یہ کس کی نحوست ہے؟

اتواریہ: شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
ہندوستان نے ایک ملک اور یہاں کے لوگوں نے ایک قوم کی حیثیت سے بہت سے مسائل کا سامنا کیا ہے، بہت سارے مصائب جھیلے ہیں، مل کر سب کا مقابلہ کیا ہے، حکومتیں عوام کے ساتھ کھڑی رہی اور دکھ درد میں ساتھ دیتی رہی ہیں۔ لیکن آج کی طرح کے حالات نہ ملک نے اور نہ ہی ملک کے لوگوں نے پہلے کبھی دیکھے یا سنے تھے۔ کورونا کی وبا نے مسائل اور مصائب کے پہاڑ کھڑے کردئے ہیں اور یہ حکومت، مودی کی یہ سرکار ہے کہ نہ عوام کے ساتھ کھڑی نظرآرہی ہے اور نہ ہی ان کے دکھ درد میں شریک ہے۔ اور رہے عوام تو وہ مذہبی بنیادوں پر کچھ ایسے بانٹ دئیے گئے ہیں کہ مل جل کر کسی ایک مصیبت کا بھی سامنا نہیں کرسکتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو یہ سرکار اور یہ جوحکمراں ہیں،ملک کےلیے بھی اور عوام کےلیے منحوس ثابت ہوئے ہیں۔ جب ۲۰۱۴ میں مودی سرکار کا قیام ہوا تھا تب ملک پر نحوست کے سائے منڈلانے لگے تھے، سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دینے والی سرکار نے صرف صنعت کاروں کا ساتھ اور ان ہی کا وکاس کرنا شروع کردیا تھا۔ نوٹ بندی نے کتنی جانیں لیں، کتنےکاروبار اور گھر تباہ کیے! جی ایس ٹی نےکیسے خوشحال گھروں کو کنگال کردیا او رپھر کورونا کی وباء نے ساری معیشت چوپٹ کردی۔ مودی سرکار نے کورونا کی پہلی لہر سے کوئی سبق نہیں حاصل کیا سوائے اس کے کہ اس بار تالی اور تھالی نہیں بجوائی۔ نہ اسپتال بنے، اور نہ جو اسپتال ہیں ان کی جدید کاری کی گئی۔ نہ آکسیجن ، سلینڈر نہ ہی دوائیں اور اسپتالوں میں بیڈ۔ دعویٰ ہےایک ترقی یافتہ، نیو کلیائی طاقت رکھنے والے ہندوستان کا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک دنیا کے پچھڑے ملکوں سے بھی پچھڑا ہوا ہے۔ کورونا کی وباء کیسے کیسے خوفناک دل دہلانے والی تصویریں دکھا رہی ہے، لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مررہے ہیں۔ قبرستانوں میں لاشیں دفنانے کےلیے زمینیں کم پڑرہی ہیں۔ وہ گجرات جس کے ’ماڈل‘ کے گن گائے جاتے تھے، آج کورونا سے ہونے والی اموات سے کراہ رہا ہے۔ قبرستانوں میں لاشیں دفنانے کےلئے زمینیں کم پڑ رہی ہیں ۔شمشان گھاٹوں میں لاشیں انتم سنسکار کے انتظار میں پڑی ہیں، چتائیں مسلسل جل رہی ہیں، الیکٹرک سے جلنے والی چتائوں کی چمنیاں مسلسل جلنے کے سبب پگھل گئی ہیں ۔یہ کیسا ’ماڈل‘ ہے۔ ۲۰۰۲ میں انسانی لاشوں پر بننے وا لے ’ماڈل ‘کو قدرت نے فیل کردیا ہے۔ یہی صورتحال یوپی کی ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی کورونا پازیٹو ہوکر آرام کررہے ہیں، لیکن عام لوگ کورونا کے سبب جان سے جارہے ہیں۔ وہاں اور ایم پی میں بھی الیکٹرک چتائوں کی کمی پڑ گئی ہے۔ لاشیں جلانےکےلیے لکڑیاں ختم ہیں اور لوگ حیران وپریشان ہیں کہ آخر ان کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے؟ افسوس یہ ہے کہ تینوں جگہوں پر حکمرانوں کی لاپروائی کورونا کے پھیلنے اور انسانی جانوں کے تلف ہونے کا سبب بنی ہے۔ ٹرمپ کو احمد آباد تھالی میں سجا کرپیش کیا گیا تھا، ساتھ ہی کورونا آیا تھا۔ ایم پی میں کورونا کے وقت سرکار گرائی اور بنائی جارہی تھی، اور یوپی میں تو ’مندرسازی‘ کاکام ہورہا ہے، کمبھ کے میلے لگ رہے ہیں، ہر دھارمک کام کی چھوٹ ہے۔ لہذا کورونا کو بھی چھوٹ ہے۔ یہ کیسے حکمراں ہیں؟ انہیں نہ ملک کی پرواہ ہے نہ ہی عوام کی۔ مثال ملاحظہ کریں: مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھوٹھاکرے نے مودی سے درخواست کی کہ مہاراشٹر کو آکسیجن کی فوری سپلائی کی جائے، وزیر اعظم مودی کے دفتر سے جواب ملا کہ فی الحال وہ مغربی بنگال میں الیکشن مہم پر ہیں، لوٹ کر جواب دیں گے! ان کی پرچھائیاں جہاں جہاں پڑی ہیں موت نے ڈیرے ڈال دئیے ہیں۔ اللہ ان سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔ آمین ۔

Comments are closed.