میاں بیوی کی مشترکہ جائیداد میں حصے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
دارالافتاء:شہرمہدپور، اُجین،ایم پی
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
میں مسماۃ طلعت آرا کی شادی 12/ اپریل 1996ء کو ہوئی تھی۔ میرے شوہر پہلے سے شادی شدہ تھے اور ان کی بیوی اور تین بیٹے تھے۔ میں ان کی دوسری بیوی بن کر گئی تھی۔ میرے بطن سے چھے بچے ہوئے، جس میں چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔
1۔ میرا اور میرے دو بیٹوں اور چار بیٹوں کا نان و نفقہ اور تمام اخراجات میرے شوہر کے ذمہ ہے یا میرے؟
2۔ شادی سے پہلے و بعد میں خود دیگر کام، مدرسے کا حساب کتاب، 1994ء سے ابھی تک کر رہی ہوں۔ بچوں کو ٹیوشن پڑھانا، سلائی کرنا، دوا بناکر شوہر کے ساتھ بیچنا، اسکول کے بچوں کو پڑھانا، جامعۃ البنات کی لڑکیوں کو پڑھانا، اسکول کی ساری پڑھائی لکھائی کرانا جو ابھی تک جاری ہے۔ اس سے مجھے آمدنی بھی ہوتی تھی۔ سرکار کی طرف سے مجھے 1999ء سے2017ء تک نو لاکھ چھیالیس ہزار روپیے تنخواہ کے طور پر ملے۔ جامعۃ البنات سے تنخواہ کے طور پر 60 ہزارروپیے 2010ء سے2017ء تک کے ملے۔ میں نے پورے روپیے میرے شوہر کو ان کے مانگنے پر چیک کے ذریعے یا نقد دیے، میرے شوہر نے ان روپیوں کو دیگر کاموں جیسے پلاٹ خریدنا، زمین خریدنا، دو بھائیوں کی شادی میں، شیئر مارکیٹ میں، کئی کمپنیوں کی اسکیموں میں، مکانات بنا کر کرائے پر چلایا، پانچ سال و سات سال کی اسکیموں کی قسط جمع کی۔ سوتیلی زوجہ کو مکان خرید نے کے لیے پچاس ہزار (50,000) روپیے دیے، دوا کا بزنس جو ابھی بھی جاری ہے، فی الحال اس میں ساٹھ ہزار (60,000) سے ستر ہزار (70,000) کی دوا بیچنے کے لیے موجود ہے۔
دوسری زمین جو 2017ء میں خریدی تھی، اس کے دو لاکھ روپیے پہلی زوجہ کے بیٹوں کی شادی میں خرچ کیے۔ شیئر مارکیٹ اور کمپنیوں کی اسکیموں میں گھاٹا بھی ہوا، لیکن فائدہ زیادہ ہوا، دوا کی بزنس میں فائدہ شروع سے ابھی تک جاری ہے۔
3. مئی2017ء میں میرے شوہر نے اپنے نام سے جو زمین خریدی ہے اس کی قیمت چھے لاکھ روپیے کی ہے، جس میں میرے دو لاکھ الگ سے خرچ ہوئے ہیں، جو میں نے زمین خریدنے اور قرضہ پٹانے (ادائیگی) کے لیے دیے ہیں۔ اب اس زمین پر ستمبر 2020ء سے مکان بننا شروع ہوا ہے، اس میں میں نے ایک لاکھ پچیس ہزار روپے خرچ کیے ہیں، اور آگے بھی ان شاء اللہ خرچ کروں گی۔ مکان بنانے میں ایک لاکھ بیس ہزار روپیے قرضہ ابھی ادا کرنا ہے۔ زمین خریدنے و مکان بنانے میں شوہر کا جو روپیے خرچ ہوا ہے وہ چھ لاکھ ہے۔ ان چھے لاکھ میں شوہر کے پانچ سال کی اسکیموں اور دواؤوں کے منافع لگے ہیں۔ اسکیم و دواؤوں کے منافع پر میرا بھی حق ہے۔ اس مکان میں میرا اور میرے شوہر کا کتنا کتنا حق ہے۔ واضح فرمائیں۔؟
4۔ سوال میں جو میں نے گیارہ پوائنٹ بتائے ہیں، ان سب کاموں میں جو بھی فائدہ ہوا وہ بھی شوہر کے پاس ہے۔ ان کو ہر جگہ اپنی مرضی سے خرچ کیا ہے اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ ان سب کاموں میں جو بھی فائدہ ہوا، ان میں میرا کتنا حق ہے؟ کیوں کہ ہر کام میں میرے بھی روپیے اور منافع لگے ہیں۔
5۔ اپنے روپیوں سے میں نے ایک زمین اپنے نام سے 2010ء میں ایک لاکھ پچاسی ہزار روپیے میں خریدی تھی، اُسے 2016ء میں چھے لاکھ چالیس ہزار روپیے میں بیچ کر ایک مکان خریدا اور دو لاکھ روپیے الگ سے میں نے خود مزید لگائے، اور اب وہ مکان آ ٹھ لاکھ چالیس ہزار روپے کا پڑا، اسے اپنے نام سے میں نے خریدا تھا۔ کیا وہ میرا ہوگا؟
6۔ سال2017ء میں میں نے اپنے چھبیس ہزار (26,000) روپیوں میں انجمن کی ایک زمین خریدی تھی، اس پر میں نے اور میرے شوہر نے مل کر سات کمروں کا مکان بنایا، جو 9 سال تک کرایہ پرچلا، اس کی آمدنی ایک لاکھ چالیس ہزار روپیے کرایہ کے روپ (صورت) میں ہمیں ملے، اس مکان کے بنانے میں دو لاکھ چالیس ہزار روپیے خرچ ہوئے تھے، ایک لاکھ میرے شوہر کے خرچ ہوئے تھے اور ایک لا کھ چالیس ہزار میرے خرچ ہوئے تھے، مکان کے ایک حصے کو میرے شوہر نے دولاکھ دس ہزار روپیے میں بیچ دیا تھا۔ اور مکان کا باقی حصہ اکتوبر 2020ء میں میں نے چار لاکھ بیس ہزار میں بیچ دیا۔ ان روپیوں پر کس کا کتنا حق ہے۔ واضح فرمائیں؟
7۔ میں نے اپنی زندگی میں ہر کام میں جتنے کی حقدار ہوں اس میں میرا حق ہے، کیوں کہ ہر کام میں میرے پیسے لگے ہیں، اور منافع بھی لگائے ہیں۔ وہ اپنے شوہر سے لکھوانا چاہتی ہوں، کیونکہ میرے سسر کا انتقال پانچ سال پہلے ہو چکا ہے اور ابھی تک ان کی میراث تقسیم نہیں ہوئی ہے۔ مجھے ڈر ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ جائیداد میں، زمین، مکان، بزنس اور دیگرکاموں میں جن میں میرا حق ہے ان میں میرے شوہر اور میرے دو لڑکوں اور خاص طور پر میری چار لڑکیوں کو مل جائے۔ کیوں کہ لڑکیوں کو لوگ میراث نہیں دیتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ شریعت کے حساب سے سبھی لوگوں میں میراث تقسیم ہو۔ تاکہ میرے مرنے کے بعد مجھ پر عذاب نہ ہو اور اللہ کے یہاں میری پکڑ نہ ہو۔
8۔ اگر میں اپنی جائیداد اپنی زندگی میں ہی اپنے بچوں اور شوہر کے درمیان تقسیم کرنا چاہوں تو کیسے کروں؟
مذکورہ بالا سوالات کے جوابات قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر فرمائیں، مہربانی ہوگی۔ والسلام
مسماۃ: فاطمہ
ہوشنگ آباد، مدھیہ پردیش، پن نمبر461001
الجواب
حامدا ومصلیاومسلماامابعد
1. بیوی کا کھانا، کپڑا اور رہائش کا انتظام کرنا شوہر کے ذمے ہے۔(1)
نابالغ بچوں وبچیوں کا خرچہ بھی باب کے ذمہ ہے۔(2)
غریب بالغہ، غریب بالغ یا معذور بالغ لڑکے و لڑکیوں کا خرچہ ماں باپ دونوں کے ذمے ہے، باپ کے ذمے دو تہائی اور ماں کے ذمے ایک تہائی۔(3)
2. سرکاری و پرائویٹ ملازمت کے ذریعے جو (9 لاکھ چھیالیس ہزار+60) روپیے آپ کو حاصل ہوئے ہیں، وہ آپ کی ملکیت ہیں۔ شوہر کے مطالبے پر وہ روپیے آپ نے ان کے حوالے کردیے، تو اس سلسلے میں تحقیق طلب بات یہ ہے کہ:
کیا آپ نے ان روپیوں کو بطور ہدیہ دیا تھا؟ یا بطور قرض؟
یا پھر کاروبار میں شرکت کے لیے دیا تھا؟
اگر بطور ہدیہ دیا تھا، تو آپ کے شوہر آپ کی طرف سے دیے ہوئے ان روپیوں کے مالک ہوگئے۔ انہیں واپس لینا آپ کے لیے جائز نہیں ہے۔ (4)
اور اگر بطور قرض دیا تھا تو آپ ان روپیوں کی حقدار ہیں۔ شوہر کے ذمے لازم ہے کہ وہ روپیے آپ کو واپس کریں۔
اگر کاروبار کے لیے بطور مضاربت روپیے دیے ہیں تو چونکہ منافع وغیرہ طے نہیں کیے گئےہیں، اس لیے یہ معاملہ فاسد ہے، لہذا آپ کے روپیے سےخریدی گئی جائیداد کی آپ مالک ہیں، شوہر نے جائیداد و کاروبار کے لیے جو دوڑ دھوپ کی ہے۔ انہیں اس کی اجرتِ مثل ملے گی۔ ایسی زمین ومکان و اسکیم کے لیے رہنمائی کرنے والے بروکر و دلال جتنے روپیے لیتے ہیں، اتنی اجرت کے آپ کے شوہر حقدار ہیں۔ (5)
البتہ ممکن ہے کہ پلاٹ، زمین، شیئر مارکیٹ، اسکیموں کے اوسط منافع آپ کو بتلایا ہو ایسی صورت میں طے شدہ منافع کی آپ حق دار ہوں گی۔(6)
شوہر کے ذریعے پہلی زوجہ کے دو لڑکوں کی شادی میں 2017ء میں خریدے گئے مکان کے دو لاکھ روپیے صرف ہوئے تو چونکہ مکان اور اس کے منافع میں میاں بیوی دونوں شریک ہیں، اس لیے قیمت کی شکل میں حاصل ہوئے روپیوں میں طلعت آراء اور شوہر برابر شریک ہیں؛ لہذا اب یہ دیکھا جائے کہ شوہر نے اس قیمت سے جو دولاکھ روپیے اپنی پہلی زوجہ سے پیدا ہونے والے اپنے دو بیٹوں کی شادی میں خرچ کیے ہیں۔ اس میں ایک لاکھ کی حق دار دوسری زوجہ یعنی طلعت آراء تھیں تو کیا طلعت آراء نے اس حصے کو خرچ کرنے کی اجازت دی تھی؟ اگر اجازت دی تھی تو یہ شوہر کے لیے بطور ہدیہ و تحفہ تھا یا قرض کے طور پر تھا۔؟ اگر ہدیہ کے طور پر اجازت دی تھی تو طلعت آراء کا اپنے شوہر سے اپنے دیے ہوئے ایک لاکھ روپیے واپس مانگنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر بطور قرض دیا تھا تو واپس مانگنا جائز ہے۔ اور مانگنے کی صورت میں شوہر پر لازم ہے کہ وہ ایک لاکھ روپیے طلعت آراء کو دیں۔ جو 2017ء میں خریدے گئے مکان سے حاصل ہوا ہے۔
یہی صورت حال اپنی سوکن کے لیے زمین کی خریداری میں شوہر کو دیے ہوئے پچاس ہزار روپے کی ہے۔ اگر وہ ہدیہ ہے تو واپس مانگنا ممنوع ہے اور اگر قرض ہے تو واپس لے سکتی ہیں۔
دوا کے کاروبارمیں چونکہ آپ یعنی طلعت آراء کا روپیہ و محنت دونوں صرف ہوئے ہیں، اس لیے آپ یعنی طلعت آراء اس کاروبار اور اس کے منافع میں برابر شریک ہیں۔ محنت اور غیرمعلوم سرمایہ کی کمی یا زیادتی سے ایسے کاروبار اور منافع کے حصوں میں برابری پر فرق نہیں پڑتا ہے۔ (7)
3. سال 2017ء میں شوہر نے جو زمین خریدی ہے اس کی خریداری میں دونوں کا سرمایہ مخلوط و مشترک ہے؛ اس لیے اس مکان اور اس کی آمدنی میں دونوں برابرحصے دار ہیں۔ (8)
4. سوال نمبر دو کے ذیل میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔
5. سال 2010ء میں آپ کے روپیے سے آپ کے نام سے خریدی گئی زمین کی تنہا آپ یعنی طلعت آراء مالکہ ہیں، اس کو بیچ کر الگ مکان کی تعمیر کی، جس کی موجودہ قیمت آٹھ لاکھ چالیس ہزار ہوتی ہے۔ اس کی بھی مالکہ آپ یعنی مسماۃ طلعت آراء ہیں۔
6. سال 2017ء مسماۃ طلعت آراء کے روپیوں سے خریدی گئی انجمن کی زمین کی مالکہ طلعت آراء ہی ہیں، اس پر کرایہ پر چلانے کے لیے مکان کی تعمیر میں شوہر و بیوی دونوں نے روپیہ خرچ کیا، تو اس کی أمدنی میں دونوں شریک ہیں، البتہ زمین زوجہ کی ہے اور تعمیر میں روپیہ بھی زوجہ کا زیادہ صرف ہوا ہے، اس لیے اس مکان کی اصل مالکہ مسماۃ طلعت آراء ہی ہیں، لہذا اس مکمل مکان یا اس کے کسی جزوء کو اگر طلعت آراء کی رضامندی سے فروخت کیاجائے تو اس آمدنی ( حاصل قیمت)میں دونوں برابر شریک ہوں گے۔ یعنی جو ایک حصہ مئی 2020ء میں فروخت کیا اس کی آمدنی دو لاکھ دس ہزار ہوئی تو اس میں ایک ایک لاکھ پانچ پانچ ہزار روپے میاں بیوی کے درمیان تقسیم ہوں گے۔
اورپھر تعمیر میں منافع ختم کرنے کی کارروائی کرنے سے قبل ہی مکان کا باقی حصہ اکتوبر 2020ء میں طلعت آرا نے چار لاکھ دس ہزار میں فروخت کیا تو ان روپیوں میں بھی دونوں شریک ہوں گے۔
عمارت سے منافع یعنی کرایہ کا سلسلہ ختم کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ چونکہ مکان کی اصل مالکہ طلعت آراء تھیں؛ اس لیے تعمیر میں لگایا ہوا ان کے شوہر کا روپیہ ایک لاکھ اپنے شوہر کو ادا کردیتیں، تو اس کے بعد وہ پوری عمارت مع منافع یعنی کرایہ اور قیمت میں اضافے کی مالکہ ہوجاتیں، لیکن پہلے انہوں نے ایسا نہیں کیا اس لیے جملہ منافع میں میاں بیوی شریک ہیں۔
7. آپ کے جملہ سوالوں میں کچھ باتیں تحقیق طلب ہیں، مختلف صورتوں میں شریعت کے احکام الگ الگ ہوتے ہیں، سہولت کے لیے دوبارہ سوال نامہ حاصل کرنے کے بجائے مختلف صورتوں کے احکام بیان کردیے گیے ہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں معاملات کو لکھنے کا حکم فرمایا ہے۔ (9)
آپ اگر پہلے ہی معاملات کو لکھوانے کا اہتمام کرتیں تو اس وقت مسائل کے جوابات واضح صورت میں حاصل ہوسکتے تھے۔ پھر بھی اوپر کے جوابات میں وضاحت ہو گئی ہے۔
8. اگر آپ اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتی ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے لیے جتنا حصہ رکھنا چاہیں اتنا رکھ لیں تا کہ خدانخواستہ شدید ضرورت کے وقت محتاجی نہ ہو، پھر قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد قانون میراث کے مطابق آپ کی جملہ جائیداد 32حصوں میں تقسیم ہوگی جس میں آٹھ حصے آپ کے شوہر کو ملیں گے،(10) اور چھے چھے حصے آپ کے دونوں بیٹوں کو اور تین تین حصے آپ کی چاروں بیٹیوں کو ملیں گے۔(11)
ہدیہ (GIFT) میں لڑکی اور لڑکے کے درمیان برابری کا قانون جاری ہوتاہے، لیکن بعض محقق علماء کے نزدیک اگرصلہ اورعطاء (GIFT ) کے بجائے اپنی زندگی میں اپنی ان مملوکہ جائیداد کو تقسیم کیاجائے جو عموما میراث کے طور پر تقسیم ہوتی ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ میراث تقسیم ہورہی ہے؛ اس لیے مناسب یہ ہے کہ قانون ہبہ و ہدیہ کے بجائے قانون میراث کے مطابق ہی لڑکیوں اور لڑکوں میں اپنی جائیداد کو تقسیم کی جائے۔(12)
جائیداد موہوبہ تقسیم کر کے ہر ایک کو اس کے حصے پر مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار بھی دے دیں۔ اگر زندگی میں قبضہ نہیں دلایا تو آپ کی موت کے بعد اس میں قانون میراث جاری ہوگا۔ اور زندگی میں ہبہ یا ہدیہ دینے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔ (13)
(1) وَعَلَى الْمَوْلُوْدِ لَـهٝ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ (البقرۃ، آیت نمبر: 233)
(2) ونفقۃ اولادہ الصغار علی الاب. (مختارات النوازل: ج2/ ص202/ ایفا)
نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة”. (الفصل الرابع في نفقة الأولاد، 1/ 560، ط: رشيدية)
(3) وَعَلَى الۡوَارِثِ مِثۡلُ ذٰ لِكَ ۚ (البقرۃ، آیت نمبر: 233)
وتجب نفقۃ الابنۃ البالغۃ الفقیرۃ والابن الزمن علی ابویہ ثلاثا، علی الاب الثلثان، وعلی الام الثلث باعتبار المیراث۔ (مختارات النوازل ج2/ ص203/ ایفا)
(4) اذا وھب لذی رحم محرم منہ فلارجوع فیھا عندنا،۔۔۔ وھبۃ احد الزوجین، للآخر حال بقاء الزوجیۃ بمنزلۃ الھبۃ للقرابۃ۔(مختارات النوازل: ج3/ص 222/ایفا)
(5) ولو شرط کلہ للمضارب کان قرضا، المضارب اذا عمل فی المضاربة الفاسدۃ، وربح یکون جمیع الربح لرب المال وللمضارب اجر المثل فیما عمل (الفتاوی الھندیۃ: ج 4/ص 288/ کتاب النوازل: ج12/ص83/)
(6) قلت: والمراد أن شركة الملك لا تبطل: أي لايبطل الاشتراك فيها، بل يبقى المال مشتركا بين الحي وورثة الميت كما كان وإلا فلا يخفى أن شركة الميت مع الحي بطلت بموته تأمل.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتارج4/ص 327)
قوله:” شركة الملك أن يملك اثنان عينا إرثا أو شراء” بيان للنوع الأول منها وقوله إرثا أو شراء مثال لا قيد فلا يرد أن ظاهره القصر عليهما مع أنه لا يقصر عليهما، بل تكون فيما إذا ملكاها هبة أو صدقة أو استيلاء بأن استوليا على مال حربي أو اختلاطا كما إذا اختلط مالهما من غير صنع من أحدهما أو اختلط بخلطهما خلطا يمنع التمييز أو يتعسر كالحنطة مع الشعير.
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري ،ج5/ص 180)
وحكمها في شركة الملك صيرورة المجتمع من النصيبين مشتركا بينهما وفي شركة العقد صيرورة المعقود عليه أو ما يستفاد به مشتركا بينهما
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري ,5/ص 179)
سئل:في إخوة خمسة سعيهم وكسبهم واحد وعائلتهم واحدة حصلوا بسعيهم وكسبهم أموالا فهل تكون الأموال المذكورة مشتركة بينهم أخماسا؟
الجواب: ما حصله الإخوة الخمسة بسعيهم وكسبهم يكون بينهم أخماسا
(العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية ج1/ص 94)
مطلب: اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية [تنبيه] يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز.
فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين علی رد المحتار ج4/ص 325)
(7)مطلب: اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية [تنبيه] يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز.
فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ
(لدر المختار وحاشية ابن عابدين علی د المحتارج4/ص 325)
(8)مطلب: اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية [تنبيه] يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز.
فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين علی د المحتار ،ج4/ص 325)
(9)يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ (البقرۃ، آیت: 282)
(10) فان کان لھن ولد فلکم الربع مماترکن من بعد وصیۃ یوصین بھا اودین۔ (النساء، آیت: نمبر 12/)
(11) للذکر مثل حظ الانثیین. (سورۃ النساء، الآیۃ:11)
(12) قال العبد الضعیف عفا اللہ عنہ: قد ثبت بماذکرنا ان مذھب الجمھورفی التسویۃ بین الذکر والانثی فی حالۃ الحیاۃ اقوی وارجح من حیث الدلیل ولکن ربما یخطر بالبال ان ھذا فیما قصد فیہ الاب العطیۃ والصلۃ، والا اذا ارادا الرجل ان یقسم املاکہ فیما بین اولادہ فی حیاتہ، لئلا یقع بینھم نزاع بعد موتہ، فانہ وان کان ھبۃ، لکنہ فی الحقیقۃ والمقصوداستعجال بما یکون بعدالموت، وحینئذ ینبغی ان یکون سبیلہ سبیل المیراث، (تکملۃ فتح الملھم: ج2/ ص75،المفتی محمد تقی العثمانی)
(13) عن الثوری عن منصور عن ابراھیم قال:الھبۃ لاتجوز حتی تقبض.(مصنف عبدالرزاق: ج9 ص107)۔
وحجتنا فی ذالک ماروی عن النبی ﷺ:لاتجوز الھبۃ، معناہ لایثبت الحکم وھوالملک. (المبسوط لسرخسی: ج 12ص57)
اقول الاثار المذکورۃ تدل علی ان الھبۃ لایصح الا مقبوضۃ، والدلالۃ ظاھرۃ لاتحتاج الی التقریر، (اعلاء السنن: ج16، ص71)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ:
(مفتی) محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء:شہرمہدپور،
ضلع:اُجین(ایم۔پی)
11/رمضان المبارک 1442ھ
مطابق 23/اپریل2021ء
[email protected]
تصدیق:
مفتی محمدسلمان ناگوری،مہدپور،اُجین،ایم پی۔
ناقل:
(مفتی) محمد توصیف صدیقی
(معین مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور)
Comments are closed.