Baseerat Online News Portal

آہ–!! مولانا نور عالم خلیل امینی مرحوم

آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا

محمد صابر حسین ندوی

کرونا وائرس کے درمیان نہ جانے کتنی روح مطمئنہ ہم سے جدا ہوں گی، ہر روز امت کے غمخوار، درمند اور صاحب دل اٹھے جاتے ہیں، علم و ادب کی صف سونی ہوئی جاتی ہے، اہل قلم، صاحب طرز ادیب، اصحاب فکر و عمل کی دنیا ویران ہورہی ہے، کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب دل کے نہاں خانے میں ایک نیا زخم نہیں لگتا، ہمدرادان امت کی صف سے کوئی نہ کوئی رخصت ہو ہی جاتا ہے، عجب کشمکش ہے، امت مرحومہ سیاسی، سماجی اور معاشی محاذ پر مستقل بے بسی سے دوچار ہے، اور اس کے رہنما و قائدین، اصحاب دانش میدان عمل سے جدا ہورہے ہیں، افسوس صد افسوس کہ ان میں ایک اور مایاناز ادیب، عربی و اردو ادب کے ماہر، متعدد کتابوں کے مصنف، اکابرین کی یادگار، استاذ ادب دارالعلوم دیوبند اور سابق استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولانا نور عالم خلیل امینی مرحوم (١٩٥٢- ٢٠٢١ ء) بھی حیات جاوداں کی طرف کوچ کر گئے، (انا للہ وانا الیہ راجعون اللهم اغفر له وارحمه واسكنه فسيح جناته ويلهم أهله وذويه الصبر والسلوان) آپ کا بنیادی طور پر تعلق مردم خیز سرزمین بہار – سیتامڑھی سے تھا، ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ امدادیہ دربھنگہ، دارالعلوم مئو اور دارالعلوم دیوبند میں ہوئی۔ ١٩٧٠ء میں مولانا نے درس نظامی کی تکمیل کے لیے مدرسہ امینیہ میں داخلہ لیا۔ ان کے اساتذہ میں وحید الزماں کیرانوی اور محمد میاں دیوبندی شامل ہیں، مولانا دارالعلوم دیوبند میں تقریباً تین دہائی سے عربی زبان وادب اور علوم کی خدمات انجام دے رہے تھے اور ہندوستان سے عربی زبان میں شائع ہونے والی عمدہ و معیاری میگزین ماہنامہ الداعی کے چیف ایڈیٹر تھے ۔ مولانا عربی اور اردو میں دسیوں کتابوں کے مصنف ہیں اور اہل علم کے درمیان آپ کی کتابیں مقبول ہیں۔ وہ کوہ کن کی باتیں ۔ پس مرگ زنداں ۔ صلیبی صہیونی جنگ ۔ فلسطین کی آزادی سمیت متعدد کتابیں اہل علم کے درمیان متداول ہیں ۔ آپ ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش ونیپال کے علاوہ عرب ممالک اور یورپ میں بیحد مقبول تھے، آپ کی عربی کتابیں دنیاعالم عرب میں دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی تھیں اور عرب ممالک کے متعدد اخبارات ورسائل میں عالم عرب اور عالم اسلام کے مسائل پر شائع ہوتے رہے ہیں ۔دنیابھر میں ہزاروں کی تعداد میں آپ کے شاگرد پائے جاتے ہیں۔ آپ کی علمی خدمات پر ہی ٢٠١٧ء میں انھیں "صدارتی سرٹیفکیٹ آف آنر” (Presidential Certificate of Honour) کے اعزاز سے نوازا گیا۔ آسام یونیورسٹی میں ابو الکلام نے نور عالم خلیل امینی کی تحریروں میں فلسطين في إنتظار صلاح الدين کے خصوصی حوالہ کے ساتھ سماجی و سیاسی پہلوؤں کے عنوان پر اپنا ڈاکٹریٹ مقالہ لکھا۔
آپ کی کتابیں بالخصوص وہ کوہ کن کی بات اور مجلہ الداعی سے استفادہ کا موقع ملا، مولانا کی تحریر میں عجب چاشنی، مٹھاس اور بندش ہوتی ہے، ایک سطر پڑھیں تو لگتا ہے کہ بَس پڑھتے ہی جائیں، ادبیت کا اعلی نمونہ ایسا کہ کوئی بھی ادبی ذوق رکھنے والا مچل اٹھے، عربی میں الفاظ کی نشست و برخواست، بلاغت، جامعیت، ساتھ ہی تسہیل تو ایک جادو ہے، عموماً لوگ بلاغت و فصاحت اور قافیہ بندی کا خیال رکھنے میں مبالغہ کر جاتے ہیں اور ادب کے نام پر صرف ایک لغت سطر کی صورت میں پرو جاتے ہیں؛ لیکن آپ کا انداز، اسلوب نگارش اس سے بری تھا، اردو میں بھی الفاظ کا استعمال کسی بھی ادیب کو عَش عَش کرنے پر مجبور کردے، خصوصاً خاکہ نگاری میں آپ کی مہارت کا کوئی جواب نہ تھا، آپ نے قلمی زور سے سینکڑوں شخصیات کو گور زمین سے فلک پر پہنچا دیا، جو مشہور تھے، ان کی شہرت کو پھول، بوٹے لگائے، جو گمنام تھے، علمی اعتبار سے کم شہرہ رکھتے تھے، شخصیت پردہ پوشی میں تھی، مگر علم و ہنر کے جامع تھے انہیں موت کے بعد پرواز عطا کی، نیز ایسا نہیں ہے کہ آپ صرف ادبیت، بلاغت پر اکتفا کرتے ہوں، الفاظ کے استعمال پر ہی بَس کر جاتے ہوں؛ بلکہ آپ کی تحریریں دلچسپ معلومات، تاریخی واقعات، علمی نکات اور نادر معلومات سے پُر ہوتی ہیں، قدرتی نظارے اگر شخصیت نگاری میں چاند تارے کی طرح جڑے رہتے ہیں تو وہیں علمی مواد اس میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، یہ ذکر بیجا نہیں کہ مولانا دارالعلوم دیوبند کا فخر تو تھے؛ ساتھ ہی ندوۃ العلماء لکھنؤ کیلئے بھی تمغہ امتیاز تھے، آپ نے تقریباً دس سال سیدی مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی خدمت میں گزارے، آپ کی کتابوں کا املا کیا، آپ کی فکر، ادبی ذوق، علمی بلندی، دانشمندی اور بصیرت کے سایہ تلے پروان چڑھے، اسی طرح وہبی صلاحیت کے حامل محمد حسنی رحمہ اللہ کی رفاقت بھی نصیب ہوئی جو عربی ادب کے منفرد اسلوب نگار تھے، مولانا امینی صاحب مرحوم نے جابجا اپنی تحریروں میں ان محسنین کا تذکرہ کیا ہے، جس وقت مولانا کو حکومتی سطح پر ایوارڈ ملا تھا، اس وقت تمام علمی حلقوں میں خوشی کی لہر تھی اور اندازہ تھا کہ علم و آفتاب کا یہ چراغ ابھی ایک عرصے تک دنیا کو روشن کرے گا؛ لیکن نصیب کا لکھا کون ٹال سکتا ہے، آپ کچھ ہفتوں سے مسلسل علیل تھے سانس کی بھی تکلیف تھی، مگر طبیعت روبہ صحت بھی تھی، تبھی دفعتاً ٢٠/ رمضان المبارک کی شب راہی عدم ملک ہونے کی کی خبر آگئی، دل بیٹھ گیا، امت کے ہیرے جواہرات اور ستارے و سیارے ٹوٹتے ہی جاتے ہیں، اللہ جانے کیا منظور ہے، دنیا اور اس امت کو کونسی کروٹ لینی ہے؟ دعا ہے کہ اللہ تمام جانے والوں کی مغفرت فرمائے اور اس امت کو صبر جمیل عطا کرے- آمین

[email protected]
7987972043

Comments are closed.