باد مخالف سے لڑنے والے عقاب کی وفات

از: محمد اللہ قیصر
کسی بڑی شخصیت کے گذر جانے پر عموما کہا جاتا ہے کہ "حضرت کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا پورا نہیں ہو سکتا” یہ ایک سادہ سا روایتی جملہ ہے جو ہر گذرنے والے کی تعزیت میں لوگ، بالخصوص علماء بول دیتے ہیں،
لیکن پتہ نہیں کیوں آج جب حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وفات کی خبر معلوم ہوئی تو محسوس ہورہا ہے کہ ، واقعی کوئی خلا ہو گیا ہے، پہلی بار یہ جملہ حقیقی لگ رہا ہے۔
ملک جن حالات سے گذررہا ہے، اور مسلمانان ہند کو جن مشکلات کا سامنا ہے، یا کہئے کہ مسلمانان ہند کی نیا جس طرح کے تلاطم خیز طوفانوں میں گھری ہے اس سے نکلنے کیلئے جتنا یہ ضروری ہے کہ "ناؤ” کا "کھویا” تجربہ کار ہو، اتنا ہی ضروری ہے کہ وہ طوفانوں سے گھبرانے کی بجائے ڈٹ کر مقابلہ کی جرأت سے لیس ہو، گھبرا کر خود کو موج کے حوالہ کرنے کی بجائے، طوفان کے خوفناک تھپیڑوں سے آخری دم تک لڑنے کا جگر رکھتا، جسمانی قوت ختم ہوجائے، پھر بھی حوصلہ جوان ہو، ساحل کی دوری، اور تند موجوں کی بلاخیزی سے پتوار پر پکڑ ڈھیلی پڑنے کی بجائے، اس کے دل میں، اٹھتی لہروں سے اٹکھیلیاں کھیلنے کا شوق جاگ جائے، مولانا ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایسے ہی تھے، واقعی وہ دوراندیش، ملت کے خیرخواہ، اور مخلص ہونے کے ساتھ بے باک اور جرأت مند رہنما تھے، مصائب و مشکلات کے سامنے خود سپردگی کے بجائے ان سے لڑنا بھڑنا گویا ان کا محبوب مشغلہ تھا، مرعوبیت کی کیا مجال کہ پاس بھی پھٹک جائے، اپنے اصول سے سمجھوتہ کرنا نہیں جانتے تھے، ان کے کئی فیصلوں سے اختلاف کی گنجائش ہے، لیکن سرکار کے سامنے ہو یا دوسرے مسلم مخالفین کے سامنے، اپنے موقف کو جس بیباکی سے پیش کرتے تھے، اس کی جرأت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے، سیاست کی پیچیدگی ہو یا آئے دن مسلمانوں کے خلاف بننے والے قوانین کی پرپیچ دفعات، انہیں ایک ماہر قانون کی طرح سمجھتے، اور ملت کو ان کے سنگین نتائج سے بر وقت خبردار کرتے، حالات چاہے جتنے برے ہوں، حوصلہ کھوکر بیٹھنا وہ نہیں جانتے تھے، خوف و دہشت کی فصیل کو چور چور کرنے کے ہنر سے واقف تھے، رات کے سیاہ پنجے جس قدر دراز ہوتے، وہ اپنی ڈری سہمی قوم کیلئے امید کی کرن ثابت ہوتے، وہ سیاہ شب کا غبار بن کر جینے کے خلاف تھے، ہر مشکل گھڑی میں دیکھا گیا کہ خوفناک اندھیروں میں روشنی کے ترجمان بن کر نمودار ہوتے، ایسا لگتا ہے کہ حالات کی سنگینی انہیں پہلے زیادہ مضبوط اور توانا کردیتی تھی، ہمیشہ انہیں "گرم دم جستجو دیکھا” آرام کے ہزار بہانے تھے، لیکن طبیعت آرام پسند نہیں پائی تھی، اسلئے تو جسمانی طور پر کمزور ہونے کے باوجود ہردم حرکت و نشاط سے لبریز نظر آتے، گویاں زبان حال سے کہہ رہے ہوں۔
ساحل کے سکوں سے کسے انکار ہے لیکن
طوفان سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے۔
ہم آج ایک حوصلہ مند، جرأت مند، بیباک، ملت کا ہمدر، مخلص و خیرخواہ اور "یاس” میں "آس” ڈھونڈنے والا رہنما کھودیا۔
وہ اللہ کو پیارے ہوگئے، اللہ نے اپنی امانت واپس لے لی، اس کی مرضی جو چاہے کرے، اس کی مرضی پر راضی رہنا ہی ایک صاحب ایمان کی پہچان ہے، اب تو اس کے حضور بس یہی بھیک مانگنی چاہئے، کہ اللہ حضرت مولانا کی لغزشوں کو حسنات سے مبدل فرماکر، ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے، لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے اور ملت کو ان کا نعم البدل عطاء کرے، کہ اس وقت مسلمانان ہند بڑے نازک دور سے گذر رہے ہیں۔

Comments are closed.