شادی بیاہ کے بے جا اخراجات

- سمیرا (کراچی)
انسانی معاشرے کی بنیاد نکاح ہے اور اس نکاح کے لئے جو طریقہ ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے وہ انتہائی آسان ہے اور محض دو دن کے اندر یہ اہم فریضہ انجام پاتا ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ ،”لوگ کیا کہیں گے” اس ایک جملے نے اس اہم فریضہ جس کو ہمارے دین نے آدھا ایمان قرار دیا ہے، اس قدر مشکل بنا دیا ہے کہ ایک باپ کو اپنی پوری زندگی کے لیے اپنا پیٹ کاٹنا پڑتا ہے۔ ہماری شادیاں منگنی کے کھانے سے شروع ہوکر چھوتی کے کھانے پر ختم ہوتی ہیں، منگنی کے اخراجات پھر شادی کی انگنت رسومات جن میں مایوں، مہندی، ڈھولکی اور پھر رخصتی کے اہم دن کے لئے ہونے والا دو سے تین لاکھ کا بینکوئٹ اور کھانا جو چار سے پانچ ڈشز پر مشتمل ہو پھر لڑکی کے کپڑوں کے ساتھ ساتھ محترم داماد جی کے کئے برانڈڈ جوڑے اور تو اور ساس کے لیے سونے کی کوئی ایک عدد چیز، پورے گھر والوں کے لیے کپڑے اور جہیز میں فریج ،مشین ،کمرے کا فرنیچر ،برتن ،کمبل ،صوفہ سیٹ کی ڈیمانڈ اور پتہ نہیں کتنی ہی رسومات شادی کے دن اور اسکے بعد کی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیسہ کہیں درختوں پر لگا ہوا ہے، ایک سنت کو پورا کرنے کے لئے ماں باپ قرضوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ صرف اسی ایک جملے نے کتنی ہی لڑکیوں کے خوابوں کو کچل دیا ہے اور کتنے ماں باپ قرضوں کی چکی میں اپنا خون پسینہ ایک کر رہے ہیں، یہ سب صرف اور صرف دین سے دوری کا نتیجہ ہے اور اسکا حل صرف یہی ہے کہ دین کو سمجھا جائے، دلوں کو بڑا کر کے اس پر مسرت موقعے کو سادہ اور سہل بنایا جائے اسی کے ساتھ حکومت کو چاہیے کی ایوان سے ایسا بل پاس کرے کہ جس سے اس سنت پر باآسانی عمل کیا جا سکے۔
Comments are closed.