دوبارہ لاک ڈاون اور مسلمانانِ ہند

بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی

مہدپور،اُجین،ایم پی

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زَد میں
یہاں پہ صرف ہمارامکان تھوڑی ہے

مسلمانوں کے تعلق سے ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایساپیداہوچکاہے کہ اگراس میں سے کسی کاپوراجسم کاٹاجارہاہو اوراس دردوالم کی حالت میں اس کے سامنے کسی مسلمان کی انگلی کوتکلیف پہونچنے کا اُسے علم ہوجائے، تووہ مسلمان کی اس پریشانی اورتکلیف کی خوشی میں اپنا سارادردبھول جاتا ہے۔
اسی مسلم عداوت کا نتیجہ ہے کہ اگرکسی کوبڑانیتابننا ہوتواس کے لیے کافی آسان راستہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بولنا شروع کردے۔ حتی کہ اگرحکام وججز کو اپنے ریٹائر منٹ کے بعد سیاست میں جگہ بنانی ہویا کوئی اونچا منصب حاصل کرنا ہوتووہ اپنے فرض منصبی کے خلاف مسلم مخالف فیصلے اوراقدامات کے ذریعہ اپنے مقاصدکو حاصل کرسکتا ہے۔اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ بابری کے سلسلے میں ثبوت وشواہد کو نظرانداز کرتے ہوئے انصاف کوشرمندہ کرنے والا فیصلہ لکھنے والے جج صاحب لیجسلٹیو سسٹم کاحصہ بنائے گئے۔
سیاسی بازیگرملک کے اس طبقہ سے اچھی طرح واقف ہیں کیوں کہ یہ اندھ بھگت طبقہ انھیں کی کاشت ہے۔
اس وقت ہمارے ملک میں عوامی تباہی کے لیے دوقسم کی حکمت عملی کام کررہی ہے۔
اول یہ کہ:
"حکومت واقتدار پر قابض رہنے کے لیے ملک کے پچاسی فیصد باشندوں کوکھانے،کپڑے کا محتاج بناکرانھیں روزگار، تعلیم ، مواقع ،مساوات اورانصاف سے محروم کردیاجائے۔”
دوسرایہ کہ:
"کوڈ19/کےعنوان سے ہمارے ملک بلکہ پورے عالم میں جو کھل چل رہا ہے۔ اس کھیل کے مہرہ کے طور پرمختلف ممالک کے حکمراں اپنے ملک اوراپنی رعایا کے خلاف فیصلے لے رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے صاحبانِ اقتدارکروناوائرس کھیل کے لیے جوفیصلے لے رہے ہیں وہ ان کے اپنے فیصلے نہیں ہیں۔”
کووڈ19/کی اس عالمی شرارت کو فتنۂ دجال کے تناظرمیں سمجھ کر ارشاداتِ نبوی کے مطابق ہمیں اپنی حفاظت کی تدبیریں کرنی چاہئے۔

ملک وعوام کے خلاف فیصلوں پرجب اربابِ اقتدار کوعوامی ردعمل وناراضگی کااحساس ہوتا ہے تو سیاسی بازیگرفورا کوئی نہ کوئی مسلم مخالف شوشہ چھوڑ دیتے ہیں۔اور پھرمسلم مخالف سگبگاہٹ دیکھ وسن کرلوگ اپنی پچھاڑی کا دردبھول جاتے ہیں۔
آپ دیکھ لیں کتنے دنوں سے کسان سراپا احتجاج بن کردلی کی سرحدوں پر بیٹھے ہیں؟ کسانوں کا احتجاج حکومت کے ظلم ونانصافی کے خلاف ردِعمل،اشتعال اورعوامی آوازہے۔جس سے حکومت کے غلط فیصلوں کے خلاف ماس موومنٹ کھڑا ہونے وکرنے میں کچھ زیادہ وقت صرف نہیں ہوگا۔
لیکن اُسے دبانے وچھپانے کے لیے ایک کے بعد ایک مختلف افراد کے ذریعہ مسلم مخالف بیانات دیے ودلائے جارہے ہیں اوراندھ بھگت ان مسلم مخالف بیانات سے خوش ہوکرکسانوں، مظلوموں اور ملک کے اصل مدعوں ومسئلوں کے بارے میں تقریبا خاموش ہوچکے ہیں۔
عوام کواصل مدعوں سے برابرغافل رکھنے کے لیے جادوگروں ومداریوں کی طرح صاحبانِ اقتدار
مسلسل مسلم مخالف حرکتیں انجام دیتے رہے ہیں۔
عوام کی اندھ بھگتی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے منصوبوں اورعزائم کو مکمل کرنے میں معاندینِ اسلام
جہاں کامیاب ہورہے ہیں۔ وہیں مسلمان بھی معاندین اسلام کے ذریعہ تیار کردہ میدان میں اُتر کر شعوری یا غیرشعوری طورپراسلام دشمنوں کے مددگار بنائے جارہے ہیں۔ اس پرموٹی موٹی بے شمار مثالوں میں ایک دلی مرکز کا معاملہ بھی ہے کہ گذشتہ سال 2020ءمارچ میں جب لاک ڈاؤن کاسلسلہ شروع ہوا تو اُس وقت شمالی ومشرقی بھارت کے باشندے جو بسلسلۂ روزگار جنوبی و مغربی بھارت میں مقیم تھے۔ وہاں سے وہ بے سہارا ہوکر پیدل ہی اپنے اپنے وطن کے لیے چل پڑے، جس میں بچے وخواتین کی بھی خاصی تعداد تھی۔ راستوں میں ہوٹلیں،ڈھابے اورکھانے پینے کی دکانیں بند تھیں۔ انھیں انتظامیہ کی طرف مددفراہم کرنے کے بجائے زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ ان مظلوم وبے سہارا مزدوروں کے لیے پورے ملک میں مسلمانوں نے کھانے پینے کا انتظام کیا۔
لاک ڈاون سے چند روز قبل آسام میں ایک مسافرٹرین پرپتھر بازی کاواقعہ ہواتھا۔ اس واقعہ کو سامنے رکھ کر وزیراعظم نے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ:
"کپڑوں سے پہچانو؛ یہ آگ لگانے والے کون ہیں؟ ”
بعدمیں جانچ سے پتہ چلا کہ پتھر بازی کرنے والے مسلمان نہیں تھے، بلکہ مسلمانوں کوبدنام کرنے کے لیے انھوں نے کرتا پائجامہ اورٹوپی پہن رکھی تھی۔
لاک ڈاون کے موقع پرجنوب ومغرب سے مشرق وشمال کی جانب پیدل چل رہے مزدروں،مجبوروں، بھوکوں وپیاسوں کی ہر جگہ سڑکوں پر مسلمان مدد کرکے جب وزیر اعظم کے بیان کو غلط ثابت کررہے تھے۔اورمزدوروں کے نہ تھمنے والے قافلے مسلسل اربابِ اقتدار کی بدانتظامی پرسوالات کھڑے کررہے تھے۔توعین اسی موقع پراپنی کمزوریوں اور مسلمانوں کی اخلاقی فتوحات کوچھپانے کے لیے پورے ملک میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کا حربہ اختیار کرتے ہوئے مرکزدلی کی طرف منسوب مباحثہ شروع کر دیا۔ پھرکیا تھا؟ پورا ملک خوش ہوگیا۔ اورخوشی میں مگن ہوکر ان بے سہاراپیدل سفرکررہے مزدوروں کو صرف یہی نہیں کہ بُھلادیا گیا بلکہ خودکروانا کی روک تھام اورعلاج ومعالجہ کے تعلق سے دماغ میں موجود سوالات بھی غائب گئے۔ یہاں تک کہ اُصول ومنطق اور سائنس کو انگوٹھا دکھاتے ہوئے تالی،تھالی، لائٹنگ جیسی خلافِ عقل رسومات کے ذریعہ کرونا کو بھگانے کی تقریبات کا اعلان کیا گیا توملک کے بیشترحصوں میں بھگتوں نے ان تقریبات میں حصہ لے کرخوب اُدھم مچایا اوردنیابھرمیں اپنے ملک کی جگ ہنسائی کرائی۔
اس طرح مرکزکاشوشہ اُٹھاکربےسہارامسافروں،مزدوروں اوران کی مدد کرنے والے مسلمانوں کی اخلاقی فتح مندی کوچھپانے میں جہاں ارباب اقتدار کامیاب رہے وہیں دشمنوں کے تیار کردہ میدان میں خود مسلمان بھی اترکرغیرشعوری طور سہی اُن کے معاون بن گئے۔ اس موقع پرمزدوروں کی بے کسی، اورمسلمانوں کی طرف سے ان کی فراخ دلانہ امداد، حکومت کی خلافِ عقل تالی، تھالی اور لائٹنگ کی اپیلوں کو سوشل میڈیا(جس پر ہمارا اختیارہے)پردکھانے وبتانے کے بجائے ایک طرف سے مرکزکی مظلومیت کاعام وخاص مسلمان رونا رونے لگے۔
میں نے ایک مدرسہ میں پھنسے ہوئے تقریباً 30/تیس دینی معلمین وملازمین سے معلوم کیا کہ بتاؤ آپ لوگوں نے مرکز سے متعلق کتنے گروپوں پرنیوزپڑھی اور انھیں کتنے گروپوں پرسینڈ کیا؟ سب نے جواب دیا کہ مرکزسے متعلق پیچیس تیس نیوز پڑھی اور اتنی ہی تعداد میں گروپوں پران خبروں کو سینڈ بھی کیا اور یہ کام روزانہ کرتے ہیں۔
میرادوسراسوال تھاکہ :
مغربی وجنوبی ہند سے پیدل چلنے والے بے سہارا مزدوروں اورپولس کی مار کھا کربھی سڑکوں پراُن بھوکے پیاسےمسافروں ومجبوروں کی مدد کرنے والے مسلمانوں کی کتنی پوسٹیں پڑھیں اور کتنی آگے سینڈ کیں؟
جواب تھا کہ کچھ پوسٹیں پڑھیں توہیں لیکن آگے ایسی کوئی پوسٹ سینڈ نہیں کی ہیں۔
میں نے کہا کہ صاحبانِ اقتداراوراسلام مخالف طاقتوں نے اسی مقصد سے مرکزکاشوشہ چھوڑاہے، تاکہ پیدل چل رہے مزدوروں کی بے کسی اوران کے مدد گارمسلمانوں کی اخلاقی بلندی سے لوگ غافل ہوجائیں۔ اوردلی مرکزعنوان کے تحت مسلمانوں کو پریشان کئے جانے کا منظر دیکھنے کے بعد اندھ بھکت اپنی پریشانی بھول کر سرکار کی بھگتی میں رقصاں ہوجائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں لاک ڈاون کی وجہ سے مسلمانوں سے کہیں زیادہ دیگر اقوام کو ہر طرح نقصانات وپریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ لیکن وہ مسلمانوں کے نقصان و پریشانی سے خوش ہوکر اپنی تکالیف فراموش کئے ہوئے ہیں۔ اس لیے آج جب کہ دوبارہ لاک ڈاون کی تیاری چل رہی ہے، اس موقع پر اگرچہ مسلمانوں کو بھی تکلیف وپریشانی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ لیکن اِس لاک ڈاؤن کو روکنے کے لیے مسلمانوں کو آگے آنے سے بچناچاہئے۔ کیوں کہ مسلمانوں کی تکالیف سے خوش ہوکر اپنی تکالیف بھول جانے والے طبقے سے لاک ڈاون کی کاروائی کو تقویت مل سکتی ہے۔ اس لیے ہمارے ملک میں جاری دونوں تخریبی منصوبوں یعنی 85/فیصد لوگوں کو خوراک،لباس،تعلیم مواقع،مساوات اوانصاف سے محروم کرنے کی پالیسی،اور دجالی نظام کی ٹرائیل کووڈ19/کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں سنت کے مطابق اپنالائحۂ عمل طےکرناچاہئے۔ اول الذکر منصوبہ کو ناکام بنانے کے لیے ملک میں ہزاروں سال سے ظلم و زیادتی کی شکار OBC, SC, ST وغیرہ کی مظلومیت کوبڑی طاقت کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعہ عام کیاجائے، اس سلسلے میں بام سیف اورمولنواسیوں کے بیانات کو خوب شائع کیاجائے۔ اور انصاف، مساوات، عوامی تعلیم، گردشِ دولت وغیرہ کے بارے میں اسلامی تعلیمات سے انھیں واقف کرایاجائے۔اور اس پر انھیں قائل کرنے کی کوشش کی جائے کہ اس ملک میں اسلام کی وجہ سے ہی ان مظلوم طبقات کو تعلیم ، جان، مال، معاش، عزت نفس،حفاظت نسب کےحقوق حاصل ہوئے ہیں۔

لاک ڈاون اور دجالی فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے درج ذیل اقدامات کئے جائیں۔
1.لاک ڈاون کی روک تھام کے لیےدینی وضع قطع والے مسلمانوں کو آگے آنے کے بجائے دیگر اقوام کی سرکردگی میں کوششیں کی جائیں۔
2.تعلیم کے سلسلے میں ہوم بیسڈ ایجوکیشن (خانگی تعلیم)کے نظام کومضبوط بنایاجائے۔
3۔ معاشی استحکام کے لیے مولس اوربگ بازاروں کے بجائے چھوٹے چھوٹے تاجروں سے خریداری کی جائے۔ اورمشینریز(ٹرک، گاڑیاں،فریج، کولروغیرہ) میں سیکنڈ ہینڈ اشیاء کی خریداری کی جائے۔
بینکوں میں معمولی رقم باقی رکھ کر تمام روپیے نکال لیے جائیں۔ پھرہوسکے توروپیوں کوسونے وچاندی میں تبدیل کرکے محفوظ کیا جائے۔
گھروں میں کھانے کے لیے سرکہ کا انتظام کیاجائے۔
بروقت خواتین وبچے بلکہ تمام اہل خانہ دستی ہنر(سلائی کڑھائی، ٹو وہیلروفوروہیلر گاڑیوں،الیکٹرکس انسٹیومینٹ جیسے فین ، کولر، موبائل فون وغیرہ کی مرمت، راجگیری، پلمبری،حدادی، کارپینٹری وغیرہ)سیکھیں۔
4. پابندی کے ساتھ سورہ کہف کی شروع وآخرکی دس دس آیات کی تلاوت کااہتمام کیاجائے۔
یادرکھیں اگر تنہا مسلمان لاک ڈاون کی روک تھام کے لیے آگے آئے تو بھگت جیوی پرجاتِ جوہمارے ملک میں پیدا ہوگئی ہے وہ اپنا درد بھول کرخوشی کے شادیانے بجانے میں مصروف ہو جائے گی۔ اورپھرملک کی 85/فیصدعوام کوروزگار، لیاب، تعلیم،مساوات، مواقع اور انصاف سے محروم کرنے کے لیے صاحبانِ اقتدار کولاک ڈاون کا اچھا اوسر(موقع) مل جائے گا۔

فقط والسلام
کتبہ: محمد اشرف قاسمی،
خادم الافتاء:مہیدپور،اُجین، ایم پی۔
2021/08/04ء

Comments are closed.