اٹھایا ہے کہ پرمبیر سنگھ کے خط کو لے کر بی جے پی ہنگامہ کررہی ہے بھلا وہ یہ بتائے کہ سنجیو بھٹ نے خط لکھ کر مودی پر جو الزامات لگائے تھے اس پر کیا کارروائی کی گئی؟
سچ یہی ہے کہ آج تک نہ سنجیو بھٹ کے الزامات پر کوئی سنجیدہ کارروائی کی گئی ہے اور نہ ہی گجرات کے دیگر پولیس افسران آر بی سری کمار اور راہل شرما کے الزامات کی ۔ ان دونوں نے بھی سنجیو بھٹ کی طرح یہ الزام لگایا تھا کہ مودی سرکار نے فسادیوں کو چھوٹ دے رکھی تھی اور بی جے پی کے ورکر ولیڈر فسادیوں کے ساتھ مل کر فسادی بن گیے تھے ۔ ظاہر ہے کہ الزامات سنگین ہیں ، لیکن جب سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا والا معاملہ ہے ۔ سنجیو بھٹ نے باقاعدہ ایک حلف نامہ دیا تھا ۔ اس حلف نامے پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں، میں نے اپنی ایک تحریر’’ سنجیو بھٹ کو ایمانداری کی سزا ‘‘ میں حلف نامے پر تفصیل سے بات کی تھی ۔ جب سنجیو بھٹ کو ایک تیس سالہ پرانے معاملہ میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی تب میں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ آخر وہ کیا سچ تھاجس کی سزا سنجیو بھٹ کو پہلے برطرفی اور اب سزا کی شکل میں دی گئی ہے؟ اس کا جواب جو کل تھا وہی آج بھی ہے ۔ سنجیو بھٹ کا جرم گجرات 2002 کے فسادات میں مودی کے ملوث ہونے کے ثبوتوں کو سادی دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا ۔ سنجیوبھٹ نے عدالت کے سامنے پیش کیے گیے اپنے ’ حلف نامے میں اس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو گجرات فسادات میں ملوث ہونے کا قصوروار قرار دیا تھا۔ ’ حلف نامہ‘ میں بھٹ نے تحریر کیا تھا کہ مودی نے اپنی رہائش گاہ پر سرکاری افسروں کی، جن میں اعلیٰ پولس اہلکار بھی شامل تھے ، ایک میٹنگ طلب کی تھی جس میں انہوں نے یہ ’ حکم‘ دیا تھا کہ ’ ہندوؤں کو غصہ نکالنے دیا جائے ‘ یعنی انہیں تشدد اور ماردھاڑ سے نہ رو کا جائے ۔۔۔ یہ ’ حکم ‘ ایک طرح سے تمام پولس والوں کیلئے ایک طرح کا عندیہ تھا کہ وہ فسادات پر قابو پانے کے اپنے فرائض کو انجام دینے میں عجلت سے کام نہ لیں ، اقلیتی فرقے یعنی مسلمانوں کے خلاف ہندو جس طرح بھی اپنے غصے کو نکالنا چاہتے ہیں اسے نکالنے دیں ۔۔۔ سنجیو بھوٹ نے اپنے ’ حلف نامہ‘ میں تحریر کیا تھا کہ انہوں نے 27 فروری 2002 کے روز مودی کی رہائش گاہ پر ہوئی میٹنگ میں خود شرکت کی تھی۔مذکورہ تاریخ کو ہی گجرات کے مسلم کش فسادات شروع ہوئے تھے ۔ اس روزگودھرا میں ’ سابرمتی ایکسپریس‘ کی بوگی نمبر ’ ایس 6-‘ میں آتش زدگی کا المناک واقعہ پیش آیا تھا۔ اس بوگی میں وہ کارسیوک سوار تھے جو ایودھیا سے ’ رام مندر کی تعمیر‘ کی تحریک کیلئے منعقدہ تقریب سے واپس لوٹ رہے تھے ۔۔۔ آگ ساری بوگی میں پھیلی تھی جس میں جل کر 59 کارسیوکوں کی موت ہوگئی تھی۔ گودھرا کے المناک واقعہ کے بعد شاید سارا گجرات اس طرح نہ جلتا جیسے کہ جلا تھا اور شاید 12 سو سے زائد لوگ نہ مارے جاتے جیسے کہ مارے گئے تھے ، اگر مودی خود گودھرا نہ پہنچے ہوتے ۔ اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ گودھرا میں مودی کی تقریر اشتعال انگیز تھی اور کارسیوکوں کی ارتھیوں کو جلوس کی شکل میں احمد آباد کی گلیوں سے گزارنے کا ان کا فیصلہ بھی اشتعال انگیزتھا، اس قدر اشتعال انگیز کہ لوگوں میں ایک فرقے کے خلاف شدید نفرت کے جذبات پیدا ہوئے ، ایسی نفرت کہ اسی روز احمد آباد سے فسادات شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے فسادات سارے گجرات میں پھیل گئے ۔ مودی کا اس سارےمعاملے میں جو کردار رہا وہ شک وشبہ سے بالاتر نہیں کہلاسکتا ۔ گودھرا کا ان کا دورہ ، ارتھیوں کا جلوس اور پھر اپنی رہائش گاہ پر افسروں کی میٹنگ جس میں بقول سنجیو بھٹ سب پر فسادیوں کے خلاف کارروائی کی بندش عائد کی گئی ، اگر ان سب کا بغور جائزہ لیا اور تجزیہ کیا جائے تو ذہن یہ سوال خودبخود کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا فسادات کرانے کی پوری تیاری پہلے سے ہوچکی تھی؟سنجیوبھٹ کے ’ حلف نامے‘ میں جو بات تحریر ہے وہی بات گجرات کے مقتول وزیر داخلہ ہرین پنڈیا نے بھی کہی تھی ۔ قتل سے قبل انہوں نے شہریوں کی ایک تنظیم سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ مودی نے اپنی رہائش گاہ پر ایک میٹنگ طکب کرکے پولس کے اعلیٰ اہلکاروں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ’ ہندوؤں کے غصے کی مخالفت نہ کریں‘ ۔ پنڈیا نے کئی پولس اہلکاروں کے نام ظاہر کئے تھے جو وہاں موجود تھے ۔ مگر ان میں سنجیوبھٹ کا نام نہیں تھا ۔ ممکن ہے وہاں موجود اور دوسرے افسروں کے نام بھی انہوں نے نہ لئے ہوں مگر اس سچائی کی تصدیق ضرور پنڈیا کے بیان سے ہوتی ہے کہ مودی نے اپنی رہائش گاہ پر میٹنگ لی تھی اور پولس کے اعلیٰ اہلکاروں کو یہ حکم دیا تھا کہ فسادیوں کو انتقام لینے کا پورا پورا موقع دیا جائے ۔ یہ کہہ کر سنجیوبھٹ کی ’ حق گوئی‘ اور ’ حلف نامے‘ کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تو مودی کی بلائی گئی میٹنگ میں موجود ہی نہیں تھے ۔ بی جے پی اور سارا سنگھ پریوار یہی پروپیگنڈہ کئے ہوئے ہے۔سنجیوبھٹ نے فسادات کے تقریباً 9سال کے بعد 14 اپریل 2011 کو سپریم کورٹ میں ’ حلف نامہ ‘ داخل کیا ۔ ’ حلف نامے‘ کے مطابق ’ مودی نے اعلیٰ پولس اہلکاروں کو ہدایت دی کہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف غصہ نکالنے دیا جائے ۔‘ انہوں نے’حلف نامہ‘ میں یہ بھی واضح کیا کہ مذکورہ میٹنگ میں یہ طے کیا گیا تھا کہ کارسیوکوں کی لاشوں کو احمد آباد لاکر آخری رسومات ادا کی جائیں۔ اس فیصلے کی سنجیوبھٹ کے بقول انہوں نے یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ اس سے ’ مذہبی تشدد کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے ۔ ‘ ’ حلف نامہ‘ میں یہ بھی تحریرہےکہ مودی کی اپنی سیاسی پارٹی پی جے پی اور ہندو انتہا پسند تنظیم بجرنگ دل کی اشتعال انگیزیاں شروع ہوگئی تھیں اور وی ایچ بی والے احمد آباد بند کرنے کا غیر قانونی اعلان کرچکے تھے ۔ سنجیوبھٹ کے مطابق اس وقت کے پولس ڈائریکٹر جنرل کے چکرورتی اور اس وقت کے احمد آباد کے پولس کمشنر پی سی پانڈے نے کارسیوکوں کی لاشیں لانے کی مخالفت کی تھی۔ سنحیوبھٹ کے ’ حلف نامہ‘ کے بعد انہیں معطل کردیا گیا تھا اور وہ آج تک معطل چلے آرہے تھے ۔ بلکہ اب تو عمر قید کے مجرم بن چکے ہیں !چونکہ سنجیوبھٹ کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے گجرات 2002 کے فسادات کو ’سرکاری سرپرستی میں کیا گیا ’ تشدد‘ قرار دیا اس لئے ان کے خلاف سارا سنگھ پریوار بشمول بی جے پی ، متحد ہوگیا تھا۔۔۔ اپنے ’ حلف نامہ‘ میں بھٹ نے وہ جملہ بھی نقل کیا ہے جو ان کے دعوے کے مطابق مودی کا ہے ۔ ’ مسلمانوں کو سخت سبق سکھانے کی ضرورت ہے ۔ ‘ انہوں نے حلف نامہ میں چھ گواہوں کے نام پیش کئے ہیں ۔ ایک تو اس وقت کے پولس ڈائریکٹر جنرل چکرورتی کا جن کی کار میں وہ بقول خود بیٹھ کر مودی کی رہائش گاہ تک پہنچے تھے ، کار کے ڈرائیور تاراچند یادو کا اور اپنے خود کے ڈرائیور کانسٹبل کے ڈی پنتھ کا ۔ حالانکہ پنتھ نے بعد میں ایک ’حلف نامہ‘ میں یہ دعویٰ کیا کہ بھٹ نے اسے دھمکا کر اپنی حمایت میں بیان دلوایا تھا مگر کےچکرورتی کا ڈرائیور آج تک اس دعوے پر قائم ہے کہ بھٹ ،چکرورتی کی کار میں بیٹھ کر مودی کی رہائش گاہ پہنچے تھے اور وہ اس کارکو ڈرائیو کررہا تھا۔گجرات میں جس طرح پولس کے اعلیٰ اہلکاروں نے فسادیوں کو ’چھوٹ‘ دی اور جس طرح اقلیتی مسلم فرقے کے گھروں اور املاک کو جلانے اور لوٹنے کا موقع دیا اس سے یہ خوب ثابت ہوتا ہے کہ وہاں کی پولس فسادیوں کے تئیں کارروائی نہیں کرنا چاہتی تھی ، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس کی بے عملی کے پس پشت یقیناً سرکار تھی، ورنہ پہلے روز نہ سہی بعد کے دنوں میں وہ فسادیوں پر قابو پاتی، مگر گجرات کے فسادات ہفتوں جاری رہے ، فسادی لوٹ پاٹ کرتے اور قتل غارتگری میں جٹے رہے ، پولس کا رویہ بدستور آنکھیں بند کرنے والا تھا۔۔۔ پولس کو کس انداز میں ’ ہندوؤں کو غصہ نکالنے دینے کی ہدایت ‘ ملی ہوگی اس کا اندازہ گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی کے قتل عام سے ہوجاتا ہے ۔ اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کو اس طرح تہہ تیغ کیا گیا تھا کہ ان کی لاش تدفین کیلئے نہیں مل سکی ۔ مرحوم کی بیوہ، جرأت مند ضعیفہ ذکیہ جعفری آج تک انصاف کی جنگ لڑرہی ہیں ۔ بھٹ خاندان کا ایک جرم اور تھا، سنجیو بھٹ کی بیوی شویتا بھٹ کا کانگریس کے ٹکٹ پر اسمبلی الیکشن لڑنا ۔ وہ ہار گئیں ۔۔۔ مگر ان کی ہار ایک طرح کی جیت ہی تھی کیونکہ ان کا مقابلہ کسی اور سے نہیں نریندر مودی سے تھا۔ مودی کے خلاف الیکشن لڑکر انہوں نے یہ ثابت کردیا تھا کہ ’ سرکاری جبر‘ بھی بھٹ خاندان کو جھکا نہیں سکتا ۔ اب پھر سنجیو بھٹ کا نام لوگوں کے ذہنوں میں شیوسینا نے تازہ کر دیا ہے ۔ سنجیو بھٹ جیسے ایک ’ایماندا، فرض سناش‘ پولسافسر کو ’مجرم‘ بنادیا گیا ، اسے عمر قید کی سزا سنادی گئی ۔ وہ تو اپنی ’ جنگ‘ لڑرہا ہے ، پر یہ صرف اس کی نہیں سارے ہندوستان کی جنگ ہے کیونکہ یہ جنگ انصاف کے لئے ہے ۔۔۔ میں نے یہ سوال پہلے بھی اٹھایا تھا آج پھر یہ سوال کر رہا ہوں ، کیا اس جنگ میں لوگ بھٹ کا ساتھ دیں گے ؟ اب تک تو سنجیو بھٹ کو جیسا ساتھ ملنا چاہیے تھا نہیں ملا ہے ، لیکن کیا اس بار ساتھ ملے گا، کیا شیوسینا ساتھ دے گی یا اپنے مفاد کے لیے سنجیو بھٹ کا نام ہی استعمال کرے گی؟
Comments are closed.