اپنا سیاسی وزن بنائیے احمد نور عینی

احمد نور عینی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
پانچ ریاستوں میں ہوئے الیکشن کے نتیجے آگئے، بحیثیت مجموعی بی جے پی کے لیے یہ نتائج افسوس کن رہے اور امن پسند وانصاف پسند عوام کے لیے خوش کن۔ خاص کر بنگال کا نتیجہ دیگر ریاستوں کی بہ نسبت زیادہ اہم رہا جہاں بی جے پی ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود شکست سے دو چار ہوئی اور کامیابی ممتا دیدی کے حصے میں آئی۔ ممتا دیدی اور ان کی پارٹی کو جیت مبارک ہو، ہماری طرف سے ڈھیر ساری مبارکبادیاں اور نیک تمنائیں۔
فرقہ پرست برہمن وادی پارٹی کی شکست پر خوش ہونا اور خوشی کا اظہار کرنا فطری بات ہے اس لیے ممتا دیدی اور دیگر سیکولر پارٹیوں کی کامیابی پر خوش ہونے والوں پر کسی طرح کا کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، مگر اقبال نے کہا تھا کہ
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر گھڑی اپنے عمل کیا حساب
ہمیں اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہماری سیاسی حکمت عملی صرف اتنی ہی رہ گئی ہے کہ ہم فلاں پارٹی کی ہار پر خوش ہو جائیں اور خوشیاں منالیں؟ دلی میں بھی ہارڈ برہمن وادی پارٹی کی شکست اور سافٹ برہمن وادی پارٹی کی جیت پر ہم نے بہت خوشیاں منائی تھیں، مگر جس پارٹی کے لیے ہم نے خوشیاں منائی تھیں اس نے دلی فسادات اور نظام الدین مرکز کے مسئلوں پر کیسے کیسے زخم دیے۔ ہم نے بہار میں فلاں پارٹی کی شکست اور مخصوص پارٹی کی جیت کے لیے ہر ممکن کوششیں کیں، ووٹ ڈالے اور ڈلوائے، قبولیت کی گھڑیوں میں دعائیں کیں اور کروائیں مگر جس کے لیے ہم نے یہ سب کچھ کیا آج اس کا، اس کے پریوار اور اس کی پارٹی کا رویہ محترم شہاب الدین مرحوم کے ساتھ سب کے سامنے ہے، ہم نے یوپی میں بھی فلاں پارٹی کو ہرانے کے لیے مخصوص پارٹی کے محاذ کو اپنا ووٹ، اپنا اعتماد سب کچھ دیا تھا مگر کیا آج اس پارٹی نے اعظم خان کے ساتھ سوتیلا سلوک روا نہیں رکھا ہے؟ مثالیں بہت ہیں، کہاں تک شمار کریں؟ اس ملک کی سیکولر سمجھی جانے والی سب سے بڑی پارٹی کی داستان تو اتنی دراز ہے کہ اسے نہ چھیڑنا ہی بہتر ہے، یہ مختصر تحریر اس کی متحمل نہیں ہے۔
سکوت آموز طول داستان درد ہے ورنہ
زباں بھی ہے ہمارے منہ میں اور تاب سخن بھی ہے
ایسا اس لیے ہوا کہ ہم نے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو اپنا ووٹ اور اعتماد تو دیا مگر ان کی نظروں میں اپنا وزن نہ بنا پائے، ہم نے سیکولرزم کا جاپ اتنا زیادہ اور اتنا زوردار کیا کہ ان پارٹیوں کو لگنے لگا کہ یہ مسلمان تو ہمیں ہی ووٹ دیں گے، خواہ ہم وفاداری کریں یا بے اعتنائی۔ فرقہ پرست برہمن وادی پارٹی کی شکست کے لیے کوشش کرنا اور اس کی شکست پر خوشی کا اظہار کرنا برا نہیں ہے بل کہ ضروری اور فطری ہے، مگر خدارا یہ تو سوچیے کہ اس دیش میں ہمارا سیاسی وزن کیا ہے؟ ہم اتنے بے وزن کیوں ہیں کہ ہمارے قدر آور نیتاؤں کا بھی مشکل وقت میں وہی پارٹیاں ساتھ چھوڑ دیتی ہیں جن کو جتانے کے لیے ہم ووٹ سے لے کر دعا تک سب کچھ کرتے ہیں، جب قد آور نیتاؤں کا یہ حال ہے تو عام جنتا کی بات ہی چھوڑ دیجیے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ہم اپنا سیاسی وزن پیدا کریں، سیاسی وزن پیدا کرنے کا کام جہاں بہت ضروری ہے وہیں بہت نازک بھی ہے، اگر حکمت عملی سوچ سمجھ کر نہ بنائی گئی تو فرقہ پرست برہمن وادی پارٹی اس کا فائدہ اٹھا کر سیاسی دنگل کو ہندو بنام مسلم بنادے گی، کارگر حکمت عملی کے لیے ہمیں ایک ایسی آئیڈیولوجی اپنانی ہوگی جس سے ہم اپنا سیاسی وزن بھی بناسکیں اور دیش میں بسنے والے اکثر سماجی طبقات کی مخالفت سے بھی اپنے آپ کو بچاسکیں۔ جس آئیڈیولوجی کے سہارے اس دیش میں مسلمانوں کا قافیۂ حیت تنگ کیا گیا اور اس کام کے لیے سماج کے دیگر طبقات کو استعمال کیا گیا اس آئیڈیولوجی کو توڑنا ضروری ہوگا، ہم اس ملک میں فکری جنگ (آئیڈیولوجیکل وار) سے دو چار ہیں، فکری جنگ میں آئیڈیولوجی کا مقابلہ آئیڈیولوجی سے ہوتا ہے، نیز ہم اس ملک میں جس فکری جنگ سے دوچار ہیں وہ جنگ سیاست کے گلیاروں میں بھی برپا ہے اور سماج کے گلی کوچوں میں بھی، یعنی فرقہ پرست برہمن وادیوں نے یہ جنگ سیاسی سطح پر بھی چھیڑ رکھی ہے اور سماجی سطح پر بھی، ان لوگوں نے سماج میں گھس کر کئی دہائیوں تک کام کیا ہے۔ ایک صدی طویل جد وجہد کے بعد ان لوگوں نے جو محاذ تیار کیا ہے اسے ہم صرف سیاسی سطح پر توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے ہماری کوششیں کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں، بل کہ بسا اوقات فرقہ پرست برہمن وادی طبقے کا ہی فائدہ ہوتا نظر آتا ہے۔ دشمن نے اپنی آئیڈیالوجی کو غالب کرنے کے لیے سماجی اور سیاسی دونوں سطحوں پر محنت کی بل کہ سماجی سطح پر محنت کے نتیجہ میں ہی سیاسی فضا اس کے لیے ہموار ہوئی، اس لیے ہمیں سیاسی وزن بنانے کے لیے سماجی سطح پر بھی ذہن سازی کا کم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ سیرت کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ سیاسی استحکام کے لیے سماجی انقلاب ناگزیر ہے۔
ضروری ہے کہ ہم حالات کا رونا رونے کے بجائے حالات کو سازگار بنانے کی کوشش کریں، فلاں پارٹی کی ہار کو اپنا نصب العین بنانے اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا ٹھوس ووٹ بینک بننے کے بجائے اپنا سیاسی وزن بھی بنائیں اور سیاسی وژن بھی، سماج کے دیگر طبقات کو ساتھ بھی لیں اور اپنی علیحدہ شناخت اور اس شناخت کی سماجی افادیت وسیاسی وزن کو برقرار بھی رکھیں۔ یہ کرنے کا کام ہے، اسے نہ کرکے الیکشن کے وقت کم تر نقصان کا فلسفہ قوم کو سمجھانا اور ستر سال سے سمجھاتے رہنا اور پھر الیکشن کے بعد پانچ سال کے لیے حسب معمول فاتح پارٹی کے رحم وکرم پر رہنا کسی زندہ قوم کی پہچان نہیں ہوسکتی۔
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاک زندہ ہے تو، تابع ستارہ نہیں
Comments are closed.