اُجینی مسلمانوں کی اخلاقی فتوحات اورذمہ داریاں

بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی
(دارالافتاء:شہرمہدپور، اجین)
اُجین کبھی ایک عظیم ریاست تھی۔ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنےآتی ہے کہ غیر منقسمہ بھارت میں اچھے یا بُرے جتنے بھی بڑے بڑے انقلابات آئے ہیں ان سب کامجال ومیدان بنیادی طور پراُجین رہا ہے۔ یہ ایسی جگہ ہے کہ جہاں منوسمرتی کے آخری ابواب لکھے گئے۔
مہابھارت جیسی رزمیہ شاعری کاتعلق بھی اُجین سے ہے۔ مشہور کوی کالیداس نے اپنی رومانی ومشتہات اورمنعظ ومہیج ادبی کارنامہ کو تحریری شکل میں یہیں مرتب کیا۔ اقبال کے پسندیدہ شاعر بھرتری ہری نے یہیں اپنے کلام میں مہابھارت کی داستان کو پیش کرتے ہوئے بھارت کے اصل باشندوں کی ذلت ناک شکست، زوال وادبار، مفتوحہ اقوام کی تذلیل وتحقیر اورحلمہ آور فاتحین کی توقیر وتعظیم کو فکری طور پراستحکام دینے میں کامیابی حاصل کی۔
انسانوں کی طبقاتی تقسیم کے خلاف مہاتما گوتم بدھ ہمالیہ کی جڑترائی "لمبینی” (گونڈہ، بہرائچ، بلرام پور،شراوستی) کے علاقہ سے ہجرت کرکے اُجین آئے اور پھریہیں سے اپنی تحریک کوآگے بڑھایا، بعد میں بدھ ازم کے کم وبیش85 /ہزار مراکزکو طبقاتی تقسیم کے حامیوں نے منہدم کرکے بدھ ازم کو بھارت سے ہجرت کرنے پر مجبورکردیا۔
یعنی جس طرح اُجین کو مرکزبنا کرمنووادی نظام کے خلاف مہاتما گوتم بدھ انتہائی عظیم تحریک پورے بھارت میں برپا کی تھی، اسی طرح مہاتما گوتم بدھ کی انصاف ومساوات کی تحریک کوکچلنے کے لیے سب سے بڑی کامیاب تخریبی تحریک بھی اُجین ہی میں کھڑی کی گئی۔
اسی طرح مہاویرجین کی تحریکِ مساوات یہیں پلی و بڑھی اور اس تحریک کا مدفن بھی اُجین ہی بنا۔
مہاتما گوتم بدھ اور مہاویر جین کے بعد پوری طاقت کےساتھ اسلام نے منووادی نظام پرایسی کاری ضرب لگائی کہ اُس کی ٹیسیں آج بھی عدمِ مساوات اورناانصافی کے خوگر محسوس کررہے ہیں۔
سری لنکا کے ساحلوں اورسندھ کے علاقوں میں منووادی فکر کے لوگ مسلسل عرب تاجروں اورملک بھارت کے کمزورطبقات کو اپنے ظلم وجارحیت، ناانصافی واتیاچار کا نشانہ بنا رہے تھے اُس کو فرو کرنے کے لیے محمد بن قاسم کی سرکردگی میں 91ھ میں
بھارت کے مظلوم باشندوں کی مدد و رہنمائی سے سندھ کی سرزمین پرمجاہدین اسلام نے اپنے پاک قدم رکھے، اور فورا ہی حبیب
ابن مرہ کی قیادت میں محمد بن قاسم نے اپنی اگلی فوج کو قلبِ ہند میں داخل کردیا۔حبیب بن مرہ 92ھ میں اُجین کو فتح کرکے صلح وظفر کے بعد واپس ہوگیے اورپھر باشندگان ہند کے درمیان توحید ورسالت اورامن و انصاف کے پیغام عام کرنے کے لیے مسلمانوں کے قافلے پرامن طریقے سے بھارت میں آمدورفت کرنے لگے۔
حضرت نظام الدین اولیاء کے پیر ومرشد "حضرت بابافرید” نیمچ ومندسور کے درمیان ایک مقام پر بہت پہلے کچھ دنوں کے لیے چلہ کشی اوردعوت وارشاد کی نورانی محفل سجاچکے تھے۔چشتیہ سلسلے کے ایک بڑے بزرگ مولانا مغیث کانام سرفہرست ماناجاتاہے جو دعوت وارشاد کے لیےاُجین تشریف لائے اور شپراندی کے کنارے اپنا مستقل مسندِ ارشادقائم کیا۔
مولانا کمال الدین چشتی ؒ حضرت بایزید کھوتوال(پنجاب) سے ترکِ وطن کر کے اولاًدہلی تشریف لا ئے اور وہاں اپنے دادا "بابا فرید ؒ”کے خلیفہ محبوب الہیؒ حضرت نظام الدین اولیاءؒکی خدمت میں قیام فرمایا۔حضرت محبوب الہیؒ نے انہیں خرقۂ خلافت عطافرمانے کے بعد مالوہ کے لوگوں کی رہنمائی کے لیے روانہ فرمادیا۔مالوہ میں محبوب الہیؒ کے دوخلفاء پہلے سے موجود تھے۔ ایک مولانامغیث الدین موجؔؒ، دوسرے ان کے بھائی مولانا غیاث الدینؒ۔ اول الذکرجیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ وہ اُجین میں شپراندی کے کنارے مقیم تھے،دوسرے دھارمیں۔ مولانا کمال الدین چشتیؒ دھارپہونچنے سے پہلے اُجین میں مولانامغیث الدین موجؔؒ کے پاس رُکے اور یہاں ایک عرصہ قیام فرماکرچلہ کشی کی اور پھردھار کی طرف روانہ ہو ئے۔انھیں کے نام سے موسوم محمود خلجی کہ بنوائی ہوئی "جامع مسجد مولانا کمال” دھارمیں مولانا کمال کے فیوضِ روحانی کی آج بھی شہادت پیش کررہی ہے۔
اکبر کے دور میں جب الحادی کوششیں شروع ہو ئیں تو شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کھڑے ہوئے،حکومت وقت نے اپنے الحادی منصوبوں کی تکمیل میں انھیں مزاحم پاکراُجین ریاست کے ایک شہر گوالیار کی جیل میں انھیں قید کردیا. بعض رواتیں ملتی ہیں کہ اُجین کی جیل میں بھی انہیں رکھا گیا۔جیل میں رہ کر انہوں نے اتناعظیم کارنامہ انجام دیا کہ پورے ملک میں ہواکارُخ بدل گیااورحکومتِ وقت کی طرف سے پھیلائے گئے الحادی فتنے فرو ہوگیے ۔(آج بھی اُجین ومضافات میں سنتِ یوسفی کی سعادتوں سے بہرہ مند ہونے والے مظلوم و باکردارنوجوان جس طرح دینی تعلیم وتعلم میں پسِ دیوارِزنداں مصروف رہتے ہیں وہ قابل رشک ہیں، ان نوجوانوں کے ذریعہ گویایہاں مجددالف ثانی کی سیرت وتاریخ کا اعادہ ہورہاہے۔)
شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کی کوششوں کے نتیجے میں اورنگ زیب ؒجیسا دیندارحکمراں اہلِ ہند کوملا۔پھر اورنگ زیبؒ جیسے انصاف پسند حکمراں کوبھارت سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اُجین میں
بڑے پیمانے پرشورش برپاکی گئی۔ اس سلسلے میں دارشکوہ واورنگزیبؒ کی انتہائی خونریز لڑائی اُجین ہی کے مضافات”جہانگیرپور“ میں ہوئی تھی۔
عالمِ اسلام کے جہاں دیدہ بے شمار نامور علماء کرام نے اپنے قدومِ میمنت سے اُجین کی سرزمین کو سرفراز فرمایا۔ زیادہ پیچھے جانے کے بجائے بروقت ماضی قریب1911ء کی ایک شخصیت مفتی محمود نانوتوی کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
انگریز حکومت کے خلاف جاری جہادکی تائید کے باوجود انگریزوں کاحلیف، اُجین کاغیرمسلم راجہ انھیں اپنی ریاست اور شہر اُجین میں ہر طرح عزت واکرام اور پورا تحفط فراہم کررہاتھا۔ لیکن راجہ کے صنم خانے سے بلند جامع مسجد کا منارہ
اُجین کےحاکم کوناگوار محسوس ہوتا تھا۔ راجہ نے مفتی محمودصاحب نانوتوی سے جامع مسجد کا منارہ چھوٹا کرانے کا مشورہ طلب کیا اور اجازت چاہی۔ تو مفتی صاحب موصوف نے کہا کہ:
"جب تک محمود کے تن پر اس کا سرموجود ہے اُس وقت تک منارہ کو توڑا یا چھوٹا نہیں کیاجاسکتا۔”
( بعض لوگوں نے کسی کتاب میں پڑھ لیا کہ سلطان التمش کی قبرجامع مسجد کی کسی دکان میں ہے۔ جامع مسجد نام پڑھ وسن کر ان کاذہن توپ خانہ ، سبزی منڈی یا مسجد جامع شکیب کی طرف منتقل ہوجاتاہے جو کہ درست نہیں ہے۔ یہاں جامع مسجد سے مراد وہی مسجد ہے جس میں مفتی محمود نانوتوی امام وخطیب اورمفتیِ شہر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اِس وقت اُس جامع مسجد کی جگہ عظیم صنم خانہ قائم ہے۔ اس صنم خانہ کے اندر آج بھی ایک مزار موجود ہے۔ شاید وہ سلطان التمش کا مزار ہو،حالات کی عدم مساعدت اور بندہ کے پاس دستاویزی شواہد کی کمی کی بناپر فی الحال قلبِ شہر میں اس مقام اور اسپاٹ کو بیان کرنے سے معذرت ہے.)
پھرانگریزوں اور مقامی حکمرانوں کے عتاب کا شکار ہوکر شہر بدری کی سزا میں اندور کے قریب مہو(جہاں فوجی چھاؤنی ہے)
کی طرف مفتی صاحب کو
بھیج دیاگیا۔
دلچسپ اورایمان افروز ہونے کے ساتھ اُجینی مسلمانوں کو اپنے آباء کے جذبۂ ایمانی پرفخر کااحساس اوران کے ایمان کو تازگی و توانائی فراہم کرنے والی بات یہ ہے کہ جب جلاوطن کرنے کے لیے
مفتی صاحب کو مہوواندور کی ٹرین میں بیٹھایا گیا تو اُجین کے مسلمان یہ کہتے ہوئےٹرین کے آگے پٹریوں(ریلوے ٹریک) پر
لیٹ گئے تھے کہ:
"مفتی صاحب کو لے کر گذرنے والی ٹرین ہماری لاشوں سے گذرے گی۔”
آزدیِ وطن کے بعد پنڈٹ جواہر لال نہرووغیرہ کے ساتھ پروگراموں میں مفتی صاحب موصوف خطاب فرماتے اورسخت وتاکیدی الفاظ میں اربابِ اقتدار کو
انصاف کی نصیحت کرتے۔
حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب ان سے کہتے کہ:
"محمود!جب تم ہمارے اجلاس میں ہوتے ہو تو میں تم سے مرعوب ہوکر بیان اچھا نہیں کرپاتاہوں۔”
مفتی محمود نانوتوی کے زمانۂ طالب علمی میں کبھی کبھی علامہ انورشاہ کشمیری فرماتے کہ:
"محمود کا سبق ہے۔ اس کو پڑھانے کے لیے مجھے اچھا مطالعہ کرنا ہوگا.”
اُجین میں لکھی گئی حضرے مفتی صاحب کی "فتاوی رشیدیہ”اور شہر وقریہ جات میں قیام جمعہ کےتعلق سے "احکام جمعہ وجماعت ” طباعت کی منتظر ہے۔
حضرت کے صاحبزادے مولانا مسعودصاحب کی کوششوں کے نتیجے میں
ریاست مدھیہ پردیش میں سب سے پہلی یونیورسٹی(وکرم یونیورسٹی)اُجین میں
قائم ہوئی۔
مفتی محمود نانوتوی اور دیگرعلماء اسلام کے تعلق سے اُجینی مسلمانوں کی محبت کی برکت ہے کہ آج بھی علماء اور دینی تحریکات کے لیے یہاں مسلمانوں کے دل ودماغ جذباتِ قربانی وفدا کاری سے معمور وآبادہیں۔
بچپن میں حضرت مولانا ابوالحسن علی الندوی علیہ الرحمہ کی کسی کتاب میں پڑھاتھا کہ:
"قوموں اور نسلوں کی ذہن سازی اور فکری تربیت فتوحات کی کلیدہے۔”
اورپھرفکری تربیت اور ذہن سازی کے لیے حضرت کی رہمنائی میں”پیام انسانیت” عنوان کے تحت دیگر اقوام میں براہ راست دعوت اسلام کے بجائے اسلام کی اخلاقی تعلیمات کو پیش کرنے کا خصوصی اہتمام کیا گیا، اسلام کی اخلاقی تعلیمات پیش کرتے ہوئے بھی اصالۃ دعوتِ اسلام اورقرآن وغیرہ کے ناموں کا اخفا کیا جاتا ہے۔
باریک بیں ودور اندیش ہمارے اکابرعلماء کی حکیمانہ باتیں مجھ جیسے چھوٹے موٹے دماغ میں اُس وقت سمجھ میں نہیں آتی تھیں، لیکن جب میں نے اُجین میں دیکھا وسنا کہ "پیام انسانیت” پلیٹ فارم سے شہراُجین کے اندر محروم الایمان افرادکے محلوں میں "پیام انسانیت” کے کتابچے لے کردو ٹھیلے
گھومتےہیں ،تومحروم الایمان افراد(مردوجواتین، متشددین ومتسہلین) ان کتابچوں کوخرید کر پڑھتے اوران کتابچوں میں بطور ماخذوحوالہ
(REFERANCE)
آنے والی کتابوں میں قران مجید اور سیرت رسول ﷺ کی کتب یہ کہہ کر منگاتے کہ:
"ہم کسی اسلامی کتب خانے پرجاکریہ کتابیں (قرآن اورکتبِ احادیث) نہیں لا سکتے ہیں، آپ ہمیں فلاں فلاں اسلامی کتب دستیاب کرادو۔”
اُجین میں یہ صورتِ حال دیکھنے اورجاننے کے بعد اپنے بڑوں کی بصیرت ودور اندیشی پرطبیعت مچل گئی۔ اورمعلوم ہوگیا کہ اصالۃ دعوتِ اسلام یا تقسیمِ قرآن کے عنوان سے کام کرنے پر زیادہ امکان ہے کہ تبدیلیِ مذہب وغیرہ کااحساس کرکے فتنہ پرورافراد داعیانِ اسلام کےخلاف پریشانیاں کھڑی کردیں۔ لیکن”پیام انسانیت” کے اصول وضوابط پر عمل آوری سے دعوتی راستے آسانی سے کھل جاتے ہیں۔
میں یہاں یہ بھی لکھنا مناسب سمجھتا ہوں کہ جب منووادی طبقے کو احساس ہوگیا کہ "پیام انسانیت” لٹریچرس کے مطالعہ سے لوگ اسلام کے قریب ہورہے ہیں، بلکہ بعض متشدد اسلام کے خلاف سازشوں سے دست کش ہوکر اسلام مخالف سازشوں کو ناکام بنانے کی سعی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ تو منووادیوں کی طرف سے”پیام انسانیت” کے لٹریچرس تقسیم کرنے پر روک لگانے کی مذموم کوششیں شروع ہوگئیں۔حتی کہ دو نوجوان جو دو الگ الگ ٹھیلوں پر پیام انسانیت کے لٹریچرس کو لے کر شہر میں گھومتے تھے۔ انھیں مختلف تعزیری دفعات کے تحت پسِ دیوار زنداں ڈال دیا گیا۔افسوس۔۔۔
مختلف میلوں اورغیر مسلموں کے اجتماعات میں اسلام کےتعارف پر مشتمل رسالوں، کتابوں اور سیڈیز کی فروختگی وتقسیم کے لیےجماعت اسلامی ہندبہتر ڈھنگ سے اپنا اسٹال لگاتی ہے۔
لیکن2016ء میں ہونے والے سینہستھ میلے میں نہ جماعت اسلامی کواجازت ملی نہ ہی "پیام انسانیت” والوں کو۔حتی کہ اُجین آنے والے غیرمسلم زائرین کی خدمت کے لیے دعوتی فکر رکھنے والی کسی بھی مسلم تنظیم کو تحریری اجازت نہیں مل سکی۔
لیکن مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات کے زیرِاثر مسافروں اورحاجتمندوں کی رضاکارانہ طور پر ایسی خدمت انجام دی کہ سنتِ نبوی کی عملی نمونہ آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔
مسلم محلوں میں توپ خانہ، بیگم باغ کالونی وغیرہ میں سڑکوں کے کنارے اپنی دکانوں اور مکانوں کے سامنے سے گذرنے والے زائرین کے لیے ناشتہ وپانی اور راستوں کی رہنمائی کے لیے مسلمانوں نے اسٹالس لگائے۔ اگرکوئی زائر راستہ بھول جاتا یا کوئی اپنے رفقاء سے بچھڑ جاتا تومسلمان اُس کو اس کی منزل تک پہونچانے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ کچھ زائرین کی زبانی سنا گیا کہ:
"یہاں تو سب جگہ صرف میاں جی ہی نظر آتے ہیں۔ راستہ بھول جاؤ تو میاں جی منزل پر پہونچانے کے لیے کھڑے ہیں۔ ناشتہ و پانی کی ضرورت ہوتو میاں جی!!!”
2016ء میں اُجین سیہنستھ کے موقع پر ابتدائی دنوں میں بوندا باندی اور تیز آندھی کے سبب حکومت کی طرف سے لگائے گئے خیمے اکھڑجانے کی وجہ سے غیر مسلم مسافر وزائرین کافی پریشان ہوگئے،اس پریشانی کے عالم میں اُجین کے مسلمان سنتِ نبوی پر عمل کرتے ہوئے رضاکارانہ طور پر زائرین کی مدد کے لیے آگے آئے اورعلماء کی رہنمائی میں بت پرست زائرین کو ٹھہرنے کے لیے اُجین کی مسجدوں کے دروازے کھول کراسلام کے اخلاقی وتعبدی تعلیمات کوعملی طورپر محروم الایمان افرادکو قریب دیکھانے وبتانے کافریضہ بحسن وخوبی انجام دیا۔ ( محکمہ سراغرسانی کے علم میں یقینامسلمانوں کی یہ اخلاقی خدمات ہوں گی، بلکہ ان کی فائلوں میں بھی تحریری شکل میں محفوظ ہوں گی۔)
اُجینی مسلمانوں کے اندر علماء کی اطاعت وانقیاد کاجذبہ دیگر علاقوں میں آباد مسلمانوں کے لیے قابل رشک ہے۔
چونکہ سیہنستھ کے موقع پرمشرکانہ مراسم کے ساتھ عریانیت وغیرہ بھی بہت ہوتی ہے۔اس موقع پرمادرزاد برہنہ سادھؤوں اور پنڈوں کاقافلہ بھی یہاں کی مختلف سڑکوں سے گذرتا ہے۔
مشرکانہ مجامع سے بچنے کے لیے علماء نے اپنی اپنی مساجد میں ایک باراعلان کیا کہ :
"عام مسلمان سیہنستھ میں شرکت سے پرہیز کریں، خاص طور پرخواتین میلے میں ہرگزنہ آئیں”
راقم الحروف کے سامنے الہ اباد، بھرتکُنڈ، بنارس، ایودھیا وغیرہ کے مشرکانہ میلوں کی صورتِ حال تھی، اسی لیے خیال تھا کہ یہ اعلان صدائے بازگشت بن کر فضامیں تحلیل ہوجائے گااور اس کا عملی تحقُق مشکل ہے۔
لیکن سیہنستھ ہی کے موقع پرمجھے تین باراُجین کی سڑکوں پر پیدل چل کر بذریعہ ٹرین اُجین وبھوپال آمدورفت کی ضرورت پیش آگئی، ان اسفار میں اُجین کی سڑکوں موجودبھیڑ میں مسلم مرد وخواتین کی حاضری یاغیرحاضری کاجائزہ لیتا رہا، لیکن مجھے ایک بھی مسلم خاتون نظر آئی اور نہ ہی کوئی مسلم مرد۔
البتہ آٹو رکشہ والے نظر آئے۔(جن میں کچھ نے اپنا رکشہ چلانے کے لیے بندہ سے دینی رہنمائی طلب کی تھی ، راقم الحروف نے دعوتی مقاصد کے ساتھ رکشہ چلانے کے لیے انھیں کہاتھا۔)اورمسلم محلوں میں غیرمسلم مسافروں کے لیے "ناشتہ و پانی اور راستوں کی رہنمائی”عنوان کے تحت اسٹالس پر دعوتی جذبے سے مسلم نوجوان مستعدی کے ساتھ کھڑے ہوئے ملے۔
بعض مسلم محلوں میں مسلمانوں نے اپنی کھڑکیوں کی طرف باہری حصوں پر بڑے بڑے پردے لٹکا دیا تاکہ
سڑکوں پر گذرنے والے برہنہ سادھؤوں پرچھوٹوں، بڑوں، بچوں اورعورتوں کی نظر نہ پڑے۔۔
1977ءمیں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ نے "پیام انسانیت” موضوع پرمختلف اجلاس کے لیے بھوپال،اُجین، اندور ومانڈوکا سفر کیا۔ جس میں اہم تعلیمی اداروں میں متعلقہ موضوع "پیام انسانیت”کے علاوہ "اہمیت تعلیم” کے عنوان پر بھی حضرت کے بیانات ہوئے۔
اُجین کے ایک بیان میں بظاہرخلاف توقع نئے انداز میں دینی نہج پر کنڈرگارڈن، مانٹیسری کی طرح عصری اسکولس قائم کرنے کی حضرت والا نے تلقین فرمائی(پیام انسانیت ص83)
حضرت کی یہ بات ناقابل فہم تھی، کیوں کہ حضرت والاجس مقام پر یہ بیان دے رہے تھے وہ جگہ اگر چہ قلب ہند ہے، مگر وہ بظاہر اسلام یا مسلمانوں کا کوئی خاص مرکز نہیں تھی۔
لیکن قربان جائیے اپنے بزرگوں کی بصارت پر کہ ایک چھوٹی سی جگہ پیش کئے گئےحضرت کے بیان کی باز گشت صرف اُجین ہی نہیں بلکہ ملک و عالم کے طول وعرض میں سنی گی۔ اور یہی نہیں بلکہ حضرت کی طرف سے اُجین میں پیش کئے گئے عصری تعلیمی خاکےکے مطابق ملک کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ علاقہ جنوبی ہند میں ایسے اسکولس شروع کئے گئے اور پورے ملک بلکہ بیرون ملک ایسے اسکولس قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور یہاں تیمنا وتفاءلا یہ بھی لکھ دوں کہ ملک میں جاری اسلام مخالف طوفان کو روکنے میں ایسے اسکولس کے فارغین سر فہرست رہیں گے۔ ان شاء اللہ
لاک ڈاون سے قبل غیر ذمہ دارانہ انداز میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی جی نے کہا تھا کہ: "ٹرین پر پتھر پھینکنے والوں اور آگ لگانے والوں کو ان کے کپڑوں سے پہچانو! کہ وہ کون لوگ ہیں؟ ”
اپنے اس جملے میں تخریب وفسادکے لیے انھوں نے صاف صاف مسلمانوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔گوکہ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ پتھر پھینکنے والے مسلمان نہیں تھے، بلکہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے انھوں نے کرتا،پائجامہ اور ٹوپی پہن کر ٹرینوں پرپتھر پھینکا تھا۔
لیکن لاک ڈاون کے موقع پرجب ملک کے مختلف حصوں خاص طور پر کیرالا وممبئ واحمدآباد وغیرہ سے ہزاروں ہزارمزدور بھوکے پیاسے بنگال، بہار، یوپی وغیرہ کے لیے پیدل نکل پڑے تو ان بھوکوں کو کھلانے، پلانے اور ان کی مدد کے لیے ملک کے طول وعرض میں سڑکوں پرمسلمان ان کے میزبان بن کر کھڑے ہوگئے۔
مسلمانوں نے اس موقع پربھوکوں، مجبوروں، مزدوروں کی مدد کرتے ہوئے انتہائی صبر وتحمل کاثبوت پیش کیا۔ مسلمان چودہ پندرہ گھنٹے رمضان کے روزے رکھتے، ایک ڈیڑھ گھنٹہ کھڑے ہوکررات میں تراویح پڑھتے، پھر چھپ کر رات میں سڑکوں اور گذرگاہوں پرخوراک و پانی لے کر آتے۔ ان معاونین کے ساتھ بعض سرکاری اہلکار انتہائی درجہ وحشیانہ معاملہ کرتے۔ اس موقع پر اگر یہ معلوم ہوجائے کہ گھر سےباہر آنے والا شخص مسلمان ہے تو بعض پولس اہلکار انسانی صورت میں درندہ اورحیوان بن کر مسلمانوں کے ساتھ تشدد اور جارحیت کرتے تھے۔ حتی کہ ایسی تصاویر دیکھنے کو ملیں کہ مسلم خواتین کو بے تحاشا مارا پیٹا گیا اور انھیں چوراہوں پر گھٹنوں کے بل چلنے کے لیے مجبور کیاگیا،اورظالم پولس اہلکاروں نے اپنے ظلم وحیوانیت پرقہقہے لگا کرجشن منایا۔
ان خوف ناک حالات میں مسلمانوں نے مسافروں کی بھرپور مدد کی۔ اور امن وانصاف اورانسانیت کے دشمنوں کو بتایا دیا کہ کپڑوں سے پہچانوں مسلمان کیسے ہوتے ہیں؟
یہاں اُجین میں مسلمانوں نے لاک ڈاون کے موقع پر خوب دل کھول کر حاجتمندوں کی مدد کی۔ یہ امداد کتنی بڑی مقدار میں تھی؟ اس کا اندازہ نہیں لگا یا سکتاہے۔ صرف ایک قوم "نائتہ مسلم برادری” نے ادویہ ودیگر اشیائے خورد ونوش کے علاوہ ایک ہزارکونتل گیہوں تقسیم کیا۔
سوشل میڈیا پر بعض غیر مسلموں کی تحریریں نظر سے گذریں کہ فلاں فلاں علاقوں میں مسلمان بستے ہیں ہمارے بھائی (غیر مسلم) مسلم آبادیوں سے سفر کریں، کیوں کہ غیر مسلم آبادیوں میں پانی بھی نہیں ملے گا۔”
دوسری طرف مسلمانوں کے ساتھ بعض غیر مسلموں کا معاملہ یہ تھا کہ ان کے تعلیم یافتہ طبقے میں بعض افرادمسلم دشمنی میں انسانیت کی حدیں پار کر چکے تھے۔بعض محروم الایمان اطباء حاملہ و لیبر پین کی مسلم خواتین کوطبی امداد دینے سے صاف صاف منع کررہے تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ بوقت ڈیلوری بچہ کا نصف حصہ باہر آگیا اورنصف اندر ہی پھنسارہ گیا، جس سےزچہ وبچہ دوجانیں خطرے میں پڑ گئیں، پھر بھی صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے لیبر پیشنٹس کوعلاج سے محروم کردیاگیا۔
اُجینی مسلمانوں نے "محلہ کلینک شروع "کرکے اس قسم کی حیوانیت اور انسان دشمنی سے مریضوں کو نجات دلانے کی کامیاب کوشش کی۔ جہاں ہر طبقے کی خواتین ومرد اور اطفال کے لیے مفت علاج کا انتظام کیا۔اُس امداد وتعاون کاسلسلہ ہنوز جاری ہے۔
انصاف کے دشمنوں کو اُجینی مسلمانوں کی اخلاقی فتوحات برداشت نہیں ہوسکتی ہیں، جس طرح انھوں نے مہاتما گوتم بدھ اور مہاویر جین کی امن وانصاف اور مساوات کی تحریکات کو اُجین میں نیست ونابود کرنے کی نامسعود کوششیں کیں۔اسی طرح وہ اسلامی تعلیمات کے زیر اثر قائم انصاف و مساوات اور امن و انسانیت کو بھی فنا کرنے لیے اپنی ذلیل حرکتیں انجام دینے میں پیش پیش ہیں۔
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے انصاف کو شرمندہ کرنے والے سپریم کورٹ کےفیصلے کو بنیاد بناکر مسلمانوں کے اخلاق و انسانیت کا جواب دیتے ہوئے انصاف دشمنوں نے ملک کے مختلف حصوں میں چندہ کے نام پر 6/فروری2021ء کو لوٹ مارکادن بنادیا۔جس میں مدھیہ پردیش کے تین علاقے چاندکھیڑی، مندسور، اور اُجین کے محلہ بیگم باغ کالونی میں خوب اُدھم مچایا۔ بیگم باغ میں تقریبا مکمل مسلم آبادی ہے۔ وہاں یہ بلوائی اور لٹیرے دومرتبہ جلوس کی شکل میں گالی گفتار کرتے ہوئے نکل گئے۔مسلمانوں نے پورے صبر وتحمل سے کام لیا اور پھر تیسری بار اسی شکل میں محلے سے گذرے، اس بار یہاں موجود گاڑیوں میں توڑپھوڑ کے ساتھ مکانات پر پتھر بھی پھینکنے لگے۔ اس پرکچھ جوانوں نے دفاع کیا۔ یہ دفاع چینی حملے سے کم درجے کا جرم نہیں تھا۔ انتظامیہ نے دفاع کر نے والوں کے خلاف ملک مخالف دفعات کے تحت کاروائی کی اورجس مکان سے پتھر بازی کا شبہ ہوا اس مکان کو منہدم کرادیا۔
قارئین پھر یہاں اپنے ذہن میں تحریر کا ابتدائی حصہ دہرا لیں کہ بیگم باغ کالونی وہ مسلم محلہ ہے جہاں مسلمانوں نےہمیشہ(خاص کر سینہستھ 2016ء میں)رضاکارانہ طور پرغیرمسلم زائرین کے لیے ناشتہ و پانی اورراستوں کی رہنمائی کی خدمت انجام دی ہیں۔
6/مارچ2021ءاُجین سے قریب تحصیل بڑنگر میں منو وادیوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک مورتی پرکالک پوت کر الزام مسلمانوں کے سر تھوپ دیا، اور پھر شہر میں ادھم مچاتے ہوئے ایک مسجد کو شدید نقصان پہنچایا۔ بعد میں جانچ پر پتہ چلا کہ مسلمانوں نے نہیں بلکہ دنگا کرنے کے لیے خودبت پرستوں نے ہی اپنے ہاتھوں سے اپنے معبود اور پوجنیہ وستُ پر کالک پوتی تھی۔
اخلاق و شرافت کے خلاف انصاف دشمنوں کی طرف سے اس طرح غیر انسانی جواب ملنے بعض مسلمان مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے عام مسلمانوں خاص کر اُجینی مسلمانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ منووادی طبقے کو آپ کے اِ سی اخلاق و شرافت سے چِڑھ ہے، اور آپ کو آپ کی اسی اخلاق اور انصاف پسندی کی سزادی جارہی ہے۔ اگراپنے ساتھ ہوئے منووادیوں کی بداخلاقی سے مایوس ہوکر آپ نے اخلاق و انسانیت کے کاموں کوچھوڑدیا تو یہ آپ کی ہار نہیں بلکہ منووادیوں کاتعاون ہوگا۔
کیا آپ منووادیوں کے مقاصد کے لیے اپنی انصاف پسندی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔
یادرکھیں کہ مہاتما گوتم بدھ اور مہاویرجین کے بعد اسلام ہی وہ دیوار ہے جو ظلم وناانصافی کی ہر تحریک و کوشش کو روکے ہوئی ہے۔ اس لیے تمام بد باطن اور انصاف دشمن طاقتیں اس دیوار کو گرانے کے لیے ایسی اوچھی حرکتوں کے ذریعہ ہمیں اس دیوار سے دور کرنا چاہتی ہیں۔بریں بنا امن و انصاف اور اخلاق و انسانیت کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ حالات میں مایوس ہونے کے بجائے اسلام کے ساتھ اپنے رشتوں کو مزید مستحکم کیاجائے اور دیگر اقوام تک پوری طاقت کے ساتھ اسلام کی حقانیت پہونچائی جائے۔
موجودہ حالات میں آنکھیں بند کرکے مسلمان چار کام لازمی طور پر کریں۔
1.دعوت الی الاسلام ۔
2.تعلیم(لیجسلیٹو،جوڈیشری، ایڈمنسٹریشن، میڈیا کی تعلیم مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے۔)
3۔سوشل ورکس۔
4۔ مختلف قوموں سے الگ الگ دعوتی مقصد سے مرافقت ومصالحت۔
نمبرتین کے کاموں بس اسٹینڈس، ریلوے اسٹیشنس، اسپتالوں، لیبر چوراہوں، کچہریوں، جیلوں وغیرہ مقامات پراپنی دینی شناخت کے ساتھ پانی، ناشتہ ، پھل وفروٹ، خوراک وادویہ پہونچائیں۔
نمبرچار کے تحت مختلف اقوام کو مسلم غیر مسلم خانوں میں تقسیم کرنے کے بجائے الگ الگ برادریوں، مذاہب، کھیپوں اور گوتروں کی بنیاد پران سے مرافقت اورمعاونت کا معاملہ کریں۔ ملک کی کسی بھی قوم کو لفظ ” ہندو”سے ہر گز نہ پکاریں۔ کیونکہ یہ لفظ گالی ہے۔کمزور طبقات تک "بام سیف” کے لیٹریچرس، آڈیوز، ویڈیوز پہونچا ئیں۔
اس طرح جہاں اخلاق وانصاف ،امن و انسانیت کو منووادی تحریک قتل کرنا چاہتی ہے ان چارفارمولوں پرعمل کرنے سے وہیں منوواد کی قبر تیار ہوسکتی ہے۔
نوٹ:
تحریر کے آخری اجزاء اس مضمون کا محرک ہیں، طوالت سے بچنے کے لیے اس تحریر کا ابتدائی حصہ یہاں حذف کیاجارہا ہے۔ چند دنوں بعد قارئین ابتدائی حصے کا مطالعہ کرسکیں گے۔ ان شاء اللہ۔
فقط والسلام
کتبہ:محمد اشرف قاسمی،
خادم الافتاء: شہرمہدپور، ضلع اجین، ایم پی۔
5/اپریل2021ء
Comments are closed.