بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی

✒️ کلیم احمد نانوتوی
کورونا کے نام پر کھیلا جانے والا ظلم و ستم کا کھیل ساری دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اور طوعا یا کرہا خاموشی اختیار کر کے لبوں کو سی کر تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہسپتالوں میں اموات کی کثرت نے بہت سے دلوں کو مغموم اور آنکھوں سے ابلنے والے چشموں کو جاری کر دیا ہے، ویکسین کے نام پر زہر کا استعمال زوروں پر ہے، جس کی وجہ سے ہر دن بہت سے بھولے بھالے لوگ اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے دنیائے فانی کو الوداع کہہ رہے ہیں، ماسک نہ لگانے والوں سے ہزاروں روپے جرمانے کے نام پر وصول کر سرکاری پیٹوں کو بھرا جا رہا ہے : ہر چہار سو انسانیت سسکتی، بلکتی اور تڑپتی، معصوم شکل بنائے مظلومیت کے کٹھ گھرے میں کھڑی بے بسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
ان مہیب حالات نے بہت سے دلوں کو خائف بھی کیا ہے کہ وہ ہر لمحہ ڈرے ہوئے ہیں اور ان کا چین کھو گیا ہے، سکون لٹ گیا ہے، ہر وقت موت کی خبروں نے ان کے اعصاب کو یرغمال بنا لیا ہے۔ ان میں اکثریت ان حضرات کی ہے جو چالیس کی عمر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ خوف و ہراس کا شکار ہو کر یہ لوگ عدم اطمینانی کے سازشی جال میں الجھے ہوئے ہیں؛ حالاں کہ دنیا کے حالات سے گھبرانا اور نا امید ہونا، بہادروں کا شیوہ نہیں ہے، یہ تنگی و سختی کے حالات، دنیا اور اہل دنیا پر پہلی بار نہیں آئے؛ بلکہ ان سے بھی سخت حالات کا سامنا ہمارے اگلوں نے کیا ہے، جو تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔
چناں چہ مفکر ملت : مولانا علی میاں ندوی صاحب مرحوم اپنی مشہور و معروف کتاب : تاریخ دعوت وعزیمت حصہ اول میں، البدایہ والنہایہ جلد ۳ کے حوالے سے، ۵۹۷ھ کے حالات کے سلسلے میں رقم طراز ہیں :
"کہ دریائے نیل میں طغیانی نہیں آئی، اور مصر میں ایسی گرانی رونما ہوئی اور ایسا شدید قحط پڑا کہ آدمی نے آدمی کو بھون کر کھایا، موت کی ایسی گرم بازاری تھی کہ مردوں کو کفن دینا ممکن نہ تھا، مؤرخ ابو شامہ کے بیان کے مطابق تنہا الملک العادل (سلطان مصر) نے صرف ایک مہینے میں، دو لاکھ بیس ہزار مردوں کو اپنے ذاتی مال سے کفن دیا، کتوں اور مردوں کو کھانے کی نوبت آ گئی، بہت بڑی تعداد میں بچے بھون بھون کر کھا لیے گئے اور اس کی ایسی عمومیت ہوئی کہ اس میں لوگوں کو کوئی قباحت نہیں محسوس ہوتی تھی۔ مؤرخ ابن کثیر کے بیان کے مطابق : جب کھانے کے لیے بچے اور چھوٹی عمر کے لڑکے نہیں رہے تو جس آدمی کا جس آدمی پر زور چلا، اس نے اس کو بھون کر کھا لیا۔ سنت اللہ کے مطابق آسمانی تنبیہات کا سلسلہ بھی جاری تھا اور ایسے غیر معمولی واقعات پیش آ رہے تھے جو توبہ، انابت اور اصلاح حال کا خیال و جذبہ پیدا کرنے کے لیے کافی تھے ؛ چناں چہ اسی ۵۹۷ھ میں ایک عظیم زلزلہ آیا، جس کی زد میں خاص طور پر ملک شام، بلاد روم اور عراق تھے۔ اس کی ہلاکت آفرینی اور دہشت انگیزی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تنہا شہر نابلس اور اس کے اطراف میں بیس ہزار انسان زلزلے میں دب کر مر گئے”
(تاریخ دعوت وعزیمت حصہ اول صفحہ نمبر : ۳۰۸، ۳۰۹)
یہ ایک ہلکی سی جھلک تھی؛ ورنہ اس طرح کے حالات کا تذکرہ بہت سی تاریخی کتابوں میں ملے گا۔ آج کے حالات بھی پرخطر ہیں اور یقینا ہیں؛ لیکن ہمیں ڈرنے، گھبرانے، ٹینشن میں مبتلا ہونے اور دہشت کے مارے ہوئے لوگوں میں شامل ہونے کے بجائے تقوی کے حصول میں لگنا چاہیے، فاطر کائنات کے سامنے سوالی بن کر پیش ہونے کو راہ نجات سمجھنا چاہیے اور موجودہ حالات کو خدا کی قہاری کا ادنی سا نمونہ سمجھ کر اس کی غفاری کے طالب بننا چاہیے۔ ہم نے زندگی رب کی معصیت میں گزاری اور فراعنہ و نماردہ کے سامنے ہزاروں بار سر بسجود ہوئے، اب بھی مسجود الکل کے سامنے گڑگڑا لیں اور اپنا رونا رو لیں تو شاید رحم و کرم کے فیصلے ہم سے کچھ زیادہ دور نہیں؟؟
Comments are closed.