گیان اور سنسکرتی کے نام پر گڑ بڑی اور شرارت

مولاناعبد الحمید نعمانی
آزادی کے بعد ہندوتو وادی عناصر کے اثرمیں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ اس کی وجہ ، تقسیم وطن کے نتیجے میں فرقہ وارانہ حالات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں تیزی سے آتی کمی ہے ، زبردست منصوبہ ساز، فکرو عمل کے اعتبار سے شدت پسند ، دکھنے میں بالکل سادھو سنت سنگھ کے دوسرے سر سنچالک مادھو سداشیو گولولکر نے پیدا شدہ حالات کا فائدہ اٹھانے کے لیے پارٹی اور تنظیم سازی کی سمت میں آگے بڑھنے پر توجہ دی ۔ وشو ہندو پریشد وغیرہ کے ذریعے سنگھ کی طاقت بنانے کی کوشش کی ۔ جن سنگھ (بعد کی بی ،جے پی )اور وشو ہندو پریشد کے ذریعے سے خاص طور سے ہندستانی سماج کی سنگھ کی آئیڈیا لوجی کے مطابق تشکیل کا آغاز ہوا ، گاندھی جی کا قتل اورکانگریس میں بھی خاص ذہنیت کے لیڈروں کی موجودگی سے سنگھ کے آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی ، جواہر لعل نہرو کے انتقال کے بعد1964ءسے گرو گولولکر کی رہ نمائی میں ہندوتو وادیوں نے بھارتیہ سنسکرتی اور راشٹر کے وقار کے فروغ و تحفظ و بقاءاور ہندو اکثریت کے ساتھ نا انصافی اور ان دیکھی کے نام پر مشتعل کر کے اس کو اپنے ساتھ کرنے کی کوشش کی ۔1961ءمیں جمعیة علماءہند کی طرف سے ، ڈاکٹر سید محمود کی صدارت میں منعقدہ مسلم جمہوری کنونشن کے انعقاد اور اہم نمائندہ شخصیات اور تنظیموں کی طرف سے اگست1964ءمیں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے قیام نے سیاسی و سماجی سطح پر ایک ہلچل سی پیدا کر دی تھی ۔ کانگریس کے ساتھ ساتھ ، سنگھ کے حلقے میں کئی طرح کی سرگرمیاں شروع ہو گئیں ۔ سنگھ کے پرانے پرچارک شیو راؤ آپٹے نے مراٹھی جریدہ کسیری میں تین مضامین کا ایک سلسلہ شروع کرتے ہوئے ہندو دھرم کے تمام نمائندوں کے متحد ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔ تاکہ سب مل کر ہندوتو کا دفاع کر سکیں ۔1963ءمیں سوامی چنمیا نند نے آپٹے کی تائید کرتے ہوئے ایک عالمی ہندو کانفرنس کے انعقا د پر زور دیا۔ اس کے مد نظر گرو گولولکر نے مشاورت کے قیام کے محض20,19 دنوں کے بعد چنمیا نند کے ہی آشرم ،سندینپی ممبئی میں منتخب شخصیات کو مدعو کیا اور مختلف امور پر غورو فکر اور تبادلہ خیال کے بعد وشو ہندو پریشد قائم کیا گیا ۔اس کا پہلا عالمی ہندو کانفرنس جنوری 1966ء میں ہوئی اس کے چند مہینے بعد7نومبر1966ء کو تحفظ گاؤ کے نام پر دہلی میں زبردست تشدد کا مظاہرہ کیا گیا۔ جس میں پولس کی گولی سے 8افراد مارے گئے تھے۔ حالات انتہائی سنگین ہوگئے ۔اندرا گاندھی نے سختی سے گائے بچاؤ پر تشدد تحریک کو دبا دیا،لیکن گرو گولولکر نے گائے کے نام پر سیاسی فائدہ اٹھانے کا کام کیا اور تحفظ گاؤ کے نام پر ووٹ دینے کی اپیل کی ۔ اس کا اچھا خاصا اثر بھی ہوا ، جن سنگھ کی1967ء کے عام انتخابات میں سیٹیں زیادہ ہونے کے ساتھ اس کے ووٹ فیصدی میں بھی اضافہ ہوگیا۔ سیٹیں2سے بڑھ کر35ہوگئیں۔ 8 ریاستوں میں کانگریس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، یہیں سے سنگھ اور اس کے سیاسی بازو ، جن سنگھ اور بعد کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو جذباتی مسائل اور ہندو مذہبی ،تہذیبی علامتوں کے استعمال کی افادیت سمجھ میں آئی ، رام مند ر تحریک کو اسی زمرے میں رکھا جانا چاہیے ، بنارس کی گیان واپی مسجد کو مندر میں بدلنے کی مہم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ مندر توڑ کر مسجد بنانے کا کوئی مستند تاریخی و دستاویزی ثبوت نہیں ہے ۔دقت یہ ہے کہ ہندوتو وادیوں کی اپنی کوئی بھی تاریخ نہیں ہے ۔ بیشتر چیزیں ، افواہ اور فرضی کہانیوں پر مبنی ہیں ، اسلام میں غیر مملوکہ(جس کی ملکیت حاصل نہ ہو) زمین پر کوئی عبادت گاہ تعمیر نہیں ہوسکتی ہے ۔ جب کہ دیگر سماجوں میں ،مذہبی و قانونی نظام کے غیر مرتب و منتشر اور واضح احکام نہ ہونے کی وجہ سے عبادت گاہ کا تقدس اور غیر مملوکہ یا سرکاری اراضی پر اس کی تعمیر میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی ہے ، بھارت میں دس بیس نہیں لاکھوں مثالیں ہیں ، بجرنگ بلی کو رات ، دن میں کسی بھی وقت کھڑا کر کے زمین پر قبضہ کرکے مٹھ ، مندر پوجا گھر کی تعمیر کر دی جاتی ہے ملک کی کسی بھی ریاست میں جاکر کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے ۔یہ تو کہا جاتا رہا ہے کہ بابر نے مندر توڑ کر مسجد تعمیر کرائی تھی ۔یہ دعویٰ تاریخ کے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی جھوٹ ثابت ہوگیا ہے ،لیکن یہ سوال کسی نے نہیں کیا کہ بذات خو د مزعومہ رام مندر کی تعمیر کس کی زمین میں ہوئی تھی ؟اس کا کوئی تاریخی و دستاویزی ثبوت نہیں ہے کہ اورنگ زیب نے کاشی و شو ناتھ مندر توڑ کر گیان واپی مسجد کی تعمیر کی تھی ۔اورنگ زیب سیاسی تقاضوں کے تحت سخت بھی تھا، اس سلسلے میں اس نے ہندو ، مسلمان، باپ ،بھائی ، بیٹا ، بھتیجے کے ساتھ بھی کسی طرح کی رعایت نہیں کی جہاں اس نے کچھ وجوہ سے گولکنڈہ کی جامع مسجد کو مسمار کرا دیا تھا ۔ وہیں ، کاشی وشو ناتھ مندر کو عالمگیری فوج میں موجود ہندو راجاؤں کے اصرار، مندر میں زنا اور حرام کاری سے نا پاک ہوجانے کے تحت منہد م کر دیا تھا ،لیکن اس کی جگہ مسجد تعمیر کے دعوے کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ گیان واپی کی مسجد اور نگ زیب کے زمانے سے پہلے ہی سے موجود ہ جگہ پر موجود ہے ۔ اورنگ زیب نے صرف رنگ روغن اور مرمت کرائی تھی ۔ ورنہ گیان واپی مسجد ، اکبر کے عہد میں بلکہ ا س سے بھی پہلے شاہ شرقی ،ابراہم شاہ شرقی کے زمانے تک سنگ بنیاد کی بات چلی جاتی ہے ۔راقم سطور مولانا اسعد مدنی ؒ کی ہدایت پر جمعیة علماءہند کے پروگراموں کا دعوت نامہ لے کر ڈاکٹر بشمبھر ناتھ پانڈے کے پاس بڑلا مندر آفس میں جایا کرتا تھا ۔وہ مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کو بے بنیاد قرار دیتے تھے ۔ ان کی اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان پر اس سلسلے کی تحریر شائع و دستیاب ہے ۔
کاشی وشو ناتھ مندر میں زنا اور حرام کاری کا ذکر انھیں کی تحریر میں کیا گیا ہے ۔ انھوں نے اورنگ زیب کے بنگال جاتے ہوئے بنارس میں قیام اور ہندو راجاؤں کے گنگا اشنان ،ہندو رانیوں کے گنگا اشنان کے بعد وشو ناتھ کا درشن اور غائب ہونے اوران کی عصمت دری پر مندر کی مسماری کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ "مرقع بنارس” میں سری کرشن ورما، کاشی کھنڈ کے مختلف حوالوں سے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ گیان واپی مسجد ، وشو ناتھ مندر کی جگہ نہیں ہے ،(دیکھیں کتاب کا صفحہ 170اور صفحہ286)اس کے باوجود گیان واپی مسجد کو اجودھیا کی بابری مسجد کی طرح مندر میں تبدیل کرنے کی جاری مہم ، مذہبی علامتوں کا سیاسی فائدے کے لیے ، سیاسی استعمال کے سوا کچھ اور نہیں ہے ۔1991ء کے تحفظ عبادت گاہ قانون بن جانے کے بعد کسی بھی عدالت کو کوئی آرڈر یا ہدایت دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور نہ کسی طرف سے مندر ، مسجد تنازعہ کھڑا کرنے کی کوئی گنجائش ہے ۔ رام مندر کے حق میں فیصلے دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے5 ججوں کی بنچ نے 1991ء تحفظ عبادت گاہ قانون کے حوالے سے واضح طور سے لکھ دیا ہے کہ تمام عبادت گاہوں کی15اگست 1947ء کی پوزیشن بحال رہی گی اور ان کا تحفظ کیا جائے گا،لہذا یہ فیصلہ دیگر عبادت گاہ کے لیے نظیر نہیں ہوگا،لیکن جس طرح حقائق و شواہد کے خلاف مندر کے متعلق دعوے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی اس کے حق میں ناقابل فہم فیصلہ دیا گیا اس نے سیاسی بازی گروں اور فرقہ پرست عناصر کو حوصلہ دیا کہ وہ شوشہ کو شرارت اور شرارت کو سیاست میں بدل کر فائدہ اٹھائیں اور گیان کے نام پر گوبر اور گڑ بڑی اور سنسکرتی کے نام پر شرارت پھیلائیں ۔ سیاسی فائدے کے لیے مذہبی علامتوں کے استعمال کا جو چسکا1967ء میں لگا تھا اس کا سلسلہ دراز تر اور دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے ، عدالت میں معاملے کو لے جانے سے آغاز کر کے سڑکوں پر لایا جائے گا اور پھر تحریکوں کو تشدد میں بد ل کر ماحول کو اپنے حق میں کر لیا جائے گا۔ ایسی حالت میں اس فریب خوردگی اور خوش فہمی کے لیے کوئی جگہ نہیں رہ جاتی ہے کہ رام مندر کے بعد مذہبی علامتوں کے استعمال کی سیاست اور فرقہ وارانہ تنازعات کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ یہ سلسلہ ختم اسی وقت ہوگا جب سماج میں بہتر تبدیلی پیدا ہوگی ۔

Comments are closed.