Baseerat Online News Portal

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

سید فضیل احمد ناصری
خادمِ حدیث و نائب ناظمِ تعلیمات جامعہ امام محمد انور شاہ، دیوبند

کل سحری کھانے کے لیے اٹھا اور واٹس ایپ کھولا تو ہر گروپ استرجاع سے بھرا ہوا تھا، جب استرجاع اس کثرت سے ہو تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ کوئی بڑا سانحہ پیش آ چکا ہے، میں پریشان ہو گیا۔ دیکھا تو حضرت مولانا نورِ عالم خلیل الامینی صاحب کی خبرِ وفات ہے۔ دل دھک سے رہ گیا۔ دیر تک انا للہ پڑھا، بالکل یقین نہیں آ رہا تھا کہ مولانا بھی داغِ مفارقت دے چکے ہیں۔ لیکن کیا کیجیے:
موت سے کس کو رَستگاری ہے

اس امت کی عمر
مولانا کی وفات سے طبیعت بڑی متاثر ہوئی اور ہنوز اسی کیفیت میں ہے۔ مجھے یاد آیا کہ میری طالب علمی کے دوران ایک بار انہوں نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اب میں 45 سال کا ہو چکا ہوں، اس امت کی عمر اوسطاً ساٹھ سے ستر سال رکھی گئی ہے۔ اس حساب سے میری زندگی کی صرف اب پندرہ بہاریں ہی بچی ہیں۔ یہ بات 1997 کی ہے۔ قلندر ہر چہ گوید، دیدہ گوید۔ کم و بیش اتنی ہی بہاریں پا کر دنیا سے چلے گئے۔

مولانا کے سلسلے میں میری اولین آگاہی
مولانا بہار میں واقع ضلع مظفرپور کے تھے۔ ان کا گاؤں میرے گاؤں سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے نام و کام سے میں بالکل آشنا نہیں تھا۔ ابتدائی بچپن میں یوں بھی شعور کہاں ہوتا ہے۔ میں مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ، ضلع دربھنگہ میں زیرِ تعلیم تھا۔ نور الانوار کی جماعت تھی۔ اسی سال مولانا کی پہلی اردو تصنیف وہ کوہ کن کی بات میری نظر سے گزری، بس یہی کتاب ان کے نام سے آگہی کی بسم اللہ تھی۔

پہلی ملاقات
سال مکمل ہوا اور میں دیوبند پہونچ گیا۔ یہاں طلبہ کی زبان پر مولانا کی عربیت کے بڑے چرچے تھے۔ میرا تاثر مزید گہرا ہوا۔ میری آرزو ہوئی کہ عربی ششم کی اس ترتیب میں میرا نام آ جائے جس میں دیوانِ متنبی مولانا پڑھاتے ہیں۔ شومئ قسمت، تعلیمات سے فہرست نکلی تو میرا نام ششم اولیٰ میں تھا اور مولانا کی تدریسِ متنبی ششم ثانیہ میں۔ دل مسوس کر رہ گیا۔ اور کیا کر سکتا تھا!!
اسباق پڑھنے کی آرزو تو خیر پوری نہ ہو سکی، تاہم مولانا سے پہلی ملاقات میں کامیاب رہا۔ میرا ایک دوست مولانا کی خدمت میں جاتا رہتا تھا، اسی کی وساطت سے رسائی ممکن ہو سکی۔ دیکھا تو ماشاءاللہ شخصیت رعب و داب سے لبریز۔ وجاہت سے بھرپور۔ چہرہ بشرہ رونق و بہجت کا مظہر۔ بات چیت کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔ ملاقات بڑی مختصر رہی۔ پھر ہمت نہ ہو سکی۔

حرفِ شیریں کے اشتہار کی کتابت
مولانا سہیل اختر قاسمی دربھنگوی تقریباً تین دہائیوں سے دارالعلوم سے جاری ہونے والے رسالہ الداعی کے طابع و ناشر ہیں۔ اور طویل عرصے سے مولانا سے وابستہ۔ یہ میرے بہنوئی بھی ہیں۔ مولانا امینی کی کتاب حرفِ شیریں آئی تو اس کے اشتہار کے لیے مولانا قاسمی نے مجھ سے رابطہ کیا۔ اس وقت طلبہ میں میری شہرت بحیثیت کاتب ہو چکی تھی۔ طلبۂ دارالعلوم کے کئی ماہ نامے میں ہی لکھتا۔ مولانا قاسمی نے حرفِ شیریں کے اشتہار کے لیے کہا تو جسارت کر کے میں نے لکھ دیا۔ اشتہار بڑا تھا۔ مولانا امینی صاحب کی شخصیت نستعلیق اور نفیس۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں ٹھکرایا نہ جاؤں، لیکن زہے نصیب! کہ پسند کیا گیا اور انعام بھی ملا۔ اشتہار چھپا، دیواروں پر لگا، کتاب چند دنوں میں ہی ہاتھوں ہاتھ نکل گئی۔ تا آں کہ دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہو گیا، نئے اشتہار کا قرعۂ فال بھی میرے ہی نام نکلا۔ اس دوران مولانا سے قربتیں بڑھیں، تاہم ان کی رعب دار و سحر طراز شخصیت نے مجھے قاعدے سے کھلنے نہیں دیا۔

مولانا سے میرے تعلقات کی بنیادیں
مولانا سے میرے تعلقات کی کئی بنیادیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ میرے ہم وطن تھے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے پڑدادا کے قائم کردہ ادارہ: مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کے سابق طالب علم تھے۔ تیسرے یہ کہ میرے جدِ مکرم حضرت مولانا مفتی محمود احمد ناصریؒ تلمیذِ رشید علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے حلقۂ تلامذہ سے وابستگی رکھتے تھے۔ ان بنیادوں نے مولانا کو مجھ سے اور مولانا سے مجھ کو قریب تر کر دیا تھا، چناں چہ دارالعلوم میں جب تک زیرِ تعلیم رہا، مولانا کے جواہرات اور ارشادات و ملفوظات سے جیب و داماں بھرتا رہا۔

ایک عجیب طالب علم کا داخلہ کرایا
ایک قصہ یاد آیا۔ مولانا کا ایک عزیز تھا۔ دو سال سے دارالعلوم دیوبند میں امتحانِ داخلہ دے رہا تھا، مگر ہر بار اسے ناکامی ہاتھ آتی تھی۔ اب دورۂ حدیث میں داخلے کے لیے قسمت آزمائی، پھر مار کھا گیا۔ اس کا دماغی توازن بھی باقی نہ رہا۔ بپھر گیا اور عیاذاً باللہ فاطرِ ہستی کو ہی گالیاں نکالنے لگا۔ ایسے ایسے جملے کہتا جو ایک بندۂ مومن کو دائرۂ اسلام سے نکال دیتے ہیں۔ اسی بپھری ہوئی حالت میں مولانا کے پاس گیا۔ میں بھی ساتھ تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے دھمکیاں دینی شروع کر دیں: اب میں دینی راہ چھوڑ دوں گا۔ اپنا حلیہ بدل لوں گا۔ اپنی داڑھی مونڈ لوں گا۔ مولانا حیران، کہنے لگے: ارے ارے! خاموش ہو جاؤ، تمہارا داخلہ میں کراؤں گا، ان کی یقین دہانی پر وہ خاموش ہوا۔ مقامِ شکر ہے کہ اس کا نام بھی آ گیا۔ اب وہ دین کا غیور ترجمان ہے۔

دیوبند میں تدریس اور مولانا سے ملاقاتیں
میری فراغت 1998 میں ہے۔ فراغت کے بعد میں ممبئی اور پھر احمد آباد چلا گیا۔ اس دوران مولانا سے کوئی رسم و راہ نہ رہی۔ مواصلت اور مراسلت بھی نہ رہی۔ 2008 میں جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند میں خدمتِ تدریس کے لیے پہونچا تو مولانا سے قربتوں کا سلسلہ پھر جاری ہو گیا۔ ماہ نامہ محدثِ عصر میں میرے مضامین شائع ہوتے۔ یہ رسالہ ہمارے جامعہ سے صادر ہوتا ہے۔ مولانا تک بھی باقاعدہ پہونچتا۔ ایک ملاقات پر کہنے لگے: ماشاءاللہ آپ خوب لکھتے ہیں۔ آپ جوان بھی ہیں۔ فرصتِ عمر بھی ہے۔ خوب لکھیے اور آگے بڑھتے جائیے۔ میری تو عمر اتنی ہو گئی۔ وہ پچھلی توانائیاں اب باقی کہاں!! ڈھیر ساری دعائیں دیں۔

پس مرگ زندہ پر محدث عصر میں احقر کا تبصرہ
مولانا کی نئی کتاب پسِ مرگ زندہ آئی تو رسالہ محدثِ عصر میں میں نے اس پر طویل تبصرہ لکھا۔ مولانا بڑے خوش ہوئے۔ حوصلوں اور دعاؤں سے نوازا۔ اس کتاب کا ایک نسخہ بھی اپنے دستخط سے انہوں نے ہدیۃً پیش کیا، جو میرے لیے ایک بڑا سرمایہ ہے۔

مولانا کی اصول پسندی
مولانا کی حیات میں کئی بہترین چیزیں اس طرح جمع ہو گئی تھیں جو انہیں دوسرے اہلِ علم سے ممتاز کرتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اصول پسند بہت تھے اور اس میں وہ کسی رعایت و کسل مندی کے روا دار نہیں تھے۔ ان سے ملنا ہے تو دو دن پہلے فون کیجیے! وہ اپنے حساب سے دن کا تعین کریں گے اور جو دن طے ہوا ہے، اس میں آپ کی حاضری ضروری ہے، ورنہ وہ ناراض ہو جائیں گے۔ ان کی یہ ادا بہتوں کو گراں گزرتی، لیکن جو لوگ اس مقام پر پہونچ جاتے ہیں، ان کے پاس اس کے علاوہ چارہ بھی نہیں رہ جاتا۔
مولانا نے اصول پسندی سے بڑے کام نکالے۔ وقت کو خوب نچوڑا۔ ایک ایک منٹ کو انہوں نے کار آمد بنایا۔ اسی کی برکت ہے کہ رسالہ الداعی بر وقت نکلتا رہا۔ کتابیں بھی تصنیف ہوتی رہیں۔ مقالے بھی لکھے جاتے رہے۔ تعریب بھی ہوتی رہی۔ تدریس بھی چلتی رہی۔

ایک واقعہ
ایک دن میں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ کہنے لگے کہ کل آنا۔ میری شورہ بختی، کہ اس دن ایسا مصروف ہوا کہ چاہ کر بھی نہ جا سکا۔ مولانا کا فون آ گیا۔ میں لرزاں و ترساں۔ فون نہیں اٹھایا۔ دوبارہ کال آئی۔ ناچار اٹھایا، میں نے معذرت پیش کی اور کل کی حاضری کا وعدہ کیا۔ مولانا کہنے لگے: یہ عمل ٹھیک نہیں ہے۔ آپ کو نہیں معلوم کہ کسی کو وقت دینے کے لیے کتنی قربانیاں دیتا ہوں۔ اپنی ساری مہمات ترک کر دیتا ہوں۔ بہت ساری چیزیں ذہن میں ہوتی ہیں، سب کو نظر انداز کرتا ہوں، لیکن بایں وہ شخص نہ آئے تو بڑا گراں گزرتا ہے۔ میں سن کر پانی پانی ہو گیا۔ پھر اس کی تلافی کے لیے اگلے دن حاضری دی۔

مولانا کی نستعلیقیت
اصول پسندی کے ساتھ مولانا میں نستعلیقیت بھی بہت تھی۔ نظافت اور نفاست ان کی طبیعتِ ثانیہ تھی۔ صاف شفاف لباس، اس پر خوب صورت سی شیروانی زیبِ تن۔ پیروں میں قیمتی اور دیدہ زیب جوتے۔ کوئی بھی موسم ہو۔ فصلِ بہاراں ہو یا باد و باراں۔ ہمیشہ وہی رنگ وہی آہنگ۔ ہاتھ میں عصا بھی رکھتے۔ کیا بہار دکھاتا تھا۔ نستعیلقیت صرف وضع قطع میں ہی نہیں، قیام و طعام میں بھی۔ دسترخوان اعلیٰ درجے کا۔ اس پر چنی ہوئی اشیا گراں قیمت و خوش شکل۔ پھل بھی انتہادہ روشن و جاذبِ نظر۔

نستعلیقیت کا تصنیفات پراثر
یہ نستعلیقیت صرف قیام و طعام اور بود و باش پر ہی نہیں، زندگی کے ہر شعبۂ حیات پر حاوی اور منجلی تھی۔ ان کی تصنیفات بھی اسی وصف سے مزین۔ سرِ ورق سے لے کر آخری صفحات تک مجلیٰ و مزکیٰ۔ کاغذ کا بہترین انتخاب۔ کتابت اعلیٰ درجے کی۔ تزئین و رنگ آمیزی آنکھیں چار کر دینے والی۔ دیوبند میں کتابوں کی طباعت کا معیار کیسا ہے سب جانتے ہیں۔ مولانا کی کتابیں ان کے درمیان ایسے چمکتی ہیں جیسے ستاروں کے درمیان آفتاب۔

مولانا کا قلم
رہی بات قلم کی، تو اس کا کیا کہنا!! سبحان اللہ ماشاءاللہ! آب دار و تاب دار زبان۔ تعبیرات و استعارات کی ایک وسیع دنیا۔ حسنِ ادائیگی کا شاہ کار۔ باوزن اور باوقار اسلوب۔ کوثر و تسنیم میں غسل کی ہوئی سطریں۔ آبِ زمزم سے وضو کیے ہوئے جملے۔ صحرائے عرب سے دیارِ عجم کو آئی ہوئی اردو۔ وہ لکھیں اور پڑھا کرے کوئی۔
میں نے مولانا کی کئی کتابیں پڑھیں، جن میں وہ کوہ کن کی بات کو متعدد بار پڑھا۔ زبان کی شوکت، بیان کی ندرت نے بہت زیادہ متاثر کیا۔ کتاب کیا ہے، علم و ادب کا جامع مرقع ہے۔ مولانا کے جادو نگار قلم نے فاذا ھی تلقف ما یافکون کا منظر پیش کیا ہے۔ ان کی تحریروں کے سامنے ان کے معاصرین کی تحریریں پھیکی پڑ جاتی ہیں۔ اپنے نامور و عہد ساز استاذ ادیبِ دوراں حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کو جس حسین پیرائے اور ریشمی قبا میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے، ماضی قریب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ میں اپنے عزیزوں اور تعلق داروں سے کہا کرتا ہوں کہ اردو پر گرفت مضبوط کرنی ہے تو اس کتاب کو اسی طرح حل کریں جس طرح مقاماتِ حریری حل کی جاتی ہے۔
میں حالیہ دور میں جن ادبا کی نگارشات سے متاثر رہا ہوں، ان میں اول نمبر پر فخرالمحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیریؒ ہیں۔ حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمیؒ بھی میرے ممدوحین میں ہیں۔ مولانا امینی بھی اسی صف سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اصلاً عربی کے ادیب تھے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں دس سال پڑھایا۔ 39 سال دارالعلوم دیوبند میں سرگرمِ عمل رہے۔ عربیت اور اس میں ان کی فنائیت نے غیر مقیم حجازی بنا دیا تھا۔ ٹکسالی عربی لکھتے۔ وہ اس کے رموز سے آشنا تھے۔ اس کی جڑوں تک پہونچ جاتے۔تدریس کے علاوہ رسالہ الداعی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ ان کی بیش تر تصنیفات عربی زبان میں ہیں۔ 1995 میں وہ دنیائے اردو میں قدم زن ہوئے۔ اور کس شان سے! وہ آئے، دیکھا اور فتح کر لیا۔ جو لوگ مولانا کے پس منظر سے واقف نہیں ان کے سامنے ان کی اردو تصنیفات رکھ دی جائیں تو وہ یہی کہیں گے کہ ان کی شورش زدہ اردو برسوں کی کوہ کنی کا ثمرہ ہے۔ ایک نو وارد کی تحریر ہرگز ایسی نہیں ہو سکتی۔

رموزِ اوقاف و املا
مولانا کا خط بھی بڑا صاف تھا۔ نگینوں کی طرح چمکتا دمکتا۔ رموزِ اوقاف و املا کا بڑا خیال رکھتے اور کسی شیخ کے بتائے ہوئے وظیفے کی طرح ان کی پاس داری کرتے۔ ان کا یہ عمل لکھنے والوں میں بڑا مقبول ہوا اور ان کی بھرپور تقلید کی گئی۔

نام رکھنے میں طاق
مولانا چیزوں کے نام رکھنے میں بہت طاق تھے۔ کمروں میں چلنے والے دارالعلوم، گوشے میں چلنے والے جامعات اور جیب میں رہائش پذیر یونیورسٹیوں کو وہ اینٹ العلوم، کھیت العلوم اور پیٹ العلوم سے تعبیر کرتے۔ کوئی طالب علم موٹا ہوتا تو فرماتے کہ یہ تو چار پانچ مدارس کا مہتمم معلوم ہوتا ہے۔ اپنی تحریروں کے عنوانات اور کتابوں کے نام رکھنے میں بھی نستعلیقت کا خیال رکھتے۔ پسِ مرگ زندہ اور رفتگانِ نا رفتہ اور دوسری کتب کے نام بھی دل کشی لیے ہوئے ہیں۔

بہار کا ذکر اور مولانا
انسان کو اپنے وطن سے بڑا پیار ہوتا ہے۔ وہاں کی دھول دیسی پاؤڈر کی حیثیت رکھتی ہے۔ آب و ہوا زعفران زار لگتی ہے۔ وطن کی مٹی قطعۂ جنت محسوس ہوتی ہے۔ مولانا کو بھی اپنے وطن سے بڑا لگاؤ تھا۔ بہار کا ذکر بڑے مزے سے کرتے۔ میں جب بھی ان کے ساتھ بیٹھا، ذکرِ بہار کو جذبات کی رو میں بہتا ہوا دیکھا۔ رو میں ہوتے تو میتھلی زبان بھی بول لیتے تھے جو ان کے لب سے بڑی حسین معلوم ہوتی۔

مولانا کی آدم گری و مردم سازی
مولانا کی خاص بات یہ تھی کہ ان کے تلامذہ ان پر فدا رہتے اور فدائیت کی وجہ ان کی آدم گری و مردم سازی تھی۔ وہ اپنے سے وابستہ طلبہ کو عربی زبان کا خوگر بنا کر چھوڑتے۔ جس طرح مولانا اپنے خاص الخاص استاذ مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کو والہانہ یاد کرتے، ان کے شاگردوں میں بھی یہی شیفتگی اور والہانہ پن نظر آتا ہے۔

مولانا کی صاف گوئی
مولانا کی ایک خاص بات صاف گوئی بھی تھی۔ جو کچھ دل میں ہوتا وہی ان کی زبان پر بھی ہوتا۔ کذب بیانی اور دروغ بافی سے انہیں بڑی نفرت تھی۔ وہ کون کن کی بات جہاں ان کی خاکہ نگاری کی زبردست مثال ہے، وہیں ان کی صاف گوئی کی آئینہ دار بھی ہے۔ بالخصوص اس کا مقدمہ۔
یادش بخیر! ان کا شعری ذوق دیکھ کر میں نے اپنا مجموعۂ کلام مقدمہ نگاری کے لیے پیش کیا تو کہنے لگے: لکھ تو دوں گا، مگر ہر پندرہ دن میں یاد دلاتے رہیے۔ میرے پاس اب مزید وقت نہیں تھا، نتیجتاً ان کے مقدمہ سے محرومی رہی۔

مجموعۂ خوبی
غرض مولانا بہت سی خوبیوں کا مجموعہ تھے۔ وہ اچھے مدرس، باکمال قلم کار، مقناطیسی مصنف اور نستعلیقیت و دل آویزی سے معمور جامع و مکمل شخصیت تھے۔ ان کی رفتار و گفتار دلوں پر حکمرانی کرتی۔ مولانا کی ہمہ جہت خدمات کا ہی نتیجہ ہے کہ انہیں صدر جمہوریہ ایوارڈ بھی تفویض کیا گیا۔

مرض الوفات
مولانا یوں تو عرصۂ دراز سے شوگر زدہ تھے، مگر چند دنوں سے طبیعت زیادہ بگڑ گئی تھی۔ سانس لینے میں دشواری تھی۔ مرض اتار چڑھاؤ دکھاتا رہا۔ پھر اطلاع آئی کہ مولانا اب بالکل ٹھیک ہیں، رپورٹ بھی کورونا منفی آئی ہے، لیکن اگلے ہی دن خبر آئی کہ دل کی دھڑکن تیز بلکہ برق رفتار ہو گئی ہے۔ اندازہ یہی تھا کہ پھر رو بہ صحت ہو جائیں گے، مگر صبح جو آنکھ کھلی تو اس نے سارے ارمانوں پر پانی پھیر دیے۔ مولانا اس دنیا سے عالمِ بالا جا چکے تھے۔ خلیل کا پہلوٹھا فرزند جو 1952 میں طلوع ہوا تھا، ساری منزلیں طے کر کے 3 مئی 2021 کو آفاق میں چھپ گیا۔ اب وہ قبرستانِ قاسمی میں ہمیشہ کے لیے آسودۂ خواب ہے:
مضت الدھور و ما اتین بمثلہ
ولقد اتیٰ فعجزن عن نظرائہ

Comments are closed.