مفتی محمدزبیرصاحب ندوی کے دولت خانہ پر

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

(دارالافتاء:شہر مہدپور،اجین، ایم پی)

رات میں ہماراقیام محترم مفتی محمد زبیرصاحب ندوی کے گھرپرایک خوبصورت حجرے میں رہا،جہاں الماریوں میں کتبِ فقہ وفتاوی کے ساتھ ہی مختلف وجدیدموضوعات پرکافی مقدارمیں دلچسپ کتابیں بھی تھیں، طبیعت ان کتابوں کو پڑھنے کے لیے للچاتی رہی۔فتح اللہ گولن کی ایک کتاب پرمیری نظر پڑی تو میں نےتعجب سے پوچھا کہ یہ کتاب آپ کےپاس۔۔؟
اس پرمیزبان موصوف نے ہنس کر کہا کہ'”یہ متازعہ شخصیت ہیں۔”
میں سمجھ گیا کہ موصوف کوبڑےملت فروشوں کی شناخت ہے۔ اس لیے میں نے اس موضوع پرمزید گفتگو کرنے کے بجائےکہا کہ "ترکی کی اسلامی، سیاسی و عسکری حالات سمجھنے کےلیے مفتی ابولبابہ شاہ منصورکی کتابوں کامطالعہ کافی مفید ہے۔”
اسی حجرے کے ایک کوشہ میں خوبصورت میزپر
اے فورسائز کے پیلے ڈاک لفافوں میں تہ بہ تہ کافی اونچائی تک "ون ائیرآن لائن افتاء کورس” کے مشارکین ومشارکات کے ذریعہ لکھ کرارسال کئے گئے مقالات رکھے ہوئے تھے۔
میں اس علمی ماحول سےخوب محظوظ ہوا۔ کھانے وغیرہ سے فراغت کے بعد موصوف کے زیراہتمام المعھد العلمی النعمانی بہرائچ کے تحت "ون ائیر آن لائن افتاء کورس” کے مشارکین ومشارکات کے ذریعے مختلف موضوعات پر لکھے گئے مقالات کو مطالعہ کے لیے میزبان نے مجھے دئے۔ میں نے استفادہ کی غرض سے بڑے شوق ورغبت سے ان کاسرسری وتنقیدی مطالعہ کیا۔ یہ مقالات مجموعی لحاظ کافی بہتراورقابل اطمنان تھے۔ جن پر میں اپنا تاثرسوشل میڈیا اور اپنے لیٹرپیڈ پر لکھ چکا ہوں کہ:
*”یہ مقالات تحقیقی وفقہی لحاظ سے کافی معیاری ہیں اوران میں اکثر مقالات نہ صرف ایم فِل،پی ایچ.ڈی۔ اور ڈِی۔لٹ کے تحقیقی مقالات کے مماثل ومتوازی ہیں ، بلکہ بعض مقالات جامعاتی تحقیقات پرفائق اوراپنی موجودہ شکل وصورت میں لائقِ اشاعت ہیں۔”*
جزوی طور پرکہیں کہیں کچھ مقالات میں کمزوریاں بھی تھی۔ میں نے بعض کمزوریوں کا ذکرکیا تو میزبان موصوف نے کہا کہ:” ان کمزوریوں پرنمبرات (مارکس) کٹیں گے، آپ کوجو کمزوری محسوس ہو اُسے ایک کا غذپرلکھدیں۔”
ان کمزوریوں میں
1.پہلی بات یہ دیکھنے کو ملی کہ بعض مقالانگاروں نے اپنے موقف کے استدلال پر اصل مصدری کتب کی عربی عبارات نقل کرنے کے بجائے صرف اُردو ترجمہ ہی پر اکتفاء کیا ہے۔
2. جدید اصول تحقیق میں ماخذ وحوالہ کے طور جن کتابوں کا تذکرہ کیاجاتاہے اُن کتابوں کے نام،مصنف کے نام،مطبع اورسن طباعت لکھنے کااہتمام کیاجاتا ہے۔ بعض مقالات میں یہ چیز نہیں دیکھنے کو ملیں۔
3.تحقیقی مقالات ورق کی ایک طرف لکھے جاتے ہیں، دوسری جانب بالکل خالی چھوڑدیا جاتا ہے۔
بعض مقالات ایسے تھے کہ ورق کی دونوں جانت تحریریں لکھی ہوئی تھیں۔ البتہ بعض مقالہ نگار ہرصفحے کودوکالم میں تقسیم کرکے ایک کالم میں اپنی تحریر لکھتے چلے گئے اور دوسرے کالم کو ممتحتن یا مصلح ومدرس کو نوٹ لکھنے کے لیے خالی چھوڑدیا۔ یہ خانقاہی طریقہ ہے کہ اپنے پیر ومرشد کوخط لکھتے وقت خط کے ایک کنارے کو خالی چھوڑدیاجائے۔ تاکہ کسی مقام پرہماری تحریر کے سامنے ہی مرشد اپنا اصلاحی ریمارک لکھ دیں۔
4.بعض مقالہ نگاروں نے اپنی کسل مندی کاثبوت پیش کرتے ہو ئے متعلقہ موضوعات پر علامہ گوگل سے مواد کاپی کرکے اپنی فائل میں پیسٹ کردیا، اور نقل کے لیے عقل کو استعمال کرنے کی قطعا ضرورت نہیں سمجھی۔ میں نے بعض مقالہ نگاروں کی اس کمزوری کی طرف بھی مفتی محمدزبیر صاحب کی توجہ مبذول کرائی۔
میراخیال تھا کہ میزبان موصوف نے مشارکین کو مختلف موضوعات پر مقالات لکھنے کے لیے مطلقا کہہ دیا ہوگا اورتحقیقی مقالہ نگاری کے اصول وضوابط کی رہنمائی نہیں کی ہوگی، اس لیے بعض مقالات میں اس قسم کی کمزوریاں پائی جارہی ہیں۔
بریں بنا میں نے مناسب سمجھا کہ جدید طریقۂ تحقیق کے مطابق مقالات لکھنے کے لیے موصوف کو کچھ کتابوں کی رہنمائی کروں۔ چنانچہ میں نے گیان چندجین کی کتاب "تحقیق کافن”،قاضی عبد الودود کی "اُردو میں اصول تحقیق کے بارے میں”، ظفر الاسلام خان کی "اصول تحقیق”، عبد الوحید قریشی کی” جدید اصول تحقیق "،حنیف نقوی کی” تحقیق وتدوین، مسائل ومباحث” ، ابن کنول کی” تحقیق وتدوین "، تحقیق کے موضوع پرڈاکٹر سلطانہ بخش کے منتخب کردہ مختلف مقالات کا مجموعہ” اُردو میں اصول تحقیق ” وغیرہ کتابوں سے مراجعت کا مشورہ دیا، تو میزبان نے بڑی خوش دلی کے ساتھ قبول کرتے ہوئے جواب دیا کہ یہ کتابیں مجھے دستیاب کرائیں۔
(میرے پاس ان کتابوں میں اکثر کی ہارڈ کاپیز ہیں جو نیٹ سے پرنٹ نکالی گئی ہیں۔)
بعد میں موصوف نے تحقیقی مقالہ نویسی کے موضوع پراپنا مقالہ دکھایا، جس میں بہت ہی بہتر طریقے سے جدید اصول کے مطابق تحقیقی مقالات لکھنے کی رہنمائی کی گئی تھی، اور یہ بھی بتایا کہ مقالہ لکھنے کی ہدایت دینے سے قبل تمام مشارکین کے سامنے اس کا محاضرہ پیش کیاجاچکا ہے، جن مقالہ نگاروں نے محاضرہ میں بیان کردہ اصول وضوابط کی پابندی میں کوتا ہی کی ہے ان کے نمبرات (مارکس) بھی کٹیں گے۔
میرے خیال میں جدید اصول تحقیق پرمقالہ نویسی کے لیے مفتی محمد زبیرصاحب ندوی کا یہ مقالہ اوپربیان ہونے والی کتابوں پربھی فائق ہے۔ گیان چند جین کی کتاب”تحقیق کافن” جوکہ باریک خط میں611صفحات پر مشتمل ہے، ابھی تک میں اسی کو معیاری سمجھتا تھا۔ لیکن مفتی محمد زبیر ندوی کا یہ مقالہ دیکھ کرجین صاحب کی کتاب مجھے پھیکی معلوم ہونے لگی۔
موصوف نے جب "ون ائیر آن لان افتاء کورس” کے اشتہارات جاری کئے تھے،تو اس وقت میں نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ: "افتاء”کے بجائےانگریزی میں کسی نئے وپُرکشش نام سے اس کورس کو موسوم کرکے اسکولس، کالجزاور یونیورسٹیز کے افراد کو جوڑیں اور پھر انھیں علمی طور پر علماء کی معاونت پر آمادہ کریں۔کیوں کہ میں دیکھتا ہوں کہ مدرسوں میں رہ کرجو طلباء ایک سالہ افتاء کورس کرتے ہیں، ہمارے یہاں ان میں بعض طلبہ صحیح اُردو لکھنے سے قاصر اور مبتدا وخبر کی ترکیب سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔جیسے تیسے افتاء کی سند حاصل کرکے وہ پھول بوٹوں والابانا پہن کرکام کرنے والوں کے لیے مشکلات میں اضافہ کا باعث بنتےہیں۔ اس کے برخلاف اہل حق طبقہ کے لیے بطور دست وبازو اسکولوں سے بہت طاقتور عصابہ مل سکتاہے۔
لیکن یہاں”ون ائیرآن لائن افتاء کورس” کے مشارکین کی طرف سے موصول ہونے والے مقالات اور”ون ایئر آن لان افتاء کورس” کاتعلیمی نظام دیکھنے کے بعد اطمنان ہوگیا کہ یہ کورس بھی مفید وکارآمد ہے۔
موصوف نے مجھے اپنے کچھ مزید مقالات دکھائے جووقیع تو تھے ہی، ان کی سیٹنگ وغیرہ بہت اچھی اورکافی خوبصورت تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے پاس لیب ٹاپ یا کمپوٹر وغیرہ نہیں ہے توآپ کے مقالات کی اتنی اچھی سیٹنگ کیسے ہوپاتی ہے۔اس پرموصوف نے جواب دیا کہ: "میرے دارالافتاء کی مشارکات اورطالبات اپنے گھروں سے اتنی خوبصورت سیٹنگ کردیتی ہیں۔”
ان طالبات اوردختران اسلام کی لیاقت وصلاحیت اوردینی جذبات پر مجھے امیرکابل کا وہ تاریخی جملہ یاد آگیا جوانہوں نےبھوپال کی نیک طینت خاتون فرمانرواں سلطان جہاں بیگم کے لیے کہا تھا۔ نواب سلطان جہاں بیگم کی پیدائش پران کی نانی سکندر جہاں ( سابق خاتون فرمانروائے بھوپال)نے ان کے بارے میں کہا تھا "یہ مجھےسات بیٹوں سے زیادہ عزیزہے”
انھوں فنون حرب اورگھوڑ سواری کے ساتھ ہی عربی، انگریزی اورپشتوزبانوں کو اچھی طرح سیکھاتھا۔
جب وہ گلستانِ شباب کوپہونچ کر اپنی والدہ کی ولیِ عہد کےمسند پر متمکن ہوئیں، تو اپنی والدہ نواب شاہجہاں بیگم کی معیت میں مغل، ترک،افغان اور لندن وحجاز حکمرانوں کی انتہا ئی اعلی واہم مجالس، میں باحجاب شرکت فرماتیں۔ ان کاشرعی حجاب بڑی بڑی میٹنگوں میں شرکت سے مانع نہیں بنتا تھا۔ بھوپالی کے تخت وتاج کوسنبھالنے کے بعد روسائےہند کی طرف سے منعقد ہونے والے دہلی وآگرہ درباروں میں بھی شرکت کرتیں۔ مشہورِعالم دہلی دربارمیں امیرکابل سے پشتو زبان میں تبادلہ خیال کیا تو امیرصاحب نے فرمایا۔ع
نہ انجیر شد نام ہرمیوۂ
نہ مثل زبیدہ است ہربیوۂ
(تاریخ ریاست بھول، 111.سیدعابد علی وجدی الحسنی علیہ الرحمہ)
ماضی میں ممالک اسلامیہ کوتاخت وتاراج کرنے والی قومِ تاتارکے گلوں میں ہماری بہنوں اوربیٹیوں نے اسلام کاقلادہ ڈال کر انھیں اسلام کاداعی اورمحمد رسول اللہﷺ کا وفادار سپاہی بنایاتھا، موجودہ دور میں جب کہ ممالک اسلامیہ کے حکمراں اسلام دشمنوں کی غلامی کوعبادت سمجھتے ہیں، مسلم ممالک کے درمیان اسلام دشمن تحریکات کھلے عام اسلام اورمسلمانوں پر یلغار کررہی ہیں، مسلم حکومتیں اپنی عیاشیوں کے دوام واستمرار کی خاطر اسلام دشمن تحریکات کی معاونت کررہی ہیں، ایسے مایوس کن حالات میں ہماری بہنیں اور بیٹیاں ہی اپنے جگر گوشوں کو ناموس رسالت مآب ﷺ کی حفاظت اوراسلام کی سربلندی وعظمت کے لیے
آگ کے دریا سے گذرنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔
"ون ائیر آن لائن افتاء کورس” کی مشارکات/بیٹیوں سے بھی یقین کے درجے میں امید ہے کہ وہ بھی دین حق کی تبلیغ واشاعت میں اہم کردار ادا کریں گی۔ ان شاء اللہ

اے دختراسلام بنوتم زینت وکلثوم
ورنہ اس نئی نسل کوجواں کون کرے گا۔

کتبہ محمد اشرف قاسمی،
خادم الافتاء شہر مہدپور، ضلع:اُجین (ایم پی)
18رمضان المبارک 1442ء مطابق یکم مئی 2021ء

[email protected]

Comments are closed.