رحمتِ الٰہی

عارف خان خٹک
رحمت عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معانی رحم، نرم دلی، مہربانی، کرم، شفقت اور عنایت ہے۔ اس کی نسبت اگر اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے دین و دنیا میں ہر قسم کی بخشش و سلامتی ، درود و سلام مراد لیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم کی طرف منسوب ہو تو مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم کا لقب ہوتا ہے جو تمام جہانوں کے لیے پیامِ رحمت بن کر آئے۔ یہی لفظ اگر انسانوں کی اصطلاح کے طور پر مراد لیا جائے تو مراد لڑکا ہوتا ہے۔ انگریزی زبان میں اس کے لیے
Blessing, Mercy, Compassion اور Favour
کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ رحمت، رحم، رحمان اور رحیم مترادف الفاظ ہیں۔مجموعی طور پر یہ الفاظ مہربانی، شفقت، محبت اور بہتر سلوک جیسے مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں۔رحمت کے متضاد میں سزا، مشقت، تکلیف ،دکھ، اور دقت کے الفاظ مستعمل ہوتے ہیں۔
قرآنی تعلیمات پر غور کیا جائے تو درگزر، مغفرت، رحمت، رحمان اور رحیم جیسے الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔ صرف ایک جگہ حضور نبی کریم ﷺ مراد ہے جہاں ارشادِ باری تعالیٰ ہے”ہم نے آپ کو رحمت بنا کر بھیجا”اس کے علاوہ تمام اللہ تعالیٰ کی صفات، رحمتوں ، مہربانیوں اور بخشش کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت فرشتوں کی ان الفاظ سے معلوم ہوتی ہے جس میں عرش کے اردگرد کے فرشتے اپنے رب کے حضور تعریف بیان کرتے ہوئے گویا ہیں "اے ہمارے پروردگار! تیری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے”اسی مفہوم کو اللہ تعالیٰ نے خود بھی بیان فرمایا ہے”میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے۔(القرآن) اس کی مزید تشریح احادیث میں مختلف مفاہیم کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ جیسے ایک روایت میں ہے "مخلوق کی پیدائش سے پہلے اللہ تعالیٰ نے لکھا تھا”میری رحمت میرے غضب سے آگے ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ "اللہ تعالیٰ نے لکھا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہوگی”
مہربان رب کی مہربانی کی اور کیا بات عجیب ہوگی جب حضور ﷺ رب کی رحمت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ” اللہ تعالیٰ نے جب زمین و آسمان کی تخلیق فرمائی تو سو رحمتیں پیدا کیں، ایک کو دنیا میں بھیج دیا کہ والدہ بچے سے شفقت کرتی ہے، پرندے اور چوپائے ایک دوسرے سے شفقت کرتی ہیں اور نناوے اپنے پاس رکھی ہیں، قیامت کے دن (دنیا کی ایک اور آخرت کی نناوے) سو رحمتیں کردے گا۔ایک اور حدیث ِ قدسی میں ہے کہ "میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ کرتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی کرتا ہوں، اگر دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو جی میں یاد کرتا ہوں، اگر جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر فرشتوں کی جماعت میں یاد کرتا ہوں، اگر ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ ، اگر ایک ہاتھ آتا ہے تو میں دو ہاتھ آتا ہوں، اگر وہ میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر آتا ہوں”
ابن آدم جس طرح بھی گناہگار ہوں، اس کا رب اس کو بخش دیتا ہے، شرط صرف یہ ہے کہ اس رب کے سامنے عاجزی اور انکساری کے ساتھ توبہ کرلیں۔اللہ تعالیٰ اپنی فضل اور رحم و کرم سے اپنے بندوں کو بخشتا ہے۔ اس بخشش کے لیے وہ بہانے ڈھونڈتا ہے۔ شرک، قتل اور ذنا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں جس کے کرنے والوں کو دو چند عذاب کا حکم فرمایا گیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت کو دیکھیں کہ ان گناہوں سے توبہ کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں” جس نے ان گناہوں سے توبہ کیا ، ایمان لایا اور نیک عمل کیا تو ان کے گناہ نیکیوں میں بدل دیں گے”
مسلم شریف کی ایک تفصیلی روایت میں ہے کہ ” بنی اسرائیل میں ایک آدمی تھا جس نے ننانوے قتل کیے تھے۔اس نے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا تو کسی نے ایک بڑے راہب کےپاس بھیجا، اس نے راہب سے اپنی بخشش کے متعلق پوچھا تو جواب نہیں میں دیا تو اس کو قتل کرکے سو پورے کر دیے، پھر ایک اور بڑے عالم کے بارے میں پوچھا تو اس کو دوسرے گاؤں میں ایک عالم کا پتہ بتا دیا گیا، وہ اپنے گاؤں سے نکلتے ہی موت نے آگھیرلیا، رحمت اورغضب کے فرشتے دونوں پہنچے توجنت والے جنت جبکہ جہنم والے فرشتے جہنم میں لے جانا چاہتے تھے، تیسرا ثالث فرشتہ آیا تو دونوں گاؤں کے درمیان کا فاصلہ ماپنے کو کہا کہ جس گاؤں کے قریب ہو اس کے قربت سے جنت و جہنم کا فیصلہ کرنا، فاصلہ ماپا تو عالم کے پاس جانے والے گاؤں کی زمیں کو رب مہربان نے کھینچ دیا اور زمین سکڑ گئی، جو قریب گاؤں تھا تو جنت میں داخلے کا فیصلہ ہوا۔
انسان جو اشرف المخلوقات ہے کے محبت کے قصے تو بہت مشہور ہیں۔ انسان کے علاوہ پرندوں کی محبت کے قصےبھی روایات میں جگہ جگہ ملتے ہیں ۔اس میں ایک واقعہ یوں ملتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کے صحابہء کرام میں سے ایک صحابی نے چادر میں ایک پرندہ اور اس کے بچوں کو باندھ کر لایا، حضورﷺ سے فرمایا کہ ایک جھاڑی سے یہ بچے لایا ہوں، ماں نے دیکھا تو مجھ پر منڈلانے لگی، میں نے چادر کھولا تو ان بچوں پر گر پڑی، حضور نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا تعجب ہے؟ پھر فرمایا قسم ہے خدا کی”جو محبت ماں کی ان بچوں کے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ کو اس سے بدرجہا ذیادہ محبت ہے بندوں سے” اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مزید اندازہ اس حدیثِ قدسی سے ہوتا ہے جس میں ارشاد ہے”اے آدم کے اولاد!میں تم سے محبت کرتا ہوں، تجھے میرے حق کی قسم، یہ میرا تجھ پر حق ہے ، اس وجہ سے تو بھی مجھ سے محبت کر”
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ سفرکے دوران ایک گاؤں میں قیام پزیر تھے۔ ایک عورت نے بچے کو گود میں لیا تھا جو تندور میں روٹیاں لگا رہی تھی، عورت آگ کی لپٹ سے بچے کو بچاتی کہ کہیں آگ کی گرمائی نہ لگے۔ اس کو حضور ﷺ کی آمد کا پتہ چلا تو پاس جاکر پوچھا” آپ رسول ہیں؟ اور اللہ تعالیٰ بندوں پر سب سے ذیادہ مہربان ہے؟ حضور ﷺ نے دونوں سوالوں کا جواب ہاں میں دیا۔ پھر پوچھا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ماں سے ستر حصے ذیادہ مہربان ہے؟ حضور نبی کریم نے فرمایااللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ماں سے ستر حصے ذیادہ مہربان ہے۔ عورت سن کر کہنے لگی ماں اپنے بچے کو آگ سے بچاتی ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دوذخ کی آگ میں کس دل سے جلائے گا؟
حجاج بن یوسف کے متعلق تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حالتِ جنگ کے علاوہ اس نے ایک لاکھ پچیس ہزار سے ذیادہ لوگوں کو قتل کیا تھا۔ ان میں صحابہء کرام کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا ہے کہ حجاج بن یوسف حالتِ نزع میں کہتے تھے "مجھے امید ہے کہ جبار و قہار اس طرح سختیوں سےاپنے بندے کی خطائیں بخشتا اور گناہ دھونا چاہتے ہیں۔ جبکہ اس کے موت کے وقت کے آخری الفاظ”یا الٰہی مجھے بخش دے کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ تو مجھے بخشے گا نہیں اور اس کے ساتھ یہ الفاظ زباں پر جاری تھے "الٰہی بندوں نے مجھے نا امید کر ڈالا حالانکہ میں تجھ سے بڑی ہی امید رکھتا ہوں۔
Comments are closed.