غزوہ بدر حق و باطل کا فیصلہ کن اور تاریخ ساز معرکہ

عبدالرافع رسول
17رمضان المبارک 2ھجری اسلامی تاریخ کا وہ عظیم اور تاریخ ساز معرکہ پیش آیا جسے اللہ نے ’’یوم الفرقان‘‘کے نام سے پکارا ہے ۔مدینہ طیبہ کی سرزمین پر بدر کے میدان میںجب اسلام و کفر اورحق و باطل کی پہلی معرکہ آرائی ہوئی،تونہایت بے سروسامانی کے عالم میں ہونے کے باوجوداولین جانثاران اسلام نے ائمہ الکفرکے چھکے چھڑادیئے اورایک ایک کرانہیں واصل جہنم کردیا۔ اس تاریخی معرکے میں جانثاران اسلام کی تعداد کفارقریش کی تعداد سے ایک تہائی تھی۔ وسائلِ جنگ کے اعتبار سے بھی وہ نہایت کمزور تھے۔ جزیرہ نمائے عرب کا اجتماعی ماحول سراسر ان کے خلاف تھا۔اس وقت کے معروضی حالات اورزمینی حقائق پرلشکرِ اسلام کے غلبے اور فتح مند ہونے کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی تھی۔ کفر اپنے پورے کروفر کے ساتھ حق کی بے سروسامانی سے نبردآزما ہونے کے لیے تین گنا لشکرلے کر بڑے غرور و رعونت سے میدان میں اتر آیا تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دفاعی اور جنگی حکمتِ عملی، صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایمانی فراست، جرات و شجاعت، بے نظیر استقامت، بہادری اور جذبہ ایمانی کی بدولت اللہ کی طرف سے ایسی مدد و نصرت نازل ہوئی کہ کفار و مشرکین کو ایسی فیصلہ کن ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جس نے ان کی کمر توڑ دی،اوریہیں اوراسی بدرکے میدان سے دورجہالت کے قریش مکہ کے کفروضلال اورانکی باطل پرستی کے لئے ہزیمت اورشکست کاعنوان لکھ دیا ۔مورخین اور سیرت نگار حق و باطل کے درمیان اس تاریخ ساز معرکے کو غزوہ بدر الکبریاور بدرالعظمی کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں اسے’’ یوم الفرقان ‘‘کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ وہ دن جس میں حق اور باطل، ہدایت و ضلالت کے درمیان فرق آشکار ہوگیا۔ حق غالب رہا اور باطل مغلوب۔
طلوع اسلام اور دعوتِ حق کے نتیجے میں قدرتی طور پر دو گروہ ہوگئے تھے۔ ایک وہ جنہوں نے دعوتِ حق کو قبول کرتے ہوئے دینِ حق کی اشاعت میں حق و صداقت کے مثالی پیکر،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ حق پر لبیک کہتے ہوئے حق و صداقت کے ابدی راستے کو اختیار کیا، جب کہ دوسری طرف کفر و ضلالت اور باطل پرستوں کی پوری جماعت تمام وسائل و اسباب کے ساتھ حق کے خلاف صف آرا تھی۔ دینِ حق کے پیرو، اہلِ اسلام یہ کہتے تھے کہ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس راہ کو سمجھیں، اختیار کریں، جب کہ کفار اور مشرکین کی پوری جماعت، باطل کی پوری قوت، مشرکینِ مکہ اس پر ڈٹے ہوئے تھے کہ مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہیں، یعنی وہ مسلمانوں کے اعتقاد و ضمیر کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتے تھے، ان کی پوری جدوجہد، مخالفت اور کوششوں کا حاصل یہ تھا کہ اہلِ اسلام کو دینِ حق اور دعوت و توحید سے باز رکھیں۔
غزوہ بدر کے اسباب:اولاَاسلام کی روز افزوں ترقی اور دین کی اشاعت سے قریشِ مکہ کے بت پرستانہ باطل نظام کو خطرہ لاحق تھا۔ثانیاَ مکے کی تیرہ سالہ زندگی میںکفارِ قریش مسلمانوں پر بے انتہا مظالم ڈھاتے رہے، بالآخر انہیں سخت اذیت پہنچا کر مکے سے ہجرت پر مجبور کیا۔ثالثاََ جو مسلمان ہجرت کر کے مکے سے مدینے جا رہے تھے، ان پر مظالم ڈھائے جاتے اور ان کی جائیدادیں ضبط کی جاتی تھیں۔رابعاََ مسلمانوں کے نئے مسکن یعنی حبشہ اور مدینے کے حکمرانوں اور با اثر افراد کو کفارِ قریش مسلسل یہ ترغیب اور دھمکی دے رہے تھے کہ مکے کے ان تارکین کو پناہ نہ دی جائے۔خامساََان ناانصافیوں کے انتقام لینے کے لیے ہجرتِ مدینہ کے بعد مسلمان قریش پر معاشی دبائو ڈالتے رہے ۔ قریش کے تجارتی قافلوں کی آمد و رفت کو یثرب کے علاقے میں روک دیا جاتا تھا۔قریشِ مکہ کو اپنے تجارتی قافلے پرحملہ ہو جانے کا ہر وقت اندیشہ لاحق تھا، جب کہ دور دراز کے راستے اختیار کرنے پر قریش کو نقصان ہو رہا تھا۔ یہ تمام وہ اسباب ہیں جو آخر کار جنگِ بدر کا سبب بنے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جاں نثارانِ نبوتؓ نے مسلسل تیرہ برس تک ہر طرح کے مظالم برداشت کیے، آخر جب مکے میں ان کے لیے زندہ رہنا دشوار ہوگیا تو وہ مدینے چلے آئے، لیکن قریشِ مکہ نے انہیں یہاں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا، پے درپے حملے شروع کردیے، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تین راہیں تھیں:اولاََجس بات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق سمجھتے تھے، اس سے دست بردار ہوجائیں۔ثانیاََاس پر قائم رہیں، لیکن مسلمانوں کو ہر طرح کی اذیت کا سامنا کرنے دیں۔ثالثاََظلم و تشدد کا مردانہ وار مقابلہ کریں اور نتیجہ اللہ پرچھوڑ دیں۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرا راستہ اختیار کیا اور نتیجہ وہی نکلا جو ہمیشہ نکلا ہے۔ یعنی حق فتح مند ہوا اور باطل ذلت آمیز شکست سے دوچار۔
میدانِ کارزار کی طرف روانگی کے وقت اثنائے راہ میں حالات کی اچانک اور پرخطر تبدیلی کے پیشِ نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانثاران اسلام کے ساتھ مجلسِ مشاورت منعقد کی، مہاجرین، انصار، اوس وخزرج کے قبائل سب کو اس مجلس میں شمولیت کی دعوت دی ۔جب سب جمع ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صورتِ حال سے آگاہ فرمایااور پوچھااب تمہاری کیارائے ہے ؟ اس موقع پرسب سے پہلے جس میں درپیش صورتِ حال کا تذکرہ فرمایا اور مجاہدین اسلام اورجانثاران دین سے تبادلہ خیال کیا، اس موقع پر جاں نثارانِ اسلام، صحابہ کرام نے بھرپور جرات و استقامت اور عزیمت کا اظہار کیا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی دونوں جماعتوں انصار اور مہاجرین کے نمائندوں نے حق پر استقامت اور جاں نثاری و فدا کاری کے جن جذبات کا اظہار فرمایا، ذیل میں ان میں سے چند کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
مجلسِ مشاورت میں قافلہ حق کے اول اول مسلمان، السابق، الاول سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے نہایت والہانہ اندازمیں اظہارِ جاں نثاری فرمایا اور بسر و چشم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو قبول کیا اور مال و جان سے اطاعت کے لیے کمر بستہ ہوگئے۔ اس کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی اظہارِ جاں نثاری فرمایا۔ بعد ازاں مقداد بن اسودرضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے بھی جانثاری کے عہدکودہرایا۔ پھر مقدادبن اسودرضی اللہ عنہ اٹھے، انہوں نے عرض کیا :’’یارسول اللہ تشریف لے چلئے، جدھر اللہ نے آپ کو حکم دیاہے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، بخداہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گے جو جواب بنی اسرئیل نے موسی علیہ السلام کو دیاتھا کہ جائیے آپ اور آپ کا خدااور ان سے جنگ کیجیے، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ ہم یہ کہیں گے، تشریف لے چلئے، اور جنگ کیجیے، ہم آپ کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے ۔اس ذات کی قسم ! جس نے آ پ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے ۔اگر آپ ہمیں برک الغماد تک بھی لے جائیں، تو ہم آپ کے ساتھ چلیں گے اور آپ کی معیت میں دشمن کے ساتھ جنگ کرتے جائیں گے، یہاں تک کہ آپ وہاں پہنچ جائیں‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کے ان ایمان افروز کلمات کو سن کر انہیں کلمہ خیر سے یاد فرمایااور ان کے لیے دعافرمائی۔ اس کے بعد حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کیا’’بے شک، ہم آپ پر ایمان لائے ہیں، ہم نے کی تصدیق کی ہے۔ ہم نے گواہی دی ہے کہ جو دین لے کر آپ تشریف لائے ہیں،وہ حق ہے اور اس پر ہم نے آپ کے ساتھ وعدے کیے ہیں ۔ ہم نے آپ کا حکم سننے اور اسے بجالانے کے پیمان باندھے ہیں۔یارسول اللہ آپ تشریف لے چلیے،جدھر آپ کا ارادہ ہے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اس ذات کی قسم ، جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے،اگر آپ ہمیں سمندر کے سامنے لے جائیں اور خود اس میں داخل ہوجائیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ سمندر میں چھلانگ لگادیں گے، ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ہم جنگ کے گھمسان میں صبر کرنے والے ہیں، دشمن سے مقابلے کے وقت ہم سچے ہیں، ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالی کو ہم سے وہ کارنامے دکھائے گا، جس سے آپ کی چشمان مبارک ٹھنڈی ہوجائے گی ۔پس آپ روانہ ہوجائیے ‘‘۔
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ان پاکیزہ اورمجاہد انہ جذبات کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کی انتہانہ رہی ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:روانہ ہوجائو۔ تمہیں خوش خبری ہو،اللہ تعالی نے مجھے دوگروہوں میں سے ایک گروہ پر غلبہ دینے کا وعدہ فرمایاہے۔ بخدا میں قوم کفارِ مکہ کے مقتولوں کی قتل گاہوں کو دیکھ رہاہوں ۔مجلسِ مشاورت انجام پذیر ہوئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو دشمن کے مقابلے کے لیے چلنے کی دعوت دی، وہاں سے روانہ ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام بدر کے میدان میں پہنچے۔
غزوہ بدر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دفاعی حکمت عملی یہ تھی کہ مجاہدین اسلام اور جانثاران دین کے ہر حصے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو افسر مقر ر فرماتے،انہیں یہ بتاتے تھے کہ کفارِ مکہ آگے بڑھیں اور اتنی دور پہنچ جائیں تو ان پر سنگ باری کی جائے اور جب اس سے قریب آجائیں تو تیر اندازی شروع کی جائے۔ اگر مشرکین یک لخت حملہ کردیں تو انہیں آگے بڑھنے دینا اور جب یقین ہوجائے کہ تمہارے تیر کار گر ہوں گے تو اس وقت انہیں تیروں کا نشانہ بنانا اور جب وہ اور قریب ہوجائیں تو نیزوں سے کا م لینااور جب وہ تلوار کی زد میں ہوں تو تلوار سے حملہ آور ہونا۔ان ہدایات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ غیر دانش مندی اور گھبراہٹ میں کو ئی اقدام نہ کیاجائے،بلکہ جس وقت جس ہتھیار کے استعمال کرنے کا موقع ہو۔ اس وقت اسی سے کا م لیا جائے۔ جو ش اور جذبات میں آکر جنگ میں پہل نہ کی جائے۔ حملہ اسی وقت کیا جائے،جب حکم دیا جائے۔
میدان بدرپہنچ کرصف بندی ہوئی اورصف بندی کے معائنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ دیا، وہ فصاحت وبلاغت میں بے نظیر ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد فی سبیل اللہ کو مسلمانوںکا سب سے بڑا شرف عمل قراردیااور سب سے بڑی عبادت قرار دی۔ یہ خطبہ مجاہدینِ بدر کے مورال کو بلند کرنے، ان کی جرات و شجاعت، دین پر استقامت اور اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردینے کا سبب بنا۔غزوہ بدر کو اسلام کی پوری جہادی تاریخ میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے،میدان بدر میں جہاں بدر کے میرکارواں،سرورکائنات ،سالار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرقیادت صحابہ کرام نے جرات واستقامت کی عظیم تاریخ رقم کی ،وہیں یہ تاریخ ساز غزوہ کفر واسلام کا فیصلہ کن معرکہ بھی ثابت ہوا۔یو م الفرقان ،یوم بدر درحقیقت اسلام کی عظمت و سربلندی کا مظہر اور بدر کی فتح اسلام کی عالم گیر ترویج واشاعت کا دیباچہ ثابت ہوئی ۔
Comments are closed.