اپنے رب کوپہچانئے

سمیع اللہ ملک
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔)البقرہ:(183
روزہ دین اسلام کاتیسرااہم رکن ہے۔عربی زبان میںصوم کہتے ہیں اورصوم کے لغوی معنی روک لینے کے ہیں۔جبکہ شرعی اصطلاح میں عبادت کی نیت سے بوقت طلوع فجرتا غروب آفتاب اپنے آپ کوکھانے پینے اورنفسانی خواہشات سے بازرکھنے کانام روزہ ہے۔
قرآن حکیم کی بہت سی آیات میں روزے کی اہمیت اورفرضیت کاحکم ملتاہے۔رمضان المکرم کی آمدپرمسلمانوں کاخوش ہونابرحق ہے،کیونکہ یہ تمام بھلائیوں کولے کرآتاہے۔اس کادن روزہ،اس کی رات قیام اوراس کے شب وروزنیکیوں اوربھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کیلئے ہیں۔یہ بخشش کاموسم ہے۔اس میں نیکیوں کے اجروثواب میں اضافہ ہوتاہے۔لہذااس کی نعمتوں، عطیوں اورمہربانیوں سے مسرورہوناہرمسلمان کاحق ہے۔نبی اکرم ﷺنے فرمایا:تمہارے زمانے کے ایام میں تمہارے رب کے تمہارے لیے عطیات ہواکرتے ہیں،لہذاان عطیات کوحاصل کرنے میں لگے رہو۔
یہ نزولِ قرآن کامہینہ ہے۔اس ماہِ مقدس میں ایک ایسی رات ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے۔اس ماہ میں نفل کی ادائیگی فرض کی مانند ہے اوراس میں فرض اداکرناغیررمضان میں 70فرضوں کی ادائیگی کی طرح ہے۔اس ماہ کی ان ہی برکات کی خاطررسول کریم ﷺرجب ہی سے اس کے استقبال کی تیاری شروع فرماتے تھے۔
رمضان نفس وروح کی راحت کامہینہ اوردل کی خوشی کازمانہ ہے۔اس میں ایمان کے مظاہرہرطرف نظرآتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت ہوتی ہے،خودغرضی نہیں بلکہ ایثارہوتاہے۔اس میں سختی وتشددنہیں بلکہ کرم ومہربانی ہوتی ہے۔اس ماہِ مبارک میں مسلمان کوخواہ کوئی کتناہی برانگیختہ کر دے یااسے کوئی کتناہی غصہ دلائے،یااگرخدانخواستہ اسے کوئی گالی بکے یااس پرکوئی الزام تراشے،ان تمام صورتوں میں مسلمان بس یہ کہتاہے کہ:میں روزے سے ہوں۔ ظاہرہے کہ مسلمان اپنے منہ سے کوئی ایسالفظ نہیں نکالتاجوبے معنی ہو،جونفس کی گہرائیوں میں ثبت نہ ہو،جواس کے ایمان کی ترجمانی نہ کرتاہو،جس سے شیاطین جِن وانس پر اسے فتح وکامیابی نہ ملتی ہو۔مسلمان میں روزے سے ہوںکے الفاظ دہراتاہے تواس کاظاہروباطن ہم آہنگ ہوتاہے۔وہ ایک اخلاقی اسلامی شخصیت کامظہرِکامل بن کریہ الفاظ اداکرتاہے۔
رسالت مآب ﷺفرماتے ہیں: جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے توشیطانوں کوجکڑدیاجاتاہے،سرکش جنوں کوپابندِسلاسل کردیاجاتا ہے،دوزخ کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں اوراس کاکوئی دروازہ کھلانہیں رہنے دیاجاتا۔بہشت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اوراس کاکوئی دروازہبندنہیں رہنے دیاجاتا۔حق تعالی کی طرف سے ایک پکارنے والاپکارکرکہتاہے:اے بھلائی کے چاہنے والے آگے بڑھ!اوراے شرکے طلب گارپیچھے ہٹ!۔اس ندائے ربانی پرلبیک کہنے کیلئے کیامسلمان نیکی کی چاہت میں آگے نہ بڑھے گا؟ ضروربڑھے گا۔
اپنے خالق کی معرفت حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ آپ اس ماہِ مبارک میں نازل ہونے والی کتاب کی تلاوت کیجیے اوراس میں خوب تدبرکیجیے۔آپ غورکیجیے توآپ کی سماعت سے مخاطب ہوکر کوئی سورہ انفطارکی آیت نمبر8 میں کہہ رہا ہوگا: اورجس صورت میں چاہا تجھ کوجوڑکرتیارکیا۔ اللہ نے انسان کوپیداکیا،پھراس کی نوک پلک سنواری، اسے پیداکیااور اسے راہ نمائی دی۔دورانِ تلاوت ہی کوئی آپ سے ماورہ انشقاق کی آیت نمبر6میں مخاطب ہوکرآپ کوایک زندہ جاوید حقیقت سے آگاہ کررہاہوگا:ِ اے انسان ، توکشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلاجارہاہے اوراس سے ملنے والاہے لہذا، توبہ کیلئے جلدی کیجیے،اپنے رب کی طرف رجوع کیجیے تاکہ آپ تروتازہ چہرے کے ساتھ اس سے ملاقات کرسکیں۔ آپ جلدی قدم بڑھایئے اوراس کے جودوسخا،کرم ولطف اورمغفرت واحسان کے عطیات کوسمیٹ لیجیے۔
آپ اپنے حواس خمسہ پرغورکیجیے،اپنی پیدائش کے بارے میں تدبرکیجیے،اپنی ذات کے بارے میں سوچئے۔غور کریں توآپ کومعلوم ہوگاکہ آپ کے جسم کے ہرجزکوخالقِ ارض وسما نے بہترین ساخت میں پیداکیاہے۔پھراس نے ہرعضوکوجوکام کرناہے اس سے ہم آہنگ کیاہے، آنکھیں،زبان،ہونٹ اورجسم کے مختلف اعضااورنظام اپنے اپنے افعال کے ساتھ کیسی مطابقت رکھتے ہیں۔وہ کون سی ہستی ہے جس نے انہیں اس کام کوکرنے کی ہدایت کی ہے؟کوئی عضوسننے کیلئے ہے،کوئی دیکھنے کیلئے ہے،کوئی چکھنے اورکوئی چھونے کیلئے ہے ،کوئی ہضم کرنے کیلئے ہے۔انسان اگراپنے تمام اعضاکو اپنے خالق کی مرضی کے مطابق استعمال کرے تووہ جنت کاحق دارٹھہرتاہے۔
اگراس ماہِ مبارک میں اترنے والی کتاب نہ اتری ہوتی تویقیناانسان بھٹکتارہتااوراپنے آپ پرغوروفکرسے محروم رہتا۔انسان کوکون بتاتا کہ وہ اپنی پیدائش میں،اپنے حواس میں اوراپنے جسم کے مختلف نظاموں میں ایک معجزہ ہے،قدرت کاشاہکارہے۔اس کاجسم اوراس کے تمام اعضااس کائنات کے ساتھ کس قدرہم آہنگ ہیں جس میں وہ رہ رہاہے۔ اگر یہ ہم آہنگی سلب کرلی جائے توانسان اورکائنات کے مابین رابطہ واتصال ختم ہوجائے۔ایسی صورت میں انسان کسی آرزوکوپوراکرنے یاکسی چیزکودیکھنے یاکسی معاملے میں غوروفکر کرنے سے قاصر رہ جائے۔
بلاشبہ اللہ ہی خالق ہے،قادرہے،کائنات کااورانسان کاپیدافرمانے والاہے۔اوروہ اپنی نشانیوں کی طرف متوجہ کررہاہے: اور خود تمہارے اپنے وجود میں بہت سی نشانیاں ہیں، کیا تم کو سوجھتا نہیں(الذریت:21)اپنی مزیدنشانیوں سے آگاہ کررہاہے :االلہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قِسم سے بھی انہی کے مانند۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے(یہ بات تمہیں اِس لیے بتائی جارہی ہے)تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے(الطلاق :12)
روزے کی حالت میں ان تمام امورپرغوروفکرسے آپ عبادت کے سا تھ ساتھ ایمان کی لذت سے بھی آشناہوں گے۔آپ کی عبادت محض رسم نہیں رہے گی۔آپ اپنے رب کو پہچانیں،اپنے آپ پرغورکریں،اس کائنات کودیکھیں جس نے آپ کوچاروں طرف سے گھیررکھا ہے اپنے اورکائنات کے مابین موازنہ کیجیے،اورقرآن کی(النزعت :27۔ 33 )کے الفاظ میں اپنے آپ سے دریافت کریں:’’تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ اللہ نے اس کوبنایا،اس کی چھت خوب اونچی اٹھائی پھراس کاتوازن قائم کیا، اور اس کی رات ڈھانکی اوراس کادن نکالا۔اس کے بعداس نے زمین کوبچھایا،اس کے اندرسے اس کاپانی اورچارہ نکالا،اورپہاڑاس میں گاڑدیے سامانِ زیست کے طورپر تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کیلئے‘‘۔سورہ محمدکی آیت24پربھی غورفرمائیں۔ کیااِن لوگوں نے قرآن پر غورنہیں کیا،یا دلوں پران کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟
انسان اپنے رب کی نافرمانی کرکے اپنے ساتھ خودزیادتی کرتاہے۔سوال یہ ہے کہ انسان خیانت کیوں کرتاہے؟اپنے پروردگارکی معصیت کیوں کرتاہے؟وہ تکبرکیوں کرتاہے؟ اپنے آپ کوبڑاکیوں سمجھتاہے؟کیاغوروفکرتجھے اللہ کے شایانِ شان قدردانی کی دعوت نہیں دیتا کہ تواللہ کی رحمت کی امیدرکھے اوراس کے عذاب سے ڈرے؟قرآن نے اس ماہِ مبارک میں نازل ہوکرتجھے وہ کچھ بتادیاجوتونہیں جانتاتھااوریوں امید رکھے اوراس کے عذاب سے ڈرے؟قرآن نے اس ماہِ مبارک میں نازل ہوکرتجھے وہ کچھ بتادیاجوتونہیں جانتا تھااوریوں اللہ نے تجھ پرفضلِ عظیم کیا۔
امام ابن قیم فرماتے ہیں:سب سے عجیب بات یہ ہے کہ تم اللہ کوجانتے ہواورپھراس سے محبت نہیں کرتے۔اس کے منادی کی پکار سنتے ہواورپھرجواب دینے اورلبیک کہنے میں تاخیر سے کام لیتے ہو۔ تمہیں معلوم ہے کہ اس کے ساتھ معاملہ کرنے میں کتنانفع ہے مگرتم دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے پھرتے ہو۔تم اس کے غضب کی جانتے بوجھتے مخالفت کرتے ہو۔تمہیں معلوم ہے کہ اس کی نافرمانی کی سزاکتنی بھیانک ہے مگرپھربھی تم اس کی اطاعت کرکے اس کے طالب نہیں بنتے ہو۔افسوس کہ تم اس ماہ مبارک کے قیمتی لمحات ضائع کردیتے ہواوران کے دوران اللہ کے قرب کوتلاش نہیں کرتے۔ابن قیم نے کیاہی خوب فرمایاہے:روزے دار اپنے معبودکی خاطراپنی لذتوں کوترک کرتاہے۔وہ اللہ کی محبت اوراس کی رضاکواپنے نفس کی لذات پر ترجیح دیتاہے۔رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں:جوکوئی بندہ، اللہ کے راستے میں ایک دن کاروزہ رکھتاہے،تواس دن کی وجہ سے اللہ جہنم کواس شخص کی ذات سے70خریف دورکردیتاہے۔
امام حسن البنافرماتے ہیں:لوگ دوقسم کے ہیں۔ایک وہ جوکوئی بھلائی کرتاہے یانیکی کی بات کرتاہے توچاہتاہے کہ اس کافوری معاوضہ ملے۔اس کے بدلے میں مال ملے جسے وہ جمع کرے،یااسے شہرت ونیک نامی ملے،یااسے کوئی مرتبہ وعہدہ ملے،یااسے کوئی لقب ملے کہ اس لقب کے ساتھ اس کا شہرہ ہرطرف ہو۔دوسراوہ ہے جس کاہرقول وفعل محض اس لیے ہوتاہے کہ وہ خیرکوخیر ہونے کی وجہ سے چاہتاہے۔وہ حق کااحترام کرتاہے اورحق سے اس کے حق ہونے کی وجہ سے محبت کرتاہے۔اسے معلوم ہے کہ دنیا کے معاملے کاسدھار صرف اورصرف حق وخیرسے ہی ہے۔انسان کی انسانیت دراصل یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کوحق وخیر کیلئے وقف کردے۔میں پوچھناچاہتاہوں کہ آپ ان دو قسموں میں سے کون سی قسم کے مسلمان بنناچاہتے ہیں؟یقیناآپ ایسے مسلمان بنناچاہیں گے جوحکم کوبجالاتاہے،جس سے منع کیاگیاہے اسے ترک کردیتاہے،جوکچھ مل گیاہے اس پرصبرکرتاہے۔انعام ملے توشکرکرتاہے،آزمایش آئے توصبرکرتاہے،گناہ کرے تومغفرت طلب کرتاہے۔ایسے لوگوں میں شامل ہوں جن کادایاں ہاتھ صدقہ دے توبائیں کوخبرنہ ہو۔کمزورکی مدد اور صلہ رحمی کرنے والے ہوں۔لوگوں کے بوجھ اٹھانے اورحصولِ حق میں مددگارہوں،ضرورت مندکاساتھ دینے اورمدد کیلئے ہردم تیارہوں۔یتیم کے سرپردستِ شفقت رکھنے اوربیوہ کی سرپرستی کرنے والے ہوں۔
کشمیر،پاکستان،فلسطین،عراق،افغانستان،سوڈان،اریٹیریااورصومالیہ کے اپنے بھائیوں کی غم خواری کیجیے۔دنیامیں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی جان،مال،عزت وآبروخطرے میں ہے ان کیلئے دعائیں کیجیے۔آپ ان مظلوم مسلمانوں کیلئے دعاکیجیے،جن کے گھروں کومنہدم کیاگیااورانہیں ان کے علاقوں سے بے دخل کردیاگیا۔آپ صلاح الدین ایوبی کا یہ قول یادرکھیے:میں کیسے ہنسوں،جبکہ اقصیٰ اسیرہے؟
آپ رات میں ضرور نوافل اداکیجیے تاکہ آپ کاشماران لوگوں میں ہوجن کے بارے میں اللہ تعالی نے(الذریت :17۔19)میں فرمایا ہے:وہ ِراتوں کوکم ہی سوتے تھے،پھروہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے،اوران کے مالوں میں حق تھاسائل اورمحروم کیلئے۔
دعامومن کاایک بڑاہتھیارہے۔دعاکیجیے کہ اللہ ظالموں کے مقابلے میں اہلِ ایمان کی مددفرمائے۔دعامیں آہ وزاری ضرورکیجیے۔اللہ ظالم سامراجیوں،ان کے آلہ کاروں کو بھی ہدائت دے اوران کے شرسے محفوظ رکھے۔شیطان کے پھندے سے بچنے کی کوشش کیجیے۔ یہ شیطان انسانوں میں سے ہوں یاجنوں میں سے۔ یہ شیطان،آپ کے روزے کو بگاڑنے کی بھرپورکوشش کریں گے۔ وہ آپ کوتراویح اورتہجد سے ہٹاکرفلمیں دیکھنے پرآمادہ کریں گے۔وہ آپ کوموسیقی اورلغویات میں الجھائیں گے،اورآپ ان کے چکرمیں آ کرروزوں کے مقاصدفراموش کردیں گے اورپھرصیام وقیام کوہی نظراندازکردیں گے حالانکہ رات کے قیام کے بارے میں رب العزت فرماتا ہے: اوررات کوتہجدپڑھو،یہ تمہارے لیے نفل ہے،بعیدنہیں کہ تمہارارب تمہیں مقامِ محمودپرفائزکردے۔
شیطان کواچھی طرح معلوم ہے کہ رمضان میں مومن ایک ایسی شخصیت بن جاتاہے جس پرایمان کاغلبہ ہوتاہے۔یہی شخصیت شرعا ًمطلوب ہے۔اسی شخصیت کے ہاتھوں نصرت ملتی ہے۔اس لیے شیطان آپ کے اوراس شخصیت کی تشکیل کے مابین حائل ہوجائے گا، کیوںکہ ایسی شخصیت کی تشکیل میں اس کی ہلاکت ہے۔اگربحمدللہ،رمضان کے اثرات سے اسلام کی مطلوب شخصیت وجود میں آئے تو یہ انسانیت کی فتح ہے۔
رمضان کے اس پیغام اوروقت کی اس آوازکوتوجہ سے سنیے اوراس پرغورکیجیے۔اس طرح آپ کامران و کامیاب لوگوں میں شامل ہو جائیں گے اورناکام و نامراد نہ ہوں گے۔

Comments are closed.