بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی: این آر سی کو پچھلے دروازے سے لاگو کرنے کی کوشش

 

نئی دہلی (پریس ریلیز) سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے قومی نائب صدر محمد شفیع نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات سے عین قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے شروع کی گئی ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی کا عمل سنگین خدشات کو جنم دے رہا ہے۔ اس اچانک اقدام کو آبادی کے ایک بڑے حصے بالخصوص اقلیتوں اور کمزور طبقات کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

بہار میں یہ نظرثانی 23 سال کے بعد کی جا رہی ہے، اور ووٹروں کو اپنی شہریت کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے بہت کم وقت دیا گیا ہے، کیونکہ یہ عمل 30 ستمبر تک مکمل ہونا ہے۔ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق، تمام ووٹروں کو اپنی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کا ثبوت فراہم کرنا ہو گا تاکہ ان کا نام نئی فہرست میں شامل کیا جا سکے۔ 1987 کے بعد پیدا ہونے والوں کو بھی اپنے والدین کے وہی کاغذات جمع کرانا ہوں گے۔ جن لوگوں کے نام 2003 کی نظرثانی میں نہیں تھے انہیں بھی شہریت ثابت کرنے والے دستاویزات دکھانا ہوں گے۔

ٓالیکشن کمیشن نے یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ اس طرح کی خصوصی نظر ثانی جلد ہی مغربی بنگال، کیرالہ، تمل ناڈو اور پڈوچیری میں کی جائے گی، جو آنے والے مہینوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ EC ان ریاستوں پر توجہ مرکوز کر رہا ہے جن پر اپوزیشن پارٹیوں کی حکومت ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان ریاستوں میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب نسبتاً زیادہ ہے۔

بی جے پی حکومت نے پہلے نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این آر سی) کا آغاز کیا تھا، جو مسلمانوں اور لاکھوں لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے انہیں ”D” کیٹیگری میں ڈالا گیا، جس کا مطلب ہے کہ ان کی شہریت مشکوک تھی۔ یہ تجربہ جرمنی کی نازی حکومت کی یاد دلاتا ہے، جب 1930 کی دہائی میں آبادی کے بڑے حصے کو شہریت سے محروم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔

بہت سے اپوزیشن سیاسی پارٹیوں نے اتنے مختصر نوٹس پر الیکشن کمیشن کے مجوزہ اقدام پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ عمل سماج کے ان طبقات کو حق رائے دہی سے محروم کر سکتا ہے جو حکمران ہندوتوا طاقتوں کے خلاف ہیں – جیسے اقلیتیں، دلت، قبائلی، دیگر پسماندہ طبقات اور نوجوان جو بے روزگاری اور معاشی بدحالی سے ناراض ہیں۔ بی جے پی اور اس کے اتحادی بہار میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بنگال جیسی ریاستوں سے اپوزیشن کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ ناراض طبقوں کو ووٹر لسٹوں سے جان بوجھ کر ہٹانے جیسا کوئی بھی حربہ اختیار کرنے کو تیار ہیں۔ بدقسمتی سے الیکشن کمیشن اس سازش میں حکمران پارٹی کا ساتھ دے رہا ہے۔

یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ اس سے نہ صرف انتخابی عمل کی شفافیت بلکہ خود الیکشن کمیشن کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگتا ہے۔ مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں انتخابی عمل میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات لگے ہیں، جہاں ایسا لگتا ہے کہ حکمران پارٹی نے الیکشن کمیشن کو اپنے سیاسی مفادات کے مطابق کام کرنے پر مجبور کیا ہے۔ یہاں تک کہ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر نے بھی عوامی سطح پر اس طرح کے الزامات لگائے، لیکن ابھی تک الیکشن کمیشن کی طرف سے عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے کوئی ٹھوس یا قابل اعتبار کارروائی نہیں کی گئی۔

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بہار میں شروع کی گئی ووٹر لسٹ پر خصوصی نظر ثانی کے عمل کو فوری طور پر معطل کرے۔ اس طرح کی جلد بازی لاکھوں لوگوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کردے گی جو ہندوستانی جمہوریت کے انتخابی عمل کے لیے ایک سنگین اور ناقابل تلافی دھچکا ہوگا۔

Comments are closed.