مصنف ’’مرویات ابی حنیفہ‘‘ حضرت مولانا لطیف الرحمن صاحب قاسمی بہرائچی نقشبندی کی خدمت میں

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
مہدپور،اُجین،ایم پی
"مولانا لطیف الرحمن صاحب کی ولادت 1964ء میں بہرائچ میں ہوئی،انھوں نے اترپردیش کے ضلع باندہ کے قصبہ ہتھورا میں مولانا قاری صدیق احمد رحمہ اللہ کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی، پھراعلٰی تعلیم کے لیے 1984ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اوردوسال تعلیم حاصل کرکے 1986ء میں سند فضیلت حاصل کی۔ ان کی مستقل رہائش کافی عرصے سے مکہ المکرمہ میں ہے _
مولانا لطیف الرحمٰن نے امام اعظم ابوحنیفہ سے متعلق بہت سی مسانید ترتیب دی ہیں،ان کے مخطوطات کوتلاش کیا ہے، ان کاموازنہ کیا ہے اوران کی تحقیق و تخریج کرکے دیدہ زیب طباعت کے ساتھ انہیں شائع کیا ہے۔ مولانا موصوف نے فقہ حنفی سے متعلق بیس (20) کتابوں کی تحقیق وتخریج کی ہے اور سب ہی بیروت اورسعودی عرب کے اہم مکتبوں سے شائع ہوکرعلمی دنیا میں مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔
مولانا کا انتہائی اہم اور قابلِ قدرکارنامہ یہ انسائیکلوپیڈیا ہے ،جس کی اشاعت ‘ الموسوعۃ الحدیثیۃ لمرویات الامام ابی حنیفۃ’ کے نام سے بیس (20) جلدوں میں ہوئی ہے _ اس میں امام ابوحنیفہ ؒ کے مستدلات سے متعلق دس ہزارچھ سو تیرہ (10613) احادیث کوجمع کیا ہے _ ساتھ ہی احادیث کی تحقیق وتخریج کی ہے اوران پر تعلیقات ثبت کی ہیں ۔ اس کتاب کی ترتیب میں فقہ اور حدیث کی دونوں ترتیبوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ابتدائی تین جلدوں میں تمہیدی مباحث ہیں _ بارہ جلدوں میں احادیث کی جمع و تحقیق ہے _تین جلدیں اعلام اوردو جلدیں فہارس پرہیں _ یہ موسوعہ بیروت کے مشہور مکتبہ دارالکتب العلمیۃ سے شایع ہوا ہے ۔
یہ کتاب ان لوگوں کا مُسکت جواب ہے جو امام اعظم کے علم حدیث پر سوال اٹھاتے ہیں۔”
(تحریر:ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی، مضمون:ایک قابلِ قدراورقابلِ فخر کارنامہ،مورخہ 19مارچ2021ء)
آپ سلسلۂ نقشبندیہ میں عالم اسلام کی معروف ہستی حضرت مولانا پیر ذوالفقاراحمد نقشبندی مدظلہ العالی کے خلیفہ ہیں۔
کافی دنوں سے خواہش تھی کہ حضرت کی زیارت و ملاقات کا شرف حاصل کروں۔ 2اپریل2021ء بہرائچ جانا ہواتو اس وقت پتہ چلا کہ حضرت والا مہاراشٹرا کے دورے پر ہیں۔
اتفاق کی بات کہ مجھے دس تاریخ کو مہدپور واپس ہونا تھا، لیکن میری چھوٹی بہن جو ایپیلپٹِک تھیں، (جن کاکئی سالوں سے ممبئی اور لکھنو میں نیورو ڈاکٹرسے علاج
چل رہا تھا،)ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو اچانک بہرائچ میں ایک نیورو ڈاکٹر کو دیکھانے کا پروگرام بنایا گیا۔اور پھر علاج کے سلسلے میں بذریعہ سوموبہرائچ صبح گیارہ بجے پہونچ گئے۔ پہلے نمبر لگارکھا تھا،اس لیے ڈاکٹرکے یہاں سے فورا ہم لوگ فارغ ہوگئے،(ایک ہفتہ کے بعد موصوفہ کا انتقال بھی ہوگیا، اناللہ واناالیہ راجعون).ہمارے ایک بہنوئی مولانا احسان اللہ خان قاسمی گھر کی مستورات کے ساتھ شریک سفرتھے، شادی بیاہ کے لیے ان کوشاپنگ کرنی تھی۔ اس لیے شام کوچاربجے کے بعد واپسی کا پروگرام بنا۔ اپنے عزیز کے یہاں مجھے اور مریضہ کو چھوڑناچاہا،ظہر کی نماز قریب ہی ایک مسجد میں ادا کی گئی، موصوف نے بتایا کہ:
"یہ مسجد عائشہ ہے، یہیں قریب میں مولانا لطیف الرحمن صاحب قاسمی کا گھرہے، وہ میرے رفیق ہیں، زمانہ طالب علمی میں بہت متواضع تھے، سال بھر قبل میں ان کے گھرپرجاچکا ہوں،بہترین ناشتہ وغیرہ کے ذریعہ اکرام کیا.”
میں نے کہا کہ:
"آپ کےرفیق ہیں،لیکن میرے لیے بہت بڑی ہستی ہیں، میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔”
بہنوئی موصوف نے کہا کہ: "ٹھیک ہے، مارکیٹنگ سے فراغت کے بعد ملتے ہیں.”
میں کسی گھر میں ٹھہرنےکے بجائے مسجد عائشہ میں چلاگیا، اوروہاں سے مفتی محمدزبیرندوی کو فون لگایا کہ:
"میں یہاں ہوں اورآپ کی معیت میں حضرت والا سے ملاقات کرناچاہتا ہوں۔میں ساڑھے چاربجے تک بہرائچ میں رہوں گا۔ ”
موصوف نے بتایا کہ مجھے کڈنی اسٹون کاپین ہورہا ہے، علاج کے سلسلے میں ڈاکٹر کےیہاں ویٹنگ میں ہوں، اگر فورا آتا ہوں تو میرا نمبر کٹ جائے گا۔ لیکن میں حضرت کے صاحبزادے سے معلوم کرتا ہوں”
تھوڑے سے وقفے کے بعد بتایا کہ حضرت گھر ہی پر ہیں، تین بجے کے بعد کہیں پروگرام کے لیے جانا ہے، آپ جاکرفورا گھرپرملاقات کرلو۔ میں نے کہا کہ "تنہا میں نہیں جاؤں گا۔ آپ آسکتےہوتو ٹھیک؛ ورنہ بعد میں دیکھیں گے۔”
اتفاق کی بات کہ موصوف مفتی محمد زبیرصاحب تقریبا ساڑھے تین بجے تک مسجد عائشہ میں آگئے اور پھرہم دونوں حضرت کے دولت خانہ پرحاضرہوگئے۔
سلام ودعاکے بعد مفتی محمد زبیرصاحب ندوی نے میرا تعارف کرایا، اسی اثنا حضرت کےسفرکی تیاری شروع ہوگئی۔تھوڑی دیر کے بعد گھر سے چائے اور نمکین وبسکٹ سے واردین کی میزبانی ہوئی، چائے جوکہ کالی تھی وہ غالبا قہوہ تھی،
اس چائے نوشی کےوقفے میں حضرت والا سلسلۂ نقشبندیہ کے فیوض وبرکات کے بارے میں گفتگو فرماتے رہے۔اثناء گفتگو یہ بات بھی آئی کہ میرے چھوٹے بھائی حافظ محمد مظفر نقشبندی کی میزبانی میں حضرت والا
میرے غریب خانہ پر(بیض پور، گونڈہ ،یوپی) تشریف لاچکے ہیں۔ سلسلۂ نقشبندیہ کی ترویج واشاعت میں ہم لوگوں سے جوکوتاہیاں ہورہی ہیں، اس پرحضرت نے تبیہی کلمات بھی فرمائے۔
خانقاہ نعیمیہ(بہرائچ، یوپی،انڈیا) کے موجودہ مسند نشیں، ہمارے علاقے کے پیرومرشدحضرت مولاناسید ظفراحسن بہرائچی مدظلہ کی معیت میں میرے چچیرے بھائی مولانا ڈاکٹر بشیراحمد مظاہری جب حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے تھے تو اس موقع پرحضرت مولانا لطیف الرحمن صاحب بہرائچی قاسمی دامت برکاتہم نے حضرت مولاناپیرذوالفقار نقشبندی سے حضرت مولانا سیدظفر احسن بہرائچی مدظلہ کا تعارف کرایا تو حضرت مولاناپیرذوالفقار نقشبندی مدظلہ نے حضرت مولانا سیدظفراحسن بہرائچی مدظلہ کی پیشانی کو بوسہ دیا اورجب کہ حضرت کے دیگر مقتدرخلفاء فرشی قالین پر تھے، حضرت مولانا سیدظفر احسن بہرائچی مدظلہ کو اپنے بغل میں مسند پربیٹھایا۔
اس میزبانی کے بارے میں بھی حضرت مولانا لطیف الرحمن بہرائچی قاسمی دامت برکاتہم نے بتایا۔
محترم مفتی محمد زبیر ندوی سےکہا :میں تمہیں کل سے یاد کررہا ہوں۔
مفتی زبیر صاحب نے جواب دیا :حضرت حاضر ہوں،خدمت بتلائیں۔
فرمایا:” کچھ مشورہ کرنا تھا، آج پروگرام میں جارہاہوں، کل ان شاء اللہ۔”
عالم اسلام کی اتنی بڑی شخصیت کی طرف سےمفتی محمدزبیرصاحب کومشورہ کے لیے یاد کیا جانا بہت بڑی بات ہے، دیگر اسفاروملاقاتوں سے جتنی مجھے خوشی ہوسکتی ہے، ان سے کئی گنا زیادہ مجھے حضرت کے اس جملے سے ہوئی۔ اور مفتی زبیر کی صلاحیت وصالحیت اور مقبولیت پر مجھے رشک بھی آیا کہ: "کاش میرے اندر بھی ایسی کوئی خوبی ہوتی کہ میں بھی اللہ والوں کے یہاں یادکیاجاتا۔”
یہاں کی زبان اودھی، پوربی اور بھوجپوری ہے۔ حضرت والا اردو،عربی اورفارسی زبانوں پر قدرت رکھنے کے باوجودخالص اودھی زبان میں کلام فرماتے رہے۔ یہ حضرت کی تواضع ہے۔ ورنہ اس علاقے کے لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ بولی اپنے اندر کسی قسم کا علمی سرمایہ نہیں رکھتی ہے۔
مجھے اس ملاقات اور زیارت سے قلبی سکون وراحت اور صاحب نسبت بزرگ کی تھوڑی دیر کی مصاحبت کے فوائد محسوس ہوئے۔ ع
یک زمانہ صحبت بااولیا
بہترازصدسالہ طاعت بے ریا
اللہ تعالی حضرت والا کے سایہ کوتادیر قائم فرمائےاورہمیں آپ کی فیض صحت سے مستفید ہونے کی توفیق ارزانی عطا فرمائے ۔
آمین ثم آمین
فقط والسلام
کتبہ: محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء:شہر مہدپور، اُجین(ایم پی)
21رمضان المبارک 1442ء مطابق 4مئی2021ء
[email protected]
Comments are closed.