خون سے سَنے ہاتھ!

اتواریہ: شکیل رشید
یہ ہاتھ خون سے سَنے ہوئے ہیں!
اور ان ہاتھوں پر جو خون لگا ہوا ہے، بوڑھوں کا، نوجوانوں کا، ادھیڑ عمر کی عورتوں اور مردوں اور بچوں کا، اس کا رنگ کبھی بھی دھونے سے مٹ نہیں سکے گا، یہ جب بھی ہاتھ اُٹھائیں گے اور ان کی نظر اپنے ہاتھوں پر پڑے گی، خون کا رنگ چمکتا ہوا نظر آئے گا اور بولے گا کہ ہمیں گرانے والے تم ہی ہو، تم کہ جو گھوم گھوم کر کبھی مغربی بنگال میں، کبھی کیرالہ اور کبھی آسام ومدراس میں بھیڑ جمع کرتے رہے ہو، بھیڑ کو دیکھ کر خوش ہوتے رہے ہو اور اپنے سینے پھلا کر اسے ۵۶ انچ کا ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہو، تم ہی تو ہو جو ہمارے گرنے کا، ہمارے بہنے کا سبب بنے ہو۔ لہو تو بولے گا لیکن یقینی ہے کہ بے حسوں کے کانوں پر کوئی جوں نہیں رینگے گی۔ یہ بے حس، بے بس انسانو ںکو مرتے دیکھتے آئے ہیں، اور آئندہ بھی لوگوں کو مرتے دیکھ سکتے ہیں۔ بس ان کی کرسی سلامت رہے۔۔۔لاشیں بے حس حکمرانوں کےلیے کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ہیں۔ آج ایک ویڈیو دیکھی یوگی کے ایک گائوں کی، اس یوپی کے ایک گائوں کی جس کے حکمراں ایک ’یوگی‘ ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ ! جو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں محسوس کرتے کہ یوپی میں نہ تو اسپتالو ںمیں بیڈ کی کمی ہے، نہ ہی آکسیجن سلینڈوں کی کوئی قلت ہے اور نہ ہی دوائیں کم ہیں۔، اسی یوپی کے ایک گائوں کا ویڈیو، ایک جی سی بی سے کپڑے میں لپٹی ہوئی ایک کورونا زدہ لاش اٹھائی جارہی ہے اور ایک قبر میں بڑی ہی بے حرمتی سے پھینکی جارہی ہے۔ گائوں والے بے بسی سے یہ سارا منظر دیکھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بے بس افراد کر بھی کیا کرسکتے ہیں! جس کی لاش ہے اس کے گھر والوں کے بین کی تیز تیز آوازیں جے سی بی کے انجن کی آواز سےگھل مل رہی ہے۔ ایک تصویر تو ساری دنیا میں وائرل ہوررہی ہے، ایک ضعیف العمر کی اپنی کورونا سے مرنے والی بیوی کی لاش کو سائیکل سے لے کر جانے والی تصویر، لاش کے گرنے اور اس بوڑھے کے سرپکڑ کر سڑک کنارے بیٹھنے کی تصویر۔ کوئی اس بوڑھے کی مدد کےلیے تیار نہیںتھا۔حکومت تو خیر کیا مدد کرتی عام آدمی بھی اس کے ساتھ کھڑا ہونے کو راضی نہیں تھا۔ تصویریں بے شمار ہیں، باپ کی ارتھی کاندھے پر لے جاتے ہوئے روتی بلکتی بچیوں کی تصویر، بچوں کو سینے سے لگائے ایک ابھی ابھی بیوہ ہوئی روتی بلکتی عورت کی تصویر اور ملک بھر کے شمشان گھاٹوں میں لاشوں کو جلانے کی تصویر بلکہ تصویریں اورقبرستانوں میں جگہ کی تنگی سے رکھی ہوئی لاشوں کی تصویر۔ یہ تصویریں انہیں جو دل رکھتے ہیں، جن کے ضمیر زندہ ہیں اور جو بے حس نہیں ہیں، تڑپاتی ہیں، رلاتی ہیں، دکھ اور الم سے ان کے سینے بھردیتی ہیں، مگر بے حس حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ جھوٹ کا ایک بازار گرم ہے۔ مرنے والوں کے اعدادو شمار چھپائے جارہے ہیں او رکیمرے پر آکر کہاجاتا ہے کہ سب ٹھیک ہے، اسپتالوں میں بیڈ، دوائیاں اور آکسیجن سب موجود ہے۔ جناب آپ کے پاس اسپتال ہی کتنے ہیں، گنتی کے اسپتال ہیں، وہ بھی جدید کاری سے محروم۔ ساری دنیا میں تھو تھو ہورہی ہے اور آپ سب ہیں کہ اپنے خون سے سَنے ہاتھوں کو لے کر جھوٹ بولتے ہوئے شرم تک محسوس نہیں کرتے۔ ایک دو لوگ نہیں بھارت میں دولاکھ سے زائد افراد مرچکے ہیں، زیادہ تر کی موت اسپتالوں میں بیڈ ، دوائیں، اور آکسیجن نہ ہونے کے سبب ہوئی ہیں۔ ان سب کی موت کے ذمے دار یہ ہاتھ ہی ہیں، یہ خون سے سَنے ہوئے ہاتھ۔ او ران ہاتھوں پر لگا ہوا خون کا رنگ کبھی نہیں مٹنے والا۔
Comments are closed.