سانسوں کے نام پہ چتاؤں کا بازار!

 

احساس نایاب (ایڈیٹر گوشہء خواتین بصیرت آن لائن، شیموگہ، کرناٹک )

 

کہیں مردوں کو جلایا جارہا ہے

کہیں زندوں کو جھلسایا جارہا ہے

یوں چند سانسوں کے بدلے

چتاؤں کا بازار سجایا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔

 

گجرات بھروچ کے پٹیل ویلفیر کووڈ اسپتال میں صبح آگ لگنے کی وجہ سے 29 لوگوں کی دردناک موت ہوگئی ۔۔۔۔

ملک کے مختلف علاقوں سے اسی طرح کے دل دہلانے دینے والے واقعات سننے میں آرہے ہیں جن کی تصاویر اور ویڈیوس سے سوشیل میڈیا سے لے کر اخبارات و ویبسائٹس بھرے پڑے ہیں جنہیں دیکھنے پڑھنے کے بعد یقینا آپ کے ہوش اڑ جائیں گے آپ کے پیروں تلے زمین کھسک جائے گی ۔۔۔۔

ایسی ہی ایک ویڈیو کنڑ زبان کے چینل پہ نشر کی گئی ہے جس میں  خود اسپتال اسٹاف کی جانب سے بیڈ پہ پڑے مریض کو بےرحمی سے مارا جارہا ہے ۔۔۔۔۔ ہمارے درمیان کئی اسپتالوں میں لالچ اور لاپرواہیوں کے چلتے انسانوں کی جانیں لی جارہی ہیں یوں بیشتر اسپتال شفانہ خانہ سے موت کا کنواں بن چکے ہیں۔۔۔۔

کئی مریضوں کے اہل خانہ دوست احباب اسپتالوں کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے آن کیمرہ چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ اس اسپتال میں علاج کے لئے کوئی نہ آئے، علاج کے لئے آنے والوں کو جان سے مارا جارہا ہے، کورونا کے نام پہ پیسوں کے لالچ میں لوگوں کی جان لی جارہی ہے ۔۔۔۔۔ تو کئی ویڈیوز میں خود ڈاکٹرس اور نرسس ایک دوسرے کی پول کھولتے نظر آرہے ہیں ایک دوسرے کو بےنقاب کرتے ہوئے بات ہاتھا پائی تک پہنچ چکی ہے ۔۔۔۔۔

اس کے علاوہ بھی ایسی کئی ویڈیوز موجود ہیں جنہوں نے سرکار، انتظامیہ اور اسپتالوں میں ہورہی دھاندلی کی پول کھول کے رکھ دی ہیں اور ان دہشت ناک مناظر کو دیکھنے کے باوجود ایک انسان جینے کی امید لئے علاج کے نام پہ اپنا سب کچھ گنواکر دردناک موت خرید رہا ہے اور کوئی یہ سمجھ نہیں پارہا کہ زندگی کی چاہت میں وہ خود بھاگا بھاگا موت کے منہ میں جارہا ہے ۔۔۔۔۔

خیر گزشتہ 15 دنوں کے درمیان مہاراشٹر کی تقریبا 3 اسپتال حادثات کا شکار ہوئے ہیں جس کا تذکرہ ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں بھی کیا تھا  کہ کس طرح آکسیجن، ٹینکر سے لیک ہونے کی وجہ سے اسپتال میں آکسیجن سپلائی 30 منٹ کے لئے معطل ہوگئی اور  22 مریضوں کی دردناک موت ۔۔۔۔ مہاراشٹر ہی کے ممبئی سے ملحق ویرار کے وجئے ولبھ اسپتال مین اچانک  آگ لگنے سے آئی سی یو میں ایڈمٹ 14 کووڈ مریضوں کی دردناک موت ۔۔۔ دو دن قبل مہاراشٹر کے تھانہ ضلع کے ممبرا پرائم کریٹی کیر نامی اسپتال میں آگ لگنے سے 4 مریضوں کی موت اور اب

گجرات بھروچ سے اسی طرح کا دردناک واقعہ سامنے آیا ہے  آج صبح 12 بجے گجرات کے بھروچ پٹیل ویلفیر کووڈ اسپتال میں اچانک شارٹ سرکٹ ہونے کی وجہ سے آئی سی یو میں رکھے 29 مریضوں کی بےرحم موت ہوگئی ۔۔۔۔

معتبر ذرائع سے ملی خبروں کے مطابق واقعہ اتنا سنگین اور دردناک تھا کہ لوگ مدد کے لئے چیخ و پکار کررہے تھے سوشیل میڈیا پہ آڈیو پیغامات بھیج رہے تھے ۔۔۔۔

یوں تو یہ حادثہ 12:30 بجے پیش آیا اور 12:55 کو فائر بریگیڈ کو اطلاع دی گئی، حیرت تو اس بات پہ ہے کہ فائر بریگیڈ کو اطلاع دینے تک 25 منٹ گزار دئے گئے اور اس دوران آگ نے شدت اختیار کرلی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اسپتال انتظامیہ اتنی دیر تک آخر کس انتظار میں تھا ؟

دیویہ بھاسکر نامی ویبسائٹ کے مطابق اس سے قبل پچھلے ایک سال کے دوران احمد آباد ، وڈوڈرا ، جام نگر اور راجکوٹ میں آئی سی یو میں زیر علاج کورونا مریض بھی آگ کی لپٹوں میں آگئے تھے اور گذشتہ ایک سال کے دوران بھروچ میں آگ لگنے سے پانچ واقعات پیش آئے ہیں۔۔۔۔۔

یوں لگاتار ایک کے بعد دیگر اسپتالوں  میں آگ لگ جانا، حادثات پیش آنا کوئی اتفاق تو نہیں ہوسکتا نہ ہی انسانی عقل اسے حادثہ ماننے کے لئے تیار ہے ۔۔۔۔۔

وہ بھی ایسے وقت میں جہاں ملک آکسیجن کی قلت سے جوجھ رہا ہے، ایسے میں کہیں آکسیجن کا ضائع ہوجانا، سرکار کی جانب سے بیرونی ممالک کو آکسیجن ایکسپورٹ کردینا، کالا بازاری میں اضافہ ہونا، حادثوں کے نام پہ  ونٹی لیٹرس پہ پڑے پڑے ایک ساتھ کئی مریضوں کی اموات پھر مرنے والے کے رپورٹس اُس کے اہل خانہ سے چھپائے رکھنا اور کوڈ کے نام پر زیادہ تر اموات اسپتال پہنچنے کے بعد ہونا ان تمام معاملات کا اشارہ آخر کس طرف ہے ۔۔۔۔۔ ؟

بہرحال سچائی جو بھی ہو ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے عوام کو چاہئیے کہ وہ اسپتالوں میں ہورہی لاپرواہیوں کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کریں اور سرکار کو چاہئیے کہ وہ ان لالچی ضمیر فروش ڈاکٹرس اور اسپتالوں کا لائسنس رد کریں؛ تاکہ مستقبل میں کوئی اس طرح کی گھناؤنی حرکت کرتے ہوئے انسانی  جانوں کے ساتھ کھلواڑ نہ کرے ۔۔۔۔۔

ویسے بھی جب بی جے پی سرکار ٹوئیٹر کے ذریعہ اپنے بیمار نانا کے لئے آکسیجن مانگنے والے نوجوان کو گرفتار کرسکتی ہے ، آکسیجن نہ ہونے کی شکایت کرنے والی اسپتالوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے اُن کا لائسنس  منسوخ کرسکتی ہے تو وہ اس طرح کے سنگین الزامات لگائے جانے کے باوجود کیوں کر خاموش ہے ؟ آخر ان حادثات کی جانچ کیوں نہیں کی جاتی ؟

آج علاج کے نام پہ عوام ڈرے سہمے ہیں ، سوشیل میڈیا پہ انسانی عضو کی کالا بازاری کی خبریں گردش کررہی ہیں، کیا سچ ہے کیا جھوٹ انسان سمجھ نہیں پارہا کئیوں کے دل و دماغ میں یہ بات گھر کرچکی ہے کہ ان تمام اموات کی ذمہ دار خود اسپتال ہیں ۔۔۔۔

ایسے میں عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے اسپتالوں و کوڈ سینٹرس میں لائیو کیمرا لگائے جائیں؛ تاکہ لوگ اپنے عزیزوں کو دیکھ سکیں اور یہ جان سکیں کہ اُن کے ساتھ وہاں کیسا سلوک کیا جارہا ہے اور اُن کا علاج کس طرح سے ہورہا ہے ۔۔۔۔۔؛

ورنہ عوام کے نظر میں ڈاکٹرس کی شبیہ بھگوان سے شیطان ہوتے دیر نہیں لگے گی ۔۔۔۔۔۔!

Comments are closed.