Baseerat Online News Portal

شہسوارِ قرطاس و قلم، مالکِ لوح و قلم سے جا ملا !

از : محمد عمر نظام آبادی
مدیر التذکیر فاؤنڈیشن نظام آباد
9948693882
رمضان المبارک ۱۴۴۲؁ھ کی بیسویں سحری امت مسلمہ کے لیے عموماً اور اہل علم و ادب اور اصحابِ ممبرومحراب کے لیے خصوصا انتہائی افسوس ناک اور غم انگیز پیغام اپنے ساتھ لے آئی، جسے پڑھ کر ہر قاری کا دل غم زدہ ، آنکھیں نم، اور طبیعت بے چین و غمگین ہوگئی کہ ادیبِ وقت حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب رحمتہ اللہ علیہ اس دار فانی سے عالم جاویدانی کی طرف کوچ کرگئے،انا للہ و انا الیہ راجعون، اللهم اغفرله وارحمه وارفع درجاته في اعلى عليين، اللهم ثقل له في ميزانه وتقبل له حسناته ، واعفو عن خطيئاته وجميع سيئاته، وارزقه وايانا شفاعۃ نبينا صلى الله عليه وسلم يوم القيامه مقبولۃ ومبرورا۔
حضرت مولانا قحط الرجال کے دور میں مشاہیرِ علم و ادب اور جبالِ فضل و کمال میں سے تھے، رب ذوالجلال نے آپ کو زبان و ادب کا لاجواب سلیقہ عطا فرمایا تھا ، آپ کو اردو اور عربی دونوں زبانوں میں یدِ طولیٰ حاصل تھا؛ گویا مجمع البحرین تھے۔
راقم السطور کو تو مولانا موصوف کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے اور براہ راست استفادہ کرنے کا موقع نہیں ملا ؛ لیکن ہم نے اپنے اساتذہ سے مولانا کی نفیسانہ طبیعت اور ادیبانہ مہارت کے متعلق بہت کچھ سنا تھا؛ لیکن اب دیکھنے سے بھی محروم رہ گئے ۔
مولانا ادبی مہارت و حذاقت کی بنا پر بین الاقوامی سطح پر اپنی منفرد شناخت رکھتے تھے؛ یہی وجہ ہے کہ آج سے تقریباً پچیس سال قبل جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے ایک جلسہ میں آپ کو مدعو کیا گیا ، جہاں آپ نے خطاب کیا، بیان کے بعد حضرت مولانا مفتی سید سلمان صاحب منصور پوری نے مصافحہ کرتے ہوئے آپ سے کہا تھا : "حضرت آج تو حضرت الاستاذ مولانا کیرانوی ؒ کی یاد تازہ ہوگئی”۔(مقدمہ حرف شیریں)
اور بڑی دلچسپ بات تو یہ ہے کہ آپ عجمی ہونے کے باوجود آپ کی عربی پر عرب بھی انگشت بدنداں ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ آپ کو عربی زبان و ادب میں صدر جمہوریہ ایوارڈ سے نوازا گیا، اسی طرح آپ کی اردو ادب کا بھی حال ہے، کہ آپ کی تحریر کے ایک ایک جملے پر قاری عش عش کرتا ہے، آپ کی تحریر کے البیلے پن اور انوکھے انداز سے قاری آپ کا گرویدہ ہوجاتاہے؛ کیوں کہ آپ کی تحریر میں ماجدی رنگ، آزاد کا حسن، علی میاں ندوی کی فکر، اور علامہ کیرانوی کا ادب ظاہر ہوتا ہے؛ جیسا کہ مولانا بدر الدین اجمل صاحب آپ کی تحریر کے متعلق لکھتے ہیں:مولاناموصوف کا اسلوب نگارش نہایت دلچسپ پیرایۂ بیان شستہ وشگفتہ اور جملوں کی نشست وبرخاست، تذکرہ نگاری کی دنیااور ہمارے عربی مدارس کے ماحول میں ٹکسالی اردو زبان وادب کا اچھا نمونہ ہے”۔(وہ کوہ کن کی بات: 362)
لیکن افسوس کہ آج مولانا ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن آپ اپنے پیچھے صدقہ جاریہ کے طور پر بے شمار تلامذہ اور ان گنت شاگرد چھوڑ گئے، نیز اپنا علمی سرمایہ اور ادبی خزینہ کتابوں کی شکل میں امت کو بطور ورثہ دے گئے ، جن میں سے چند کے نام یہ ہیں :
اردو تحاریر:
(١) حرفِ شيریں
(٢) پسِ مَرگِ زندہ
(٣) وہ کوہ کَن کی بات (علامہ وحید الزماں کیرانوی کی سوانحِ حیات)
(٤) فلسطین کسی صلاح الدین ایوبی کے انتظار میں
(٥) کیا اسلام پسپا ہو رہا ہے؟
عربی تصانیف:
(١) مفتاح العربیہ (دو حصے)
(٢) متی تكون الكتابات مؤثرة؟
(٣) تعلّموا العربیة فإنہا من دینکم
(٤) المسلمون في الهند
(٥) الدعوة الإسلامية بين الأمس واليوم
(٦) الصحابة و مكانتهم في الإسلام
(٧) مجتمعاتنا المعاصرة والطريق إلى الإسلام
اور یہ کہہ گئے:
جسم تو جسم ہے خاک میں مل جاتا ہے
تم بہر حال کتابوں میں پڑھو گے مجھ کو
لمحۂ فکریہ :
اکابرین کا مسلسل دارِ فانی سے کوچ کر جانا جہاں ایک طرف حزن وملال اور رنج و غم کا سبب ہے تو وہیں دوسری طرف اس بات کا پیغام بھی ہے کہ نسلِ نو اور نو فارغ علماء اپنے آپ کو صلاحیت و صالحیت کے سانچے میں اچھی طرح سے ڈھال کر میدانِ عمل میں اترے، اور اپنے اندر اکابر علماء کرام کی نیابت کی لیاقت پیدا کریں ، اور اپنے آپ کو کسی صاحبِ علم و صاحبِ نسبت کے تابع کر کے زندگی گذاریں، اور ان کی قدردانی کرتے ہوئے ان کی ہدایات پر عمل کریں۔
فرشتوں کھڑے رہنا ادب سے کہ ملنے کو مجھ سے ادیب آ رہا ہے
سجاؤ ایک بار پھر سے بہشت کو کہ مہمان اس کا قریب آرہا ہے
نور عالَم سے ایک اور اوجھل ہوا ہے
حق ادا کر کے میرا امین آ رہا ہے
پروردگارِ عالم مولانا موصوف کی مغفرت فرمائیں اور سیئات سے چشم پوشی کرتے ہوئے حسنات کو شرف پذیرائی بخشیں، اور ہمیں آپ کے علم سے حصہ نصیب فرمائیں اور آپ کا نعم البدل عطا فرمائیں۔۔۔۔ آمین

 

Comments are closed.