پاکستان کے تعلیمی مسائل

انعم طارق، سیالکوٹ
انسانی بقا کے لئے ہوا، پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ۔اسی طرح انسان کی روحانی بقا کے لئے تعلیم کو انسانی زندگی میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اس کی تعلیمی ترقی سے وابستہ ہے۔ تعلیم ہی قوموں کی "ترقی” اور "زوال” کی وجہ بنتی آئی ہے ۔اعلیٰ معیار کی تعلیم و تربیت کسی بھی ملک کی ترقی میں اپنا قولیدی کردار ادا کرتی ہے ۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تعلیم کا معیار بہت ہی پست ہے۔ جبکہ ہمارے خطے میں واقع بہت سے ترقی پذیر ممالک پاکستان سے تعلیم کے معیار میں بہت آگے ہیں.
پاکستان میں تعلیمی نظام کی ابتر صورتحال ہے۔ تعلیم حاصل نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی عوام میں شعور کی کمی ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان میں تقریباً 75 فیصد بچے اور بچیاں دسویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں جبکہ جماعت سوئم میں پڑھنے والے 81 فیصد طالب علم دوسری جماعت کے انگریزی کے جملے نہیں پڑھ سکتے۔ کیونکہ انہیں غیر ملکی زبان کی بالکل سمجھ نہیں آتی. اور اس سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں ۔ یونیسیف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چھ کروڑ سے زائد بچے پرائمری اور دو کروڑ سے زائد بچے مڈل لیول کی تعلیم سے محروم ہیں ۔
طبقاتی نظام تعلیم پاکستان کے معاشرے کی وحدت کو ریزہ ریزہ کر دہا ہے۔ اس سلسلے کو حکومت کی کاوش یہ ہونی چاہیے کہ وہ طلبہ کے اندر اس طبقاتی نظام تعلیم کا شعور پیدا کر سکیں اور طلبہ کو اپنی تاریخ کا مطالعہ کروا کر اپنے عظیم ماضی سے روشناس کروائے تاکہ طلبہ میں قومی خدمت کا جذبہ پیدا ہو۔
"علم وہ خوب ہے جو حسن عمل تک پہنچے
ذوق وہ خوب کہ جو راز ازل تک پہنچے” پاکستان میں موجودہ تعلیمی حالات کے مطابق یکساں تعلیمی نصاب نہ ہونے کی وجہ سے سارے صوبوں میں الگ الگ تعلیمی معیار ہے۔ اور ایک اہم بات نصاب کی زبان ہے۔ صوبہ اپنی علاقائی زبان میں نصاب کی تشکیل دینے کو ترجیح دیتا ہے ۔ جس کی بنا پر طلبہ کو دوسرے صوبوں میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مسئلہ معیار تعلیم اور نظام تعلیم کا ہے ۔
رواں سال جولائی کے مہینے میں وزیراعظم عمران خان نے نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپریل 2021 سے ملک میں تمام سرکاری و نجی اور دینی مدارس میں یکساں تعلیمی نصاب کے نفاذ کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ جب کہ ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ ہمارے ملک میں معیاری تعلیم کا یہ حال ہے کہ ملک کے بیشتر سرکاری اور نجی سکولوں کے پانچویں جماعت کےطلبہ لکھی ہوئی اردو تک نہیں پڑھ سکتے۔
دنیا کی ساتویں ایٹمی پاور پاکستان تعلیمی اہداف کے حصول میں کئی دہائیاں پیچھے ہے۔ پاکستان میں موجودہ تعلیم کی صورتحال کی زبوحالی کی بہت سی وجوہات ہیں جس میں سب سے پہلی وجہ حکومت کی لاپرواہی اور ناقص منصوبہ بندی ہے۔
پاکستان میں تعلیمی نظام میعار کی پستی طلبہ کی ایک بڑی وجہ طلبہ کا نظریہ تعلیم بھی ہے ۔ پاکستان کے زیادہ تر طلبہ کے نزدیک تعلیم کا اہم مقصد کسی اچھی پوسٹ سے منسلک ہوتا ہے اور اس نظریے میں اہم کردار اسکے والدین اور ہمارا نظام تعلیم کرتا ہے ۔
"جہاں تعلیم کا مقصد نوکری کا حصول ہو
اس معاشرےمیں نوکر پیدا ہوتے ہیں، رہنما نہیں”
پاکستان میں تعلیمی نظام کی ناقص صورتحال کے چلتے طلبہ میں ملکی خدمت کا جذبہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان میں تعلیمی نظام میں یکساں نصاب کے لیے سب سے اہم قدم پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اٹھایا گیا ۔ پاکستان میں تعلیم کی نگرانی وزارت تعلیم اور صوبائی حکومتوں کے زیر اثر کی جاری ہے ۔ وفاقی حکومت زیادہ تر نصاب کی منظوری اور تحقیق و ترقی میں معاونت کرتی ہے ۔ پاکستان کے آرٹیکل A-25 کئ مطابق ریاست اس بات کی پابند ہے کے 5 سے 16 کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیار کی تعلیم فراہم کی جائے۔
ملک میں تعلیمی معیار کی تنزلی کی ایک اور وجہ اس شعبے میں بہتری لانے کے لیے حکومتوں کی کم دلچسپی ہے۔
تعلیمی اداروں میں نااہل اساتذہ کی بھرتیاں کی جاتی ہیں۔ جبکہ ان کی تربیت کے لیے بھی کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔ ملک میں تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بیشتر موجودہ نصاب میں زیادہ زور نظریاتی تعلیم پر ہے ناکہ تعلیمی اہلیت پر ۔ 2006ء میں نصاب کو نئے سرے سے ترتیب دیا گیا ۔اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ کون کون سے اہلیتیں کس کس درجے پر آنی چاہیئں۔ مگر 2015 کے گزرنے کے باوجود اب تک اس کے مطابق کتابیں نہیں بنائی گئیں۔کیونکہ تعلیمی افسران نے ان اقدامات کو لاگو کرنے کی کوئی زحمت نہیں کی.
ملک کا تعلیمی نظام گزشتہ کئی سالوں کے دوران حکومتوں کی عدم توجہ کے باعث تباہ ہوا ہے۔ اس لیے اس میں بہتری کے لیے وقت درکار ہوگا۔ عوام کی معاشی صورتحال میں بہتری سے بھی لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے راغب ہوں گے۔ ایک ملک جہاں لوگ معاشی بدحالی کا شکار ہوں وہاں وہ تعلیم کیا حاصل کریں گے۔ جب تک آپ اپنی معیشت کو درست نہیں کرتے آپ جو کچھ کر لیں آپ انہیں کہ دیں کہ تعلیم مفت ہے۔ ان کی پریشانی یہ ہوگی کہ گھر کیسے چلے گا؟ اور باقی اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟
حکومت کی جانب سے حال ہی میں تعلیم کے فروغ کے لیے بنیادی تعلیم کو لازمی اور مفت قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ 30 لاکھ نادار بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے "وسیلہ تعلیم "نامی چار سالہ منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے "ملینیئم گولز” کے مطابق پاکستان کو شرح خواندگی 56 سے 88 فیصد تک لے جانی تھی ۔ جبکہ حکومتی عہدیدار پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس ہدف کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔جو کہ ان کی نالائقی کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے.
پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ اسلام آباد میں اور سب سے کم کوہلو میں ہیں ۔ سال 2008 سے 2013 تک پاکستان میں تعلیمی صورتحال بہتر ہو گئی تھی. لیکن آنے والے سالوں میں میں یہ کام بالکل نہ کے برابر ہوا ۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی تعلیمی صورتحال ابتر ہوتی گئی۔اور اب تعلیم صرف ڈگری اور نوکری حاصل کرنے تک محدود ہو گئی ہے ۔
” جہاں تعلیم کا مقصد نوکری کا حصول ہو
اس معاشرے میں نوکر پیدا ہوتے ہیں، رہنما نہیں ”
پنجاب حکومت نے 17 ارب کا پیکج اسکولوں میں لگانے کا فیصلہ کیا ہے ۔عثمان بزدار نے 1700 سے 2100 اسکولوں کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ قابل تحسین ہے ۔اس کے علاوہ باقی صوبوں میں بھی تعلیمی کام ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں بھی اسکولوں میں بہتر اصلاحات متعارف کروائی جا رہی ہیں ۔جو کہ بہت جلد ہمیں ترقی کی راہ میں گامزن ہونے لگے گا۔ ایک آخری بات جو میں یہاں کرنا چاہوں گی وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں تعلیم کا مقصد مسلمانوں میں دین کی سمجھ پیدا کرنا ہونا چاہئے ۔اور ان کو اس حد تک ہوشیار کر دینا کہ وہ غیر مسلمانہ رویہ زندگی سے بچنے لگیں ۔یہ وہ نظام تعلیم ہونا چاہیے جو مسلمانوں کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا ہے ۔اور ہمیں ہر لحاظ سے اسے جانچنا چاہیے کہ ہمارا نظام تعلیم اس مقصد کو کہاں تک پورا کرتا ہے ۔ کیونکہ علامہ محمد اقبال نے فرمایا
"اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر تکبیر بھی فتنہ”
Comments are closed.