اقبال کی تلاش میں ڈاکٹر ظ انصاری

حامداکمل،مدیر ایقان ایکسپریس،گلبرگہ
9449439509
علامہ اقبال کی شعری کائنات اور تخلیقی دانش میں فکری ونظریاتی تضاد اور تصادم بلکہ آویزش کو خصوصیت حاصل ہے۔ بعض جگہ فکری تضاد نظریاتی تصادم ان کے افکار کی تو سیع اور وضاحت کے طورپر اُبھرتا ہے اور تصادم کی نوعیت اپنے راستے کی تبدیلی یا تکذیب کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ دنیائے علم توسیعِ افکار اور وضاحت کو بلا تذبذب قبو ل کرتی ہے،نظریاتی تصادم میں اپنے نظریے کا دوسرے نظریے پر غالب آنا ضروری ہے اسی صورت میں راستے کی تبدیلی یا تکذیب کا اثبات ہوتاہے، میں نے اپنے اپنے اسی خیال کے تحت اقبال کی تخلیقی دانش کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔
اقبال کو اپنے بے پناہ مطالعہ کے دوران نظریاتی ردوقبول اور فکری تذبذب اور تجسس کی عمیق وادیوں سے گذرنا پڑا، وہ مختلف نظریات میں یکسانیت اور اختلاف کی بنیاد پران کے مثبت ومنفی ہونے کے بارے میں اپنے موقف کے تعین میں سرگرداں رہے۔ خالق ومخلوق کے تعلق،خدااور خودی کے معاملات اور ان کی اصل پر اقبال کے خیالات میں واضح اختلاف نظر آتاہے،یہ اختلاف قاری اورسامع کا ہے اور اس میں ایسی کوئی بڑی گنجائش نہیں ہے کہ قاری یا سامع قدرے توقف یا غور وفکر کے بعد اقبال سے متفق ہوہی جائے۔
اپنی بے مائیگی اورکم علمی کے سبب میں اقبال کے تصور خودی یا انا اور مقام بندگی یا شانِ خدا وندی پر بحث کا خود کو مکلف نہیں سمجھتا اوریوں بھی میرکے شعر میں تحریف کے ساتھ کہ:
سہل، اقبال کا سمجھنا کیا
اس کا ہر شعر ایک مقام سے ہے
اقبال اسی نظری،فکری اختلاف کے سبب ہمیشہ موضوعِ بحث بنتے ہیں،دنیائے ادب زائد از یک صدی، اقبال کی تلاش میں مصروف ہے،ایسی ہر کوشش میں اسے اقبال کی علمی سعئی مشکور ہوتی ہوئی نظر آتی ہے، جس جس نے اقبال کو جس جس انداز اورمقصد سے ڈھونڈا،ٹٹولا،جانچا،پرکھا اس کے حصولِ محصول پر سب کی نظریں چمک اُٹھی۔ اقبال اور فکرِاقبال پر فلسفی شاعر،فلسفہ طراز کی حیثیت سے سیاسی مدبر اور مصلح قوم کے بہ طور ہی نہیں بلکہ حکیم الامت کے منصب عظمت کے ساتھ بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ (آپ اجازت دیں تو اس جملے کو اس طرح لکھنا چاہوں گا(مذکورہ حیثیات یا منصب پر روشنی نہیں ڈالی گئی بلکہ ان حیثیات ،کیفیات اور مقامات سے اکتسابِ نور کیا گیا۔)اختلاف ِ فکرونظر ،رویے اور موقف کے اٹل یا بحث طلب ہونے کو لڑائی کی نشانی قرار دیا جاتاہے۔ تضادیااختلاف ہر بڑے فن کار میں ہوتاہے لیکن ان کی موجودگی ہی بڑائی کی دلیل نہیں ہے۔
اقبال کی قوم پرستی،ملت پرستی اور انسانیت پرستی میں عام قاری کو غیر معمولی اختلاف یا تضاد نظر آتاہے لیکن یہ ان کی تدریجی فکر کے ارتقا کی علامت ہے۔ من وتو کے معرکہ آراء مباحث ،شکوہ جوابِ شکوہ، تو شب آفریدی،میں چراغِ آفریدم اور جاوید نامہ سے لے کر دیگر مختلف مختصر موضوعاتی نظموں میں بڑی دلکشی اور دلنشینی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔خدا کے مقابل بندے کی خودی اقبال کے پاس بعض موقعوں پر زیادہ طاقت ور نظر آتی ہے۔ اقبال بندے کو خودی کے معاملے میں خدا سے کم نہیں دیکھنا چاہتے۔بلکہ وہ یہ بھی کہہ گذرتے ہیں کہ یزداں بکمند آوراے ہمت مردانہ، ظاہرہے یہ اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں ہے اور نہ ہی کسی متصوفانہ فلسفے میں بھی یہ مفید مشورہ دیاگیاہے۔خیر اس پہ بحث آگے بھی آئے گی۔
ان تمام باتوں سے بڑھ کر نوعِ انسانی کی بقا اور تحفظ کے لیے اقبال کی فکر مندی اور تڑپ کبھی سرحدوں کی اسیر نظر آتی ہے توکبھی سرحدوں سے ماوراء دکھائی دیتی ہے۔ مغربی استعماریت اور غلبۂ یہود کے خلاف اقبال نے صدائے احتجاج کے ساتھ یہ مشورہ دیاتھا:
تہراں ہو اگر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
اس شعر پر عمل آوری کس طرح ہوسکتی ہے؟کیا عالم اسلام آج کے حالات میں تہران کو عالم مشرق کا جنیوا تسلیم کرنے کو تیار ہے،تازہ ترین حالات نے تو مسئلہ فلسطین کو بھی عالم اسلام کا سب سے سنگین مسئلہ بنا دیاہے۔ اب بہت کم مسلمان ممالک فلسطین کے حامی ہیں۔مسلم ممالک کی اکثر یت اسرائیل کے ہاتھوں اپنا ایمان فروخت کرچکی ہے۔آج امریکہ سعودی عرب اور دیگر ممالک کو ساتھ لے کر ایران کے خلاف مشترکہ جنگ چھیڑنے کی تیاریاں کر چکاہے۔
برصغیر میں اقبال کے مسلمانوں کے وطن کے تصورکے طورپر پاکستان کو دیکھا جاتارہا لیکن وہ بھی اقبال کی فکری اساس سے مختلف ہے۔ اقبال نے مسلمانوں کی مقتدرانہ حیثیت کے ساتھ پاکستان کے لیے جس فکری اساس پر زور دیا اس میں ان کی اپنی ریاست کشمیر کی حیثیت گول مول کردی گئی۔ تقسیم کے بعد کشمیر کو جس خصوصی موقف کا وعدہ کیاگیا اس پر عمل بہت کم ہوا۔ اصل میں یہ سارا قضیہ کشمیر کے سابق والیٔ ریاست کی وجہ سے پیدا ہوا، سابق والیٔ ریاست نے کشمیر کو انگریزوں کے ہاتھوں فروخت کر دیاتھا۔(70)سال بعد آج کشمیر کا خصوصی موقف ختم ہونے کے بعد اس کی نظریاتی فروخت یا اس پہ نظریاتی قبضہ ہوچکاہے۔یہ سمجھا جارہاہے کہ یہی کشمیر کے مسئلے کا حل تھا۔مسئلہ کشمیر کیاتھا؟اسے کیا سمجھاگیا اور کس طرح سمجھایا گیا۔ یہ حالات مہذب دنیا کے سمجھنے اور کشمیریوں کے Compnsetکرنے کے متقاضی ہیں کشمیر کے موجودہ مسئلہ کا حل کیاہو۔نئی دہلی سے کشمیری اس مسئلے کو کس طرح حل کرواسکتے ہیں۔یہ واضح نہیں ہے۔دہلی کے مقتدرانِ اعلیٰ نے بہ زعم خود اپنے طورپر کشمیر کا مسئلہ حل کر دیاہے۔کیا یہ مسئلہ انسانیت اور کشمیریت کو پیش نظر رکھ کر کیاگیاہے۔کشمیر کی خود ارادیت کو ہندوستانی جمہوریت میں تحفظ فراہم کرنے کے حامی سیاست داں اب کشمیر میں کھل کر کوئی تحریک چلانے سے قاصر نظر آتے ہیں اور حالات بتاتے ہیں کہ ان میں سدھار کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ یہ مسلسل بگڑتے جائیں گے۔آزادی کے (70) سال کے دوران کشمیر کے حالات یہاں تک پہنچے ہیں تو یہ اقبال کی نظریاتی اساس کی ناکامی نہیں بلکہ یہ کشمیریت کی بے عملی اور مقتدر طبقہ کی اس کے ساتھ اعتماد شکنی کا ثبوت ہیں۔اقبال کی نظریاتی اساس، پاکستان نام کا زمینی ٹکڑا یا کشمیر کے نام کا خطہ ارض نہیں تھا۔یہ مقامی (علاقائی) مسلمانوں کے عزتِ نفس کے ساتھ سراٹھا کر جینے کے سلیقے کا نام تھا۔ اقبال نے اقوام عالم کی شیرازہ بندی کے لیے تہران کو عالم مشرق کا جنیوا بنانے کی وکالت کی یہ یہودیوں کی عالمی سازش کے خلاف احتجاج تھا۔برصغیر ہندوپاک میں یہودی النسل فرقہ اور فکر بھی یہودیوں جیسے مقاصد کے لیے سرگرم ہے اور یہ فکر یہودیوں سے باہمی ارتباط کے ذریعہ اپنے فاشسٹ مقاصد کی تکمیل چاہتی ہے۔ میں نے ابھی عرض کیا ہے کہ اقبال کے تصور ملک قوم اور ملت کا مقصد ایک اعلیٰ ترین نظریے کی حفاظت ہے۔ یہ کسی زمینی ٹکڑے کا نام نہیں ہے۔ اسی انداز میں ان کی قوم پرستی ،ملت پرستی میں اور اوپر اُٹھ کر انسانیت پرستی میں متشکل ہوئی۔
تلاشِ اقبال کے لیے آسمان کے جنتے فلک اور زمین کی جتنی پرتیں کھنگالی جائیں اور تھک کر قدرے دم لینے کے لیے بیٹھ جائیں تو واماندگی کا ہر وقفہ یہ احساس دلاتاہے ابھی ہم اقبال کے ٹھکانے کے قریب تک نہیں پہنچے ہیں۔ہمیں مزید توانائی کے ساتھ تلاشِ اقبال کے سرگرم سفر ہوجانا چاہیے۔ تعین اوقات کے ساتھ میں نے اقبال اوراقبالیات پر بیشتر ماہرین کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔اقبال پر ہر تصنیف اور ہر تحریر ہماری پیاس کو بڑھاتی رہی۔میں سمجھتا ہوں کہ ان کتابوں کا مقصد بھی قاری کو اقبال تک پہنچانا نہیں بلکہ ہمیں مسلسل تلاشِ اقبال میں سرگرم سفر رکھناہے۔ اس سلسلہ مطالعہ میں ہمارے بزرگ نقاد ظ انصاری کی کتاب’اقبال کی تلاش‘ بھی پڑھی ،حسب توقع اس سے استفادے کی بھرپور کوشش کی۔اس میںبھی ہمارے ہاتھ پیاس لگی۔فکر اقبال کی تشکیل اس کی فلسفیانہ اساس میں علمائے ادب نے مولانا روم، فشطے اورنشطیے کے اثرات کو یکساں اہمیت دی ہے۔انیسویں صدی کی فلسفیانہ یلغار کو امتدادِ زمانہ کی حقیقت سمجھنے کے ساتھ اقبال الہامی ادبیات کے ان احکام کوجن کی روح امتدادِ زمانہ نے چھین لی ہے چھوڑکر باقی اجزاکو اپنا لینے کی بات کہی ہے۔ان کا یعنی اقبا ل کا یہ احساس ہے کہ قدیم افکار کے قیمتی ورثے کا جتنا کچھ حصہ کا رآمد(Relevant) ہوسکتاہے اس کی نئی ترجمانی کی جائے۔وہ مستقبل کی ترقی یافتہ دنیا بنانے سجانے کے لیے جس قماش کا یا جس بل بوتے کا آدمی وہ دیکھنا چاہتے تھے وہ کہیں شاہین یا طائر لاہوتی،کہیں مردِ مومن،یا مردِ مسلمان ،کبھی قلندر کبھی وہ جس کی خودی فولاد ہو۔جو بیک وقت شعلہ وشبنم ہو،وہ آدمی ہمارا اور اقبال کا آئیڈیل ہے۔اقبال اس آدرش کے بہترین پرچارک ہیں اس پہلو سے ان کا ایک ایک لفظ دلنشین اور ولولہ انگیز ہے۔ موجودہ نسل پر خودی (یا بقول خود’’احساس نفس یا یقینِ ذات) کے اسرار کھول کر جب وہ عمل کی پرزور تلقین کرتے ہوئے نکتے کی بات بتاتے ہیں۔
مشرق سے ہو بے زار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کی سحر کر
اقبال کے تمام تر ورثے میں سے ان کے تصورکا وہ فردہم چن لیتے ہیں جو حاضر وجود سے مطمئن بھی ہوگا اور اس پر ایک اضافہ بھی۔خاص اعلیٰ معنوںمیں وہ بہتر یابرتر انسان کی راہ ہموا کرنے والے شاعر ہیں۔ ہرانسان ذاتی سطح پر ہی انسانیت کو بلند کرے گا یا اس سے کوئی سماجی اصلاح کا کام بھی لیا جائے گا۔ کیا وہ ایک مصلح یا پیغمبر بے کتاب ہوگا،انسانی نظریاتی جدوجہد ایک مقام پر رک جاتی ہے یا ختم ہوجاتی ہے اس کے تاریخ کا حصہ بن جانے کے بعد کیا اس کے مقصد کا حصول یا تسلسل باقی رہتاہے یا رہنا چاہیے یہ خدائی فیصلے کے بغیر بے فیض اور بے معنی رہتاہے۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اقبال جس برترانسان کی برتر انا،احساس کی بات اصطلاحی پیرائے میں کرتے ہیں اسے ہم Super Egoکہہ سکتے ہیں۔یہ سوپر ایگو یا برتر انا اقبال کی شاعری میں خطرناک انداز میں نظر آتی ہے۔میں پھر ذاتی خیال کا سہارا لے کر ہی کہوں گا کہ اس طرح خطرناک انائی پہلو کے ساتھ قاری یا سامع زیادہ اونچائی تک سفر کرنے کی سکت نہیں رکھتا یا اس کے کسی نہ کسی سطح پر بھٹکنے کے خدشات ہیںیزداں بکمند آور، جیسے خطرناک فلسفے کو ہمیں سمجھنے کی تک کوشش نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ اس سوپر ایگو میں سوپر الجھاوے ہیں۔
اقبال کی تلاش میں اپنے ابتدائی مضمون ’اقبال اورہم‘ میںظ انصاری کہتے ہیں کہ سوویت یونین میں اقبالیات کی علمی فہم اور پہلی صدی تقاریب کا نقطہ آغاز بننے کے لیے میں نے پیام مشرق اور جاوید نامہ پر پھر ایک بار نظر ڈالی تو ساقی نامہ میں کشمیر یوں پر وہ شعر اور بھی بامعنی نظرآئے جن کا مفہوم تھا کہ کشمیری کو حکم بجالانے اور سرجھکانے کی عادت سی ہوگئی ہے پھر وہ زبان زد اشعار ملے جو شاہ ہمدانؒ کے حضور عالمِ بالا میں گویا غنیؔ کا شمیری کی روح نے تڑپ کر گائے ہیں۔
باد صبا اگر بہ جینوا گذر کنی
چرخے زما بہ مجلس اقوام باز گوئے
دہقان و کشت جوئے خیاباں فروختند
قومے فروختند چہ ارزاں فروختند
یہاں یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اقبال شاعری کے آتش گیر مادے سے جس آتشِ انقلاب کو بھڑکانا چاہتے تھے اس کا ماحصل کیا رہا۔شیرازہ بندی اقوام کی کوششوں سے عالمی تاریخ بھری پڑی ہے۔اقبال امپر یلزم کو قومی شیرازہ بندی کا دشمن سمجھے تھے۔امپر یلزم کے خلاف اقبال کی جد وجہد بھی بے حد اہم ہے انھوںنے وطن بہ حیثیت سیاسی تصورپر بھی حملہ کیاہے ۔ان کا کہنا تھا کہ امپریلزم ہندوستان کی آزادی اورعالم اسلام کی آزادی کا دشمن نمبر ایک ہے اور مشترکہ دشمن،اقبال کے نزدیک تمام غیر اسلامی خصلتوں کا مجموعہ اورساری خرابیوں کی جڑ ہے۔اقبال سرسید اور مسلم لیگ کی سیاسی لائن سے بھی ناراض تھے۔اقبال اپنی قومی شاعری کے ذریعے ہندوستانی نیشنلسٹ حلقوں کی امنگوں کی تسکین کا سامان کرتے تھے اس حیثیت سے اسے اپنایابھی گیا۔لیکن قومیت پران کی توجہ اصطلاحوں سے زیادہ Content (مواد) پر تھی۔ بہ قول ظ انصاری اقبال نے کئی بیانات میں اس کی وضاحت بھی کردی ہے۔ستمبر 1931کے آخر میں انھوں نیبمبئی کرانیکل کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہا کہ:
’’اصطلاح پین اسلام ازمPanislamism ایک ایسی سازش کے لیے استعمال کی گئی جو یوروپ کے خیال کے مطابق قسطنطنیہ میں رچی جارہی تھی یعنی مسلم ریاستوں کے اتحاد کا ایک ایسا منصوبہ جو یوروپی ریاستوں کے خلاف ہوگا۔ کیمبرج کے پروفیسر برائون نے پوری ریسرچ کے بعد ثابت کیا ہے کہ اس طرح کا پین اسلام ازم قسطنطنیہ میں وجود رکھتا تھا نہ کہیں اور۔جمال الدین افغانی، افغانستان ،ایران اور ترکی کو اس طورپر متحد کرنا چاہتے تھے کہ وہ مل کریوروپی حملے کا سامنا کرسکیں۔اپنی حفاظت کی ایک تدبیر تھی اورمیرے خیال میں انھوں نے صحیح سوچا۔‘‘
پین اسلام ازم ……قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ہے،اسلام ذات پات رنگ ونسل کی تمیز کو نہیں مانتا۔ گورے کالے کی اونچ نیچ جو یوروپی تہذیب اپنی ترقیوں کے باوجود نہیں مٹا سکی….اسلام نے اسے یہاں سے مٹا دیا۔
…..اس طرح پین اسلام ازم (عالیٰ انسانیت کا اشتراک)بن جاتاہے،لہٰذا ہر ایک مسلمان پین اسلامسٹ بن جاتاہے۔ہونا بھی یہی چاہیے ۔بلکہ Panکا لفظ زائد ہے،لفظ اسلام ہی ان معنوں کا احاطہ کرلیتاہے۔
میراخیال ہے کہ پین اسلام ازم کے اس نظریے کے تحت چلائی گئی تحریک فکری اور شعری سطح پر نہیں تھی۔برصغیر کے تمام مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی تحریک کا روپ دھار چکی تھی۔اقبال کی فکر کا پیمانہ اس قدر وسیع تھا کہ ایک طرف ٹھیٹ اسلام پسند اس کے حامی تھے ،دوسری طرف کمیونسٹوں کے لیے اس کے سوا چارہ کا ر نہ تھا کہ وہ اقبال سے فیض اٹھا سکیں۔ظ انصاری کہتے ہیںکہ اقبال کے قبولِ عام میں اس بات کو بھی دخل ہے کہ ترقی پسند شاعری کا اچھا بڑا قابلِ ذکر حصہ اس ’’زندہ رود ‘‘ ہی سے اپنی پیاس بجھاتا رہا۔
’’اقبال اورہم‘‘ (مضمون) کے آخری حصہ میں ظ انصاری رقم طراز ہیں:
’’اقبال کے مطالعے کی لپیٹ میں ایک نہایت وسیع النظر تاریخ اور جغرافیہ دونوں کی مقررہ حدود سے دور تک پھیلا ہوا منظر ہمارے سامنے کھلتاہے۔ ہزار برس کی فارسی شاعری اورچار سو سال کی اُردو شاعری نے اپنی تمام رنگارنگی،کثافت، لطافت اور شدت کے ساتھ ہمیں مشرق ومغرب کے ان جواہر پاروں سے آشنا نہیں کیا تھا جن کو چھونا اور پہچاننا خود اقبال کو سمجھنے کے لیے آج اہم ہوگیاہے۔ اقبال کی صحبت میں ہم عالمی ادب، عالمی فلسفہ، عالمی مسائل اور بعض اوقات عالمی تاریخ کے نکتوں سے تعارف حاصل کرتے ہیں۔اقبال نے حضرت علیؓ کے قول پہ عمل کیاکہ علم مومن کا کھویا ہوا مال ہے،جہاں ملے اُٹھا لو۔اقبال نے حصولِ علم اورسیاست دونوں اعمال میں کھوئے ہوئے مال کو ہر جگہ سے اُٹھایا۔‘‘
(راقم التحریر بھی سمجھتا ہے کہ)اقبال کے نقادوں کا یہ کہناغلط نہیں ہے کہ نظریاتی افراط وتفریط کے چلتے ان میں بہ ظاہر جو تضاد نظرآتاہے اس میں اکثر صورتوں میں اپنی نفی خود کرتے ہیں۔اسے اہمیت دئیے بغیر اقبال کی بے چین روح کے سفر کو کسی نظریاتی دبائو کے بغیراہمیت دی جانی چاہیے۔
اقبال مشرق کی بے ربطیٔ افکار اور مغرب کی لادینیٔ افکار سے بد دل رہنے کے باوجود مشرق کی تقلید ی فضا،پسماندگی اور بے رونقی اور مغرب کی علمی،سائنسی چہل پہل اور اقتصادی چھین چھپٹ کی درمیانی سرحدپر وہ اپنے آئیڈیل سماج کی خیالی اینٹیں چن چن کر پوری عمارت بنانا چاہتے ہیں تو اس عمارت میں توازن بگڑنے لگتاہے۔ہمیں ان کے خلوصِ نیت اور کوشش دونوں سے ہمدردی ہوتی ہے اور آخری دور کا وہ شعر ہماری ترجمانی کرتاہے، جسے لکھواتے وقت اقبال تڑپ کر رو دیے تھے:
تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک
جس کو آوازِ رحیلِ کارواں سمجھا تھا میں
بہ قول ظ انصاری تھکن کسی نہ کسی مرحلے پر ایک نظر اور نظر ئیے کا مقدر ہے۔اقبال نے اپنے خیالات کے نقشے پر جس قسم کے مثالی سماج کی تعمیر سوچی تھی وہ نہ تو بنا نہ آئندہ بنتا نظر آئے گا۔کارواں کے کوچ کی پکار تھکے مسافر کی صدا نکلی۔ لیکن ہاں فردوشخصیت کی تعمیر کے لیے جو کچا مال انھوںنے فراہم کیا تھا آج سیاسی آزادی کے ماحول میں اس کی قدروقیمت اور اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔
اقبال نے شاہین،مردکامل اور ایسے دوسرے استعاروں کے ذریعہ جس خودی،انا یا برتر انا کی تبلیغ کی ہے وہ اکثر مخلوق (آدم) کو خالق (اللہ) کے مدِ مقابل کھڑا کرتی ہے۔ خدابندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیاہے؟اس تصورکے واضح اظہار ہیں۔اسلام نے حدیث احسان کے ذریعے تصوف کو پیش کیاہے۔اس میں بھی بندے(یعنی مرد مومن) کو خود کو اللہ کے سپر دکرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ جب کہ اقبال اپنے منتخب ’مرد‘ کو یزداں بکمند آوراے ہمت مردانہ،کا پیغام دیتے ہیں۔یہ اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں ہے۔ تو شب آفریدی چراغ آفریدم/سفال آفریدی ایاغ آفریدم کی تفہیم یا تشریح کے دوران طلبا یہ سوال کرتے ہیں اور بجا طورپر کرتے ہیں کہ اگر اللہ میاں مٹی نہ بناتے تو اقبال چراغ/یا ایاغ(پیالہ) کس طرح بناتے؟اوریہ کونسی اورکتنی برترانا ہے جو اپنے دام میں اللہ تعالیٰ کو پھانسنا چاہتی ہے۔یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات اقبال نہیں دیتے۔غیر اسلامی فلسفہ /نظریات اور تصورات کا اسلامی تعلیمات پر انطباق بھی غلط ہے۔ خودی اور برترانا کے تصوراتی مباحث میں ہم اقبال کے ساتھ نہیں کھڑے ہوسکتے بلکہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ان سے آگے گذر جاتے ہیں۔ اقبال حکیم الامت اور شاعر مشرق کے بیاچس کے ساتھ جن فضیلتوں پر فائز ہیں ہم ان پر علمی اصطلاحی بحث بھی نہیں کرسکتے۔واقعہ یہی ہے کہ اختلاطِ افکار، خلطِ نظریات کا اتنا بڑا شاعر مفکر/یا مفکر شاعر،اُردو میں نہ اقبال سے پہلے ہوا ہے اور نہ بعد میں۔یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ اقبال سے ہم سوالات پوچھتے جائیں اور ان سے من پسند جوابات کی توقع رکھیں۔فکرِ اقبال کا شاعرانہ انطباق بھی اتنا ضروری نہیں۔ لوگ فکر اقبال کے تدریجی ارتقا کو سمجھے بغیر ان کے تصورِ قومیت، تصورِ ملت اور تصورِ انسانیت کو ان کے تضاد سے موسوم کرتے ہیں۔یہ تضاد نہیں ارتقا ہے۔ لیکن اسے ایک کے ترک اور درسرے کو قبولیت سے بھی تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے۔اقبال نے مسولینی کی طاقت اقتدار،لینن کے اشتراکی نظریے سمیت ہر طاقت ور شخصیت کو حسبِ مراتب خراجِ عقیدت پیش کیاہے۔ اس میں بھی ڈھونڈنے والے افراط وتفریط یا تضاد ڈھونڈ لیتے ہیں،یہ بھی کوئی بڑی قابلِ اعتراض یابحث طلب بات نہیں ہے۔ صاحبان عظمت کی نشان دہی کو اقبال نے بہر حال ضروری سمجھا۔تصوراتی جھماکوں کے درمیان اقبال یہ کہنا نہیں بھولتے کہ ’’من آنم کہ من دانم‘‘ اور بعض اوقات یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ’’اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے‘‘۔یہاں دوسرا لفظ اقبال،بعض لوگوں کے نزدیک اقبال مندی یا بلندی کا مفہوم رکھتا ہے۔اس عرفانِ ذات اور عدم آگاہی کے اظہار کے درمیان ہماری تلاشِ اقبال کا کیا مفہوم ہے اورہم تلاش ہی میں کیوں محو ہیں۔ یہ سوال ہمیں اقبال سے نہیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے اور خود ہی اس کا جواب ڈھونڈنا چاہیے۔ڈاکٹرظ انصاری کے مضامین ’اقبال کی تلاش میں‘ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے جناب شمیم طارق نے مرتب کیے ۔
حرف آخر: اقبال کی جمالیات کی تشکیل و تسکین میں ان کے ذوقِ جمال اور حالات کی کارفرمائی اظہر من الشمس ہے۔ کثرتِ ازدواج کے بارے میں ان کا یہ شاعرانہ خیال حرفِ آخر کی حیثیت رکھتاہے۔ بہ قول شاعر:
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا
راقم الحروف ای ٹی وی اُردو چینل کے دفتر میں اسلم فرشوری اور نورالدین نور کے ساتھ کسی پروگرام پر تبادلہ خیال کر رہا تھا کہ پروفیسر مجاور حسین رضوی کی تشریف آوری ہوئی۔باتوں باتوں میں اقبال کا ذکر نکلا تو نورالدین نور کے اقبال کی کثیرالازدواجی کا ذکر چھیڑا اور پروفیسر مجاور حسین رضوی نے فرمایا’’ میاں یاد رکھو،ذہانت قناعت پسند نہیں ہوتی۔ اس جملے پر نورالدین نور نے پروفیسرصاحب سے پر جوش اندازمیں ہاتھ ملایا اور پھر مری طرف ہاتھ بڑھا یا تو میں نے کہاکہ صاحب میں قناعت پسند ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھ میں آپ جیسی اقبالی ذہانت نہیں ہے ۔نور صاحب کی ذہانت کے بارے میں میرے اشارے کو پروفیسر مجاور حسین رضوی سمجھ گئے ،فوری کہا اللہ آپ کی ذہانت میں بھی اضافہ کرے۔پروفیسر مجاور حسین رضوی کایہ کمینٹ کہ ذہانت قناعت پسند نہیں ہوتی۔اقبال کی تلاش کے مصنف ظ انصاری پر بھی منطبق ہوتاہے۔لیکن ہم اقبال تک پہنچنے کے لیے اعلیٰ سطح کی ایسی ذہانت کے قائل ہیں جس میں قناعت یا ’زیادت‘( کثرت) کا عمل دخل نہ ہو۔
Comments are closed.