ہم نے کسی بے قصور کو پھانسی نہیں چڑھنے دیا، نوجوانوں کے مقدمات لڑے، بری کرایا، سزائیں کم کرائیں اور آئندہ بھی بے قصوروں کے مقدمات لڑتے رہیں گے، جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) لیگل سیل کے سکریٹری گلزار اعظمی سے شکیل رشید کی گفتگو

شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
گلزار اعظمی کو دیکھ کر رشک آتا ہے ۔۔۔ کسی پریشانی ، بیماری یامسائل کو انہوں نے اپنے کام پر حاوی ہونے نہیں دیا ہے ۔ جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشدمدنی) کے لیگل سیل کے سربراہ کے طور پر اپنی ذمہ داری انہوں نے اس طرح سے نبھائی ہے کہ سردی ، گرمی یا برسات ، موسم چاہے جو رہا ہو ، انہیں اپنا کام کرنے سے روک نہیں سکا ہے ۔ اور یہ ان کی لگن ہی ہے کہ لیگل سیل نے قوم کے ان بے قصور نوجوانوں کی ایک بڑی تعدا د کو جو حکمرانِ وقت کے ہاتھوں ستائے اورجیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلے گئے تھے بری کرایا ہے ، ان کی قید کی سزاؤں میں تخفیف کرائی ہے اور ان کی پھانسی کی سزاؤں کو رد کرایا ہے ۔۔۔ یہ سارے کام صرف اس لئے ممکن ہوسکے کہ گلزار اعظمی دن ہو یا رات ، مقدمات کی تفصیلات پر غور اور بہتر سے بہتر وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں ۔ اور ان کوششوں میں انہیں ریاستی جمعیۃ علماء کے صدر مولانا مستقیم احسن اعظمی، جنرل سکریٹری مولانا حلیم اللہ قاسمی اور سارے عملے کا تعاون تو حاصل رہا ہی ہے ،جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی بھی ان کے ساتھ کھڑے رہ کر ان کے ہاتھ کو مضبوط کرتے رہے ہیں ۔ اس روز جب لیگل سیل کی سرگرمیوں اور مقدمات ، بالخصوص دہشت گردی کے مقدمات کی تفصیلات جاننے کے لئے میں جمعیۃ کے دفتر ، واقع امام باڑہ روڈ، بھنڈی بازار پہنچا تو گلزار اعظمی ساری تفصیلات لے کر پہلے سے تیار بیٹھ تھے۔۔۔ وہ ہمیشہ ، چاہے ملزمین کے اہل خانہ سے ملنا ہو یا وکلاء یا کسی وی آئی پی یا جرنلسٹوں سے ، ایسی ہی تیاری کرتے ہیں ۔
سوالات تو بہت سے تھے جن میں ایک اہم سوال یہ تھا کہ ملک اور ریاست بھر میں کورونا کی وباء کے باعث جو ساری سرگرمیاںآج ٹھپ پڑی ہیں اور جو پہلے بھی ٹھپ رہی تھیں ، اور جس طرح سے ساری جماعتیں اور تنظیمیں سال بھر سے فنڈ کی قلت سے دوچار رہی ہیں ، جمعیۃ بھی ان سے بچ نہیں سکی ہے ، لیکن جمعیۃ لیگل سیل کا کام ان ا یاّم میں بھی نہ رکا تھا او رنہ آج رکا ہے ، یہ کیسے ممکن ہوا ہے ؟
گلزار اعظمی مسکراتے ہیں:’’ ہم نے جو بھی رقم پاس تھی اسی میں کام کرنے کی گنجائش نکالی ، 2020 میں ہمارے پاس 2 کروڑ 87 لاکھ 45 ہزار 903 روپئے تھے اور 2021 میں 74 لاکھ 18 ہزار 608 روپئے ۔ ہم نے یہ رقم مقدمات پر خرچ کی ۔ ہم دوسرے کام بھی کرتے ہیں ، مثلاً طبّی ، تعلیمی امداد ، ریلیف وغیرہ کے کام ، اس بار ان پر برائے نام کام کرسکے ، لہٰذا یہ کام بڑی حد تک متاثر ہوئے مگر عدالتی کام میں ہم نے کوئی روکاوٹ نہیں آنے گی ۔‘‘
یہ سچ ہے ۔ کورونا وباء کے دوران جمعیۃ علماء مہاراشٹر ( ارشد مدنی) لیگل سیل نے کئی اہم مقدمات کی پیروی کی ۔ گلزار اعظمی بتاتے ہیں: ’’تبلیغی مرکز نظام الدین ، دہلی کا معاملہ ہوا ہم سپریم کورٹ گئے کہ ’ میڈیا‘ کے پروپگنڈے پر روک لگائی جائے ، میڈیا کی سرزنش کی جائے ، ’میڈیا‘ کے پروپگنڈہ سے مسلمانوں کو جانی ومالی نقصان پہنچ رہا ہے ۔ سپریم کورٹ نے ہماری درخواست پرغور کیا اور ’میڈیا‘ کو بے قابو چھوڑنے کے لئے مرکزی حکومت کی سرزنش کی ۔ یہ معاملہ ہنوز زیر سماعت ہے ۔ کورونا اموات کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا، ایک غیر مسلم نے بامبے ہائی کورٹ سے رجوع کرکے یہ درخواست کی تھی کہ باندرہ کے تین قبرستانوں، کو کنی قبرستان ، سنّی خوجہ قبرستان اور شیعہ اثنا عشری قبرستان ،میں کورونا سے مرنے والوں کی تدفین نہ ہونے دی جائے ، جمعیۃ علماء نے بامبے ہائی کورٹ میں بھی اور سپریم کورٹ میں بھی اس معاملے کی پیروی کی اورالحمدللہ کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ ابھی کچھ پہلے بنارس کی گیان واپی مسجد کو مندر قرار دینے کی درخواست عدالت میں کی گئی ہے ، جمعیۃ علماء نے اس پٹیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے ، ہمارے وکیل ڈاکٹر راجیودھون ہیں ۔ یوپی کے سیتاپور میں لوجہاد کے ایک معاملے میں دوخواتین سمیت دس مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیاگیا تھا،ہم نے ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ یہ مقدمہ خارج کیا جائے ، درخواست قبول کرنے میں تاخیر کے سبب ہم نچلی عدالت گئے اور ملزمین کو ضمانت دینے کی درخواست کی جو قبول کرلی گئی، دسوں ضمانت پر اب باہر ہیں۔ ایسے ہی کئی مقدمے ہیں جن کی ہم نے کورونا وباء کے دوران پیروی کی اور کامیابی حاصل کی ۔ ‘‘
جمعیۃ علماء مہاراشٹر نے لیگل کام کی شروعات مالیگاؤں کے دہشت گردی کے مقدمات سے کی تھی اور آج بھی اس کے لیگل کاموں میں دہشت گردی کے مقدمات سرفہرست ہیں ۔ گلزار اعظمی بتاتے ہیں :’’ فوری طور پر 7/11 معاملے پر توجہ کی ضرورت ہے ۔ لوکل ٹرینوں میں دھماکے ہوئے تھے جن میں 200 سے زائد افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے تھے ۔ اس معاملے میں 13 مسلمانوں کو ماخود کیاگیا تھا ، نومبر 2015 میں مکوکا عدالت نے ایک شخص کو بری کردیا تھا مگر سات کو عمر قید کی اور پانچ کو پھانسی کی سزا سنائی تھی، حکومت فیصلے کی توثیق کے لئے بامبے ہائی کورٹ پہنچی ہے، جمعیۃ علماء نے فیصلے کی مخالفت کی ہے اور ماخوذین کی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے ہندوستان کے مشہور وکیل ،ایڈوکیٹ یگ موہت چودھری کی قیادت میں وکلاء کی ایک ٹیم بنائی ہے ، جس میں سپریم کورٹ کی سینئر ایڈوکیٹ نتیاراماکرشنن شامل ہونگی ، ان سے بات چیت تقریباً طے ہے ، کیرلہ ہائی کورٹ کے سابق جج ناگامتھو، اور بامبے ہائی کورٹ کے سینئر وکیل آبادفونڈا سے گفتگو ہورہی ہے ۔۔۔ اس مقدمے پر ایک کروڑ روپئے سے زیادہ کا خرچ ہوگا ۔ اسی طرح اورنگ آباد اسلحہ ضبطی معاملہ ہے ، اس میں 23 نوجوان ماخوذ تھے ، 11 کو رہا کیا گیا ہے جبکہ مکوکا عدالت نے 12 نوجوانوں کو 8سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا سنائی ہے ۔ بامبے ہائی کورٹ میں اس کی سماعت ہوگی ، جمعیۃ نے اس فیصلے کو بھی چیلنج کیا ہے ۔ اس پر بھی خطیر رقم خرچ ہوگی ۔ ‘‘
جمعیۃ علماء اِن دنوں ملک کی مختلف نچلی عدالتوں میں 58مقدمے لڑرہی ہے ، جبکہ ملک بھر کے ہائی کورٹوں میں 31 مقدمے زیر سماعت ہیں اور سپریم کورٹ میں دس مقدمے ۔ کل ملزمین کی تعددا 615 ہے ، اب تک جمعیۃ نے 248لوگوں کو باعزت بری کرایا ہے اور 100 ؍ افراد کو ضمانت دلوائی ہے ۔
گلزار اعظمی بتاتے ہیں:’’ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے 76 فیصد مقدمات میںکامیاب رہے ہیں ۔ الحمد للہ ہم نے جو بھی مقدمے لڑے ان میں کسی بے قصور کو پھانسی نہیں ہونے دی۔ کولکتہ امریکن قونصل خانہ پر دہشت گردی کے معاملے میں نچلی عدالت نے سات لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی تھی، اکثردھام مندر حملہ کے مقدمہ میں تین افراد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی ، ہم نے چیلنج کیا اور سب کی پھانسی کی سزائیں رکوائیں ۔ ممبئی زویری بازار میں بم بلاسٹ کے معاملے میں تین افراد کو پھانسی کی سزاسنائی گئی ہے اسے ہم نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے ۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ماخوذین کو مکمل طور پر راحت ملے ، اب یہ دیکھئے کہ جے پور بم بلاسٹ کیس میں 94 سالہ ڈاکٹر حبیب خان کو عمر قید کی سزا ہوئی ہے ، ہم نے انہیں پیرول دلوائی ، اب سپریم کورٹ جارہے ہیں تاکہ رمضان وہ گھر پر گزار سکیں ۔ سیمی اور انڈین مجاہدین کے نام پر جنہیں دہشت گردی میں ماخوذ کیا گیا تھا، سال گذشتہ میں ایسے 50 ملزمین کی باعزت رہائی عمل میں آئی ہے ۔ ہم بہت سوچ سمجھ کر، یہ چھان بین کرکے کہ جن پر الزام ہے وہ بے قصور ہیں ، مقدمات کی پیروی کرتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ زیادہ تر مسلم نوجوان پھنسائے گئے ہیں ۔ ہم نے دواور اہم کام کیے ہیں ، مراٹھا ریزرویشن ختم کیے جانے کے بعد معاشی طور پر کمزور طبقات کے لئے مختص نوکریاں حکومت مراٹھا سماج کو دے رہی تھی ، سپریم کورٹ میں ہماری درخواست پر اس پر اسٹے عائد ہوا ہے ۔ اور ایک معاملہ خواجہ یونس کے مبینہ قاتل پولس افسر سچن وازے کا ہے ، مہاراشٹر سرکار نے اس کی اور مزید تین پولس والوں کی معطلی ختم کی تھی ہم نے اس کے خلاف ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ۔ اور ہم تو اللہ رب العزت کے شکر گزار ہیں کہ اب جو حالات سامنے آئے ان میں وازے کی نحوست سے کئی لوگوں کو اپنے عہدوں سے علیحدہ ہونا پڑا ہے ، اور اب تو وازے معطل ہی ہے ۔‘‘
گلزار اعظمی سچن وازے کا ذکر قدرے تفصیل سے کرتے ہیں:’’ وازے کی آج مکیش امبانی کی عمارت کے سامنے دھماکہ خیز مواد سے بھری کار کھڑی کرنے اور من سکھ ہیرین نامی شخص کو قتل کرنے میں جو بدمعاشی آشکارا ہوئی ہے اسی طرح اس نے گھاٹ کوپر بم بلاسٹ کا معاملہ بھی فراڈ بنایا تھا، اذیت دے کر لوگو ںسے اقراری بیان لیا تھا اسی میں خواجہ یونس کی شہادت ہوئی تھی۔ وازے بے حد سازشی ذہن کا ہے ۔ اس کیس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سارا معاملہ مسلمانوں پر ڈالنا چاہتا تھا۔ خواجہ یونس کے وقت میں کانگریس کی حکومت تھی، وہ معطل تھا اور اب جب اسے بحال کیا گیا تو حکومت کانگریس کی ہے ۔ اس کی بحالی پر زور این سی پی اور کانگریس ہی نے دیا تھا ، شیوسینا نے نہیں ۔ اس معاملے میں مسلمان ایم ایل اے حضرات کا رول بہت خراب رہا ہے ، جمعیۃ توبحالی کے خلاف ہائی کورٹ گئی مگر یہ منھ سیئے رہے ۔‘‘
گلزار اعظمی کانگریس اور این سی پی کا ذکر سخت لفظوں میں کرتے ہیں :’’ این ڈی اے اور یوپی اے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ مودی اور کانگریس حکومت ایک جیسی رہی ہے بلکہ بعض اوقات یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ کانگریسیوں نے بی جے پی والوں کو سب سکھایا ہے ۔۔ سارے کانگریسی بشمول مسلم وزراء سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں ۔‘‘ ایک اہم سوال یہ ہے کہ جب گرفتاریوں کا سلسلہ بند نہیں ہورہا ہے ، مقدمے پر مقدمے لڑنے کے باوجود ،تو کیا ضرورت ہے مقدمات کی پیروی کرنے کی ؟ گلزار اعظمی بتاتے ہیں :’’بات یہ ہے کہ اگر ہم اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے عدالتوں کا سہارا نہ لیں تو انتظامیہ مسلمانو ںکے ساتھ جو کرتا ہے ، اس پر کہے گا کہ ہم صحیح ہیں اسی لئے ہماری کارگزاریوں کو چیلنج نہیں کیا جاتا ۔ اس لئے مقدمے ضروری ہیں ۔ اس کے علاوہ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ مسلمان یہ سمجھ لیں کہ ان کا اس ملک میں کوئی سہارا نہیں ہے ، مسلمانوں میں کم ہمتی نہ پیدا ہو ، بزدلی اور اسلام ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ۔‘‘
یہ مقدمے ، یہ ریلیف کے کام کیسے ممکن ہوتے ہیں؟ یہ سوال لوگوں کے ذہنوں میں اٹھتا رہتا ہے ۔ گلزار اعظمی اس کا سیدھا جواب دیتے ہیں: ’’ہمارے کرم فرما یہ سب ممکن بناتے رہے ہیں اور اب بھی ممکن بنارہے ہیں ، اب لاک ڈاؤن لگاہواہے ، مساجد بند ہیں ، یہی ایک ذریعہ تھا ، ہم مساجد میں اعلان کرتے تھے لوگ پیسےدیتے تھے ، اب لوگ براہِ راست دیں ۔ اور امداد مقامی یونٹوں کی بھی کریں اور صرف جمعیۃ کی نہیں دینی مدارس کی بھی امداد کریں ۔ مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال اسپین میں حکومت کی مگر وہاں کوئی دینی تعلیمی نظام نہیں تھا لہٰذا وہاں مسلمان تباہ وبرباد ہوگیا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے بزرگوں نے انگریزوں کی مخالفت کے باوجود نوابوں اور راجاؤں سے نہیں غریب مسلمانوں سے چندہ لے کر ہندوستان میں دینی نظام کو قائم رکھا اور جتنی بھی مسلم تنظیمیں تھیں ، چاہے جمعیۃ ہو ، سنی جمعیۃ العلماء ، یا تبلیغی جماعت وغیرہ سب ان مدرسوں ہی کا کارنامہ ہیں ۔ اس لئے مسلمان اس ماہِ مبارک میں مدارس اور جماعتوں بالخصوص جمعیۃ کا خیا ل رکھیں ۔ جومدارس حکومت کے سہارے تھے سب آج پریشان ۔ہاں مسلمانوں کے چندے سے جو مدارس چل رہے ہیں وہ خوب چل رہے ہیں ، دیوبند ، ندوہ وغیرہ ۔ یہ مدراس جو ہیں اسلام کے قلعے ہیں ، مسلمانوں کو اِن قلعوں کو مضبوط رکھنا چاہیئے ۔ ‘‘
Comments are closed.