جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ میں

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

(مہدپور،اُجین،ایم پی)

شہرکے معززین کی آرزوو خواہش پرحضرت مولانا محفوظ الرحمن نامی علیہ الرحمہ نے 29مارچ1931ء جامع مسجد بہرائچ کے صحن میں دو طلبہ سے جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ کی شروعات فرمائی،
مدرسہ کے نام میں نورلفظ درحقیقت مولانا محفوط الرحمن نامی کے والد بزرگوار حضرت مولانا نورمحمد صاحب نقشبندی بہرائچی علیہ الرحمہ کے نام کاجزوء ہے،مولانا نور محمد نقشبندی بہرائچی علیہ الرحمہ شیخ الدلائل علامہ محمد عبد الحق مہاجرمکی علیہ الرحمہ کے خلیفہ ومجاز تھے۔ شیخ الدلائل کی ضخیم کتاب "تفسیراکلیل” جوبارہ سال میں تیارہوئی تھی، اس کی طباعت کے لیے”مطبع اکلیل” کے نام سے مولانا نور محمد صاحب نقشبندی علیہ الرحمہ نے بہرائچ میں پہلاپریس قائم فرمایا۔جہاں مذکورہ تفسیر کی طباعت کےساتھ خود مولانا کی بھی تصنیفات”ارشاد الحق”، "تعلیم حقانی”،” انیس المسافرین”، "النورالمبین” ، "شیخ الدلائل کی مختصر سوانح عمری”، میلادپر” رسالہ منبع الحسنات”طبع ہوئیں۔
مولانا محفوظ الرحمن نامی کےوالد بزرگوار کے انتقال پرایصال ثواب وختم خواجگان کے لیے مرحوم کے مریدین ومنتسبین اورشہر کے معززین جامع مسجد میں جمع ہوئے تو آپ کی یاد میں ان لوگوں نے مدرسہ کی شروعات کے لیے مولانا نامی کوآمادہ کیا، اس طرح اُسی دن مدرسے کے شروعات بھی ہوگئی۔ بعد میں راجہ نانپارہ جناب سعادت علی خان علیہ الرحمہ کے "لیا محل” کو جو کہ جامع مسجد سے متصل خالی پڑا تھا ، راجہ موصوف سے حاصل کرکے مدرسے کو اس عمارت میں منتقل کردیاگیا۔
مولانا نامی لیبرل یا راہبی فکروخیال کے بجائے
بہت کھلے ذہن اوراسلامی تصورات کے مطابق سوشلسٹ مسلمان تھے، اس لیے مدرسے کے تعلیمی نظام ونصاب میں دینی ودنیاوی تقسیم یعنی تعلیم میں دوئی وثنویت کے بجائے دونوں طرح کے علوم وفنون کو جگہ دی۔
اس مدرسہ کے علاوہ قاسم پورہ شہر بہرائچ میں
"مولانا آزادنورالعلوم ہائی اسکول”کے نام سے ایک کالج قائم فرمایاجوکہ فی الحال "آزادانٹرکالج” کے نام سے مشہور ہے۔
مولانا راہبانہ طرزِحیات کی نقابت کرنے والے سکہ بند مذہبی پیشوا نہیں تھے، بلکہ اسلام کوسسٹم آف لائف اورنظام حیات کے طور پر دیکھتے تھے، اسی لیے خانقاہ ومدرسہ سے باہر بھی آپ کی قابل قدرخدمات رہی ہیں۔ جس میں آپ آزادیِ وطن کے مجاہد کے طور پرکھڑے ہوئے اورمسلم یونیورسٹی کے کورٹ ممبر رہے۔ یوپی حکومت میں وزارت تعلیم کے پارلیمنٹری سیکرٹری کےعہدے پر رہے۔قرآن فہمی کے لیے آپ کی کتاب "مفتاح القرآن”پانچ حصوں پر مشتمل ہے، اس کتاب کوحکیم الاسلام قاری محمدطیب صاحب نے قرآن فہمی کے لیے پنج گنج قرار دیا ہے۔
ایک مسلمان اورمدرسے کے خوشہ چیں ہونے کی وجہ سے دیگر مدارس کی طرح مدرسہ نورالعلوم بہرائچ سے بھی بندۂ ناچیز کومحبت ہے ہی، اسی کے ساتھ دیگر نسبتیں بھی ہمارے دل کو اس مدرسے کی طرف کھینچتی ہییں۔
میرے چچیرے بھائی ڈاکٹر بشیراحمد مظاہری، میرے ماموں مولاناعبد اللطیف مظاہری، میری چھوٹے بھائی حافظ محمد مظفر نقشبندی، یہاں تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔( نوٹ:معلومات میں غلط فہمی کہ وجہ سے
سوشل میڈیا پر میں نے صبح لکھ دیا تھاکہ:ہہمارے علاقے وبستی کے پیر ومرشد حضرت مولانا سید ظفر احسن صاحب بہرائچی مدظلہ العالی اس مدرسے میں بغرض تحصیل علوم رہ چکے ہیں۔”
یہ بات درست نہیں ہے۔ آپ نے عالمیت کی ابتدائی کتب اپنے دولت خانہ ہی پرپڑھی ہیں. قارئین اصلاح کرلیں۔ )
اس مدرسے کے سابق مہتمم حضرت مولاناحیات اللہ صاحب قاسمی کی زوجہ اورمیری والدہ مرحومہ دونوں کی نانیاں سگی بہنیں تھیں۔ نیزمیری ایک بھتیجی یعنی برادربزرگوارحضرت مولانا محمدمعظم صاحب قاسمی دامت برکاتہم کی بڑی بیٹی عزیزم مفتی محمد یحیی خان کریمی قاسمی سلمہ سے منسوب ہے۔ داماد موصوف کے دادا حضرت مولانا عبدالکریم خان صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ (پورنیہ خورد،بانس گاؤں بہرائچ، 1950ء،میں درالعلوم دیوبند کے فارغ،اور مولاناحسین احمد مدنی علیہ الرحمہ کے عزیز شاگرد ومرید) کئی سالوں تک مدرسہ نورالعلوم بہرائچ کے مؤثررکن شوری رہے۔ آج بھی حضرت مولانا حیات اللہ صاحب قاسمی علیہ الرحمہ سےاس گھرانے کی قرابت داری ہے۔ اس وقت داماد محترم مفتی محمد یحیی خان قاسمی کریمی کی بہن حضرت مولانا حیات اللہ صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ کے بھانجے محترم محمد مشاہد ولدمولانامحمدخالد قاسمی سے منسوب ہیں۔
حضرت مولانا حیات اللہ صاحب قاسمی کے والد
حضرت مولانا کلیم اللہ صاحب نوری علیہ الرحمہ جب نور العلوم بہرائچ کے سفیر ومبلغ کی حیثیت سے کام کرتے تھے، اس وقت میرے دادا اورحضرت والد بزرگوارحضرت نوری صاحب کی میزبانی فرمایا کرتے تھے، اور مولانا کلیم اللہ صاحب نوری میرے والد بزرگوار سے بڑی محبت واکرام کے ساتھ ملتے تھے۔
مدرسہ میں ایک قدیم مدرس حضرت مولانامفتی ذکر اللہ صاحب قاسمی ہمارے قریب کی بستی انٹیاتھوک کے ہیں ، ان سے بھی حضرت والد بزرگوار کی اچھی مرافقت تھی۔
نیزمولانا محفوظ الرحمن نامی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے حضرت مولانا ڈاکٹرتقی الرحمن قاسمی( ایم ڈی۔ یونانی، ومیڈیکل آفیسر ) بندہ سے بڑی محبت کامعاملہ فرماتے تھے، موصوف میڈیکل آفیسر ہوتے ہوئے میری ڈسپنسری پر تشریف لاتے اور مشفقانہ رہنمائی فرماتے۔
ان تفصیلات کے ذکرکرنے کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ سطور میں مدرسہ میں ہماری حاضری کے موقع کی بیان کی گئی صورتِ حال سے کسی کو خلجان نہ ہو؛ کہ شاید لاعلمی یا مدرسے کی تاریخی وخاندانی پس منظر سے ناواقفیت کی بنیاد پر وہ صورت حال میں نے لکھ دی جسے کوئی سننانہیں چاہتا ہے۔ ع

ابھی نہ چھیڑمحبت کے گیت اے مطرب
ابھی حیات کاماحول خوش گوارنہیں

مسجدفیض الحسن سے نکل کرکلہڑمیں چائے نوشی کے بعد مدرسہ نورالعلوم کی زیارت کا پروگرام بنا۔ مفتی محمد زبیر ندوی،جنید احمد نور،مولانا وصی اللہ قاسمی اوربندہ پر مشتمل ہماری چارنفری جماعت دوبائیک کے ذریعہ چند منٹ کےوقفے میں مدرسہ کے گیٹ پر پہونچ گئی۔
پورے شہربہرائچ میں ہر طرف رونق اور لوگوں کی چہل پہل تھی،لیکن کووڈ19کی وجہ سے دیگر تعلیمی اداروں کے طرح یہاں مدرسہ میں کو ئی چہل پہل نظرنہیں آرہی تھی۔ ع
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس

بائیک باہرہی اسٹینڈ کرکے ہم پیدل گیٹ سے اندرونی حصہ میں داخل ہوئے ۔ یہاں اندورنی جانب برآمدے میں گیٹ کی دونوں سمت لکڑی کے دو چھوٹے چھوٹے تخت پڑے ہوئے تھے، اندرداخل ہوتے ہوئے دائیں جانت تخت پردو لوگ جن میں ایک صاحب دیوار سےٹیک لگائے اور دوسرے صاحب مربع چوکڑی بھرکربیٹھے ہوئے تھے۔ دوسرے صاحب سنگ مرمر کے کسی باوقارمجسمے سے کم نہیں معلوم ہوتے تھے۔ ان کی کالر کے اوپر نکلا ہوا ان کا سراورچہرہ ان کے مرمری مجسمہ ہونے کی نفی کررہا تھا۔ موصوف کا کپڑا بالکل سفیدتھا، کہیں بھی کوئی شکن نہیں تھی اور ہاتھ پیر بالکل ساکت ، حتی کہ جب ہم لوگوں نے سلام کیا تو سلام کےجواب کے لیے ہونٹ میں معمولی حرکت معلوم ہوئی، اورجب مصافحہ کے لیے ہم نے ہاتھ بڑھا یا تو ایسا محسوس ہوا کہ موصوف کے ہاتھوں پر سفید پلاسٹرچڑھاہواہے، بہت ہی تھوڑا اٹھایااور جیسے تیسے مصافحہ کا ٹوٹکہ پوراکیا، رفقاء سفر میں سے کسی صاحب نے مجھے بیٹھنے کے لیے کہا، لیکن تخت پر کسی طرف بیٹھنے کی جگہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ آخرمیں سفید پوش باوقار مجسمے والے صاحب کی پیٹھ کی طرف میں بیٹھ گیا، اسی اثنا رفیق قافلہ مولانا وصی اللہ صاحب قاسمی نے دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھے صاحب کو میرارسالہ”غیربرادری میں شادی کو فروغ دیاجائے”دیا، اس میں میرانام پڑھنے کے بعد وہ قاعدے سے بیٹھنے کے لیے مجھے کہنے لگے۔
میں کھڑے ہو کر مدرسہ کے صحن میں آگیا،صحن کی دیوارپرلگے ہوئے کوڈ19کے پوسٹر وغیرہ دیکھنے لگا۔میں نے حضرت مفتی ذکر اللہ صاحب قاسمی اور ڈاکٹر تقی الرحمن صاحب قاسمی (ایم ، ڈی، ومیڈیکل آفیسر) کے بارے میں معلوم کیاتو پتہ چلا کہ اول الذکر بیمار ہیں، اوراپنے گھر پر ہی ہیں، اورڈاکٹر تقی الرحمن صاحب قاسمی کچھ دنوں قبل یہاں آکرواپس چلے گئے۔اس موقع پر مجھے ان دونوں بزرگوں کی بہت یاد آئی۔ع

دل کوکئی کہانیاں یادسی آ کے رہ گئیں

ڈاکٹر صاحب ہی کی دعوت پر15سال قبل ایک جلسے کے موقع پر مدرسہ میں حاضری ہوئی تھی۔اُسی موقع پراچانک مفتی ذکر اللہ صاحب قاسمی پرمیری نظر پڑی تو میں نے لپک کر سلام و مصافحہ کیا اور اپنے والد صاحب(حضرے الحاج الحافظ محمد مسلم صاحب
علیہ الرحمہ،سابق امام وخطیب جمعہ وعیدین ومہتمم مدرسہ فیض العلوم بیض پور ،گونڈہ یوپی) کانام بتلایا ، جس پر مفتی صاحب بہت خوش ہوئے اورجلسے کی انتظامی ذمہ داریوں کے باوجود کافی وقفے تک میرا ہاتھ پکڑکرحال احوال معلوم کرتے رہے۔ افسوس ہے کہ قلتِ وقت کی بنا پر مفتی ذکراللہ صاحب قاسمی کے دولت خانہ پرجاکران کی زیارت وملاقات سے محروم رہا۔
یہاں ہمیں سخت پیاس محسوس ہورہی تھی، لیکن پانی پینے کےلیے مجھے کوئی مناسب موقع نظر نہیں آیا۔ یادرکھیں ہمارے رفقاء میں کم ازکم تین ایسے افراد تھے جنہیں کسی نہ کسی درجے میں لکھاڑاور اشہب قلم کا شہسوار اورجہانِ اردو کامعروف قلمکار کہاجاسکتا ہے۔
ہم لوگ چند منٹوں کے بعد مدرسہ سے واپس ہوئے توگیٹ سے نکل کر ایک صاحب نے عربی میں بد اخلاقی پر متعدد اشعار سنائے، کسی دوسرے رفیق نے کہا کہ ان اشعارکا ترجمہ بھی کردیں، توشعرخواں نے جواب کہ "شعر کا لطف بغیر ترجمہ ہی کے حاصل ہوتا ہے”.
اس پر میں نے کہا کہ ان تمام اشعار معنون ترجہ یہ ہے :
” بد اخلاقی ایسی ظلمت وتاریکی ہے جودنیا کے کسی بھی لباس اورچادر میں چُھپ نہیں سکتی ہے۔”
پھر ایک صاحب بولے کہ:
"اگرانسان کے اندر کوئی خوبی نہ ہو بلکہ وہ صرف اپنے جسم پراچھے اور مہنگے لباس کی وجہ سے غرہ اختیار کرے تو یہ اس کی اپنی تذلیل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔”
شہرمیں دیگر کچھ لوگوں کی زبانی مدرسہ کے دیگر حالات بھی معلوم ہوئے جن پرافسوس بھی ہوا۔ع

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے

اکابرو اسلاف کی قربانیوں کا ثمرہ مدارس اور مراکزدین کونقصان پہونچانے والی باتیں چھوڑکرشہر کے لوگوں کو مدرسے کاتعاون، اوراس میں پائی جانے والی کوتاہیوں کی مخلصانہ اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔ نہ کہ مدارس ومنتظمین کے خلاف محاذ آرائی۔
کووڈ19کی وجہ سے مدرسہ کی صورت حال ایسے سنسان مزار کی سی معلوم ہورہی تھی جس کے بارے میں مغلیہ گھرانے کی ایک خاتون (ملکہ نورجہاں یا زیب النساء) نے کہا تھا۔ ع

برمزارِماغریباں، نے چراغِ نے گلے
نے پرِ پروانہ سوزد نے صداے بلبلے
مدرسہ میں چھایا ہوا سناٹا یقینا کووڈ19کی وجہ سے ہے۔لیکن تھوڑی دیر کےلیے میں یہ فیصلہ نہیں کرسکا کہ مدرسہ میں جو یہ سکوت طاری ہے وہ کووڈ19 کی وجہ سے ہے، یا جانشینوں کی کوتاہی اور اخلاقی فروتنی کی بنا پر۔۔۔۔؟
کووڈ19کے نام پر ہمارے مدارس وتعلیم گاہوں کو فی الحال جس اندھیرے میں دھکیل دیا گیا ہے ، اس کی عکاسی درج ذیل شعر میں ہوتی ہے۔ ع

ٹوٹاہوااک ساحلِ راوی پہ مکاں ہے
دن کو بھی جہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے

اللہ کرے جلد از جلد صورت حال تبدیل ہو اور ہمارے مدارس میں دوبارہ قال اللہ وقال الرسول (ﷺ) کی صدائیں بلند ہوں۔ آمین ثم آمین

کتبہ: محمد اشرف قاسمی
2021/04/30ء
خادم الافتاء:شہر مہدپور، اُجین، ایم پی۔

[email protected]

Comments are closed.