ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی سازش ۔۔۔۔۔۔ مسلم تنظیموں پہ بیڈ بلاکنگ کا الزام!

احساس نایاب
(ایڈیٹر گوشہء خواتین بصیرت آن لائن، شیموگہ، کرناٹک )
شاید آپ کو یاد ہو گذشتہ سال کے لاک ڈاؤن سے لے کر اس سال کورونا کے سکینڈ ویوو کے لاک ڈاؤن میں بی جے پی کی جانب سے کس کس طرح غیر سنجیدگی غیر جانبداری اختیار کی گئی ہے، پچھلے سال بی جے پی ایم ایل اے کے ایس ایشورپہ اور اُن کے بیٹے نے امداد کے نام پہ لاک ڈاؤن کی دھجیاں اڑائی اور اپنی متعصبانہ ذہنیت کے چلتے غریب مسلمانوں کو امداد سے دور رکھا تھا، کورونا پہ سیاست کی گئی تھی، کورونا کو مذہب سے جوڑ کر مسلمانوں کو تعصب کا نشانہ بنایا گیا، ملک کے ہندو بھائیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا گیا تھا۔۔۔۔۔؛ جبکہ ہر بار لاک ڈاؤن کی دھجیاں اڑانے والے خود بھاجپائی سنگھی تھے، بنگال کے انتخابات سے لے کر یوپی اور کمبھ میلے سے شیموگہ جیسے چھوٹے شہروں تک ہر جگہ بی جے پی کی جہالت، تعصب اور مفاد پرستی نے پورے ملک کو شمشان بناکے رکھ دیا ہے، اقتدار کے خاطر انسانی جانوں کے ساتھ کھیلا گیا ہے، لاشوں پہ سیاست کی گئی ہے، پھر جب حالات بےقابو ہونے لگے، عوام حکومت سے سوال پوچھنے لگی، سوشیل میڈیا پہ بی جے پی کی مخالفت میں آوازیں اٹھنے لگیں تو اپنا گرتا ایمیج بحال کرنے کے خاطر اپنی تمام ناکامیوں کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑا گیا ۔۔۔۔
پچھلے سال نشانہ پہ مرکز نظام الدین میں جمع تبلیغی بھائی تھے اور آج مسلم تنظیمیں ۔۔۔۔۔
جی ہاں! تاریخ ایک بار پھر دہرائی جارہی ہے، کورونا کی آڑ میں کرناٹک کے مسلمانوں کے خلاف ماحول بنایا جارہا ہے جس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بند سازش رچی جاچکی ہے اور اس سازش کی اسکرپٹ لکھنے والا بی جے پی کا یوتھ لیڈر تیجسوی سوریہ ہے جس نے پورے معاملے میں خود کو ہیرو بنا کر انٹری لی اور مسلمانوں کو ولن بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔۔
یہاں کہانی کا آغاز ہوتا ہے چامراج نگر میں ہوئے حادثہ کے ساتھ ، ابھی یہ حادثہ تھا یا قتل اللہ جانے ۔۔۔۔
بہرحال! چامراج نگر کے کووڈ اسپتال میں آکسیجن کی کمی، اسٹاف و انتظامیہ کی لاپرواہی سمیت دیگر کئی وجوہات کی وجہ سے 24 گھنٹوں میں ایک ساتھ 22 افراد جان بحق ہوگئے جس کے بعد بی جے پی حکومت کے خلاف لوگوں کا غصہ بھڑک اٹھا، چاروں طرف سے اسپتالوں میں بیڈ ، ونٹلیٹرس اور آکسیجن کی کمی سے ہاہاکار مچنے لگی ، غصے میں آئے لوگ بی جے پی وزیراعلی یڈیورپہ سے استعفیٰ مانگنے لگے، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کو چاروں طرف سےگھیرا گیا، ریاست بھر میں بیڈس، آکسیجن اور ونٹلیٹرس کی قلت سے سینکڑوں ہزاروں لاشیں گرنے لگیں، یہاں تک کہ قبرستانوں و شمشانوں میں جگہ کم پڑنے لگی، ایسے میں اپنی گرتی ایمیج بحال کرنے، اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور بگڑتے حالات کی ذمہ داری کسی کے سر منڈھنے کے لئے ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے ۔۔۔۔
اچانک سے تیجسوی سوریہ کے ذریعے اسٹنگ آپریشن کا ڈرامہ کرکے بیڈ بلاکنگ جیسے اسکیم کو مسلمانوں کے سر تھوپا جارہا ہے اور اس کے پیچھے بی جے پی حکومت کو بدنام کرنے کی سازش کہا جارہا ہے ۔۔۔۔ جیسے اترپردیش کے یوگی راج میں آکسیجن مانگنے والوں پہ مقدمات لگائے جارہے ہیں، انہیں گرفتار کیا جارہا ہے اور وجہ یوگی حکومت کو بدنام کرنے کی سازش بتائی جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔
کچھ اسی طرح کرناٹکا بی جے پی پارٹی کی جانب سے بھی اسپتالوں میں بیڈس ونٹلیٹرس اور آکسیجن کی قلت کو مسلم تنظیموں کی سازش بتاکر مسلمانوں کے خلاف بےبنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔
تیجسوی سوریہ کا دعوی ہے کہ ریاست بھر میں بالخصوص بنگلورو کی اسپتالوں میں بیڈ بلاکنگ کا دھندا چلایا جارہا ہے یعنی اسپتالوں میں بیڈس کے ہوتے ہوئے بھی سرئیس کووڈ مریضوں کو بیڈ نہ ہونے کی بات کہہ کر ایک بیڈ کے بدلے منہ مانگی رقم وصولی جارہی ہے اور تیجسوی یادو کے مطابق یہ دھاندلی خود بی بی ایم پی کی جانب سے کی جارہی ہے جو کُل 206 کارکنان پہ مشتمل ہے اور ان میں محض 17 مسلمان شامل ہیں؛ لیکن ستم ظریفی تو دیکھیں تیجسوی نے تعصب و مسلم دشمنی کی مثال پیش کردی ، پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں سے بات کرتے ہوئے 206 افسران میں سے نشاندہی صرف اور صرف 17 مسلمانوں کی کی ہے، آن کیمرہ 17 مسلمانوں کا نام لیا جارہا ہے اور تمام غیرمسلم افسران کا بچاؤ کرتے ہوئے ایک بار پھر مسلمانوں کو مورد الزام ٹہرایا جارہا ہے ۔۔۔۔۔ اسی مقصد سے آج شیموگہ میں ہمیشہ اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں رہنے والا بی جے پی ایم ایل اے کے ایس ایشورپہ نے بھی پریس کانفرنس کرکے مسلمانوں پہ بےبنیاد الزامات لگائے ہیں ، صحیافیوں کو دئے گئے اپنے بیان میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ کووڈ بیڈ بلاکنگ گھوٹالے میں مسلم تنظیمیں شامل ہیں ۔۔۔ ان لوگوں میں جو غیر قانونی طور پر بستر بلاک کررہے ہیں زیادہ تعداد میں مسلمان ہیں ۔۔۔ اور یہ سیدھے الفاظ ایشورپہ کے ہیں ۔۔۔۔ اس کے علاوہ بھی گذشتہ روز شہر کے میگھن اسپتال میں بھی اسپتال کے باہر پی پی ای ٹی کٹ کو لے کر کالا بازاری کا معاملہ پیش آیا جس کا الزام بھی ایک مسلم آٹو ڈرائیور پہ لگاکر گرفتار کیا گیا ہے؛ جبکہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایک معمولی سے آٹو ڈرائیور کے پاس پی پی ای کٹس کہاں سے آئے ، آخر اس تک یہ کٹس پہنچانے والا کون ہے؟ اس کے پیچھے کن کن اعلی حکام کا ہاتھ ہے؟…. ؛ لیکن افسوس اس کی تحقیق نہیں کی گئی، بس ان کے لئے ایک مسلم نام مسلم چہرہ چاہئیے تھا جو اکثر ہماری ہی نادانی، کم عقلی یا مفاد کی وجہ سے انہیں مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔ جسیے پرسوں ہی کی بات ہے شہر کے گاندھی بازار میں چند برقعہ پوش خواتین صبح صبح کرفیو سے فری اوقات میں کپڑوں کی شاپنگ کے لئے شہر کے نامور دکان میں چلی گئیں، جس کو خود ہمارے اپنوں نے ہی سوشیل میڈیا پہ اس قدر اچھالا کہ فرقہ پرستوں کو ہمیں بدنام کرنے کا ایک اور موقعہ مل گیا، بیشک خواتین کی حرکت قابل مذمت ہے باوجود ملک میں مسلمانوں کے خلاف جس طرح کے حالات بنائے جارہے ہیں ، غلطی ہوتے ہوئے بھی فرقہ پرست اپنوں کا بچاؤ کرتے ہوئے بےقصور مسلمانوں کو مجرم ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، ایسے میں اگر ہم خود اپنوں کے خلاف کہنے دکھانے لگ جائیں تو ایک طرح سے فرقہ پرستوں کا کام آسان کررہے ہیں ۔۔۔ خواتین نے غلطی کی بھی ہے تو سمجھانے ٹوکنے روکنے کے طریقے کئی ہیں؛ لیکن یوں خود اپنی ہی بہنوں کی ویڈیو بناکر پھر اُس کو وائرل کرکے دنیا کے آگے ذلیل کروانا کہاں کی سمجھداری ہے ؟ ۔۔۔۔
بہرحال یہاں پہ ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ حال ہی میں ایک مسلم بائک سوار نے ہلمیٹ نہیں پہنا تھا، نوجوان کی اتنی سی غلطی پہ پولس نے اُس کے ساتھ زدوکوب کیا جانوروں سا سلوک کیا ،،، وہی اس کپڑے کی دکان کا مالک جس کے متعلق لوگون کا کہنا ہے کہ وہ آر ایس ایس سے جڑا ہے شاید اس لئے دو دفعہ دکان پہ پولس کی ریڈ پڑنے کے باوجود سخت کاروائی کرنے کے بجائے صرف باتوں پہ بات ختم ہوگئی؛ جبکہ کورونا پھیلنے کا زیادہ خطرہ یہاں پہ ہے نہ کہ ہیلمیٹ میں ۔۔۔۔ ان تمام حالات کے چلتے ہمیں ہر کام حکمت سے کرنا ہوگا ۔۔۔۔؛ ورنہ جانے انجانے ہم خود کے ساتھ ساتھ قوم کا بھی نقصان کر بیٹھیں گے چند لائک شئر اور کمنٹس کے خاطر اپنوں کی جان، مال آبرو سب کچھ داؤ پہ لگادیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
Comments are closed.