بنگلہ دیش: ایک بار پھر بڑے سیاسی الٹ پھیر کا امکان، آئین کو عارضی طور پر معطل کرنے کی تیاری!

بصیرت نیوز ڈیسک
بنگلہ دیش میں تختہ پلٹ اور شیخ حسینہ کے ملک چھوڑ کر جانے کے بعد سے ہی ملک میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں ایک بار پھر بڑے سیاسی الٹ پھیر کا امکان ہے۔ رواں ماہ کے شروع میں جولائی ڈکلیریشن کی جا سکتی ہے، اس اعلان کے ذریعہ ملک میں نئے سیاسی نظام کے آغاز کی تیاری بھی کی جا رہی ہے۔ ایسے میں موجودہ آئین کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے۔ یہ قرارداد گزشتہ سال کے طلبا کی تحریک اور عوامی بغاوت کے بعد سامنے آیا ہے، جس نے اس وقت کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کو استعفیٰ دے کر ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔
ہندی نیوز پورٹل ’ٹی وی 9 بھارت ورش‘ پر شائع خبر میں میں بنگلہ دیشی میڈیا رپورٹس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 1972 کا آئین اب بنگلہ دیش میں اصلاحات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ گزشتہ سال 5 اگست کو جو ملک گیر سطح پر عوامی تحریک چلی تھی، اس سے امید جگی تھی کہ نظام میں تبدیلی آئے گی لیکن زمینی سطح پر اس کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اب یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جب تک ایک مستقل اور غیرجانبدار حکومت نہیں بنتی تب تک کے لیے آئین کو کچھ وقت کے لیے روکا جائے اور ایک عبوری حکومت تشکیل دی جائے، جو ضروری اصلاحات کی سمت میں کام کر سکے۔
ڈرافٹ پلان کے مطابق اگر آئین کو معطل کیا گیا تو نوبل انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس کو عبوری صدر بنایا جا سکتا ہے اور بی این پی کے کارگزار صدر طارق رحمان کو چیف ایڈوائزر بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے صدر ڈاکٹر شفیق الرحمن کو ڈپٹی چیف ایڈوائزر بنایا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب صدر کے عہدہ کے لیے بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء کے نام پر بھی غور و خوض کیا جا رہا ہے۔ واضح ہو کہ ابھی بنگلہ دیش کے صدر شہاب الدین ہیں، لیکن انہیں صرف آئینی توازن برقرار رکھنے کے لیے عہدہ پر برقرار رکھا گیا ہے۔
جولائی ڈکلیریشن میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جب تک نئی حکومت حلف نہیں لے لیتی آئندہ انتخابات کو تھوڑے وقت کے لیے مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ نئی حکومت کا پہلا کام ہوگا نئے آئین کی تشکیل، قدیم بیوروکریسی میں اصلاحات کرنا اور ٹیکس نظام سے حکومت میں شفافیت لانا۔ کیونکہ اب بھی کئی سرکاری محکموں پر پرانی فسطائی سوچ حاوی ہے جسے ہٹانا ضروری ہے۔
Comments are closed.