بصیرت نہ بصارتـــ۔۔۔۔۔۔۔؟

سمیع اللہ ملک
وادی گماں میں بسنے والو!اس گماں میں،اس دھوکے میں،فریب میں مت رہناکہ تم ہروقت باوضورہتے ہو،اچھے کپڑے پہنتے ہو، نمازیں اداکرتے ہو،نفلی روزوں کابھی اہتمام کرتے ہوتورب کواس سے کچھ ملتاہوگا،اسے بندگی کرانے کی کوئی خواہش ہے،رب کی عزت میں کوئی اضافہ ہوتاہوگااوراگرتم بغاوت کرتے ہوئے،فرائض نہیں اداکرتے تواسے کوئی نقصان ہوتاہوگاوہ رنجیدہ ہوتاہوگا، وادی گماں میں بسنے والو!ایسانہیں ہے،قطعی نہیں ہے۔ساری کائنات اس کے سامنے سجدہ ریزہوجائے تواس کی بڑائی بیان نہیں ہو سکتی اور ساری کائنات باغی ہوجائے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس کی نگاہ میں ساری دنیاکی قیمت ایک لنگڑے مچھرکے پرکے برابربھی نہیں۔ بس حکم کی تعمیل کرتے چلے جا شکر کے ساتھ عاجزی کے ساتھ،اپنی تمام تربے بسی کے ساتھ،توبس تمہاراہی فائدہ ہے۔فلاح پاگے،مانتے چلے جاگے توامن پا گے ، سکون وراحت پاگے۔ بغاوت کروگے توزندگی جہنم بن جائے گی،سکون وقرارکھوبیٹھوگے،اعتبار جاتا رہے گا،نفسانفسی مچے گی،کوئی کسی کی نہیں سنے گا،بس پھنس کے رہ جاگے اس تارِنفس میں اوردھوکے میں فریب میں۔بس ایک ہی راہ ہے:
تسلیم کرواس کی حاکمیت،رضاپرراضی رہو،اس کے گن گا۔اسی کی مدحت ہے،وہی ہے سزاوارِحمدوثنا،نام اس کاہی بلندرہے گا۔سب چلے جانے کیلئے ہیں، چلے جائیں گے۔کوئی نہیں رہایہاں پر،کوئی نہیں رہے گا،رہ ہی نہیں سکتا۔بس رہے گاتونام میرے اللہ کا،بس اسی کا۔بہت ہی اتھلاہے بندہ بشر،بہت ہی تھڑ دلابہت مکاروعیاربہت ہی شکوہ کرنے والا شکایت کرنے والا۔۔۔۔۔۔۔۔تھوڑی سی راحت پر پھول کرکپاہوجاتاہے اوررب کوبھول جاتاہے اوراگرتھوڑی سی تکلیف پہنچے توبس ڈھنڈورچی بن جاتاہے۔سب کوبتانے لگتاہے دیکھو میرے سرمیں دردہے دیکھومجھے بخارہوگیادیکھومیں تکلیف میں ہوں،یہ ہوگیاوہ ہو گیاغضب ہوگیا۔بس میں ہی نظرآتاہوں رب کو۔
حضرت رابعہ بصری یادآگئیں کہیں سے گزررہی تھیں کہ ایک شخص کودیکھاجس نے سرپررومال باندھاہواتھا۔پوچھا:یہ تم نے سرپر رومال کیوں باندھاہوا ہے؟وہ بہت عاجزی سے بولا:میرے سرمیں دردہے اس لیے۔ تب رابعہ بصری بولیں:کیاتم نے کبھی شکرکارومال باندھاہے؟حیران شخص نے وضاحت چاہی تورابعہ بصری نے فرمایا:اتنی راحتیں رب نے دیں تب توتم نے رومال نہیں باندھا کہ جس پرلکھاہوتا:مجھے رب نے راحت دی ہے اس لیے یہ رومال باندھاہواہے یہ شکرکارومال ہے اورسرمیں تھوڑاسادردکیاہوگیاکہ شکایت کا رومال باندھے گھومتے ہو۔کبھی غورکیاہے ہم نے اِس پر؟ہم سب شکرکے رومال سے محروم ہیں اورشکایت کاپرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔بہت ناشکرے ہیں ہم بہت تھڑدلے بہت بے عقل۔۔۔۔۔۔۔بصیرت نہ بصارت۔ بہت بغاوت کرلی ہم نے، نتائج بھی دیکھ رہے ہیں۔پلٹ کیوں نہیں آتے اپنے رب کی طرف۔
یادرکھیں اللہ جی اس بندے سے بہت خوش ہوتے ہیں جوپلٹ آئے،سہماسہماساشرمسار،اس بات کاملال ہوکہ اتنے عرصے رب کاباغی رہا۔جب وہ شرمندہ شرمندہ سااپنے رب کے سامنے کھڑاہوتاہے تب رب کی رحمت جوش میں آتی ہے اوروہ اسے اپنی رحمت میں لپیٹ لیتاہے۔پلٹ آیئے۔یہ سب کچھ رب نے دیاہے۔شکراداکیجیے اورشکریہ نہیں ہے کہ صرف نمازیں پڑھیں،تلاوت کریں،روزے رکھیں۔یہ تورب کاحکم ہے اسے تواداکرناہی ہے،یہ آپ کااوررب کامعاملہ ہے۔شکریہ بھی ہے کہ آپ بے کسوں کی خبرگیری کریں۔ وہ جوآپ کے محلے میں سفیدپوش ہیں ان سے سرجھکاکرملیں،ان کے مسائل معلوم کریں اورپھراس طرح کہ ان کی عزت ِ نفس ذراسی بھی متاثرنہ ہوان کی اس خفیہ طریقے سے مد د کریں کہ ان کوبھی پتہ نہ چلے۔ہرمحلے میں کئی دوکانداروں کے ہاں ان سفیدپوشوں کے ادھارکاکھاتہ چل رہاہوتاہے،خاموشی سے ان کاادھارچکادیں اوردوکاندارکوبھی خوف خدا کاواسطہ دیکراپنانام چھپانے کی درخواست کریں۔کبھی اگرراشن بھی دیناہے تومحلے کے دوکاندارکی ڈیوٹی لگادیں یاپھر خودشام کے اندھیرے میں خاموشی سے گھرکی دہلیزپراس طرح رکھ کرچلے آئیں کہ ہمسایہ کوبھی اس کی خبرنہ ہو۔کیاہمارے رب نے ہمیں عطاکرتے ہوئے کسی کورازداں بنایاہے؟
محلے میں اگرکوئی مریض ہے تورازداری سے اس کی ادویات کابندوبست کردیں۔اپنے عزیزواقارب میں ایسے حاجت مندآپ کومل جائیں گے۔جہاں ان کی خوشدلی سے عیادت کرناآپ کافرض ہے وہاں ان کی مشکلات کاادراک کرتے ہوئے ان کی عزت نفس کاخیال رکھتے ہوئے خودسے ہدیہ کی صورت میں ان کی کفالت کردیں۔میں آپ کویقین دلاتاہوں کہ ان شاء اللہ آپ ہرقسم کی ادویات استعمال کرنے سے محفوظ رہیں گے۔
وہ بیٹی جوجہیزنہ ہونے کی وجہ سے اپنے بالوں میں چاندی لیے بیٹھی ہے اس کادردمعلوم کریں۔وہ جوبسترپرپڑاایڑیاں رگڑرہاہے اسے راحت وآرام کی چند گھڑیاں دیں۔وہ طالب علم جوچندروپوں کیلئے اپنی تعلیم چھوڑنے کاسوچ رہاہے اس کاہاتھ تھامیں اوران کی خبرگیری کریں جن کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں،یہ جومال ودولت آپ کورب نے دیاہے اسے اس کی مخلوق کیلئے خرچ کرنا سیکھئے۔میں آپ کویقین دلاتاہوں کہ آپ اس خرچ کرنے کی راحت کوکبھی نہیں بھول پائیں گے۔وہ لمحے جوآپ نے کسی کے کام میں خرچ کیے وہ سرمایہ ہیں زندگی کا۔۔۔۔۔۔۔وہ آنسوجوآپ کی آنکھوں سے کسی اورکیلئے برسا،وہ انمول ہے اوروہی رب کومطلوب ہے۔ دیکھئے پھرکہہ رہاہوں عبادت سے جنت اورخدمت سے خداملتاہے،انتخاب توآپ کاہے ناں۔
ہم سب بلاسوچے سمجھے بولتے رہتے ہیں۔ہمارے شرسے انسان محفوظ نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔وہ انسان جوبولتے ہیں چیختے ہیں احتجاج کرتے ہیں لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں۔ہم کسی کو بھی کسی وقت کچھ بھی کہہ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔وہ ایساہے فلاں ویساہے اورجس پرآپ نے الزام دھردیاہے بہتان لگادیاہے۔۔۔۔۔۔۔زور آور ہے تومقابلے پراترتاہے اورآپ پھرکھسیانی بلی بن جاتے ہیں اورکھمبانوچتے ہوئے پتلی گلی کی راہ لیتے ہیں اوراگرکوئی کمزورہے تویہ سماج اس کی زندگی اجیرن کردیتاہے۔بے آسراکے ساتھ آپ جوچاہیں سلوک کریں کوئی آپ کوروکنے والانہیں ہے؟خیریہ توہم روزدیکھتے ہیں اورکبھی خودبھی یہی کرتے ہیں۔ ہمارے شرسے انسان محفوظ نہیں ہیں توجانورکیامحفوظ ہوں گے۔وہ جانورجوبول نہیں سکتے احتجاج نہیں کرسکتے مظاہرہ نہیں کرسکتے،اخباری بیان جاری نہیں کر سکتے،عدالتوں کادروازہ نہیں کھٹکھٹاسکتے۔
ہم ہیں کہ جنگلوں کے باسیوں پرالزام پرالزام دھرتے چلے جاتے ہیں۔کبھی سناہے شیرنے کرپشن کی ہو،کسی گدھے کے سوئس اکاؤنٹ ہوں یاکسی جانورنے کسی دوسرے کوبیچ کھایا ہو،ذخیرہ اندوزی کی یامنافع خوری کی ہو!کیاکسی شیرنے اپنے اقتدارکوطول دینے کیلئے اپنے بچوں کوبیچ کھایاہواوربعدمیں بڑے فخرسے کہے کہ اس نے اپنے ہی جنگل کے اتنے جانوروں کوفلاں شکاری کے ہاتھوں فروخت کرکے اتنامال بنایا۔بے بس اورکمزورمرغی بھی اپنے چوزوں کوبچانے کیلئے مقابلے پراترآتی ہے،کہیں کچھ کھانے کونظرآجائے توکوا ہانک لگاکرسب ساتھیوں کوبلالیتاہے۔ اس نے کبھی یہ نہیں سوچاکہ وہ چپکے سے سارامال خودہضم کر لے اورکسی کوکانوں کان خبرتک نہ ہونے دے۔ انسان.۔۔۔۔۔۔جی ہم جو اشرف المخلوقات ہیں،جوکچھ کرتے آئے ہیں،کررہے ہیں اورآئندہ بھی کرتے رہیں گے،کبھی آپ نے سناہے کہ جانوروں نے یہ کرتوت کئے ہیں؟وہ بے زبان جانورہیں توہم ان پر بہتان طرازی کرتے رہتے ہیں۔مجھے یقین ہوچلاہے کہ اب ان کاپیمانہ صبربھی لبریزہوگیاہے،کسی دن وہ ہمیں گھیرلیں گے اورجواب طلب کریں گے کہ بتاہم بے زبان تھے ہمیں یہ سب کچھ کیوں کہاگیا؟
جب دیکھویارلوگ کہتے رہتے ہیں:شہروں میں جنگل کاقانون رائج ہے۔امریکانے ساری دنیامیںجنگل کاقانون رائج کررکھاہے۔ لاکھوں انسانوں کوگاجرمولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔صدیوں کی تاریخ کے امین ممالک کھنڈربنادیئے گئے،کوئی کہنے والانہیں کہ ایساکیوں کررہے ہو؟ اب آپ خودہی دیکھ لیں کہ ان دیکھے جرثومے کرونانے کیاتباہی مچائی ہے کہ خودوہاں کاایک نوجوان نیویارک کی ان شاہراہوں پر جہاں لاکھوں ڈالرکی گاڑیوں میں لوگ گھومتے تھے، دنیا بھرکے سیاح ان عالیشان ہوٹلوں ،پلازوں اورکروڑوں ڈالر کے نادراشیا اورسازوسامان سے لدی ہوئی دوکانوں پرخریداری کواپنے لئے باعث افتخارسمجھتے تھے ،،جہاں پراب موت کاسناٹاچھایاہواہے، دنیابھرمیں امریکی ظلم وستم پرچیخ چیخ کران کی خاموشی کوجرم عظیم قراردیتے ہوئے رب کے ہاں جھکنے اور توبہ کرنے کیلئے پکاررہاتھاکہ اگرہم نے ایسانہ کیاتویہ غیرمرئی سرکے بال سے بھی ہزاروں گناچھوٹاجرثومہ ہر ذی روح کوخاک کردے گا۔
دنیامیں سب سے پہلے لاک ڈاؤن توسفاک وجابردرندہ صفت ہندومودی نے متعارف کروایا۔مقبوضہ کشمیرکے لاکھوں جیتے جاگتے افرادکواچانک5 /اگست 2019سے لیکرآج تک نہ صرف گھروں میں بندکردیابلکہ مکمل لاک ڈاؤن کرتے ہوئے تمام تعلیمی درسگاہوں،روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی ضروریات فروخت کرنے والے تمام اداروں،حتی کہ زندگی کے سانسوں کوجاری رکھنے کیلئے ادویات کے سٹوروں کے علاوہ ہسپتالوں تک کو بندکردیاہے۔ بدنصیب کشمیریوں کواپنے پیاروں کے جنازوں کوکندھادیناتودرکنار قبرستان میں تدفین کی اجازت بھی چھین لی گئی اوران کو گھروں کے دالانوں میں اپنے پیاروں کودفن کرناپڑگیا۔تمام نوجوان بچوں کوزبردستی گھروں سے اغوا کرکے یاتوغائب کردیاگیا یا پھر بھارت کی دوردرازجیلوں کی آ ہنی سلاخوں کے پیچھے بندکر دیا گیااورآج تک نہ توکسی کاکوئی سراغ مل سکااورنہ ہی کسی عدالت میں اس کاریکارڈپیش کیاجاسکا۔
مردحرسیدعلی گیلانی ،ضعیف العمرمگرجوان اورپرعزم ،اپنی دھن کاپکاکہ کسی بھی صورت غلامی قبول نہیں،برسوں سے بیماراورگھرمیں نظربندلیکن دشمن کی طرف سے علاج کی سہولتوں کی پیشکش کوبھی ٹھوکرماردی،اپنوں نے بھی کئی مرتبہ پشت پروارکئے،وکیل ہونے کادعویٰ کرتے ہوئے جب بھی مخالف فریق کی وکالت کی توتڑپ کران کوبھی راہِ راست لانے میں لمحہ بھرتاخیرنہیں کی،ساراخاندان اسی پاداش میں اسیری کی صعوبتیں برداشت کررہاہے یاپھرکشمیرسے ملک بدری کے زخم سہلارہاہے لیکن کیامجال ہے کہ کسی ایک لفظ سے بھی کسی رو رعائت یاصلے کی تمنا کااظہارسامنے آیاہو،یاکسی خفیہ ڈیل کاسکینڈل سامنے آیاہو۔پہلے دن سے اپنے لاکھوں چاہنے والوں کے مجمعے میں برملا’’ہم ہیں پاکستانی،پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے نعروں کی گونج سے مکاردشمن ہندوکے دلوں پرکاری ضرب لگاتے ہوئے فیصلہ سنادیاکہ ’’کشمیرکی ساڑھے سات سومیل کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں،جتنے دریایہاں سے نکلتے ہیں،ان کارخ پاکستان کی طرف ہے،یہاں جب ہوائیں چلتی ہیں تووہ راولپنڈی سے ٓتی ہیں،بارشیں برستی ہیں توایک ساتھ برستی ہیں،یہ اتنے مضبوط رشتے اورتاریخی حقیقتیں ہیں ،اسی وجہ سے میں کشمیرکوپاکستانی کاقدرتی حصہ کہتاہوں‘‘۔
انہی کوہساروں کی بیٹی اورسرفروش مجاہدہ آسیہ اندرابی،جس کی شجاعت،صداقت اورعزیمت کاعلم اس قدربلندہے کہ اس کے صرف دیکھنے کیلئے ہی سرکی ٹوپی کوتھامناپڑتاہے۔گزشتہ تین دہائیوں سے شوہرنامدارڈاکٹرقاسم کوایک جھوٹے اوربے بنیاد مقدمے میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے قیدکرکے آسیہ کے صبراوربرداشت کاامتحان لیاجاتارہالیکن جب کوئی حربہ کامیاب نہیں ہوسکاتواس مجاہدہ کوکوبھی بدنام زمانہ تہاڑ کی جیل میں ان کی دوساتھیوں،فہمیدہ اورنسرین کے ہمراہ قیدتنہائی جیسے عذاب میں مبتلاکرکے اس کے عزم کوتوڑنے کی مسلسل کوششیں ہورہی ہیں۔کئی امراض میں مبتلایہ مومنہ نے کبھی بھی اپنی ادویات کے نہ ملنے کے اپنے انسانی حق کوبھی نہیں دہرایا۔شنیدہے کہ ہندومکار،ظالم اوربزدل ہندوغیرمعیاری کھانابھی پلاسٹک کی تھیلی میں ایک چھڑی سے باندھ کرسلاخوں کے اندر پھینکتاہے لیکن کیاکشمیرکے وکیل نے بالخصوص ہندوکے ان جرائم کی نشاندہی کرتے ہوئے عالمی فورمزکو سید علی گیلانی،آسیہ اندرابی ،فہمیدہ،نسرین اوردیگرافرادکے نام لیکرآگاہ کیاہے؟مکاردشمن توپاکستان میں تخریبی کارواٗیوں کے سرغنہ کلبھوشن کامقدمہ عالمی عدالت میں لے گیالیکن کیاہمارے وکیل نے ان بے گناہ مظلوم کشمیریوں کے مقدمے کو کسی بھی عالمی عدالت میں چیلنج کیا؟
امریکاومغرب جودنیامیں انسانی حقوق کے بڑے چیمپئن بنتے تھے،اپنی معاشی مفادات کیلئے مجرمانہ خاموشی اختیارکرلی لیکن ہم کس قدرآسانی سے انسان کے ہاتھوں ظلم وستم کوجنگل کے قانون سے تشبیہ دے دیتے ہیں۔کبھی جنگل دیکھاہے؟ وہاں کے باسی دیکھے ہیں؟ کیاآپ کسی جنگل میں رہے ہیں؟پھرآپ یہ کس طرح کہہ دیتے ہیں،جنگل کا قانون۔ جناب آپ کچھ نہیں جانتے۔جنگل میں قانونِ فطرت رائج ہوتاہے۔وہ بے زبان ہم جیسے شاطروچالاک عیارو مکار نہیں ہوتے۔جوہوتے ہیں وہ نظرآتے ہیں۔وہ ہماری طرح منافق نہیں ہوتے،دوغلے نہیں ہوتے،ہم جیسے کرتوت نہیں ہوتے ان کے۔ میں آپ سے ہاتھ جوڑکر التماس کرتاہوں خدا کیلئے یہ کہناچھوڑدیجیے،اپنے کرتوتوں کوبے زبانوں کے سرمت ڈالیے۔وہ معصوم ہیں انہیں کیوں گالی دے رہے ہیں آپ!انہیں توبخش دیجئے۔ میرے دل کی اس پھانس اورزخموں کوکریدنے کیلئے یہ سانحہ ہی کافی ہیکہ اب توحرمین میں بھی ان مظلوم کشمیریوں کے مصائب ختم ہونے اور مسجداقصی کی اسیری ختم ہونیپربھی دعاکرنے پرپابندی لگ گئی ہے لیکن کیا اس ان دیکھے جرثومے ،جس نے ان مقدس ترین گھروں کے باب بھی بندکروا دیئے ہیں،سے بھی کوئی سبق لینے کوتیارنہیں!مجھے آج زہرہ آپا اس قدرکیوںیادآرہی ہیں؟
سناہے جنگلوں کابھی کوئی دستورہوتاہے
سناہے شیرکاجب پیٹ بھرجائے تووہ حملہ نہیں کرتا
سناہے جب کسی ندی کے پانی میں
پئے کے گھونسلے کاگندمی سایہ لرزتاہے
توندی کی روپہلی مچھلیاں اس کوپڑوسی مان لیتی ہیں
ہواکے تیزجھونکے جب درختوں کوہلاتے ہیں
تومینااپنے گھرکوبھول کر
کوے کے انڈوں کوپروں میں تھام لیتی ہے
سناہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے
توساراجنگل جاگ جاتاہے
ندی میں باڑآجائے
کوئی پل ٹوٹ جائے توکسی لکڑی کے تختے پر
گلہری سانپ چیتااوربکری ساتھ ہوتے ہیں
سناہے جنگلوں کابھی کوئی دستورہوتاہے
خداوندِجلیل ومعتبرداناوبینامنصف واکبر
ہمارے شہرمیں اب جنگلوں کاہی کوئی دستورنافذکر
Comments are closed.