الوداعی جمعہ کی شرعی حیثیت

ڈاکٹر محمد یوسف حافظ ابو طلحہ
رمضان المبارک کا آخری جمعہ الوداعی جمعہ کہلاتاہے، یعنی رمضان کی رخصتی والاجمعہ، جو خصوصا بر صغیر ہندوپاک میں کافی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے، بہت سارے لوگ اس جمعہ کے لئے خاص طور پر نئے کپڑے سلواتے ہیں، بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دن کے خاص احکام اور خاص عبادتیں ہیں، مخصوص سورتوں کے ساتھ نوافل پڑھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے، بلکہ بعض لوگ اس دن قضائے عمری کی نیت سے نمازیں پڑھتے ہیں، اور خطباء حضرات خطبہ میں رمضان کے ختم ہونے پر مخصوص انداز میں حسرت وافسوس کا اظہار کرتے ہیں، اور ’’الوداع والفراق والسلام یا شہر رمضان‘‘ جیسے الفاظ کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
اس کی شرعی حیثیت پر اجمالا پھرتفصیلا گفتگو ہوگی:
اجمالا عرض یہ ہے کہ الوداعی جمعہ اور اس میں انجام دیئے جانے والے خصوصی اعمال وعبادت کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہی نہیں ہے، نہ صحیح سند سے، نہ ضعیف سند سے، نہ متہم اور وضاع راویوں کی سند سے، اور نہ ہی صحابہ کرام، تالعین واتباع تابعین سے منقول ہے، اور نہ ہی ائمہ مجتہدین سے. بلکہ معتبر متاخرین محدثین و فقہاء کی کتابوں میں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا ہے۔
اب آئیے تفصیلی گفتگو کی جائے، جو چند نکات پر مشتمل ہے:
جمعۃ الوداع کا نام: رمضان کے آخری جمعہ کو آج عرف عام میں جمعۃ الوداع اور الوداعی جمعہ کاجو نام دیا جاتا ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا. با ایں ہمہ اگر مسئلہ صرف نام کی حد تک ہوتا تو اس کی گنجائش ہوسکتی تھی، مگر یہاں صرف نام کا مسئلہ نہیں، بلکہ نام کے ساتھ اس دن انجام دیئے جانے والے خصوصی اعمال وعبادات کا ہے جو شرعا ثابت ہی نہیں ہیں۔
الوداعی جمعہ کی خصوصی فضیلت: الوداعی جمعہ رمضان کے بقیہ دوسرے جمعے کی طرح ہے، اس کو کسی بھی طرح کی کوئی فضیلت اور خصوصیت حاصل نہیں ہے۔ یہ جمعہ آخری عشرے میں آتاہے، اور آخری عشرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبادت میں زیادہ ہی محنت کرتے تھے، اعتکاف کرتے، اور راتوں میں عبادتوں کا اہتمام کرتے. اور اس اہتمام کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آخری جمعہ کا کوئی خصوصی اہتمام اور کوئی خصوصی عبادت ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی صحابہ کرام، تالعین واتباع تابعین، اور ائمہ مجتہدین سے منقول ہے۔
خطبہ کے دوران بار بار اظہار حسرت: رمضان کے ختم ہونے پر خطباء حضرات خطبہ کے دوران مخصوص انداز میں حسرت و افسوس کا اظہار کرتے ہیں، اور بار بار کہتے ہیں ”الوداع الوداع یا شھر رمضان”، ”الفراق الفراق”، السلام السلام یا رمضان”، اور ان ہی جیسے دیگر الفاظ وعبارات۔
جبکہ اس طرح اظہار حسرت وافسوس اور الوداعی کلمات پر مشتمل خطبات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہی نہیں ہیں، اور نہ ہی صحابہ کرام، تالعین واتباع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے.
بلکہ رمضان کے گزرنے پر اس مخصوص انداز میں افسوس کا اظہار خلاف سنت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے سے افطار کرنے کو روزہ دار کے لئے خوشی کا موقع بتایا ہے، صحیح البخاری (7492)، اور صحیح مسلم (1151) میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (روزہ دار کے لئے دوخوشیاں ہیں، ایک خوشی اس کو افطار کے وقت ہوتی ہے اور دوسری خوشی اُس وقت ملے گی جب وہ اپنے رب سے ملے گا). افطار کے وقت سے مراد روزانہ افطار کا وقت بھی ہوسکتاہے، اور مکمل مہینے کا اختتام بھی ہوسکتاہے، بہر حال دونوں وقتوں میں ایک روزہ دار عبادت کی تکمیل پر خوشی محسوس کرتاہے اور اللہ تعالی نے رمضان کے روزے ختم ہونے اور ربانی احکامات کو بجا لانے کی خوشی میں اہل ایمان کو عید الفطر کا تحفہ دیا ہے جو مسرت وشادمانی سے بھرا سالانہ تہوار ہے تو پھر رمضان کا مہینہ گرزنے پر افسوس کا اظہار کرنے کی کوئی شرعی وجہ نہیں۔
اور قرآن وسنت کے نصوص پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ عبادت کے اختتام پر –کسی خاص کیفیت کا التزام کئے بغیر- عبادت گزار کو چاہیئے کہ اللہ کا شکر ادا کرے کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے یہ مہینہ نصیب کیا، اور روزہ رکھنے اور دیگر عبادتوں کو انجام دینے کی توفیق عطا فر مائی، اور عبادت کی ادائیگی میں جو کچھ کمی اور کوتاہی ہوئی ہے اس پر اللہ سے مغفرت طلب کرے، اور اپنے نیک اعمال کی قبولیت کے لئے اللہ سے دعا مانگے۔
واضح رہے کہ ہماری گفتگو مخصوص انداز میں رائج الوداعی خطبہ پر ہے، خطیب کا لطیف عبارتوں میں رمضان کے ختم ہونے کا ذکر کرنا اور بقیہ ایام میں عبادت کی ترغیب دینا اس میں شامل نہیں ہے، بلکہ یہ تو خطبہ کے محاسن میں سے ہے۔ واللہ اعلم۔
الوداعی جمعہ کے دن پڑھی جانے والی قضائے عمری: اس دن قضائے عمری کی نیت سے جو نماز پڑھی جاتی ہے وہ عقل ونقل کے خلاف ہے، اس کا ذکر قرآن وحدیث میں تو در کنار کسی فقہی مسلک کی معتبر کتابوں میں بھی نہیں ملتا، اور اس کا انجام نہایت خطرناک ہے، اس لئے کہ یہ لوگوں کے لئے نماز چھوڑنے کا راستہ ہموار کرتی ہے، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں ان کی ساری ترک کردہ نمازوں کی تلافی الوداعی جمعہ کے دن ہوجائیگی، جبکہ نماز ایمان وکفر کے درمیان فرق کرنے والی عبادت ہے، اور جمہور اہل علم کا قول یہ ہیکہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بغیر کسی عذر کے نماز چھوڑتاہے یہاں تک کہ اس کا وقت نکل جائے اور توبہ نہیں کرتا ہے تو وہ گردن زدنی کاحقدار ہے۔ اور فتاوی عالمگیری (2/268) میں ہے: ”جو شخص صرف اور صرف رمضان میں نماز پڑھتاہے اور کہتا ہیکہ یہ بذات خود بہت ہے کیونکہ رمضان کی ہر ایک نماز ستر نماز کے برابر ہے تو اسے کافر قرار دیاجائیگا”. علامہ عبد الحی لکھنوی نے ‘ردع الإخوان عن آخر جمعۃ رمضان‘ (ص21- 22) میں اس کی وضاحت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسے کافر قرار دیاجائیگا کیونکہ وہ اپنے اس عقیدے کی وجہ سے جان بوجھ کر نماز چھوڑتاہے، نہ کہ ثواب کی زیادتی کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے. اور ثواب کی زیادتی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ایک نماز کئی نمازوں کے لئے کافی ہوجائیگی، اس پر علمائے امت کا اتفاق ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ قضائے عمری کے سلسلے میں بعض کتابوں میں بغیر کسی سند کے کچھ موضوع روایات ذکر کی جاتی ہیں، جیسے: ایک موضوع روایت ہے: (جو رمضان کے آخری جمعہ میں فرائض میں سے ایک نماز قضا کریگا تو یہ تماز اس کی زندگی میں ستر سال تک فوت ہونے والی نمازوں کا کفارہ ہوگی)
یہ روایت موضوع ہے، کتب حدیث میں اس کا ذکر بھی نہیں ملتا، ملا علی قاری حنفی نے الأسرار المرفوعۃ (رقم 519) میں اسے باطل قرار دیا ہے، اور واضح کیا ہے کہ یہ حدیث اجماع امت کے مخالف ہے، کیونکہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ایک عبادت کئی سالوں کی فوت شدہ عبادت کے قائم مقام نہیں ہوسکتی. اور علامہ عبد الحی لکھنوی نے ردع الاخوان (ص 40-62) میں اس روایت کو اور اس معنی کی کچھ اور روایتوں کا ذکر کیا ہے جو کتب اوراد ووظائف میں بے سروپا رواج پاچکی ہیں، اور ان کے بطلان پر علماء کے اقوال کی روشنی میں سیر حاصل بحث کی ہے۔
ایک بنیادی اصول: اللہ تعالی نے ہماری ہدایت کے لئے قرآن نازل فرمایا، اور اس کے وضاحت وبیان کی ذمہ داری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال وافعال اور تقریرات سے اس کی وضاحت فرمائی، اور یہ دین مکمل ہوگیا۔
صحابہ کرام نے اس دین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا،عمل کیا، اور بعد والی نسلوں تک پہنچایا، لہذا جو عمل اس زمانے میں دین نہیں تھا آج وہ دین کا حصہ نہیں ہوسکتاہے۔
اب اگر آج کے زمانے میں کوئی شخص ایسی عبادت کرتا ہے جو صحابہ نے نہیں کیا تو عقلا اس کی دو ہی صورت ہوسکتی ہے:
یا تو یہ کہاجائے کہ اس آدمی میں تمام صحابہ سے زیادہ نیکی کا جذبہ ہے، اور وہ تمام صحابہ کرام سے زیادہ ہدایت والا ہے۔
یا یہ کہاجائے کہ ایسا عمل کرنے والاشخص گمراہی کا دروازہ کھول رہا ہے۔
اور کوئی بھی مسلمان یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ ایسا نیا عمل کرنے والا شخص تمام صحابہ سے زیادہ ہدایت والا ہے تو پھر دوسری صورت بچتی ہے کہ ایسا عمل کرنے والا شخص گمراہی کا دروازہ کھول رہا ہے۔
اکابر علمائے دیوبند کا موقف: جمعۃ الوداع میں رائج مختلف خصوصی اعمال وعبادات پر اکابر علمائے دیوبند نے قدغن لگائی ہے، مولانا رشید احمد گنگوہی نے ”فتاوی رشیدیہ” (ص: 157، و158) میں، مولانا اشرف علی تھانوی نے ”امداد الفتاوی” (3/147-149) میں، مفتی دارالعلوم دیوبند، مفتی عزیز الرحمن عثمانی نے ”فتاوی دارالعلوم دیوبند” (5/53، 78، 81، 99) میں، مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی نے ”فتاوی محمودیہ” (8/295-296) میں، اور مفتی محمدشفیع غثمانی نے ”امداد المفتیین” (ص: 344) میں، مفتی محمد تقی عثمانی نے اصلاحی خطبات (12/67) میں، اور مولانا شبیر احمد قاسمی نے فتاوی قاسمیہ (9/427-433) میں اس کے غیر مشروع ہونے کا فتوی صادر کیا ہے، اور بعض نے تو بدعت ہونے کی صراحت کی ہے۔
اس کے بدعت ہونے کا فتوی دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن، کراچی کی ویب سائٹ (فتوی نمبر: 143909200815) پر، اور دار الافتاء دارالعلوم دیوبند (فتوی نمبر: 48405) کی ویب سائٹ پربھی دیکھا جاسکتاہے۔
اللہ رب العزت ہمیں قرآن وحدیث کو صحابہ وتابعین کے نہج پر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔

 

Comments are closed.