قصور( افسانہ )

ازقلم:حسین قریشی
بلڈانہ (مہاراشٹر)
ارے !!!۔۔۔۔۔ "بیٹا سمیر، تیرے باپ کلیم کوآواز دے۔ وہ مُرم کے گھمیلے بھر بھر کے دیگا تمھارا کام جلدی سے پورا ہوجأیگا۔ تیری امی کی مدد بھی ہو جائیگی۔” ذاکرہ دادی برآمدے میں بیٹھی پکاررہی تھی۔ نیلوفراپنی دو بیٹیوں اور بیٹے سمیر کے ساتھ ملکر میدان میں مُرم پھیلا رہے تھے۔ ان کے پڑوسی مکان مالک نے انھیں کام دیا تھا۔ نیلوفر نے کام جاری رکھا اور ساس کی آوازیں سنتی رہی ۔ "وہ محنتی کام کے لئے نہیں آ سکتے۔ وہ شراب کے نشے میں لت پت ہے۔ سونے کا ناٹک کر رہے ہے” نیلوفر بڑبڑاتی ہوئی خود گھمیلے بھرتی اوراٹھاکرمیدان کے گڑھوں میں پھینکتی۔
اسکی بیٹی یاسمین اور جسمین اسکا ساتھ دیتی ۔ دونوں کم سین بچیاں۔۔۔۔ یوں!! تو گھر کے باہر نہیں نکلتی گھر کے اندر ہی سارا دن گزارتی۔ بارہ سالہ سمیر خوب جوش کے ساتھ کام کررہا تھا۔ وہ جلدی جلدی گھمیلے بھرتا اور دوڑتا ہوا میدان میں بکھیرتا۔ جب وہ اپنی ماں اور بہنوں کی جانب دیکھتا تو آٹومیٹیک اس کی رفتار بڑھ جاتی۔ مانو خود اکیلا اس مُرم کے ڈھیر کو میدان میں بکھیرنے کی چاہ رکھتا ہوں۔ جو اسکے چہرے پر چمک رہی تھی۔ نیلوفر اپنے بچوں کی جانب دیکھتی دل ہی دل میں سوچتی کہ یا اللہ !!!!!!! ” یہ بچے اپنی کڑی دھوٗپ میں کام کر ذہےہیں۔ جب کہ ان بچوں کی عمر محنت کے کاموں کی نہیں ہیں۔ بلکہ کھیل کود کی ہیں۔ پڑھنے لکھنے کی ہیں۔ حالات نے انھیں یہ کام کرنے پر محبور کیا ہوا ہے۔”
کبھی غربت کراتی ہے کبھی دوری کراتی ہے۔
بہت سے کام ایسے ہیں جو مجبوری کراتی ہے۔
اما!! کون اتنی دھوپ میں اپنےگھر سے نکلتا ہے
یہ شکم کی آگ ہے جو مزدوری کراتی ہے۔
وہ شفقت بھری نگاہیں بچوں پر دوڑاتی۔ انھیں آرام کرنے کے لئے کہتی۔ تو کبھی کھانے پینے کا پوچھتی۔ لیکن بچے بھی ماں کا درد بخوبی سمجھتے ہیں۔ بیٹیاں تو ماں کی ہر حالت کو محسوس کرتی ہیں۔ وہ سب ہنستے مسکراتے ، کبھی ہنسی مذاق کرتے اپنا اور اپنی ماں کا دل بہلاتے ہوئے کام کر رہے تھے۔ یاسمین اور جسمیں شکوہ شکایت ، درد وغیرہ کو ظاہر نہیں ہونے دیتیں۔ سب کام پورا کرنے کی فکر میں دوڑ دوڑ کر کام کرتے جاتے۔ کام ختم ہونے پر ہی تو ۔۔۔۔۔۔۔ انھیں مزدور ملنے والی تھی۔ شام ہوتے ہوتے سب نے مُرم کاپورا ڈھیر میدان میں بچھادیا۔ مزدوری لے کر گھر آئے۔ نیلوفر نے فوراً کھانے بنانے کی تیاری کی۔ سب نے ملکر کھانا تناول کیا۔ دن بھر کی تھکان نے بچوں کو جلد ہی نیند کی آغوش میں پہنچا دیا۔
نیلوفراپنے شوہر کلیم کے قریب آئی اسے جگانے لگی مگروہ روز کی طرح مست شراب کے نشے میں قید ہوچکا تھا۔ وہ مایوسی و اداسی کی حالت میں اپنی جگہ لیٹ گئی۔ آسمان کی جانب نگاہ لگائے چودھویں کے چاند کو ٹکٹکی لگاتے ہوئے۔ اپنے ماضی کے خیالوں میں گردش کرنے لگی۔ اسے شادی کے بعد کے وہ پل، جب وہ اس گھر میں بہو اور بیوی بنکر آ ئی تھی۔ اسکی کتنی قدر و قیمت ہوا کرتی تھی۔ کلیم اسکا ہر طرح کا خیال رکھتا تھا۔ ساس بھی محبت و شفقت کے ساتھ بیٹی سا برتاؤ کرتی۔ دن رات خوشی و مسرت میں گزرتا تھا۔ کبھی مفلسی کا احساس نہیں ہوا۔ جھونپڑی محل کی مانند لگتی تھی۔ کھانا جو بھی وہ لزیز لگتا۔ دن کے کاموں سے شام کا پتہ نہ چلتا۔ رات میں کلیم کی آمد سے خوشی دوبالا ہوجاتی تھی۔ ڈیڑھ سال بعد جب اللہ تعالٰی نے فرزند عطا کیا تو مانو اسکی زندگی خوشیوں سے بھر گئی۔ گھر میں اسکی عزت واحترام میں اضافہ ہوگیا۔ دن اطمینان ، شادمانی اور پُر سکون گزر رہے تھے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے نیلوفر کو بیٹی کی سعادت سے نوازہ ۔ گھر میں دوبارہ خوشیوں کا ماحول بن گیا۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہو نے سے گھر میں پُر سکون ماحول تھا۔ اسکی قدر قیمت بڑھ گئی تھی۔ اسکی زندگی میں چار چاند لگ گئے۔ کلیم بھی اس سے خوش تھا۔ اس کے بعد نیلوفر کو ایک کے بعد ایک اور تین لڑکیاں پیدا ہوئی۔ چار لڑکیوں کی پیدائش نے رفتہ رفتہ نیلوفر کی زندگی سے خوشیوں کو کم کردیا۔ کلیم نے بھی اپنے برتاؤ میں منفی تبدیلی پیدا کردی۔ اسنے نیلوفر کی جانب سے توجہ کم کرلی۔ لڑکیوں کی پیدائش کلیم کو ناگوار گزری۔ کلیم کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ ساس بےچاری مجبور اداس رہتی اور دعا کرتی رہتی۔ نیلوفر اپنے بچوں کو خوشیاں دینے کی کوشش کرتی۔ مگر کلیم کی بڑھتی بیماری اور اخراجات نے گھر کے تمام افراد کو پریشانی میں مبتلا کردیا تھا۔ کلیم نے چپکے چپکے تھوڑی تھوڑی شراب پینا شروع کردی۔ بعد میں شراب نوشی اسکی عادت بن گئی۔
نشے سے دوائیاں اثر نہیں کرپاتی تھی۔ کلیم باہر جاتا اور شراب کی بوتل کے ساتھ گھر لوٹتا۔ رفتہ رفتہ کلیم نے گھر کی تمام ذمداریوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ بہت سمجھانے کے باوجود ، منت سماجت کرنے کے باوجود، لڑکیوں کے مستقبل کے بارے میں بتانے کے باوجود بھی جب کلیم نشے سے باز نہ آیا۔ توسب نے اسے اسکے حال پر چھوڑدیا گیا اور گھرکی ذمداری نیلوفر کے کندھے پر آگئی۔ وہ سوچنے لگی کہ کیسے اپنوں بچوں کی پرورش کرے گی۔ بیٹیوں کی شادیاں کیسے ہوپا ئیگی۔ اسی لے نیلوفر نے جہاں جو کام ملا اسے اختیار کیا۔ بچوں کی تعلیم کی فکر بھی اسے کھائے جارہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ میری لختِ جگر بیٹیوں کا مستقبل کیسا ہوگا؟ شادیوں کے اخراجات سماج کی رسم و رواج اور رشتوں کی فرمائشیں کیسی پوری ہو گی؟ کیا زندگی ایسے ہی مسائل سے گھری رہیگی؟ ان تمام خیالات نے نیلو فرکو محنت کا راستہ دکھایا۔
خود کی خوشیوں ، تمناؤں اور آرزوؤں کو قربان کرکے اسنے کھیت میں ، دوسروں کے گھر میں کھانا بنانے ، کپڑے دھونے اور صاف صفائی کے کام کرنا شروع کیا۔ گھر خرچ کے بعد جو روپے پیسے بچ جاتے اسے سنبھال کر بیٹیوں کی شادی کے لئے جمع کرنا شروع کیا۔ ان خیالات میں گم نیلوفر کے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اس نے آنسوؤں کو پوچھتے ہوئے دل سے کہا کہ میں اب تک سمجھ نہیں پائی ہوں کہ میرے اور بچوں کے ان حالات میں کس کا ،کیا ” قصور” ہے
Comments are closed.