کرونا وبا اور حکومت کی نااہلی!

نازش ہما قاسمی
ابھی پوری دنیا کورونا کی دوسری لہر سے نپٹ رہی ہے۔ ہمارا ملک ہندوستان دوسری لہر میں سرفہرست ہے، یہاں ہر آنے والا دن نئی مصیبتیں لے کر آرہا ہے۔ اموات اس قدر تیزی سے ہورہی ہیں کہ قبرستانوں میں دفنانے کےلیے جگہ اور شمشانوں میں جلانے کےلیے لکڑیاں کم پڑ رہی ہیں۔ اسپتالوں میں بیڈ نہیں مل رہے ہیں، آکسیجن کی قلت کی وجہ سے سینکڑوں کووڈ مریض جان کی بازی ہار چکے ہیں، ویکسن لگانے کے باوجود بھی لوگ اس وبائی یا سازشی مرض کا شکار ہوکر مرر ہے ہیں۔ پوری دنیا اس کی روک تھا م میں مصروف ہے اور اپنے اپنے شہریوں کو بچانے کےلیے ہر ممکن اقدامات کررہی ہے؛ لیکن ہندوستان میں شہریوں کو بچانے کے بجائے ریلیوں میں شہریوں کی بھیڑ اکٹھا کرنے پر زور دیاجارہا تھا۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ لوگوں کی بھیڑ جمع کرنے میں پیش پیش تھے، وزیر داخلہ کو بغیر ماسک کے ریلیوں میں دیکھا گیا، ان پر کافی تنقیدیں بھی ہوئیں؛ لیکن ان اقتدار کے بھوکے لوگوں کو کسی کی تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، ہاں کرونا کی وجہ سے راہل گاندھی نے اپنی کئی ریلیاں منسوخ کی تھیں، یہاں یومیہ تین لاکھ سے زائد انسان کووڈ پازیٹو ہورہے ہیں اور یہ تناسب بڑھتا ہی جارہا ہے مرنے والوں کی تعداد میں بھی روز افزوں اضافہ ہی نظر آرہا ہے۔ بے حس حکومت کے دعوے، وعدےسب کھوکھلے نظر آرہے ہیں، ملک کی اعلیٰ ترین عدالتیں اس پر نوٹس لے رہی ہیں؛ لیکن حکمراں جماعت آئیں بائیں شائیں کررہی ہے، عوام کوبے سہارا اور بے یاردومدد گار مرنے کےلیے چھوڑ دیاگیا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کے لیے بہترین انتظامات کررہے ہیں؛ لیکن ہندوستان جو خود کو ترقی یافتہ کہتا ہے یہاں کوئی مناسب حکمت عملی، بہترین اصول اور نہ ہی درست لائحہ عمل ہے، بس بھگوان بھروسے ملک چلایاجارہا ہے۔ جس وقت ملک میں کووڈ کی دوسری لہر پھیلی اس وقت یہاں کمبھ کا میلہ اور ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہورہے تھے، جس میں ابھی بنگال اسمبلی کے الیکشن باقی ہی ہیں۔ اگر کووڈ کی پہلی لہر سے سبق حاصل کرتے، دیا ، تھالی اور چمچ بجانے پر زور دینے کے بجائے اسی وقت اسپتالوں میں بیڈ، آکسیجن کی پیداوار اور دیگر مناسب وضروری اقدامات کیے گئے ہوتے تو شاید آج قبرستان، شمشان، اسپتال کی یہ صورت حال نہ ہوتی۔
ملک میں عجیب افراتفری کا ماحول ہے۔ ہر کوئی ڈرا ، سہما اور خوفزدہ ہے۔ زندہ انسان اپنی زندگی کی جدوجہد کے لیے لڑرہا ہے اور مرے ہوئے انسان دفنانے اور جلانے کے منتظر ہیں، لاشیں بے حس حکمرانوں کی نااہلی کا شکوہ کررہی ہیں اور یہ بتارہی ہیں کہ زندگی میں تو عزت نہ ملی، کم سے کم مرنے کے بعد ہی عزت سے دفنادیے گئے ہوتے یا جلادیے گئے ہوتے۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ عدلیہ کی سرزنش کے باوجود بھی حکومت کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں آرہا ہے، قوم سے خطاب کرکے قوم کو بے وقوف بنانے کا عمل جاری ہے، عوام کی مدد کرنے کے بجائے ان سے مدد طلب کررہے ہیں اور یہ بتارہے ہیں کہ ہمارے بس میں کچھ نہیں، واقعی حکومتوں کے بس میں کچھ نہیں ہوتا؛ لیکن حکومتیں اپنے عوام کی ذمہ دار ہوتی ہیں، یہاں کوئی ذمہ داری ادا نہیں کی جارہی ہے۔ دہلی سے لے کر ممبئی تک، پٹیالہ سے لے کر پٹنہ تک اور کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ہر طرف لاشیں، چیخ وپکار، پریشان حال مزدوروں کا شور ، گھروں میں مقید خود دار عوام کا بھوک سے برا حال ہے۔
اب بھی وقت ہے پتہ نہیں یہ کورونا کی لہر کب تک قائم رہے ۔ کتنے سال اس کی زَد میں آئیں اور کتنی زندگیاں اس کی بھینٹ چڑھیں؛ اس لیے عوام کو بھی چاہئے کہ وہ احتیاطی تدابیر اپنائیں ، خصوصاً مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال پر نظر دوڑائیں اور اعمال بد سے تائب ہوکر خدا کو راضی کرنے کا عمل شروع کردیں اورحکومت کو چاہئے کہ وہ جلد از جلد مناسب اقدامات کرے اور ٹھوس و مؤثر قدم اٹھائے؛ تاکہ موت کا سلسلہ دراز سے دراز تر نہ ہو، حکومت اس وبا پر قابو پانے کی فورا سے پیشتر کوشش کرے، لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ نہ کرے، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے، آکسیجن کی پیداوار میں اضافہ کیاجائے، ویکسیی نیشن پر مزید بیداری لائی جائے اور ایسی ویکسن دستیاب کرائی جائے جس سے انسانی جسم کو نقصان نہ ہو اور دوبارہ وہ کورونا کی زد میں نہ آئے۔ جلد سے جلد حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے، میڈیا ڈر وخوف کا ماحول قائم نہ کرے، عوام کو ڈرانے کے بجائے ان کو حوصلہ دیا جائے، دل شکنی ہرگز نہ کی جائے، تبلیغی جماعت پر واویلا مچا کر ایک کمیونٹی کو نشانہ بنانے والی میڈیا نے کمبھ پر خاموش رہ کر اپنے دوغلے پن کا ثبوت پیش کرچکی ہے، ایسی صورت حال ملک کی جمہوریت کےلیے خطرناک ہے۔ وبائی امراض کسی کی مرہون منت نہیں، یہ اگر تبلیغی جماعت سے پھیلا تھا تو کمبھ سے بدرجہ اولیٰ پھیلے گا؛ لیکن خاموش مذہبی آستھا کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں کے مذاہب میں ٹانگ اڑانا جمہوریت کو شرمندہ کرنے کے مترادف ہے، میڈیا اس سے باز آجائے اور حکومتی چمچہ گیری کے بجائے درست تجزیہ، حوصلہ افزا خبر پر زور دے؛ تاکہ وبائی مرض سے گھبرائے ہوئے عوام کو تسلی ہو۔ جس طرح مرنے کے اعدادوشمار بتائے جارہے ہیں اور اسے ہائی لائٹ کیاجارہا ہے اسی طرح ری کوور ہونے والوں کی بھی تعداد کو ہائی لائٹ کیاجائے مرنے والوں کی خبر کم ہے بہ نسبت ری کوری ہونے والوں کے؛ اس لیے مثبت خبر کے ذریعے عوام کو تسلی اور سکون بخشا جائے اور گھبراہٹ کے ماحول سے نکال کر ان میں زندگی کی رمق پیدا کی جائے۔ اللہ ہم سبھوں کو اس وبائی امراض سے محفوظ رکھے اور جو اس کی زد میں آگئے ہیں ان کے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائے۔آمین

Comments are closed.