حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒ       اور خانقاہ رحمانی کے امتیازات واولیات

 

تحریر : عین الحق امینی قاسمی

 

ہندوستان کے صف اول کے رہنما ؤں میں مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحبؒ، کئی جہتوں سے ممتاز خوبیوں کے مالک تھے ،اُن کی پیدائش مونگیر کے اِسی خانقاہی ماحول میں ۵ جون 1943ءکو ہوئی تھی ،ابتدائی تعلیم بھی 1946میں خانقاہ وجامعہ رحمانی اور خانقاہ سے جڑے بزرگوں کی بے مثال دیکھ ریکھ اوراُن کی سرپرستی میں ہوئی تھی 1961ءمیں انہوں نے دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو سے فراغت پائی ،جب کہ 6419ء میں دارالعلوم دیوبند سے ممتاز نمبرات کے ساتھ اپنی اعلیٰ دینی تعلیم مکمل کی ،انہوں نے عصری درسگاہوں سے بھی خوب خوب حاصل کیا تھا ،چنانچہ 1970 میں بھاگل پور یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرکے اپنی بلندفکر اور علمی پختگی کی سند امتیاز حاصل کرنے میں بھی وہ کامیاب رہے ۔ان کا عہد طفولیت بھی اِسی خانقاہ میں گذرا،سن شعور بھی یہیں پروان چڑھا ،عہد شباب کا اتار چڑھاؤبھی نرم گرم مرحلوں میں یہیں گذرا اور ضعیفی کے دن بھی یہیں دینداری اور مسلسل پلاننگ کے ساتھ سر گرم سفر رہے ،زندگی کے شروع دور میں تعلیم وتزکیہ کی راہ سے جو رنگ چڑھا تھا،وہ آخری مرحلے تک قائم رہا، انہوں نے عصری اداروں سے کسب فیض ضرور کیا اور ایک لانبی مدت تک سماج کے بیچ سیاسی و سماجی بندھنوں کی ڈور سلجھاتے گذری اور اس مرحلے میں وہ ریاست بہار کے اسمبلی تک میں بحیثیت ایم ایل سی اور ڈپٹی چیرمین سیاسی سرگرمیوں کی نوک پلک درست کرتے رہے ،مگر بقول حضرت ممدوح ومرحوم: ” میں نے بھی ایم اے تک تعلیم حاصل کی ہے ، میرے پاس رکارڈ توڑ ڈگری ہے ، لیکن وہ بے معنی ہے ،چوں کہ میرے نزدیک اُس کی حیثیت اصل کی نہیں ،بلکہ میری اصل حیثیت یہ کہ میں ایک سیدھا سادہ مولوی ہوں،جس کا اصل کام علم دین کی خدمت کرنا ہے اور اس دین کا پیغام آپ سبھوں تک پہونچانا ہے “(ایک تقریر سے ماخوذ )

کہتی تھی تجھے خلق خدا

مفکر اسلام کی زندگی کی سرگذشت طویل بھی ہے اور عبرت آموز بھی ، اُن کے تجربوں اور ہنر مندی کے ساتھ طریقہ کار میں انفرادیت کی پیشین گوئی بہت سوں نے دی ہے ، ان کی فکر مندی ، درد مندی اور عرض مندی نے دوربیں نگاہ رکھنے والوں کو بہت پہلے ہی یہ احساس کرادیا تھا کہ آنے والے دنوں میں حضرت ممدوح رح ہندوستان کے چند گنے چنے صف اول کے رہنماوں میں سے ہوں گے،چنانچہ حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمان عثمانی ؒ نے حضرت امیر شریعت رابع رح کو ایک مرتبہ مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”میں آپ کی قسمت پہ رشک کرتا ہوں کہ خدا نے آپ کو مولوی ولی جیسا بیٹا دیا ہے “ ۔حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی مفتی دارالعلوم دیوبند نے لکھا ہے کہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے حضرت مولانامحمد ولی رحمانی صا حب کے احوال وکیفیات کے پیش نظر فرمایا کہ : نسبت کا منتقل ہونا میں نے پڑھااورسناتھا ، دیکھا ہے ولی میاں میں ،اسی نسبت کی برکت ہے کہ اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف پھیردیا ،ان کی باتوں میں کشش ہے ،ان کی تقریر میں تاثیر ہے (آپ کی منزل یہ ہے) مولانا سعیدا لرحمان اعظمی نے لکھا ہے کہ مولانا محمد ولی رحمانی کو اللہ تعالی نے علمی اور عملی دونوں مرتبہ عطا فرمایا ہے وہ صحیح معنوں میں اپنے جد امجد اور اپنے والد ماجد کے جانشیںہیں“سابق مدیر اعلیٰ سہ روزہبجنور مولانا حامد الانصاری غازیؒ صاحب نے لکھا ہے کہ:

”حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے جذبئہ خدمت اور انداز تربیت کے بہت سے نمونے اداروں اور افراد کی شکل میں موجود ہیں، ان کی اقبال مندی اور آہ سحر گاہی کی ایک علامت میرے عزیزمولوی محمد ولی ہیں، والد ماجد کا نقش جمیل اور فکر جلیل ان کے سراپا میں رچا بسا ہے، شکل و صورت میں عین والد کی طرح، آواز و انداز میں ان کا مثنیٰ، عزم و حوصلہ، ذہانت و لیاقت میں ان کی پکی یادگار…. وہ چوتھائی صدی سے زیادہ اپنے والد ماجد کے زیر سایہ عملی زندگی کا تجربہ حاصل کرتے رہے…. ایسا لگتا ہے کہ آنے والے ہندوستان میں جودو چار ذی علم او ر صاحب بصیرت عالم ہوں گے ان میں مولانا منت اللہ رحمانی کی زندہ یاد گار مولوی محمد ولی بھی ہوں گے۔“(حضرت امیر شریعت نقوش وتاثرات،ص: 51)

مولانا اخلاق حسین قاسمی لکھتے ہیں: خدا کا شکرہے کہ میرے عزیز مولانا محمد ولی رحمانی اسلاف کے نقش قدم پر اور اپنے پدر بزرگوار کے طریقے پر آگے بڑھ رہے ہیں،انہوں نے دینی روحانی اور اصلاح کا راستہ اختیار کیا ہے ،انہوں نے جس طرح خانقاہ کی رونق میں اضافہ کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت امیر شریعت مرحوم کا خانقاہ کے مستقبل کی طرف سے اطمینان بلا وجہ نہ تھا صبر وبرداشت کا یہ پودا ان شاءاللہ خوب برگ وبار لائے گا اور چمن میں وہ پھول کھلیں گے کہ دیکھا کرے کوئی۔(حوالہ بالا ،ص: 209) ڈاکٹرمحی الدین طالب بیگوسرائے لکھتے ہیں کہ : حضرتؒ کی عقاب نظر اور شاہیں نگاہ نے جو صاحبزادہ گرامی کے تمام تر احوال پر مرکوز تھی خوب سے خوب تر تربیت فرمائی ،فطری استعداد اور کسبی صلاحیتوں میں جلا بخشی ،ماشاءاللہ صاحبزادہ گرامی تعلق ظاہری اور نسبت باطنی سے مالا مال ہوئے“ (نقوش وتاثرات،ص:372)

خانقاہ رحمانی کے چوتھے سجادہ نشیں ، وقت کے صاحب مسند ،مفکر اسلام حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانیؒ امیر شریعت بہار اڑیسہ جھار کھنڈکے حوالے سے سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی، سجادہ نشیں خانقاہ رحمانیہ ما لیگاوں مہا راشٹرایک جگہ عقیدت بھرے الفاظ میں مرشد گرامی قدر سے اپنی محبت کا یوں اظہار کرتے ہیں : باکمال انسانوں کی اس دنیا میں کوئی کمی نہیں ہے، لیکن ایسے مردان خود آگاہ وخدا آگاہ اس روئے زمین پر خال خال پیدا ہوتے ہیں، جو صلاحیت وصالحیت کے جوہر، اور علم وعمل کی جامعیت سے مالا مال ہوتے ہیں، جن کے افکار وکردار دنیا والوں کے لئے مینارہ نور ہوتے ہیں، جن کی باتوں میں وزن، طبیعتوں میں توازن، فکروں میں سلجھاﺅ اور فیصلوں میں پختگی ودرستگی ہوتی ہے، جن کے دن ”جہد آشنا“ اور راتیں ذکر وعبادت اور تلاوت ومناجات سے معمور ہوتی ہیں، جو ”حکیم سر بجیب“ بھی ہوتے ہیں۔ ”کلیم سربکف“ بھی، جن میں سوز دروں بھی ہوتا ہے، جذب اندروں بھی، ذوقِ عبادت بھی، جذبہ¿ِ خدمت بھی، حکمت ومصلحت کی رعایت بھی، بے باکی وجرات اور شجاعت وشہامت بھی۔ جو مدرسے کی چہاردیواری میں ”مدرس“ خانقاہ کے حجروں میں ”صوفی خدا مست“ اور میدان جنگ میں مجاہد تیغ زن ہوتے ہیں، جن کے ہاتھوں میں قلم بھی زیب دیتا ہے ،تلوار بھی،اور جن کے نزدیک جواں مردی کی موت بزدلی کی زندگی سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے ،ایسے ہی کمیاب ” مردان جفا کش“ میں ایک زندہ شخصیت ہمارے مرشد ،فکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی ہیں ۔ ملکوں ملکوں ڈھونڈوگے پاوگے نہ ،نایاب ہیں ہم

کلاہ سجادہ وعمامہ سے سرفرازی:

حضرت امیر شریعتؒ کے انتقال پر ملال کے بعد20 مارچ 1991 مطابق ۴ رمضان المبارک 1411ھ منگل کے دن ، حضرت مولاناقاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ قاضی القضاة امارت شرعیہ پٹنہ ،مولانا سید نظام الدینؒ سابق ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ اور مولانا شاہد روح اللہ رحمانی وغیرہم جیسی عبقری شخصیات کی موجودگی میں مسجد خانقاہ رحمانی کے اندر ایک بڑے مجمع میں کلاہ سجادہ وعمامہ آپ کے سر پر باندھا گیا اور آپ کی سجادگی اور جانشینی کا باضابطہ اعلان کیا گیا اس طرح خانقاہ رحمانی کے آپ ؒچوتھے سجادہ نشیں منتخب ہوئے اور ہم سب کے بزرگ قرار پائے۔آپ اپنے والد ماجد حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی امیر شریعت رابعؒ سے بیعت ومجاز ہیں اور چاروں سلاسل قادریہ،چشتیہ،نقشبندیہ اور سہر وردیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔حضرت امیر شریعت ؒنے جس خاموشی اور مخفی طریقے سے آپ کی ۔علمی ،عملی اوراخلاقی وروحانی تربیت فرمائی تھی ،لوگوں کو دور تک بھی اس کی بھنک نہیں تھی ،اسی لئے بہت سے اہل تعلق کو خانقاہ وجامعہ کےمستقبل اور اس کی مرجعیت ومرکزیت کے تعلق سے حضرت امیر شریعت ؒ سے براہ راست اس کو جاننے کی کوشش بھی کیاکرتے تھے،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دنیا خواب کے علاوہ حالت بیدای میں بھی دیکھ رہی ہے کہ حضرت گنج مرادآبادی ؒ ،قطب عالم مولانا محمد علی مونگیری اورامیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی کی نہ صرف تائید ورہبری اِنہیں حاصل تھی ،بلکہ اُن بزرگوں کی امانتوں کو مختلف جہتوں سے امت محمدیہ اور ملت اسلامیہ تک پہونچانے میں بھی حضرت ممدوحؒ وسیع پیمانے پر مصروف عمل تھے ۔یہی وہ بنیاد ہے کہ بندگان خدا پوری طرح آپ کے علم وعمل ،فکر ونظر،زبان وقلم،اور جرات وعزیمت کا شروع سے معترف ر ہ کر آپ کو اپنا دینی وروحانی رہنما وپیشوا مانتے رہے اور ہر سطح پر مشکلات کی گھڑیوں اور دینی مسائل میں آپ کی طرف سے جاری پیغامات کے منتظر رہتے۔

مجلس درود شریف کا آغاز:

آپ نے اپنے دور سجادگی میں1991ء سے مریدین ومتوسلین کی تربیت کے لئے ہرماہ کے دوسرے سنیچر (سکنڈسٹرڈے) کادن متعین کردیا تھا تاکہ حلقہ ارادت میں آنے والے تمام نئے پرانے ساتھیوں کو اجتماعی طور پر اللہ کی محبت ،رسول اللہ کی اطاعت اور مخلوق خدا کے تئیں خدمتوں کی عظمتوں کو دلوں میں بسا یاجائے اُنہیں اللہ کے ذکر کی تعلیم دی جائے اور اُنہیں مقصد زندگی بتا کر آخرت کی تیاری میں لگایا جائے۔ 29/30برس سے مسلسل یہ سلسلہ قائم تھااور اس کے اچھے نتائج مرتب ہورہے تھے ،وقت کی پابندی کے ساتھ ہرماہ تربیت کا یہ مفید طریقہ خانقاہوں کی روایت میں ناپید ہے ،یہ امتیاز صرف خانقاہ رحمانی کی ہے اور اس کے قابل احترام سجادہ نشیں مخدوم گرامی قدر حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب ؒکاتھا جنہوں نے اس مشکل ترین ذمہ داری کو قبول فرمایا اور شب وروز کی ہمہ جہت مصروفیتوں کے باوجوود چاہے ملک کے جس گوشے میں بھی ہوں، مذکورہ تاریخ میں آپ ضرور خانقاہ میں تشریف رکھتے تھے اور ہندوستان بھر سے آنے والے معتقدین ومسترشدین کی دینی ،اخلاقی اور روحانی تربیت فرماتے تھے۔

آپ کی سجادہ نشینی میں خانقاہ رحمانی کا حلقہ کافی پھیل چکا تھا ،عوام وخواص میں اعتماد کی جڑیں مضبوط تر ہوئیں،یہاں سے لوگوں کو بڑا فائدہ پہنچ رہا تھا ،یہاں خانقاہ رحمانی میں رکھ رکھاؤ کی صفت بھی بہت خوب ہے ،ہر آنے والا یہاں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ، بالخصوص درود شریف کی مجلسوں میں آنے والے جملہ مہمانوں کے قیام وطعام ،بجلی پانی کی سہولیات قابل رشک ہوتی ہیں ،اتنا بڑا مجمع ہونے کے باوجو تمام سہولتوں کا بروقت مہیا ہوتے رہنا ،یقیناًنظم ونسق اور حضرت ممدوح ؒکے باطنی تصرف کا کمال تھا ،کیا عورت اور کیا مرد ہر کسی کو اُن کی صلاحیت واستعداد کے حساب سے خانقاہ میں قیام کے دوران درود شریف کے ورد کا پابند بنایا جاتا تھا،انہیں کلمہ اور استغفار بھی زبانی یاد کرایا جاتا تھا ،اس کام کے لئے عموما جامعہ کے ہونہار طلباءمختلف حلقوں میں درود شریف کا ورد کراتے ہوئے نظر آتے تھے،اس عمل سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوتا تھاکہ دلوں میں درود شریف کے پڑھنے پڑھانے کا مزاج بنتا تھا ،یہاں سے جانے کے بعد بھی لوگ اس کا اہتمام کرتے تھے ،یہاں کا نظام تعلیم وتربیت، ٹھوس عقائد اور دین کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے ، اعتدال واحترام یہاں کا خاص پیغام ہے ،غلو اور کج روی سے احتیاط کا سبق ابتدائے دن سے دیا جاتا ہے ،جذبئہ اطاعت ،جہد مسلسل اورمخلوق خداکے ساتھ راست معاملات کے لئے یہاں ذہنوں کو بیدار کیا جاتا ہے ، حضرت کی آخری عمر میں ہرماہ آخری سنیچر کو د درود شریف کی مجلس بعد نماز مغرب منعقد ہوتی تھی،جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے۔

عام طور پر جامعہ کے قدیم استاذ حضرت مولانا عبدالسبحان صاحب رحمانی مدظلہ العالی کی مختلف عنوانات کے تحت 45سے 50 منٹ کی موثر گفتگو ہوتی تھی جسے لوگ پسند بھی کرتے تھے اور اس سے فائدہ بھی محسوس کرتے تھے(ان خطبات کو ان کے لائق فرزند ،جرنلسٹ عزیزم فضل رحماں رحمانی اور جامعہ کے موقر استاذ ،جناب مولانا محمد نعیم رحمانی زیدمجدہ نے ”خطبات سبحانی “کے نام سے دوجلدوں میں جمع کردیا ہے جو پڑھنے کی چیز ہے )اس کے بعد حضرت والا مجلس میں تشریف لاتے اور خالص دینی اور مختصر سی گفتگوفرماکردرودشریف 500 /سومرتبہ پڑھنے کی ہدایت کرتے تھے اور خود بھی مجمع عام میں موجود رہ کرمذکورہ تعداد پوری کرکے پورے عالم کے مسلمانوں اور ملک وملت کے حق میں آہ وزاری کے ساتھ دعا فرماتے تھے ،پھر عشاءکی اذان ہوتی تھی ،نمازوں سے فراغت کے بعد تمام مہمانوں کے لئے اجتماعی کھانے کا نظم ہوتاتھا ،بعد نماز فجر معمولات یومیہ سے فارغ ہوکر جامعہ کے طلباء،اساتذہ سمیت تمامی حضرات قرآن پاک کی تلاوت کرتے ،تلاوت کے بعد ناشتہ اور دیگر ضروریات سے فرصت پاکر مقررہ وقت پر مسجد رحمانی میں تشریف لاتے اور حضرت صاحبؒ اس وقت بھی چند منٹ قیمتی نصیحت کرتے تھے اور خانقاہ رحمانی سے وابستہ بزرگان دین واکابرین کے حق میں دعاو ایصال ثوا ب کیا جاتا تھا۔حضرت صاحبؒ کو اس روح پرور مجلس سے اس درجہ لگاو اور اطمینان قلب تھاکہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ رحمانی تھرٹی آپ کی عظیم خدمت ہے ؟ تو برملا آپ نے ارشاد فرمایا کہ : ” میری نظر میں درود شریف کا ورد اور درود شریف کی مجلس میری شہکار خدمت ہے “(حیات ولی،ص:86)

کثرت سے درود شریف کا اہتمام :

خانقاہ رحمانی سے مسلسل شائع ہونے والی ” سالانہ جنتری “ جس کو ہم خانقاہ رحمانی کا ایک خاموش ترجمان بھی بول سکتے ہیں ،آج بھی اس میں وہ سب کچھ درج ہوتا ہے جس کی پڑھے لکھے حضرات سے لے کر عام عوام تک کو علمی ضرورت ہوتی ہے ،اُسی جنتری میں بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ درود شریف سے متعلق خانقاہ کے مزاج وانداز اور اس کے اہتما م کی طرف رہنمائی کی گئی ہے ،یہاں خانقاہ میں اس کا ورد کیوں کرایا جاتا ہے ؟ اس کے سماجی واخلاقی اور روحانی اثرات کیا ہیں اور پھر اس کثرت کے ساتھ درود شریف کے ورد کی اصلیت کیا ہے؟ جو یہاں اِس خانقاہ کی خاص پہچان کے طور پر سمجھی جاتی ہے ،اُس میں لکھا ہے کہ:

” اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالی اور فرشتے رسول اللہ ﷺ پر درود پر درود شریف پڑھتے ہیں ،اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو بھی درود شریف پڑھنے کا حکم دیا ہے اسی لئے بزرگان دین درود شریف کے ورد کا اہتمام کرتے ہیں اور کثرت سے درود شریف پڑھتے پڑھواتے ہیں۔درود شریف کے ورد کا ہر مسلمان کو پابند ہونا چاہئے ،علماءنے ساری عمر میں ایک بار درودشریف پڑھنا فرض قرار دیا ہے اور ایک سے زیادہ مرتبہ مسنون اور کثرت سے پڑھنا ثواب کاکام بتایا ہے ،بزرگوں کا تجربہ ہے کہ اس کے پڑھنے سے بہت سارے فائدے ہوتے ہیں ،دعائیں قبول ہوتی ہیں اللہ نے اس میں کمالات کے ساتھ مشکل کا حل بھی رکھا ہے ،اسی لئے خانقاہ رحمانی (مونگیر ) میں بحمد اللہ کثرت سے درود شریف پڑھنے اور پڑھانے کا اہتمام ہے اللہ کے بندے تنہائیوں میں بھی ذکر رسول ﷺ میں مشغول رہتے ہیں اور مجلس میں جمع ہوکر بھی لاکھوں کی تعداد میں درود شریف پڑھتے ہیں“ (ص: 6،مطبوعہ دارالاشاعت خانقاہ رحمانی مونگیر2020)

بیعت وارشاد کا عظیم سلسلہ:

مولانا رحمانیؒ نے خانقاہ رحمانی کی قدیم روایتوں کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ وراثتا ًاس کے فیضان کو شرعی بنیادوں پر مضبوطی کے ساتھ جاری رکھا ، اپنے بزرگوں کے طرز پر ہی بھی بیعت کا سلسلہ تھا، عموماًدرود شریف کی مجلس کے موقع سے ہر ماہ اجتماعی طورپربعد نماز مغرب حضرت صاحبؒ کے ہاتھ پرلوگ بیعت ہوتے تھے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے اور دینداری کے ساتھ زندگی جینے کا عہد کرتے تھے ،اس موقع پر اللہ کی یاد سے دلوں کو آبادرکھنے کے لئے کچھ وظیفہ بھی بتلایا جاتا تھا اور سلسلہ رحمانیہ کا شجرہ بھی مریدین میں تقسیم ہوتا تھا، جس میں سلسلہ رحمانیہ میں داخل ہونے والوں کےلئے خاص معمولات و ہدایات درج ہوتی تھیں ۔بہت سے ایسے بھی اللہ کے بندے تھے،جنہوں نے حضرت صاحب ؒسے بیعت وسلوک کی مسلسل تعلیم پائی تھی، انہوں نے اپنے پیر ومرشد کی ہدایات کے مطابق اپنی اصلاح کی تھی ،اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے حقیقی عشق ومحبت کے نتیجے میں دلوں کو اس کی یاد سے آباد وشاد رکھا ہوا تھا ،سنت نبوی ﷺ کو عملی زندگی میں برتنا سیکھا تھا تو ایسے باکرداروں اور خودداروںکو حضرت صاحبؒ نے باضابطہ اجازت وخلافت سے بھی نوازا تھا جو یقیناً اُن خلفاءومجازین کے لئے راہ سلوک میں ترقی درجات کا سبب بھی ہے اور عمل کی راہ سے اللہ تعالی کو راضی برضا رکھنے میں روحانی تقویت کا ذریعہ بھی۔

حضرت صاحب کی طرف سے جنہیں اب تک اجازت وخلافت ملی تھی ” مفکر اسلام ،زندگی کے سنگ میل‘ ‘ نامی رسالے کے مطابق(جسے جامعہ کے ممتاز استاذ جناب مولانا ضیاءالرحمٰن رحمانی زیدمجدہ نے بڑی محنت اور عقیدت سے ترتیب دیا ہے )،اُن میں چند ممتاز نام یہ ہیں: ماسٹر محمد یونس رحمانی مدہوبنی ،مولانا محمد یوسف مہاراشٹر ،مولانا محمد علی زاہداتر دیناجپور،مولانا محفوظ الرحمان فاروقی مہاراشٹر،،مولانا عبدا لکریم رحمانی دربھنگہ،مولانا حفظ الرحمان سپول،الحاج نعیم اختر رحمانی بوکارو، مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی مالیگاو¿ں ،ناسک، مولانا ہارون الرشید رحمانی کٹیہار ،مولانا عبد المتین رحمانی ارریہ۔ یہ وہ نام ہیں جنہیں حضرت صاحبؒ نے بیعت کے بعد مسلسل تربیت اور قابل ولایت بناناکر اجازت وخلافت سے نوا زا تھا ،حضرت صاحب جس طرح دوسرے امور میں بہت صاف وشفاف اور ٹھوک بجا کر معاملہ کرنے کے عادی تھے ،جس طرح اُن کی باتوں میں اعتدال تھا ،جس طرح ان کے معاملات میں توازن تھا اور جس طرحاپنے عزائم میں پختہ تھے، بعینہ وہ خلافت واجازت کے معاملے میں بھی اپنے سلسلے کے عالی مرتبت بزرگ مولانا فضل رحماں گنج مرادآبادیؒ کی طرح بہت محتاط رویہ اپناتے تھے ،ذاتی خیال یہ ہے کہ وہ راہ چلتے نہ بیعت کرنے کے قائل تھے اور نہ صبح میں بیعت کے بعد شام میں اجازت وخلافت دینے پہ آمادہ ،وہ ظاہر کی طرح باطن کو بھی پارکھی نگاہ سے دیکھتے ہی نہیں ،بھانپ کر بتادینے کی صلاحیت رکھتے تھے ،ان کے یہاں سالک کی منزل ولایت ہوتی تھی، خلافت نہیں ،اس لئے خلافت دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتے ،بلکہ بقول حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی:

” افسوس ہے کہ آج کے دور میں کتنے سالکین ایسے ہیں جو حب جاہ کو مٹانے نہیں ،بلکہ اور بڑھانے کی راہ پر چل رہے ہیں ،اُن کی نگاہ خلافت پر ٹکی رہتی ہے اور اللہ معاف کرے کہ بہت سی خانقاہوں میں اور مشائخ کے یہاں خلافت واجازت میں بھی بڑی سخاوت برتی جارہی ہے ،جس کا نقصان یہ سامنے آرہا ہے کہ سالکین کا قبلہ مقصود بدل رہا ہے ،ہمارے حضرت اقدس دامت برکاتہم نے ایک موقع پر فرمایا کہ سالک کی منزل ولایت ہے خلافت نہیں“(ایک تقریر سے ماخوذ)اسی احتیاط کا نتیجہ ہے کہ ایک محتاط اندازہ کے مطابق سات لاکھ سے زیادہ لوگوں نے حضرت صاحبؒ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے،گناہوں سے توبہ کیا ہے اور دین دارانہ زندگی گذارنے کا اقرار کیا ہے، مگر اجازت وخلافت کی سعادت، گنتی کے چند لوگوں کے نصیبے میں اب تک آئی ہوئی ہے ،مگر جو بھی ہیں اور جہاں ہیں، تقوی وپرہیزگاری میں ممتاز ہیں ،اللہ کے بندوں کی اصلاح کی صلاحیت رکھتے ہیںاور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ شجر سایہ دارہیں، اللہ سائے کو دراز تر فرمائے ۔

بیعت کے سلسلے میں حضرت صاحب ؒدودوچار کی طرح واضح لفظوں میں ان حضرات کی ذہن سازی بھی کرتے تھے جو کسی وجہ سے اس میں الجھ کر خود بھی اس سے دور ہیں اور دوسروں کے لئے بھی دوری کا سبب بنے ہوئے ہیں: ” بیعت کا مطلب ہے ،خداکے احکام کو دل سے ماننے اور ان پر عمل کرنے کا عہد کرنا ۔ بزرگوں کا طریقہ رہا ہے کہ وہ ایمان والوں سے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کا وعدہ لیتے ہیں ،گناہوں پر توبہ کراتے ہیں اور چند بنیادی کاموں کے کرنے اور چند چیزوں کے نہ کرنے کا عہد کراتے ہیں ،یہ طریقہ دراصل ایمان کے عملی تقاضوں کو یاد دلانے ،دلوں میں بٹھانے اور عمل کے جذبے کو ابھارنے کا ذریعہ ہے “ (بیعت عہد نبوی ﷺمیں،ص: ۵)

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ:قرآن پاک اور احادیث کا تفصیلی مطالعہ اس نتیجے تک پہونچاتا ہے کہ سرکار ذی وقار ﷺ نے دین سے متعلق مختلف اہم امو ر پر بیعت لی ہے اور مختلف موقعوں پر حاضرین سے عہد وپیمان لیا گیا ہے ،کبھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ،کبھی کسی بڑے کپڑے کو پکڑ واکر ،کبھی پانی میں ہاتھ ڈال کر اور کبھی کبھی مجمع میں حسی اتصال کے بغیر الفاظ وبیان اور اقرار باللسان کے ذریعے !ساری تفصیلات پر ایک ساتھ غور کیاجائےتو بیعت کی پانچ قسمیں سامنے آتی ہیں : بیعت ایمان واسلام ،بیعت جہاد،بیعت ہجرت،بیعت طاعت بیعت تقوی یا توبہ۔

بیعت کے سلسلے میں حضور ﷺ کا یہ اہتمام اپنے اندر بڑی حکمت رکھتا ہے ،اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ آپ کی ذمہ داری تھی اور آپ نے پوری زندگی اس اہم کام میں لگا دی ،آپ نے تبلیغ کیا تلقین بھی کی ،تلاوت کی ذمہ داری بھی انجام دی،تزکیہ نفس اور تعلیم کی راہ بھی بنائی ،بیعت اس کام کے لئے بہت معاون تھی ،یہ تجدید عہد کا موثر ذریعہ اور مسلمانوں میں طاعت واستقامت کا وسیلہ تھی اور سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالی نے سرکار ذی وقار ﷺ کو بیعت کرنے کا حکم دیا تھا “( حوالہ بالا ،ص: 10 تا11،مطبوعہ دارالاشاعت خانقاہ رحمانی مونگیر)

خانقاہ رحمانی کا تذکیری مزاج:

خانقاہ رحمانی سے لوگوں کی عقیدت وارادت صرف اس لئے نہیں ہے کہ یہاں سے دعا وتعویز اور دوسری ترکیبوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ظاہری امراض میں ہزاروں کو صحت وشفایابی ملتی ہے ،بلکہ یہاں سے انہیں روح کی غذا بھی ملتی ہے ،ایمان واعمال کو تازگی بخشنے والی رہنمائی حاصل ہوتی ہے اور ہر ایسے تخریبی اعمال سے اجتناب واحتیاط برتنے کی شرعاً انہیں دعوت دی جاتی ہے جو ایمان سوز بھی ہیں اور اعمال خور بھی۔یہاں شریعت طریقت پر مقدم ہوتی ہے۔ اﷲ اور اﷲ کے رسول کی کامل پیروی اور تمام بزرگانِ دین کا احترام ضروری ہوتا ہے، اہل سنت والجماعت کا عقیدہ اختیار کرنا لازم ہوتا ہے، فرائض دین اور ارکان اسلام کی پابندی کو ضروری بتلایا جاتا ہے، اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کو نبوی خطوط پر قائم کرنےکی ہدایت دی جاتی ہے، حرام خوری کے بجائے حلال اور طیب مال کھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ روح کی بیماریوں میں لالچ، حرص، حسد، کینہ، بغض، جھوٹ، فریب، ظلم، بخل، غفلت وغیرہ پر سخت تنبیہ کی جاتی ہے، معاشرتی بیماریوں میں ناچ گانا، بدعت، خرافات، رسم ورواج جیسے منکرات، جس میں بے پردگی ،غیر محرم سے گفت وشنید، فضول ولایعنی بات چیت سے احتراز کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے، اور خدا ترسی، فکر آخرت، محاسبہ¿ نفس جنت ودوزخ کا محاسبہ توبہ واستغفار، معرفت دین اور اصول زندگی جیسی بنیادی باتوں کی طرف کامل توجہ دلائی جاتی ہے، جس سے اصلاحوتربیت کے مرحلے آسان اور نفع بخش ثابت ہوتے ہیں۔

خانقاہ رحمانی کے بزرگوں نے جس اخلاص اور اللہ کی خوشنودی کے جذبے سے اس کی بنیاد ڈالی تھی ، ظاہر ہے کہ اُس میں پھو ل کی مالا ہے ،نہ مزارات پر چادریں چڑھانے کی لت،نہ قوالی نہ عرس ،نہ پنکھوں سے ہوا کرنے کاخیال اور نہ مروجہ نذر ونیا ،نہ تام نہ جھام اور نہ عشق ومحبت کی داستان گوئی وشہنائی،یہاں تو اللہ والے، اللہ کے بندوں سے، اللہ کی باتیں رسول اللہ ﷺ کی ہدایتوں کے مطابق سننے سنانے کا سلسلہ رکھتے ہیں ، ذکر وفکر،تعلیم وتربیت اور جان وجگر کی تطہیر وصفائی کے ساتھ، احسانی عبادتوں کا مزاج بناتے ہیں اور باطنی امراض کا نبوی نسخوں سے علاج تجویز فرماتے ہیں ،تاکہ ظاہر وباطن اور قول وفعل میں یکسانیت قائم رہ سکے، خانقاہ رحمانی سے خلق خداکے عقیدت مندانہ لگاو اور جھکاو کی ایک بڑی بنیاد یہ بھی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں حضرت والا نے فرمایا تھا کہ: ” خانقاہوں اور درگاہوں کی ہر ایک روایت نہ دین ہے نہ دینداری۔ غلط چیزیں وقت گذرنے کے ساتھ آتی چلی گئی ہیں ،اس میں خانقاہ کے لوگوں کی ذاتی ذوق کا دخل ہے،جہاں تک خانقاہ رحمانی کا تعلق ہے ،قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگری بڑے عالم دین تھے ،انہوں نے غیر ضروری چیزوں کو خانقاہ سے دور رکھا پھر بعد کے لوگ اس طریقہ پر قائم رہے“(حیات ولی،ص:166) ”خانقاہی نظام اور خانقاہی اعمال واشغال مکمل طریقے پر دین سے جڑے ہوئے ہیں ،اگر کسی خانقاہ میں دین اور دینداری نہیں ہے ،سرکار دوعالم ﷺ کی بتائی ہوئی باتوں سے الگ ہٹ کر وہاں کچھ کیا جارہا ہے اور تزکیہ نفس کی خدمت کو نظر انداز کرکے دوسری چیزوں پر توجہ دی جارہی ہے تو ایسی خانقا ہ نہ معتبر ہے نہ مستند،خانقاہی نظام انسانی زندگی کو اس دین کے سانچے میں ڈھالنے کا نام ہے جس دین کو سرکار دوعالم ﷺ دنیا میں لے کر آئے تھے ،دین کو پورے طور پر دلوں میں اتارنے کے لئے جو سسٹم خود سرکاردوعالم ﷺ نے قائم فرمایا آج کی زبان میں اسی کو خانقاہی نظام کہا جاتا ہے دل کی خواہشات ،نفس کی چاہتوں اور مختلف مرحلوں میں ابھر نے واکی امنگوں اور تمناوں کو دین وشریعت اور قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے کا نام ” تزکیہ نفس“ ہے جو خانقاہوں کے قائم کرنے کا بنیادی مقصد ہے “(ارشادات رحمانی،ص: 14)

بہت سی دفعہ لوگ جانے انجانے میں تصوف کے متعلق ایسی غیر ضروری باتیں کرجاتے ہیں ،جن کا کوئی سِرا نہیں ہوتا ،بلکہ عدم واقفیت کی سطح بھی اتنی گری ہوتی ہے کہ کوئی دوسراشاید ہی اس پہلو پر غور کرنے کے لئے وقت نکال پائے ،مگر معاً بزرگوں کا طریقہ اور ان کا دینی خدمت کے لئے خودی کومٹادینے کا راز وانداز حضرت صاحب کی نظروں میں سماجاتا تھا ،اس لئے مسئلے کو صاف کردینا اور غلط فہمیوں کو دور کرنا بھی وہ دین کی خدمت سمجھتے تھے،اسی لئے دیکھا اور سنا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے بارہا ایسے مسائل کے تئیں نہ صرف غلط فہمیوں کو دور کر صحیح رہنمائی کا فریضہ ا داد کیا ،بلکہ مخاطب کی زبان میں میٹھے لہجوں کے ساتھ مدلل گفتگو فرماکر سامنے والے کو ماننے پر مجبور کردینا بھی اُنہیں خوب آتاتھا ،چنانچہ ” تصوف “کے مسئلے میں بھی بعضوں کو بے چینی رہی ہے ،مولانا رحمانی رح نے جس طرح سے اس بے چینی کا علاج کیا ہے ،یقینا یہ کسی ماہر روحانی طبیب وحکیم سے ہی ممکن تھا :

تصوف کی حقیقت:

تصوف کی راہ حقیقت وطریقت اور شریعت کی راہ ہے اس راہ کے مسافر کے لئے عزم وعزیمت بڑا توشہ ہے ،وہ جسے مواظبت اور استقلال کہا جاتا ہے ،وہ اسی عزم وعزیمت کا عکس جمیل ہے، مشکل حالات پر قابو پانے کا حوصلہ ،آڑے وقتوں میں کلمہ حق کی صدائے دل نواز بلند کرنا ،افضل جہاد کے نمونوں میں اضافہ کرنا ،دین کے لئے عزیمت کی راہ استعمال کرنا اور عزم مصمم کے ساتھ مسلسل کام کرتے رہنا ،وہ مزاج ہے جس کی تعمیر وتشکیل تصوف کرتا ہے “ (ارشادات رحمانی،ص: 29)

” تصوف “ ذوق بندگی کا نام ہے ،یہ طرز زندگی بھی ہے،ہر کام میں خدا کی پسند کو سامنے رکھنا ،ہر سونچ میں رسول اللہ ﷺ کے انداز فکر اور طرز عمل لو محور فکر اور راہ نما ماننا ہی تصوف ہے،سوتے جاگتے،اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے،لکھتے پڑھتے ،آتے جاتے خدا کا خیال رہے ،خدا کی مرضی کا خیال رہے ،یہی تصوف ہے ،تصوف کی راہ پر چلنے والے کے درجات ہیں ،تصوف یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کے حکم پر عمل کیا جاتا رہےاور تصوف یہ بھی ہے اللہ تعالی کی مرضی پر بندہ مطمئن رہے “( حوالہ بالا ،ص: 39) ”حدیث میں روایت و درایت کے معیار قائم کئے گئے، فن فقہ وتفسیر کو مرتب کیا گیا، نحوو صرف کے اصول مرتب کئے گئے، سندوں کی باریک بحثوں سے کتب خانہ تیار ہوگیا…. اسی طرح ذکر الٰہی اور ذکر نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بنیادی تعلیم، قرآن پاک نے دی، سلسلہ¿ رشد و ہدایت کے لئے ”بیعت“ کی ہدایت قرآن نے دی، تسبیحات کی بنیادی تعلیم، سرکار ذی وقار علیہ تحیة الابرار نے دی، اور پھر اسی دل نے جو تپا تپایا تھا، اس نے اپنے تجربات، مکاشفات اور اپنے اجتہاد سے وہ تفصیلات مرتب کیں جو انسانوں کی ہدایت اور دل کی صفائی کے لئے مفید ثابت ہوئیں۔ اکابر اولیاءنے اُنہیں بنیادوں کو سامنے رکھ کر تفصیلات مرتب فرمایا، جو اصلاح باطن کا کامیاب ذریعہ اور احسانی زندگی کا عمدہ وسیلہ بن گیا تسبیحات اور وظائف کی ترتیب اور اس فن کی تہذیب کو اہل علم صلحاءکا ویسا ہی کارنامہ سمجھنا چاہئے جیسا ہمارے اکابر ائمہ اور علماءکا کارنامئہ حدیچ،تفسیر،فقہ اسلامی اور دوسرے علوم دینیہ کی تدوین اور ترتیب وتہذیب ہے“

” احسانی زندگی مشق و تمرین، محنت اور جستجو سے حاصل ہوسکتی ہے تربیت اور صحبت سے حاصل ہو سکتی ہے، ذکرو فکر سے حاصل ہو سکتی ہے، اللہ کے کلام سے رسول کے پیغام اور کام کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے، اس لئے بہت سے بزرگوں کو ولایت خدمت کی وجہ سے حاصل ہوئی، اشتغال بالقرآن اور خدمت حدیث کے ذریعہ حاصل ہوئی، دعوت وتبلیغ اور جہاد کے ذریعہ حاصل ہوئی۔“

”میں پھر عرض کروں گا، اکابر اولیا ءکی بہت بڑی تعداد، مایہ ناز علماءرہی ہے، اگر ان علماءکرام سے کوئی چیز ثابت ہے تو اس کا صرف اس لئے انکار نہیں ہونا چاہئے کہ ”مجھے معلوم نہیں یا میری نگا ہ سے یہ چیز نہیں گزری ہے۔“ ان کی نگاہ بہت وسیع تھی وہ بہت بلند اور بڑے محتاط تھے، و ہ تشریح دین کے ذمہ دار متقی اور پرہیزگار تھے، ان کی باتوںکے ا نکارسے قبل سودفعہ سوچنا ہوگا اور تلاش وتحقیق کرنی ہوگی، بزرگوں کا مرتب کیا ہوا یہ نظام تصوف یا احسانی زندگی کا طریقہ، در اصل تزکیہ¿ نفس کی عملی منزلیں ہیں اور تزکیہءنفس سرکار ذی وقارﷺ کی ذمہ داریوں کا ایک حصہ ہے۔“

اصلاح وتربیت کا انداز:

”انسان کھو کر پاتا ہے، انسان جب اپنی یاد، دنیا کی یاد،دنیا والوں کی یاد، نعمتوں کی یاد، راحتوں اور کلفتوں کی یاد، ساری یادوں کو دل سے نکالتا ہے اور خدا کی یاد سے دل آباد کرتا ہے تو یقین کیجئے! دنیا اس کے قدموں میں ہوتی ہے اور وہ خدا کے در پہ سجدہ ریز ہوتا ہے۔“

”یہ دل ظرف ہے اور علم و حکمت اس کا مظروف ہے ظرف جتنا صاف ہوگا مظروف اتنا ہی محفوظ رہے گا اور اس کی کرنیں پھوٹتی رہیں گی، اپنے آپ کو فائدہ پہنچے گا اور دوسرے بھی علم و حکمت کی چاندنی میں زندگی کا سفر طے کرسکےں گے“

”بیشک علماءکو مالی دشواریوں سے واسطہ رہا کرتا ہے مگر ”مال “ ان کامستقبل نہیں ہے،”مآل“ ان کا مستقبل ہے اسلئے ان کا مستقبل تاریک نہیں ہوسکتا یہ تو دوسروں کی تاریک راہوں میں اجا لا پھیلانے والے ،ہیں ہمارے سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے علماءکو زمین کے لئے چراغ سے تعبیر فرمایا ہے، جو شخص خدا کی سرزمین پر چراغ دین جلانے کے لئے آگے بڑھتا ہے، وہ آساینوں کا طلب گار نہیں دشواریوں کا خریدار ہوتا ہے، اسلئے اگر یہ اپنی ڈگر پر ہیں تو ان کی زندگیوںپر تاریکیوں کا سایہ نہیں پڑسکتا“

”انسان کی زندگی سانسوں کے آنے جانے کا نام نہیں ہے یہ زندگی تو جانور بھی جی لیتے ہیں ،پودے بھی سانس لیتے ہیں ،انسان کی زندگی ہمت،محنت،حکمت اور عبادت کا مجموعہ ہے آپ دینی روایتوں اور نجی قدروں کے ساتھ علم کی شمع ہاتھ میں لے کے آگے بڑھیں ،روشنی آپ کی زندگی میں بھی رہے گیاور دوسروں کی راہ سے بھی اندھیرا چھٹے گا “(ماخوذ از:آپ کی منزل یہ ہے)

خانقاہ رحمانی اور دعا تعویز:

خانقاہ رحمانی میں حضرت صاحب ؒ تیل پانی پر دم کرنے کے ساتھ تعویذ بھی دیتے تھے،خانقاہ رحمانی میں یہ سلسلہ قدیم ہے ،اس نسبت سے بھی یہاں اللہ کے بندوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ،آنکھوں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ روتے ہوئے آئے اور ہنستے ہوئے گئے ہیں ، درود شریف کی مجلس کے موقع پریقیناً بہت سے لوگ محض دعا وتعویز کے لئے آتے ہیں ،مگر یہاں بیتنے والا وقت ان کا بڑا قیمتی اور یادگار ہوتاہے ،پورے قیام کے دوران قرآن پاک کی تلاوت ،کلمہطیبہ کا مذاکرہ اور درود شریف واستغفار کے ورد کامسلسل معمول رہتا ہے،اس سے لوگوں کا دینی ذہن بھی بنتا ہے اوراس کے اچھے نتائج بھی سامنے آتے رہے ہیں ،لوگوں کو یہاں سے جانے کے بعد بھی اس عمل پر قائم رہتے سنا اور دیکھا گیا ہے ۔حضرت صاحبؒ اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے تھے :

”یہ جو خانقاہوں میں مصیبت زدہ افراد کو تعویذ دئیے جاتے ہیں یا پانی پر دم کر کے دیا جاتا ہے ،یہ چیزیں لوگوں کو فائدہ پہونچا کر خانقاہی نظام سے جوڑنے کی حکیمانہ کوشش ہے ،خانقاہوں کی یہ منزل نہیں ہے، مگر خانقاہی مقصد کی تکمیل کے لئے افراد کو جوڑنے کا ذریعہ ضرور ہے ،ان چیزوں کی حیثیت گوند کی سی ہے ،جس کے ذریعے چیزوں کو ایک دوسرے چپکا دیا جاتا ہے ،ظاہر ہے کہ مقصد دوچیزوں کو آپس میں جوڑنا ہے،اور گوند اس کا ذریعہ ہے اور عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ نگاہ مقصد پر رہے نہ کہ ذریعہ پر ،اب طلب صادق کا ذوق ومزاج بہت کم ہوچکا ہے دین سیکھنے ،ذکر کی تعلیم لینے اور اللہ اللہ کرنے کی نہ عادت ہے نہ فرصت،ایسے وقت میں تعویذ وترکیب اور فائدہ رسانی کے مختلف طریقوں کے ذریعے لوگوں کو ذکر وفکر سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں کئی صدیوں سے جاری ہے لیکن یہ بنیادی بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہئے کہ خانقاہوں کے قیام کا یہ مقصد نہیں ہے ،بلکہ خانقاہی نظام میں بلند مقاصد کے حاصل کرنے کے لئے ان چیزوں کو ” ذریعہ“کے طور پر اپنا یا گیا ہے اور اس کے غیر معمولی نتائج سامنے آئے ہیں ۔(ارشادات رحمانی،ص:7)

اکابر اہل علم اور بزرگان دین نے جھاڑپھونک کا طریقہ اسی لئے اختیار فرمایا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے یہ عمل فرمایا اور اس میں انسانوں کے لئے نفع ہے،دعا تعویذ ،ترکیب کے ذریعہ نفع رسانی کا سلسلہ شہنشاہ کونین ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی جاری تھا ،بعد میں بھی یہ سلسلہ قائم رہا ،جب بعض صحابہ ؓ نے تعویذکا شرعی حکم دریافت کیا تو شہنشاہ کونین ﷺ نے فرمایا کہ اعرضواعلی رقاکم پھر ملاحظہ کے بعد فرمایا کہ” لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک "تعویذ میں کوئی حرج نہیں ہے جب تک کہ اس میں شرک نہ ہو۔پھر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ ایمان کی کمزوری کے اس دور میں قرآن وسنت کے جھاڑ پھونک کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے نجانے کتنے اللہ کے بندوں اور بندیوں کے ایمان کی حفاظت ہوتی ہے ،اگر صحیح طریقے سے اہل ایمان کی ضرورت پوری نہ ہو تو وہ غلط جگہوں پر جانے سے بھی نہیں چوکتے ،کبھی مزاروں آستانوں پر حاضری دے کر شرکیہ اعمال میں مبتلا ہوجاتے ہیں کبھی سفلی عمل کرنے والوں کے چکر میں پڑجاتے ہیں ،یا ساحروں سے علاج کرانے لگ جاتے ہیں ظاہر بات ہے کہ ان تمام شکلوں میں ایمان رخصت ہوجائے گا اس پہلو سے غور کیا جائے تو نفع رسانی کے اس طریقے کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور یہ راز بھی کھلتا ہے کہ ہمارئے بڑوں ، بزرگوں،اہل علم واہل ذکر نے اس راستے کو کیوں اپنا یا تھا اور اس نظام پر اتنی محنت کیوں کی گئی“(ارشادات رحمانی،ص:6تا9)

کام پیارا ہے نہ کہ چام:

خانقاہ رحمانی صرف روحانیت کامرکز ہی نہیں ، بلکہ یہاں سے ملک وملت کے لئے بھی بہت سے ایسے کام ہوتے رہتے ہیں جو نہ صر ف مسلم کمیونیٹی کے مفاد میں ہوتے ہیں ،بلکہ مفاد عامہ اور خدمت خلق کے تحت عام انسانوں کے لئے بھی کئے جاتے ہیں ،جس سے ہندو مسلم ،سکھ ،عیسائی ہرمذہب کے افراد براہ راست فائدہ اٹھا کر زندگی میں سکون محسوس کرتے ہیں ،وہ کام چاہے تعلیم و جانکاری کی لائن کا ہو یا علاج ومعالجہ اور یا ملک وملت کی فلاح وبہبود سے متعلق ہو ،حضرت صاحب کا نظریہ اس معاملے میں بھی کشادہ اور یکجہتی کاہے ،جس طرح ان کے کاموں میں تنوع ہے ،کام کے افراد میں بھی تنوع ہے ،یہی وجہ ہے کہ اگر ضرورت سمجھ میں آئی تو رحمانی تھرٹی کے لئے ریاست بہار کے ڈی جی پی رہے ابھیانند جی سے کام لینے میں بھی وہ نہیں ہچکچائے ، بہترمعالج کے طور پر سمجھ میں آیا کہ شیام جی اور چندن سنگھ دوبے ملت کے لئے مفید ہیں تو رحمانی فاو¿نڈیشن کے تحت ہیلتھ سینٹر کے شعبے میں ان سے کام لینے میں سبھوں سے آگے نظر آئیں گے،معاملہ چاہے مسلم پرسنل لا بورڈکے مقدمے کی پیروی کا ہو یا امارت شرعیہ کے تحت قائم ٹیکنیکل اداروںکو رفتار دینے کا ہو ،کام کے لوگوں کی اُنہیں تلاش ہوتی تھی، وہ بڑی پارکھی نگاہ کے مالک تھے،ایسے لوگ جہاں اُنہیں میسر آجاتے ، اٹھا کر کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کرلینے کا مزاج اُن کا پرانا تھا،فوری طور پر یہ نہیں دیکھتے تھے کہ اس کا بال کیسا ہے اور ناک کیسی ہے ،وہ کام دیکھتے تھے اور اُنہیں لگتا تھا کہ یہ قوم وملت کے لئے مفید ہے تو اُسے قریب کر لیتے تھے اور اس حد تک قریب کرلیتے تھے کہ جڑنے والا شخص خود ہی چند دنوں کی صحبت کے بعد اپنی وضع قطع درست کرنے لگتا تھا اور اُسے یہ احساس ہونے لگتا تھاکہ ” شریفوں “کے بیچ” شریف “بن کر ہی جینا چاہئے ۔حیات ولی کے مصنف نوجوان قلم کار ، شاہ عمران حسن نے دل کی بات لکھی ہے :

” میں مولانا کی بات کے پس منظر میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ مسلم قوم بحیثیت مجموعی اسلام کے حوالے سے جانی جاتی ہے،نہ کہ اسلام ،مسلم قوم کےحوالے سے جانا جاتا ہے۔یہی مزاج میں نے مولانا محترم کے اندر بھی دیکھا ہے ،اُنھوں نے کبھی بھی مجھ سے فروعی مسائل کو لے کر گفتگو نہیں کی،انہوں نے کبھی بھی میری وضع قطع پر کلام نہیں کیا ،اُنھوں نے ایک با ر عید کے خطبے کے دوران کہا تھا کہ ہماری اصل حیثیت یہ کہ ہم نہ دیوبندی ہیں ،نہ ہم بریلوی ہیں ،نہ اہل حدیث ہیں ،ہم صرف مسلمان ہیںاور یہی ہماری سب سے بڑی شناخت ہے “(حیات ولی،ص:14) مولانا رحمانی نے کبھی مسلک ومشرب میں ا لجھ کراپنا وقت ضائع نہیں کیا یا مسلک ومشرب کی وجہ سے کام کے ا فراد کو اپنے سے دور نہیں کیا ، ان کے یہاں یہ روایت بھی بڑی عجیب رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس ہرکام اور ہر مقام کے لئے الگ الگ افراد مہیا رہا کرتے تھے ،اسی لئےزندگی بھروہ شخصیتوں کی حفاظت کے بڑے پابند رہے۔

خانقاہ رحمانی کے کاز میں وسعت:

خانقاہ رحمانی کے کاموں میں وسعت دینے کے قائل بھی وہ شروع سے رہے ، وہ چاہتے تھے کہ خانقاہی نظام پھیلے اور بڑھے ،تاکہ مختلف طبقہ کے لوگ متوجہ ہوں ،جڑیں اور جڑ کر خانقاہی نظام سے فائدہ اٹھائیں ،لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کے بھی داعی تھے کہ خانقاہوں کا دائرہ عمل بڑھے اور پھیلے ضرور ،مگر اس کی روح متاثر نہیں ہونا چاہئے ،اگر دائرہ عمل کے پھیلاو کے نتیجے میں وہاں مرکزی بدلاوآیا تو سمجھاجائے گا کہ دین کے ایک بڑے شعبے میں تبدیلی کردی گئی ،جب کہ اس کی اجازت کہیں سے کہیں تک بھی نہیں دی جاسکتی ،البتہ خانقاہوں کے بنیادی مقاصد کی بقا کے ساتھ اگر قوم وسماج کے لئے کچھ کیا جاسکتا ہے تو اس سے گریز کی ضرورت نہیں۔چنانچہ حضرت ممدوحؒ نے اس نکتے کی وضاحت اپنے ایک ملفوظ میں یوں کیا ہے :

” خانقاہی نظام کا جو بنیادی مقصد رہا ہے اور ہے (تزکیہ نفس) وہ ہمیشہ باقی رہے گا ،اس میں کوئی شخص تھوڑی تبدیلی بھی نہیں کرسکتا اور اگر کوئی اس کی کوشش کرے تووہ ایک بڑے دینی شعبے کو برباد کرنے کی کوشش کہی جائے گی ،لیکن آج کے دور میں خانقاہی نظام میں وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے خانقاہی نظام کو پھیلانے بڑھانے اور متعارف کرانے کے لئے خانقاہ کے زیر اہتمام ایسے کام انجام دیئے جائیں ،جن کی وجہ سے امت کے مختلف طبقوں کے لوگ متوجہ ہوں اور ان میں دینی شعو ر اور ذکر وفکر کی عادت پیدا ہو ،ایسے کام خدمت خلق سے بھی متعلق ہوسکتے ہیں،تعلیمی اور سماجی ضرورت سے وابستہ بھی۔ بڑی فکر مندی کے ساتھ خانقاہی نظام کے دائرے اور اس کے منہج کی وسعت اور اس کے اصولی کاموں کو فروغ دینے کے لئے نئی راہوں کی تلاش کرنا چاہئے ،جن خانقاوں میں اس رخ پر کام ہوگا زیادہ وسیع اور زیادہ ہمہ گیر ہوگا “( ارشادات رحمانی،ص: 9)

قانون اسلامی کی تدوین :

خانقاہ رحمانی کے اسی بلند سونچ کی وجہ سے یہاں کے ماحول میں شروع سے مختلف طرح کے دینی ، دعوتی ، فلاحی،سماجی اورملکی وملی کام ہوتے رہے ہیں ۔یہی خانقاہ ہے جہاں کے ماحول میں ” اسلامی قانون متعلق مسلم پرسنل لا “ کی تدوین وترتیب کا ایک بڑا تاریخی کام ہوا ،اس کام کے انداز واطوار نے گرچہ فتاوی عالم گیری کی یاد تازہ کردی ،مگراس کام کی نوعیت ،حساسیت اور ضرورت نے اس کی اہمیت کو دوچند کردیا ،فتاوی عالم گیری کی جمع وترتیب کا کام ٓآزاد ماحول میں ہوا تھا ،وہاں نہ کوئی چیلنج اور نہ ہی وقت کی تعیین وتحدید! حکومتوں کے سائے میں ساری سہولتیں ایک چھت کے نیچے ،مگر یہاں تو چیلنج ہی چیلنج، ہرطرح کے وسائل کے فقدان کے ساتھ محدود وقت میں جس طرح مختلف مرحلوں سے گذر کر اتنا بڑا عظیم کارنامہ خانقاہ رحمانی کے بزرگوں نے انجام دیا ،یہ اُسی ” خانقاہی نظام میں وسعت “ والی سونچ کا مظہر ہے ۔

جبری نسبندی کے خلاف :

جب ملک میں نسبندی کا عام اعلان آگیا اور اس کو لازمی قرار دیدیا گیا تھا ،صورت حال ایسی تھی کہ سبھوں کو خاموش کردیا گیا یا مصلحتاً لوگ چپ ہوگئے ،کالم نگاروں نے اس موضوع پر لکھنا بند کردیا ،ہر طرف سناٹگی تھی ،حق بیانی کے لئے کسی کی جرئت کہاں رہ گئی تھی ،تب بھی خانقاہ رحمانی نے اپنے فرض کو پورا کیا اور تمام تر قفل بندیوں کے باوجود ،پلاننگ کے ساتھ افراد کی مدد حاصل کی ،نسبندی کے خلاف مواد اکٹھا کیا ،کتابیں لکھی گئیں،پوسٹر ،پمفلٹ تیار کرائے گئے پھر پوری قوت کے ساتھ حکومت وقت سے لوہا لینے امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ مت اللہ رحمانی ؒ میدان کار زار میں کود پڑے ،حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے لئے مجبور کیا ،اہل قلم کو حوصلہ دیا وہ بھی میدان میں آئے ،حکمت ومصلحت کی دبیز چادروں کو ہٹایا تو اور بہت سے احباب سامنے آئے ان میں ایک معتبر نام مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کا تھا جنہوں نے ماحول سازی کے لئے ٹرین اور دوسری عوامی جگہوں پر اشتہار وغیرہ چسپاں کرنے کا جوکھم بھرا کام کیا تھا ،اڈ طرح مکمل طور پر جبری نسبندی کے خلاف مورچہ سنبھالا گیا ،تبھی جبری نسبندی کی لازمیت کو اختیار ی خانوں میں رکھ کر حکومت اپنی عزت بچانے پر مجبور ہوئی۔

بچیوں کا قتل عام :

اسی ہندوستان میں ایک دور ایسا بھی گذرا جب رحم مادر میں بچیوں کے قتل عام کا رجحان تیزی سے بڑھتا جارہا تھا ،تب خانقاہ رحمانی نے اس ظلم کے خلاف بڑے پیمانے پر آواز کو بلند کیا ، حکومتوں کو عاردلایا ،حقوق انسانی کمیشن کی پوری لابی کو جگا یا اور للکارا اُسے اپنی ذمہ داری کا احساس کرایا ،معتبر اہل قلم کو اس طرف متوجہ کیا ، کتابچے تیار کرائے اورمختلف مرحلوں کے اندر ملکی اخبارات میں شائع شدہ رپورٹوں کی روشنی میں تازہ اعدادوشمار پیش کر مضبوط ومدلل انداز میں ” لڑکیوں کا قتل عام “ جیسے قیمتی رسالے ہزاروں کی تعداد میں شائع کرا کر عام لوگوں تک پہونچا یا گیا ، مدارس کے علماء، مساجد کے ائمہ اور سنجیدہ دانشور طبقہ نے رحم مادر میں جنین کے قتل کے گناہوں کو اپنا موضوع بنایا ،انھوں نے نہ صرف مسلمانوں اور عام لوگوں تک خانقاہ رحمانی کے صاحب سجادہ کے درد اور بے چینی کو پہونچا یا ،بلکہ حکومتی سطح پر بھی شعبہ صحت کو بیدار کر نے اور اسے حرکت میں لانے میں اپنا مثالی کردار ادا کیا ۔

بھارت میں سوریہ نمسکار :

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کانوینٹ اور سرکاری اسکولوں میں سوریہ نمسکار، ہون اور یوگاکے ذریعے مسلم بچوں کا عقیدہ وایمان بگاڑنے کی کوشش کی جانے لگی ،انہیں ارتداد کے دہانے پر کھڑا کیا جانے لگا ،سرپرستوں اور گارجنیوں کو ” اچھی تعلیم“ کے نام پر راضی کیا جارہا تھا،خاصے پڑھے لکھے سمجھدار لوگ اپنے بچوں کو عصری اداروں میں ڈال کر عافیت محسوس کررہے تھے اور ایک عام رجحان ” چلو اسکول چلو“ کا بنتا جارہا تھا ،مدارس اسلامیہ کی طرف سے ذہن بھٹکتا جا رہا تھا، تب خانقاہ رحمانی کے بزرگوں نے نئی نسل کے تعلق سے عقیدہ آخرت ،تعلیم کا بنیادی مقصداور علم کی اہمیت وضرور سمیت ” پیس ایجوکیشن “ کے نام پر کی جانے والی تجارت پر الگ الگ موقعے سے اِس مدعے کو اٹھایا ،جلسوں میں اس کو اپنا موضوع بنایا ، بڑے سائز میں اسٹیکر لگوایا اس طرح لوگوں کو سمجھا یا بجھایا اور بتایا کہ:’یہ امت بحیثیت مسلمان تعلیم یافتہ ہو”

” مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمان رہتے ہوئے تعلیم یافتہ ہونا ہے ،نئی نسل جو مدرسہ کی گذرگاہ کو چھوڑ کر دوسرے تعلیمی اداروں میں جارہی ہے ،اانھیں دین کی بنیادی باتوں کا علم نہیں ہوتا ،میرے پاس ایسے پڑھے لکھے نوجوان آتے رہتے ہیں ،جو استغفار ،درود شریف اور نماز پڑھنے کے طریقے سے بھی واقف نہیں ہوتے ،آپ اسے کمی سمجھیں یا نہ سمجھیں ،مگر یہ حقیقت ہے اس ملک میں ہمارا یہ مسئلہ نہیں ہے تعلیم یافتہ ہوں ،اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ امت بحیثیت مسلمان تعلیم یافتہ ہو،ہم میںسے ہر ذمہ دار فرد کو اس نکتہ کو ذہن میں رکھنا چاہیے ،ہمارا دین علم حاصل کرنے کی بھر ہور ہمت افزائی کرتا ہے مگرہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارا علم ہمیں دینداری سے دور تو نہیں کر رہا ہے“۔

اوقاف کا مسئلہ:

جب اوقاف اسلامی پر حکومتوںکی نیت گڑ بڑ ہورہی تھی اور مختلف ایکٹ اور قانو نی داو¿ پیچ کے بہانے اس پر اپنا غاصبانہ ہاتھ رکھنا چاہ رہی تھی تب خانقاہ رحمانی کے موجودہ روح رواں مولانا سید محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم نے وقف سے متعلق نہ صرف اپنی بے باک رائے کا اظہار فرمایا ،بلکہ اس مسئلے میں براہ راست پڑکر حکومت کی بدنگاہی سے اسلامی اوقاف کے تحت کھربوں کی سمپتی کو فی الحال ضائع ہونے سے بچایا اور حکومت کے افسروں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ:

میں خود ایک بڑے وقف کا متولی ہوں ،اورایک زندہ خانقاہ کا سجادہ نشیں ہوں ایک ایسا مسلمان ہوں جو رننگ سیاست کو سمجھتا ہوں اور اسی حیثیت سے بات کررہا ہوں ،تھوڑا بہت قانونی داو پیچ کو سمجھ لیتا ہوں ،لوگ بے سمتی کا شکار ہورہے ہیں اور ادھر اُدھر سے وقف کی سنی سنائی باتوں پر قانون بنانے بیٹھ جاتے ہیں ،قانون ایک بے جان چیز ہے، اُسے عمل کے لائق بنایا جانا چاہئے،وقف ایکٹ میں ہم ہر ایسی ترمیم کا خیر مقدم کریں گے جو وقف کے مقاصد اور شرعی جوازوںسے ہم آہنگ ہو“۔ مسلمانوں کے ذمہ دار طبقہ اور سماج کے شعور مند افراد سے بھی اس بارے میں یہ بات کہی تھی کہ :

” ہم سبھوں کی کوشش ہونی چاہئے کہ وقف کے نئے قانون کے ذریعے اوقاف کی جائداد کی حفا ظت اور ترقی کی راہ نکالیں ،جس کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ جہاں جہاں وقف کی جائدادیں ہیں ،ان کی فہرست بنا کر ،انھیں صوبائی وقف بورڈ میں رجسٹرڈ کروائیں،(چاہے وہ کسی کے قبضے میں ہی کیوں نہ ہو)رجسٹریشن کے بعد اس کے لئے کام کرنے والے افراد کی مقامی کمیٹی وقف بورڈ کے ذریعے بنوائیں ،اس کے بعدپہلے اخلاقی اور بعد میں قانونی طور پر اس وقف جائداد کو خالی کرانے کی جد وجہد شروع کردیں اس طرح منظم طریقے پر مسلسل پروگرام بناکر نہ تھکنے والے ارادے کے ساتھ کام کیا جائے ،تو بہت بڑی اجتماعی جائداد تیار ہوجائے گی اور ملت اسلامیہ خود کفیل ہوتی چلی جائے گی“( 2013کاترمیم شدہ وقف ایکٹ)

تین طلاق کا مسئلہ اور حکومت کی ہٹ دھر می :

گزشتہ سال تین طلاق کے مسئلے پر لوک سبھااور راجیہ سبھا سے بل منظور کرواکر حکومت نے تین طلاق کو کالعدم قراردیدیا اور ساتھ ہی طلاق دینے والو ں کے لئے تین سال کی سزا سنا کر اس کے لئے جیل کو ارام گاہ بنانے کا اعلان بھی کردیا ہے ،مگر اس درمیان خانقاہ رحمانی کی طرف سے مسلسل کوشش کی گئی کہ اس بل کو منظور ہونے سے بچالیا جائے ،ایک موقع پر لوک سبھا سے منظور ہونے کے باوجود راجیہ سبھا سے پاس ہونے نہیں دیا گیا لاکھوں کی لاکھ کی تعداد میں مردو خواتین سے اس بات پر دستخط کرائے گئے کہ (۱) ہم شریعت کے قانون پر عمل کرنے کے لئے پورے طور پر تیار ہیںاور شرعی قوانین سے مطمئن ہیں (۲)ہم یونیفارم سول کوڈ نہیں چاہتے۔(۳) ہم شرعی معاملات کے اندرمسلم پرسنل لا بورڈ پر یقین رکھتے ہیںاور اس کی لیڈر شپ پر پورا اعتماد کرتے ہیں۔یہ دستخط شدہ فارم صدرجمہوریہ ہند،وومنس کمیشن اور لاکمیشن کے ای میل آڈی پر تقریباً چار کروڑ تراسی لاکھ سینتالیس ہزار پانچ سوچھیا نوے تک بھیجے گئے ،اُن دستط کرنے والوں میں دوکروڑ نولاکھ نوے ہزار چھ سو باسٹھ مرد اور دوکروڑ تہتر لاکھ چھپن ہزار نوسو چونتیس خواتین شامل تھیں۔اسی طرح ہندوستان میں پہلی بار مرد کے علاوہ سینکڑوں جگہ خواتین نے لاکھوں کی تعداد میں مظاہرے کئے، مگر

بگڑ تی ہے جب ظا لم کی نیت ۔ نہیں کا م آ تی دلیل و حجت

حضرت رحمانی ؒاس درمیان بہت دکھی ہوئے ،مگر وہ اپنے حصے کے کام اور کوشش میں کمی نہیں کرتے ،اُنہوں نے بطور اسباب اپنی توانائی اور حکمت وتدبر کا بھر پور استعمال کیا اور پھر” مرضی مولیٰ ازہمہ اولیٰ “ایک موقع پر ملکی عدلیہ اورمنصفوں کی” خانہ خرابی“ کااظہار انہوں نے یوں کیاتھا : ” یہ واقعہ ہے کہ آج نہ ایڈمنسٹریشن صاف ستھرا اور ایماندار ہے اور نہ جوڈیشری صاف ستھری اور ایماندار ہے، جوڈیشری کا ایک بڑا طبقہ چور ہے،وہ پیسے لے کر فیصلہ کرتا ہے ،اسی طرح جس طرح کا تعصب ،جس طرح کی تنگ نظری آج پھیلی ہوئی ہے اور جس طرح کا مسلم مخالف ذہن پورے ملک میں مرکزی حکومت ،اس کی پارٹی اور آر ایس ایس نے بنائی ہے،اس کے نتیجے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اگر فیصلہ کرنے والا افسر اس ذہن سے متاثر ہوگا تو فیصلہ کیا آئے گا اور کیسا آئے گا انھوں نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ نے کامکھیا مندر آسام (جہاں کامکھیا مندر کے ساتھ چھوٹے چھوٹے کئی عدد مندر ہیں،بڑے مندر کے پجاری کو صرف مردوں کے ووٹ سے چنا جاتا ہے ،عورتوں کا مطالبہ تھا کہ ہمیں بھی ووٹ کا حق ملے) کے سلسلے میں مذہبی یقین کو کسٹم قرار دیتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا کہ صرف مردہی ووٹ کریں گے ،چوں کہ مردوں کا ووٹ دینا کسٹم میں چلا آرہا ہے ،ہم اس میں چھیڑ چھاڑ نہیں کرسکتے،یہاں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کسٹم کسی کتاب میں لکھا ہوا نہیں ہے ،آٹھ نوسو سال کی زبانی روایات پر قائم ہے ،سپریم کورٹ نے مندر کے سلسلے میں کسٹم کی اہمیت سمجھی اور جوچیز (تین طلاق )چودہ سو سالہ کسٹم سے بھی ثابت ہے اور کتابوں میں بھی لکھی ہوئی ہے ،سپریم کورٹ نے اسے نظر انداز کردیا اور یہاںمذہبی یقین کے خلاف فیصلہ سنا دیا “(از: خطبہ صدارت ،شجاعل پور مونگیر)

دعوت دین کے لئے جدید ذرائع کا استعمال:

خانقاہ رحمانی کا مزاج شروع سے افراط وتفریط سے پاک رہا ہے ،اسی لئے عصر حاضر میں وہ تبلیغ دین کے لئے جدید آلات کے استعمال کا بھی خواہاں ہے ، موجودہ وبا ”کورونا “کو لے کر جماعت والوں کے خلاف جس طرح کا نفرت انگیز ماحول تیار کیا گیا ہے اُس سے بظاہر معروف طریقے کے مطابق اب دعوتِ دین کا کام آسان نہیں لگتا ،ایسے میں طریقہ کار کی تبدیلی سے بھی کام کیا جاسکتا ہے ، ظاہر ہے کہ زمانے کی نت نئی چیزیں جب اپنی ذات کے لئے استعمال ہوسکتی ہیں یا غیراُن آلات کا استعمال اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کرسکتا ہے توہم اُن آلات کااستعمال اپنے دفاع اور حق وسچ کی دعوت کے لئے کیوں نہیں کرسکتے ،جب کہ موبائل انٹر نیٹ اور کمپیوٹر جیسی ایجادات نے گھر گھر اپنی پینٹھ بنالی ہے ،تو ہم اُن آلات کی مدد سے اپنی بات منٹ وسکنڈ میں ہزاروں لاکھوں افرادتک پہونچانے سے کیوں گریز کریں ،کوئی اگرشر کے لئے اس کا استعمال کرتا ہے ،توہم خیر امت ہونے کی حیثیت سے اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ہم بھی خیر کے کاموں میں مثبت زاویئے سے اُس کا بھر پور استعمال کریں :

” اِن آلات کی اہمیت ہمارے دشمن اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ،اس لئے وہ ان آلات کا بھر پور استعمال اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کررہے ہیں،انٹر نیٹ کے اوپر سینکڑوں ویب سائٹس ہیں،جن میں اسلام کے خلاف غلط سلط باتیں موجود ہیں ،ہم یہ بات زور شور سے کہتے ہیں کہ جدید آلات کا استعمال مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کیا جارہا ہے ،لیکن اس کے جواب میں اسلام کے تعارف اور اسلامی تعلیمات کے نشر واشاعت کے لئے کیا کرسکتے ہیں اور کیا کررہے ہیں ،اس پر ہماری توجہ نہیں ہوتی ،اسلام کی انقلاب آفریں تعلیمات اور اس کے مو¿ثر ترین پیغام کو عام کرنے کے لئے جدید ٹکنالوجی کا استعمال ضروری ہے اور اسے نظر انداز کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے“(ارشادات رحمانی، ص:10مطبوعہ خانقاہ نقشبندیہ رحمانیہ مہاراشٹر)

قانون ساز کونسل میں :

مولانا محمد ولی رحمانی صاحبؒ کے کام کا انداز ،سونچ کا زاویہ اور گرفت عام علماءدین سے بظاہر الگ تھلگ اور کافی بلند رہا ،مگر سارے کاموں کو وہ دین داری کے جذبے سے نیکی اور ثواب سمجھ کر کرتے رہے ،یہی وجہ ہے کہ ان کے ہر اقدام کو پذایرائی بھی ملتی ہے اور کامیابی بھی۔ کاموں کے کرنے میں وہ دُھن کے پکے تھے،تحریکی مزاج رکھتے تھے،کچھ نہ کچھ نیا کرتے رہنے کے عادی تھے اور شاید اِسی عادت نے انہیں الگ الگ سمتوں کے سفر کا عادی بھی بنا دیا تھا، ان کی زندگی اسی خاکہ سازی اور خاکوں کو سجا نے میں بیتی اور عمر کا خری مرحلہ بھی مختلف پروجکٹوں میںرنگ بھر نے میں گذرگیا ،جب کہ عموما ًیہ وقت لوگوں کے آرام کا ہوتا ہے،مگر مختلف جہتوں سے جب انہیں لگتاتھا کہ یہ کام ہونا چاہئے ،قوم وملت کے لئے یہ مفید ہے تو پھر وہ اپنے ذہنی امور کو چھیڑ دینے کے بعد خارجی سطح پر اُس وقت تک نہیں چھوڑتے تاآں کہ وہ کام، اپنے انجام کو نہ پہنچ جائے ۔ہندوستانی علماءمیں وہ اپنی پہچان ہی الگ رکھتے تھے ،چاہے وہ سماجی ،علمی ،تنظیمی اور یا سیاسی مرحلہ ہو ہر جگہ وہ منفرد نظر آتے تھے ، یہاں تک کہ بہار قانون ساز کونسل میں بھی ڈپٹی چیرمین کی حیثیت سے ان کا آہنگ بالکل الگ رہا ۔

محمد سلیم کی ڈاڑھی کے معاملے میں سپریم کورٹ کے جسٹس کاٹجومارکنڈے کا تحریری معافی نامہ اس کی زندہ مثال ہے اور ہندوستان کی تاریخ کا پہلاواقعہ ہے جب کسی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے فیصلے کو واپس لیتے ہوئے معافی تک مانگی ہو ،۔اس کے علاوہ اُن کی زندگی میں ہونے والے کام او ر درجن بھر سے زائد تحریکات سے بخوبی اندازہ لگا نا ،اہل نظر کے لئے کوئی مشکل نہیں ،اِسی طرح جب وہ سیاست میں گئے تو لگاتار 22سال تک رکن اور ڈپٹی چیرمین تک رہے ،اس درمیان انہوں نے سیاسی گلیاروں میں مضبوط پکڑ کے ساتھ کام کی سطح سے اپنی پہچان بھی بنائی اور اپنی عالمانہ شناخت کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے ترجمان کی حیثیت سے فرائض منصبی کو بھی بخوبی نبھاتے رہے ۔

ایجوکیشن سسٹم اور قوم سے دردمندانہ خطاب :

تعلیم کی طرف جب ان کی توجہ ہوئی تو علمی میدان میں بھی انہوں گہرے نقوش چھوڑے ہیں ،جن میں رحمانی ” تھرٹی“ ایک بڑا نام ہے جس سے

ملک وبیرون ملک حیران کن اثرات مرتب ہوئے ہیںاور نئی نسل کا حوصلہ بلند ہوا ہے ،اس کے بعد سے کمزور خاندان کے بچوں میں بھی کچھ بننے کا ذہن بننے لگا ہے اور رحمانی تھرٹی اوررحمانی بی ایڈ کالج جیسے عظیم عصری اداروں کی رہنمائی میں بن رہے ہیں اور کچھ اپنے پر تول رہے ہیں ،ان شاءاللہ یہ سب بچے بھی بنیں گے اور بہت کچھ بن کر ملک وقوم کا نام روشن کریں گے۔ عظیم الشان یونیورسٹی کے قیام ارادے سے رحمانی فاو¿نڈیشن کے زیر انتظام کشن گنج کے پوٹھیا بلاک میں 285/ ایکڑ زمین کی حصولیابی بھی ،اعلی عصری تعلیم کے منصوبوں میں حضرت ممدوح کا تاریخ ساز اور یادگار کارنامہ ہے،مولانا محترم نے اپنی قوم کے لوگوں سے نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے لئے اداروں کے قیام پربارہا توجہ دلائی تھی اور بڑے کرب ودرد کے ساتھ توجہ دلائی تھی ،ایک موقع تھا جب پٹنہ میں حضرت صاحبؒ نے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے صدسالہ اجلاس میں جہاں ملک کی مقتدر شخصیات ،وزیر اعلی بہار سمیت چوٹی کے ریاستی افسران اور پورے بہار سے آئے ہوئے ہزاروں ہزار کا منتخب مجمع ،آپ نے اس اجلاس میں برسر اسٹیج جو تقریر فرمائی تھی وہ آپ کی زبان نہیں درد بول رہا تھا ،حکومت کی منافقانہ روش پر بے چین دل کا غبار تھا جو نکلا پڑا جارہا تھا ،اس میں آپ نے جہاں مسلمانوں کو جھنجھوڑا ،ان کی سرمہری کا علاج بتلایا،مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے پورے سسٹم کے ساتھ حکومت کا سوتیلا رویہ اور مسلمانوں کے عام اداروں کے ساتھ حکومت کی رخنہ اندازی ،لاپرواہی اور بے رُخی پر جس طرح آپ نے گفتگو فرمائی تھی وہ صرف آپ کاحصہ تھا اور اپنے حصے کا فرض آپ نے اس طرح نبھایا کہ پورے مجمع پر سکوت طاری تھا ،وزیر اعلی ذہنی پشیمانی میں مبتلا تھے تو دیگر افسران پسینہ پسینہ،سارے مہمان ہکا بکا ،آپ کی تقریر آخری تو نہیں تھی ،مگر ہاں خلاصہ اجلاس ضرور تھی ،یہاں اس کا کچھ حصہ پڑھ جایئے!

” دل میں اس بات کو جگہ دیجئے اور یہ پیغام اس مجلس سے لے کر جایئے! یہ اور اس طرح کے بہت سارے ادارے زندہ ہیں تو ہم اور آپ زندہ ہیں اور اگر یہ ادارے نہیں ہوں گے ، تو ہمارے اور آپ کے وجود کا احساس بھی کسی کو نہیں ہوگا ،کیوں کہ اداروں کی زندگی اور تابندگی میں قوموں کا وجود پوشیدہ ہوتا ہے یاد رکھئے ! بڑی ضرورت ہے اس ملک کو اچھے انسانوں کی۔پڑھے لکھے انسانوں کی۔باکردار انسانوں کی۔آپ اس کا حصہ بن جائیں گے تو ملت کا بھی دائرہ ہوگا اور ملک کا بھی افائدہ ہوگا۔اس لئے معیاری اداروں کو بنائیے اوربڑھائیے۔اور آنے والی نسلوں کے لئے معیاری تعلیم و تربیت کا انتظام کیجئے،ایک شخصیت تھی جس نے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ آپ کو دیا۔آپ کی بھی زمرہ داری ہے کہ آپ یہاں وہاں چھوٹا بڑا اداری بنائیں اور آنے والی نسلوں کو تعلیم کے ادارے ،ہنر کے ادارے دیں اور ان کے مستقبل کو روشن بنائیں!

یاد رکھئے! ناممکن کچھ بھی نہیں ہے ،صرف مضبوط ارادوں کی ضرورت ہے ایسا ارادہ جس سے طوفاں کے دل دہل جائیں ،ایسا عزم جس سے پہاڑ جھکنے پر مجبور ہوجائے ،آپ ادارے قائم کیجئے ،حکومت سے بھی مدد لیجئے ،مگر حکومت کی امداد پر بھروسہ ہر گز نہ کیجئے ،اقلیتوں کے اداروں کو مالی سہولت پہونچانا حکومت کی مہربانی نہیں ،،آئنی اور قانونی جواب دہی ہے ،اس لئے حکومت سے مالی سہولت ضرور حاصل کیجئے ،مگر اللہ کی مدد اور اپنے پیسے ،اپنی طاقت اور اپنی عقل پر اعتماد کیجئے ،اسے سمجھئے کہ جو کام آپ کے کرنے کا ہے وہ آپ کو ہی کرنا ہوگا،حکومت نہیں کرے گی میں جانتا ہوں کہ ادارے قائم کرنا آسان نہیں ہے ،اس میں مشکلات ہیں ،لیکن بھلا بتائیے کہ آپ اگر چیلنجوں کو قبول نہیں کریں گے تو کون کریں گے ،اگر آپ چیلنجوں کو قبول نہیں کریں گے، تو یاد رکھئے ،! آنے والے دنوں میں آپ کی اولاد اور آپ کی نسلیں سر اٹھاکر اس سرمیں پر نہیں چل سکیں گی اس لئے چاہے مشکلات ہوں ،چاہے آسانیاں ،آنے والے دنوں میں اپنی نسلوں کو سر اٹھا کر چلنے کے لئے اپنے ادارے قائم کرنا ضروری ہے ،ایسا ادارہ جس میں ہر ہندوستانی پڑھ سکے ،اور یہ سمجھے کہ مسلمان صرف لینے والی ملت نہیں ہے ،دینے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے ،اور یہ دینے کی پوزیشن میں ہے ،آپ اپنی پوزیشن کو سمجھئے اور مضبوط کیجئے ہمارے صوبے میں تعلیم کا انتظام اچھا نہیں ہے ،صرف ایک مثال لے لیجئے کشن گنج ضلع کی ،جو بہار میں مسلمانوں کی آبادی کا سب سے بڑا ضلع ہے وہاں کا تعلیمی جائزہ جو سرکاری ہے ،بتا تا ہے کہ ضلع کے ہائی اسکول کے ایک کمرے میں اوسطاً 97/ طلبہ پڑھتے ہیں ،27/ ادارے 2+ کے ہیں ،مگر اس میں ایک بھی ٹیچر مسلمان نہیں ہے ،ٹھاکر گنج میں مرکزی حکومت نے آئی آئی ٹی کے لئے رقم دی ،صوبائی سرکار نے چوں کہ اس میں اپنا حصہ نہیں دیا ،اس لئے وہ کا م آج تک وہاں ں نہیں ہوا، اِسی طرح وہاں دو،سرکاری کالج ہیں ،ایک میں تو 80/ فیصد ٹیچر موجود ہیں ،اور ایک کی صورت حال یہ ہے کہ صرف دوٹیچر پڑھا رہے ہیں۔یہ ہے مسلم علاقوں کی تعلیم کے لئے سرکاری انتظام اور اس کا مختصرجائزہ !

یاد رکھئے ! ہمیں اپنا حق لینا ہوگا ،بلکہ اس ملک میں ہمیں اپنا حق چھیننا ہوگا ،اور اس کے لئے ہمیں جان ومال کی قربانی پیش کرنی ہوگی ،کامیابی اور سرفرازی ہمیں تحفے میں نہیں ملنے والی ہے ،جہاں پیمانہ الگ الگ ہو ں وہاں جہد مسلسل اور جرئت رندانہ کے بغیر کام نہیں چلا کرتا ،ابھی کل کی بات ہے ،ایک افسر نے مجھ سے کہا ،مولانا صاحب! ہم زمین کے لئے گولی تو نہیں چلا سکتے ،میں نے کہا بات تو بالکل صحیح ہے آپ کی ،آپ کی گولیاں تو بھجن پورہ کے مسلمانو ں کے لئے ہیں ،آپ کی گولیاں تو نوادہ کی مسجد کے لئے ہیں، زمین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کے لئے نہیں ،گولیاں کھانا تو پیدائشی حق ہمارا ہے، اُن کا نہیں جو قانون توڑتے ہیں ،،لیکن یاد رکھئے !پیمانے دوہوجائیں یا چار ،ہمارے ساتھ سلوک جیسا بھی کیا جائے ،ہمارا یہ عزم ہونا چاہئے اور مضبوط و مستحکم کہ گولیاں کھائیں گے تو کھائیں گے ،لیکن تعمیر کا سلسلہ جاری رہے گا ،پوری ہمت کے ساتھ اور پورے حوصلہ اورعزم کے ساتھ“۔(بہار کے مسلمان،ص:11)

شہریت کا تحفظ:

1992 میں اور 2001 میں وزارتی گروپ کی رپورٹ پر ردعمل کے نتیجے میں حضرت مولانا رحما نی رح نے شہری تحفظ کے معاملے کو وزندار طریقے پر اٹھا یا اور حکومت کو اُسی کی زبان میں جواب دے کر معاملے کا جرئت مندانہ تعاقب بھی کیا، جس کے نتیجے میں یہ ہنگامہ دبا، آپ نے جس فراست ،فکری تدبیر اور قانونی وسماجی لہجے میں ارریہ کے تاریخی اجلاس سے لاکھوں کے مجمع میں دوٹوک خطاب کیا اس نے اس ہنگامہ کو خاموش کرنے میں نمایاں اور مثالی کردار ادا کیا ہے ،اجلاس میں جہاں حکومت کے نمائندے،میڈیا کے افراداور سرکاری جاسوس تک تھے ،آپ نے کہا :

”یہاں کوئی بنگلہ دیشی مسلمان نہیں ہے ،ہاں! ایک پاکستانی ہے ،جس کا نام لال کرشن اڈوانی ہے جو پاکستان سے آیا ہے ،یہ بنگلہ دیشی کا ہوا مسلمانوں کے خلاف ساز ش ہے ،عام مسلمانوں کو اس سے پریشان کیا جارہا ہے ،،بنگلہ دیشی دراندازوں کے عنوان کو ہمارے مضبوط قدم روند ڈالیں گے،اور اس اجتماعی مصیبت کا ہم اتحاد ویکجہتی اور عزم وحوصلہ کے ساتھ مقابلہ کریں گے‘ ‘۔

مدارس ملک کی ضرورت ہیں: وزارتی رپورٹ کا سچ بتلاتا ہے کہ حضرت رحمانیؒ اس کی تہہ تک گئے تھے اور وہاں تک جانے کے لئے جن صلاحیتوں اور جان وجگر کا انہوں نے سہارا لیاتھا وہ یقیناً ”جوکام ہم سے ہوسکے گا وہ اوروں سے کیا ہوگا “ کا مصداق تھا۔ مولانا کے ایک بہت ہی قریبی سے معلوم ہوا کہ انہوں اپنے آپ کو کھپا دیا اور اس احساس ودر دسے کھپایا جیسا کہ امام محمد ؒنے علم کی دنیا میں اپنے کو جگا کر رکھتے ہوئے فرمایاتھا کہ اگر محمد بھی سوگیا تو امت کو مسئلہ کون بتائے گا ،اسی احساس ودرد نے ”گوشے میں قفس کے، مجھے آرام بہت ہے “ کو نکارتے ہوئے ” نکل کر خانقاہوں سے اداکر رسم شبیری“ پر مجبور کیا آپ نے وزارتی گروپ کی رپورٹ کا ایسا زبردست آپریشن کیا کہ اس وقت کے وزیر اعظم تک کو اس پر صفائی دینی پڑی اور اس صفائی پر بھی جو کلاس ان کا لیا گیا وہ سب پڑھنے اور جاننے کے ساتھ ساتھ یاد رکھنے کی چیز ہے اور اپنے اندر وہی قوت فیصلہ اور جرئت وعزیمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ بوقت ضرورت اس نسخے سے فائدہ اٹھا یا جا سکے ۔

وزارتی گروپ جس میں یشونت سنہا ،جسونت سنگھ ،لال کرشن اڈوانی اور جارج فرنانڈیز ، چاروں وزرا پر مشتمل ایک گروپ بنایا گیا تھا ،جس کا مقصد ملک کی سلامتی وتحفظ کے پیش نظر رپورٹ تیار کرنا ، ان چاروں مرکزی وزرا کی سرپرستی میں 135صفحات کی جو رپورٹ تیار ہوکر پیش کی گئی ،اس میں صاف طور پر مدارس کو نشانہ بنایا گیا اور کہہ دیا گیا کہ ملک میں پھیلے یہ مدارس ،ملکی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں ، حضرت مولانا رحمانی نے پہلے بالغ نظری سے رپورٹ کا فکری جائزہ لیا اور پھر مجلس مشاورت کے پلیٹ فارم سے چند معزز شخصیات کو ساتھ لے کر وزیر اعظم اٹل بہاری سے ملاقات کی اور رپورٹ کی خامیوں اور کمزوریوں کا تذکرہ کیا تو وزیر اعظم نے معصومانہ جواب دیا : ” مدارس نے جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا ہے ،مدارس مذہبی اور روحانی تعلیم کی آماج گاہ ہیں ،یہاں پر بچوں کی اخلاقی تعلیم اور روحانی تربیت کی جاتی ہے ” مولانا رحمانیؒ وزارتی گروپ کی رپورٹ کی موجودگی میں وزیر اعظم کے اس بیان سے مطمئن نہیں تھےوزیر اعظم کو صاف لفظوں میں رپورٹ کی خامی تسلیم کر لینی چاہئے تھی اور وفد کو وہ اطمینان دلاتے کہ اس غلط رپورٹنگ پر ایکشن لیا جائےگا،ا س لئے انہوں نے برملا وزیر اعظم کے بیان کو ” لفظی بازیگری“ قرار دیتے ہوئے ان سے دوٹوک سوال بھی کیا کہ : ”آزادی کے بعد سے لے کر آج تک اگر کسی مدرسے میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوا ہو تو بتلائیے اور کسی سرکاری یونیورسٹی کا نام بتائیے جہاں قتل کا واقعہ نہ ہوتا ہواور 302کا کیس نہ چلتا ہو”

اس سلسلے میں ملک بھر میں اجلاس منعقد ہوئے اور بہت سے اجلاس میں خودشریک بھی رہے ”ناموس مدارس اسلامیہ کنونشن “کے عنوان سے ایک بڑا تاریخی اجلاس آپ کی صدارت میں مونگیر خانقاہ رحمانی کے احاطے میں منعقد ہوا جس میں تمام مکاتب فکر کے ممتاز شخصیات کے علاوہ دیگر سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی کرنے والے افراد نے بھی شرکت کی اور سبھوں کی ز بان نے ”حق اور سچ “ کی ترجمانی کی اور خانقاہ رحمانی کی اس تحریک کی نہ صرف ستائش کی بلکہ اپنے قائد ورہنما صدر اجلاس کی قیادت کو سراہا اور اور اجلاس کو وقت کی ضرورت قرار دیا تھا،اجلاس کی کامیابی کے تعلق سے بعض مبصرین نے اسے خلاصہ اجلاس بھی بتلایااور مکمل تیاریوں کے ساتھ بہت ہی منظم شکل میں اجلاس کو پیش بھی کیا گیا تھا ،

سماج کی اصلاح:

سماج کی اصلاح کا کام بڑا دیر پا اور مشکل ترین کام ہے ،مگر یہ کام کرتے رہنے کا ہے ،خانقاہ رحمانی کا اس حوالے سے بھی اہم رول رہا ہے اور سچ بولا جائے ،تو یہ سمجھئے کہ خانقاہ رحمانی صرف چند مخصوص اورقدیم ترین طریقوں کی مشق اور اس کے ذریعے اصلاح کی جگہ نہیں ،بلکہ یہاں کے بزرگوں نے کل بھی گاو¿ں گاو¿ں قریہ قریہ چل پھر کر سماجی واخلاقی اصلاح کاکام کیا تھا اور دم آخر تک اس فریضے کو حضرت امیرشریعت سابعؒ بڑے تندہی کے ساتھ انجام دیتے رہے اور پوری ٹیم کو اس کے پیچھے لگائے ہوئے تھے ،بظاہر یہ شعبہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا ہے ،مگر کل بھی یہ شعبہ حضرت امیر شریعت رابعؒ کی حساس نفَسی کی وجہ سے رواں تھا ؛ بلکہ تادم حیات حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحبؒ کی خصوصی دل چسپی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا رہا اور اس کے اچھے اثرات دیکھنے اور سننے کو مل رہے تھے ، اس سلسلے میں مولانا محترم ؒکے کام کا کیا انداز اور منفرد طریقہ رہا ،اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں بیگوسرائے کے ایک دورے کی روداد سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے : جو آپ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی جانب سے 4جولائی 2004ءکو کان پور میں منعقد ہونے والی مجلس عاملہ میں پیش کرنے کی غرض سے مرتب کیا تھا۔ رپورٹ میں لکھا ہے:

”مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کے ساتھ بہار اور بنگال کے مختلف علاقوں میں راقم الحروف نے دورے کئے۔ 17 جنوری سے 26 جنوری تک بنگال کے سرحدی اور ترائی علاقہ میں،3مارچ سے 21مارچ تک ضلع، بیگو سرائے میں، یکم اپریل سے8اپریل تک ضلع کٹیہار اوربنگال میں 17 مئی سے 11جون تک ضلع ارریہ کے مختلف علاقوں کا سفر ہوا اورکم از کم روزانہ تین جلسے ہوئے، جس میں اس خادم کے علاوہ ہر جگہ علمائکرام کی جماعت نے سرگرم حصہ لیا۔ ساتھ ہی علاقہ کے با اثر اور دینی مزاج رکھنے والے ذمہ دار حضرات کو شریک رکھا گیا اور عام طور پر 10/11 اور بعض مقامات پر 17/18 علماءاور خواص کی جماعت سفر کرتی رہی، مسلم پرسنل لاءبورڈ کا پیغام پہنچاتی رہی اوراس طرح بورڈ کا پیغام اوراصلاح معاشرہ کا کام ہوتا رہا۔رفقاءکار کی رپورٹ اور اعداد وشمار کے مطابق جنوری 2004ءسے لے کر جون 2004تک بورڈ کے اس خادم نے اصلاح معاشرہ کے موضوع پر 127 جلسوں سے خطاب کیا، چھ ماہ میں 58 دنوں مسلسل لانبے سفروں میں رفقاءکے ساتھ رہا، قریب کے دو ایک دن کے ضمنی سفر ا سکے علاوہ ہیں۔ متعدد اخبارات کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی چینلوں کو انٹر ویودیا۔ ہمارے رفقاءکرام نے بھی دل سوزی اور اخلاص کے ساتھ مجمع کو خطاب کیا ہے…. ان جلسوں سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ اصلاح معاشرہ سے متعلق تقریروں کے کیسٹ تیار ہوتے رہے اور لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا جس سے تاجروں کو مالی نفع، خرید نے والوں کو دینی نفع اور ہم خدام کے حصے میں اخروی نفع آیا“

امارت شرعیہ کی توسیع:

امارت شرعیہ کے امیر منتخب ہونے سے قبل ؛بلکہ اپنے ایم ایل سی کے دور سے ہی وہ امارت کے مسئلے میں خاصی دلچسپی لے رہے تھے،امارت کی تاریخ ساز توسیع جو امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی صاحب رحمانیؒ کے دور میں ہوئی ہے ،اس زمانے میں مولانا محمد ولی صاحب رحمانی ؒ نے موجودہ زمین کی حصولیابی کے لئے جو کردار وخدمات انہوں نے پیش کیں اور جو جوکھم اٹھا ئے وہ تاریخ امارت کا مکمل ایک باب ہے ،پھر جب 3/ اپریل 2005میں نائب امیر شریعت منتخب ہوئے تو اس کے بعد سے مسلسل اس کے کاز کو دیکھنے لگے ،یہاں تک کہ 29/ نومبر 2015کو آپ متفقہ طور پر امیر شریعت منتخب کرلیئے گئے ،اس طرح کل مدت امارت پانچ سال چار ماہ رہی ؛ مگر اس مختصر مدت میں آپ نے امارت کو حیات نو بخشنے کا کام کیا ،اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سے لاینحل مسائل بھی اس درمیان خوبیوں کے ساتھ حل ہوئے ہیں، جو امارت کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں تھے اور جو آنے والے دنوں میں نظم ونسق اور امارت کی ملکیت کے لئے ناسور ثابت ہو سکتے تھے۔یہ کام اگرچہ دقت طلب تھا اور اسی دقت طلبی اور بھڑ کے چھتوں میں انگلی ڈالنے سے بچنے کے جذبے سے یہ کام نہیں ہوسکا تھا ،جب کہ بہت پہلے اور سب سے پہلے اس کام کو ہونا چاہئے تھا ،مگر اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کس سے کون سا کام لے گا ،چنانچہ اس کے لئے امارت کے بعض حباب نے مخلتف جہتوں سے حضرت کو رسوا کرنے کی کوشش بھی کی ، لیکن حضرت امیر شریعت کے سامنے صرف اور صرف امارت کے وجود وملکیت کا سوال تھا ،انہیں امارت کی ملکیت کو تحفظ فراہم کرنا تھا ،اس لئے امیر محترم ؒنے کسی بھی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر امارت شرعیہ کی امانتوں کو بچانے میں لگے رہے اور الحمد للہ شاندار کامیابی ملی۔اسی طرح متعد مقامات پر قضاة کی بحالی اور دیگر کئی جگہوں پر دارالقضاءکا قیام بھی عمل میں آیا ، بیوہ کے وظیفے میں اضافہ اور کارکنان وملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ بڑھوتری یاترجمان امارت ،ہفت روزہ نقیب کی اصلاح وغیرہ جیسے مسائل کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنے کی طرف شاندار پیش رفت ہوئی۔ ملی جانکاری کے مطابق ایک سے زائد جگہوں پر امیر محترمؒ نے مقامی احباب کی طرف سے زمین کی فراہمی کی شرط کے ساتھ، امارت شرعیہ کے زیر نگرانی اسکول وکالج کے قیام کا بھی اعلان کیاتھا،جب کہ رانچی جھارکھنڈ کے بعض علاقے میں امارت اسکول خوبیوں کے ساتھ چل بھی رہا ہے اور آخری دنوں میں جھار کھنڈ کے اندرمزید انٹر نیشنل اسکول وکالج کی قیام کی طرف مقامی کو متوجہ فرماکر کام کو شروع بھی فرمادیا تھا ۔ اندرونی اعتبار سے بھی بہت سے امور میں شفافیت برتی گئی ،امارت کے شعبوں میں بھی کئی طرح کے اصلاحات کئے گئے ہیں جس سے شعبوں کے ساتھ ساتھ امارت کے طریقہ کار کا معیار بھی بلند ہوا ہے۔یہ سب کچھ اس لئے بھی ضروری تھا کہ امارت کی پالیسی اور اس سے ذہنی ہم آہنگی امارت کے لئے بہت اہم ہے ، جب تک ترجیحی بنیادوں پر ان امور کو نہیں کیا جاتا ،اس کے معیار واعتماد کی فضا کاسازگار ہونا بہت مشکل تھا ،بہت سی دفعہ جب آپ خود بھی ان جیسے امور کو انجام دیں گے تو آپ کو تھوڑا بہت ایکشن لینا پڑے گا اور جلوہ منفعت کی بجائے دفع مضرت کو ذہن میں رکھ کر ہی کام کرنا ہوگا تبھی مطلوب و مقصود شئی کی روح باقی رہ سکتی ہے ۔

لکھنے کا سلسلہ ابھی جاری ہے ، آنے والے دنوں میں حضرت کی زندگی پر فن اور فن کار کی شکل میں بہت کچھ لکھاجائے گا ،جسے ملت اسلامیہ روشن نقوش اور تابناک تاریخ کے طور پر پڑھے گی اور زندگی کے مشکل وقتوں میں اس سے روشنی حاصل کرے گی ،یقینا لکھنے کے اعتبار سے ”سفینہ چاہئے اس بحر بے کراں کے لئے “

ا للہ تعا لی حضرت والا کے درجات کو بلند فرمائے ،ان کے حسانت کو قبول فرماکر ز ادآخرت بنائے اور ملت کو ان کا جلد نعم البدل عطا فرمائے،آمین

رابطہ:

ناظم معہد عائشہ الصدیقہ رحمانی نگر کھاتوپور

نائب صدر جمعیة علماءبیگوسرائے

[email protected]

Comments are closed.