Baseerat Online News Portal

پچھلوں کی یادگار، اگلوں کا معیار سراج المحدثین حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب مدظلہ

 

 

✏️ سید فضیل احمد ناصری

 

اساتذہ تو یوں بھی بڑے محترم اور مکرم ہوتے ہیں، لیکن بعض اساتذہ اپنے علم، اپنے تقویٰ، اپنی اداؤں اور اپنی شفقتوں کے سبب تلامذہ کے دل میں زیادہ گھر کر جاتے ہیں۔ خاکسار اپنے جن معلمین و مربیین سے بہت متاثر رہا ہے ان میں ایک بڑا نام سراج المحدثین حضرت مولانا نعمت اللہ الاعظمی کا ہے۔ یہ اپنی کرم نوازیوں، رحمت افشانیوں اور رافت شعاریوں کی بنا پر احقر کو اتنے زیادہ بھاتے ہیں کہ انہیں استاذ کے بجائے *ابو* کہنے کو جی چاہتا ہے۔ ان سے ملاقات کے دوران صاف محسوس ہوتا ہے کہ معصوم بیٹا ہمک کر اپنے والد کی آغوش میں چلا گیا ہے۔ فاطرِ ہستی سے دعا ہے کہ انہیں عمرِ نوح سے نوازے۔ آج کی مجلس میں انہیں کا ذکرِ خیر مقصود ہے۔

 

بیضوی رنگ۔ کتابی چہرہ۔ کشادہ پیشانی۔ گلاب کی پنکھڑیوں جیسے باریک لب۔ ان پر پان کی سرخیاں۔معصوم صورت۔ بزرگانہ ادائیں۔ تکبیرِ اولیٰ کے پابند۔ نرمِ دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو۔ *آپ کے* تکیۂ کلام۔ اسمِ گرامی نام نعمت اللہ ہے۔ ولادت 1936 میں ہوئی۔ والد کا نام عبدالمجید ہے اور دادا کا نامِ نامی فضل اللہ۔ حضرت الاستاذ ابھی 13 چودہ کی سن میں تھے کہ والدِ گرامی جادہ پیمائے آخرت ہو گئے۔ گویا بچپن کے آخری ماہ و سال یتیمی کی گرفت میں۔ رہیں والدہ محترمہ، تو وہ ان سے اور بھی پہلے رخصت ہوئیں۔ ان کی شکل و صورت بھی حضرت ممدوح کو یاد نہیں ہے۔

 

*پورہ معروف کا تعارف*

 

پورہ معروف ضلع مئو کا ایک بڑا قصبہ ہے۔ آج سے دہائی قبل یہ اعظم گڑھ میں پڑتا تھا۔ اس کا اصلی نام کُرتھی جعفر پور ہے۔ سرکاری دستاویز میں یہی نام رائج ہے، لیکن عوام و خواص کی زبان پر پورہ معروف چڑھا ہوا۔ *پورہ* آبادی کو کہتے ہیں۔ سید سالار مسعود غازی کے قافلے کے ساتھ جو افراد آئے تھے، ان میں سے ایک محمد معروف بھی تھے۔ یہ سات بھائی تھے۔ ان میں سے ایک بھائی بشارت بھی تھے، جن کے نام سے پڑوس ہی میں بشارت نگر آباد ہے۔ یہ صاحبِ نسبت اور خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ محمد معروف بھی اصحابِ دل میں سے تھے۔ انہیں کی جانب کرتھی جعفر پور کو منسوب کر دیا گیا اور اب وہ *پورہ معروف* کے نام سے جانا جاتا ہے۔

 

*مکتب کی تعلیم*

 

مکتب کی تعلیم پوری کی پوری مدرسہ اشاعت العلوم پورہ معروف میں ہوئی۔ یہ ادارہ جن نیک نفوس کی قربانیوں کے طفیل میں معرضِ وجود میں آیا، ان میں ممدوح کے گرامی مرتبت والد بھی پیش پیش رہے۔ یہ اس قصبے کا بڑا مدرسہ ہے۔ سراج المحدثین کا تعلیمی سفر والد صاحب کے زیرِ سایہ اسی ادارے سے شروع ہوا۔

 

*عربی درجات کی تعلیم*

 

پورہ معروف میں اس زمانے میں حفظ کی تعلیم کا رواج نہ تھا، خال خال ہی کوئی حافظ ہوتا۔ ممدوح گرامی بھی حافظ نہ ہو سکے۔ مکتبی تعلیم سے فراغت کے بعد اسی ادارے میں سیدھے عربی تعلیم شروع کی۔ سلم العلوم تک یہیں پڑھا۔

 

*دارالعلوم دیوبند میں*

 

مدرسہ اشاعت العلوم میں اس وقت سلم العلوم کی جماعت تک کا ہی نظم تھا۔ ضرورت تھی کسی بڑے ادارے کی طرف رخ کرنے کی۔ برادرِ بزرگ حضرت مولانا امانت اللہ معروفیؒ دارالعلوم دیوبند سے فارغ تھے۔ بھائی کے نقشِ قدم پر وہ بھی دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے۔ اس وقت جماعت بندی نہیں تھی۔ طلبہ اپنے ذوق سے کتابوں کا انتخاب کرتے تھے۔ انہوں نے جلالین شریف کی جماعت میں داخلہ لیا۔ یہ تقسیمِ ہند کا قریبی زمانہ تھا۔ تحریکِ آزادی کے اثرات ہنوز قائم تھے۔ اِدھر کے لوگ دھڑا دھڑ ادھر جا رہے تھے۔ انہیں میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ بھی تھے۔ نئی نویلی ریاست پاکستان کو وہ بھی جا لیے۔ ان کی غیر موجودگی میں دارالعلوم کی پوری ذمے داری شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ نبھا رہے تھے۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ حکیم الاسلام واپس تشریف لے آئیں۔ پنڈت نہرو نے ساری کارروائی کے بعد ہندوستان بلالیا۔ سراج المحدثین فرماتے ہیں کہ حکیم الاسلامؒ سے پیش تر مشہور مؤرخ علامہ سید سلیمان ندویؒ بھی پاکستانی بن چکے تھے۔ ان کا یہ اقدام مولانا آزاد کے لیے بے حد دل شکن تھا۔ آزادی سے قبل کلکتہ سے اخبار *الہلال* نکلتا تھا، اس کے کالم نویسوں میں علامہ ندویؒ بھی تھے۔ وہ پاکستان گئے تو آزاد صاحب سیخ پا ہو گئے۔ پھر قاری صاحب نے بھی مملکتِ خدا داد کو کوچ کیا تو مولانا کا مزاجی پارہ ایسا فلک بوس ہوا کہ انہوں نے دارالعلوم دیوبند سے ہی قطعِ تعلق کر لیا۔ ان کا اشتعال اس وقت شبنمی سانچے میں ڈھلا، جب قاری صاحب کی دیوبند واپسی عمل میں آئی۔

 

*قاری صاحب کی واپسی کا منظر*

 

سراج المحدثین کہتے ہیں کہ جب قاری صاحب پاکستان سے دوبارہ ہندوستان تشریف لائے تو دیوبند میں جوش و خروش فلک الافلاک پر تھا۔ استاذ ہو یا طالب علم، سب کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ دیوبند کے ریلوے اسٹیشن سے دارالعلوم تک طلبہ استقبال میں فرشِ راہ تھے۔ حضرتِ مدنی بنفسِ نفیس انہیں لینے کے لیے اسٹیشن پہونچے۔ عجیب پرکیف منظر تھا۔ دارالعلوم پہونچے تو دارالحدیث میں تقریب تھی، شیخ الاسلام نے اس تاریخی موقع پر کہا تھا:

 

اے تماشا گاہِ عالم روئے تو

تو کجا بہرِ تماشا می روی

 

قاری صاحب نے اپنی تقریر میں کہا: حضرت مدنی نے جن خیالات کا میرے لیے اظہار کیا ہے وہ اپنے قلم سے لکھ دیں کہ قیامت کے دن بھی انہیں دہرا دوں گا تاکہ وہاں کے معاملات میرے لیے سہل ہو جائیں۔

 

*سالانہ امتحان کا نتیجہ*

 

حضور سراج المحدثین نے اپنی طالب علمی اس شان سے گزاری کہ گزرتے وقت کے ساتھ اپنے مشن میں پختہ تر ہوتے چلے گئے۔ مطالعہ، مذاکرہ، اعادۂ آموختہ ان کا امتیازی وصف تھا۔ علم کی جوع البقر نے انہیں اپنے عہد کے ممتاز ترین طلبہ میں رکھا۔ بس ایک کمی تھی کہ خط اچھا نہ تھا۔ دارالعلوم میں حسنِ خط پر اضافی نمبرات ملتے ہیں، یہی کمی سالانہ امتحانات میں انہیں زک پہونچاتی رہی، تاہم شش ماہی امتحانات میں پوزیشن آتی رہی۔ بخاری شریف حضرت شیخ الاسلامؒ سے پڑھی۔ سنِ فراغت 1373 ہجری ہے۔ نامور رفقائے درس میں فخرالمحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیریؒ بھی ہیں۔

 

بڑے اداروں کے حقیقی طالب علم اور نام نہاد طالب علم میں جہاں اور بہت سے فروق ہیں، وہیں یہ بھی ہے کہ حقیقی طالب علم حلقۂ احباب نہیں بناتا۔ اساتذہ کے پاس آمد و رفت نہیں رکھتا، کیوں کہ اس سے تعلیمی سفر سست رو ہو جاتا ہے۔ ایسے طلبہ ترقئ معکوس کر کے طبلہ ہو جاتے ہیں۔ حضور سراج المحدثین نے بھی اسی طریق کو اپنایا۔ شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا، سب کے رفیق رہے۔ کسی استاذ سے کوئی خاص رابطہ نہیں رہا۔ برائے نام تعلق رہا بھی، تو حضرت شیخ الادب سے۔

 

علم کی بھوک نے فراغت کے بعد بھی ان کے قدم آزاد نہیں کیے۔ دورے کے بعد انہوں نے ایک سال فنون کی تکمیل میں بھی لگایا۔

 

*مجالاتِ تدریس میں*

 

تکمیلِ فنون کے بعد ہی مسندِ تدریس سنبھال لی۔ شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ نے مدرسہ حسینیہ تاؤلی بھیج دیا، وہ وہیں لگ گئے اور کئی سال وہاں رہے۔ وہاں دل نہیں لگا تو کئی اور مدارس میں اپنی خدمات پیش کیں۔ اخیر میں مدرسہ مظہرالعلوم بنارس کو اپنی نئی علمی جولان گاہ بنا لیا۔ پھر برسوں وہیں رہے۔ جم کر پڑھایا۔ ابتدائی کتابوں سے لے کر نہائی کتابوں تک۔ تا آں کہ 1981 آ گیا۔ دارالعلوم نئی قیامتوں سے گزرا۔ تقسیم کا سانحہ پیش آیا۔ شیخ الادب حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ دارالعلوم کے چندے کے لیے بنارس پہونچے۔ دارالعلوم کی تدریس کے لیے انہوں نے ہی ہیش کش کی۔ جسے سراج المحدثین نے بے تکلف قبول کر لی، 1982 میں دارالعلوم تشریف لائے اور علیا میں تقرر ہوا۔

 

دارالعلوم کی تدریس ان کے لیے زینۂ ارتقا بن گئی۔ ان کے کمال کو پر لگ گئے۔ علم تو پہلے ہی سے پختہ تھا۔ کتب بینی کا ذوق پیش تر سے ہی بالیدہ تھا۔ تدریس بھی کافی کچھ نکھر چکی تھی۔ دارالعلوم کی فضا نے اسے اور تاب دار بنا دیا۔ درمیانی جماعت کی کتابوں سے لے کر دورۂ حدیث کی کتابیں بھی ان کے ذمے میں آئیں۔ نچلی جماعتوں کی سب سے پہلی کتاب میبذی ہے اور دورۂ حدیث کی مؤطا امام مالک۔ اب وہ کم و بیش 35 برسوں سے دورۂ حدیث کے اہم ترین استاذ ہیں۔ علمی گیرائی و گہرائی میں لاریب یکہ و یگانہ۔ درس اتنا اعلیٰ کہ علم کے رسیا طلبہ انہیں اٹھنے نہ دیں۔ تہ داری حیرت انگیز۔ استحضار بلا کا۔ تقریر کے دوران آناً فاناً تحقیقات کے بحر الکاہل میں اتر جاتے ہیں اور طالبانِ علوم کے دامن کو لؤلؤ و مرجان سے بھر دیتے ہیں۔ عیسائیت اور یہودیت پر بھی ان کی دقیق نظر ہے۔ علوم و فنون کی اسی غواصی نے انہیں بحرالعلوم کہلوایا۔ اس وقت وہ بلا شبہہ ایشیائی محدثین کے سروں کا تاج ہیں۔

 

*طحاوی شریف سے بے اعتنائی پر اظہارِ افسردگی*

 

حضور سراج المحدثین حنفی ہی نہیں، متصلب حنفی ہیں، امامِ ابوحنیفہ پر ارجاء کی تہمت کے نام سے ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھا ہے، مگر احناف سے وہ بہت نالاں بھی رہتے ہیں۔ سببِ نالش بس یہی ہے کہ طحاوی شریف کو وہ مقام کیوں نہ دیا گیا، جس کی وہ حق دار تھی۔ اسے یوں ہی سرسری گزار دیا جاتا ہے، حالانکہ ابوداؤد شریف احادیثِ صحیحین کی شمولیت کے اعتبار سے طحاوی شریف سے فروتر ہے، مگر ابوداؤد پر احناف کی جو فدائیت ہے، طحاوی کے سلسلے میں کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ جب احناف ہی اس کی ان دیکھی کریں گے تو اسے اور کون پوچھے گا!!

 

طحاوی شریف سے انہیں اس درجہ پیار ہے کہ باقاعدہ انہوں نے اس پر وقیع کام کیے۔ اس کی تحقیق و تعلیق کی۔ تقریب معانی الآثار پانچ جلدوں میں انہیں کاوشوں پر مشتمل ہے۔

 

*بانئ تخصص فی الحدیث*

 

حدیث اور علمِ حدیث میں ان کی سلطانی کا ہی فیض ہے کہ دارالعلوم میں تخصص فی الحدیث کا درجہ انہیں کے طفیل جاری ہوا۔ اس کے بانی بھی آپ ہیں اور روحِ رواں بھی وہی۔ اس درجے میں داخلہ فراغت کے بعد ملتا ہے، اس کے لیے شرائط بھی کڑی ہیں۔ ان شرطوں پر اترنا کوہِ بے ستوں عبور کرنا ہے۔ یہ دارالعلوم کا نہایت اہم درجہ ہے۔

 

*بڑے بھائی کا ذکرِ خیر*

 

وہ اپنے بڑے بھائی کے بڑے مداح ہیں۔ یہ حضرت مولانا امانت اللہ صاحبؒ ہیں۔ نہایت گہرے عالم۔ والد صاحبؒ کی وفات کے بعد والد کی جگہ انہوں نے ہی لی۔ جب تک وہ حیات رہے، سارا مشورہ انہیں سے۔ ان کی ایک ایک بات کو گرہ سے باندھے ہوئے۔ بھائی سے محبت تقاضائے فطرت ہے۔ یہاں تو اخوت کی ہمہ گیری کے ساتھ ان کی قبلہ نمائی بھی ہاتھ لگ گئی۔ سراج المحدثین آج جس مقام پر ہیں، اس کا سہرا بڑے بھائی کے سر سجتا ہے۔

 

*مطالعہ اور صرف مطالعہ*

 

اس وقت وہ کم و بیش نوے کے دہے میں چل رہے ہیں، لیکن ان کا مطالعاتی ذوق ہنوز روزِ اول۔ خوب پڑھتے ہیں۔ کتب خانۂ دارالعلوم کی کوئی بھی کتاب ان کی ورق گردانی سے نہ بچ سکی۔ کسی کے پاس کتابوں کا ذخیرہ ہے اور اس کے یہاں ان کی آمد و رفت ہے تو وہاں بھی یہی وظیفہ۔ کتاب ملی اور وہیں لپٹ گئے۔ بیٹھنا مشکل ہوا تو لیٹ گئے، مگر کتاب نہیں چھوڑی۔ اگر انہیں کرمِ کتابی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ وہ اس حوالے سے بھی ضرب المثل بن چکے ہیں۔

 

*مناصب سے لاتعلقی*

 

حضور سراج المحدثین اور مناصب دریا کے دو کنارے ہیں جو کبھی ہم بغل نہیں ہو سکتے، چناں چہ کبھی بھی انہوں نے کلیدی مناصب قبول نہیں کیے۔ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کی وفات کے بعد صدارتِ تدریس اور شیخ الحدیثی کے لیے انہیں کا نام تجویز ہوا، لیکن بڑے بھائی کی نصیحت نے انہیں قبول کرنے نہیں دیا۔ ایک ملاقات میں میں نے عرض کیا کہ حضرت! یہ تو کوئی ایسا شرعی مسئلہ نہیں تھا کہ بھائی کی نصیحت کو سدِ راہ بناتے، کہنے لگے کہ ان سے کیا ہوا وعدہ میں توڑنا نہیں چاہتا تھا۔

 

*احقاقِ حق و ابطالِ باطل*

 

حضرت الاستاذ ایک مدرس ہونے کے ساتھ ایک داعی اور مصلح بھی ہیں۔ وہ علمائے دیوبند کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے یہاں باطل پر سکوت کا کوئی خانہ نہیں ہوتا۔ حق کے خلاف کوئی آواز اٹھے، فوراً اس کی دم پر پاؤں رکھ دیتے ہیں۔ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل میں میں نے انہیں چاق و چوبند پایا ہے۔ خوب گرجتے برستے ہیں۔ اگر اپنی ہی جماعت کے کسی بندے سے چوک ہوئی تو وہ اولاً نرمی سے افہام و تفہیم کو اپناتے ہیں، اگر یہ کارگر نہ ہوا تو تحریر بھی لکھ جاتے ہیں۔ حدیثِ جساسہ ایسے ہی ایک موقع کی تیار کردہ تصنیف ہے۔

 

*تصنیفات و تالیفات*

 

حضورِ والا کا شمار ادیبوں میں نہیں، خالص محدثین میں ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے قلم میں ادیبوں جیسی شگفتگی اور روانی گرچہ نہیں ہوتی، مگر علمی زور اور محدثانہ تلاطم جوبن پر ہوتا ہے۔ ان کی کتابیں دیکھیے، آنکھیں چار ہو جائیں گی۔ ایک کتاب *نعمۃ المنعم* کے نام سے دو حصوں میں ہے۔ پہلا حصہ مسلم شریف کے مقدمہ کی زور دار شرح اور دوسرا مسلم جلد ثانی کی کتاب البیوع وغیرہ سے متعلق۔ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کے *دروسِ بخاری* بھی انہوں نے مرتب کیے جو اہلِ علم و تحقیق کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ ایک رسالہ *حدیثِ جساسہ* کے عنوان سے ہے، حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالن پوریؒ نے اپنی کتاب *تحفۃ الالمعی* میں حدیثِ جساسہ کی نفی کی تھی، اسی کے رد میں یہ تصنیف منظرِ عام پر آئی۔ ایک تازہ رسالہ *اللہ پر ایمان کیا ہے؟* کے نام سے طبع ہوا ہے، جس نے توحید کے عقائد کو پوری طرح الم نشرح کر دیا ہے۔ رہی بات *تقریب معانی الآثار* کی، تو اس پر تبصرہ پچھلی سطور میں ہو چکا۔

 

*ترجمۂ قرآن*

 

سراج المحدثین نے محدثانہ عظمتوں کے پھریرے اڑانے کے بعد اب ایک نیا کام پیش کیا ہے۔ یہ ایسا کام ہے کہ اہلِ علم خوشی سے بلیوں اچھل رہے ہیں۔ یہ کام ہے جدید ترجمۂ قرآن۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اس دور میں ترجمۂ قرآن کثرت سے آ چکے ہیں اور ہر حلقے نے اس پر خوب توجہ دی ہے۔ خود علمائے دیوبند کی طرف سے بھی کئی ترجمے چھپ چکے ہیں۔ حضور سراج المحدثین کو اس کا ہمیشہ احساس رہا کہ جلالین کے طرز پر اردو میں کوئی جدید ترجمہ شائع ہو۔ حضرت تھانویؒ کا ترجمہ اپنی زبان و بیان کے لحاظ سے اب سہل الالتقاط نہیں رہا۔ قدیم اردو، پچھلی تعبیرات اردو کے کرونائی دور میں ناقابلِ فہم ہو چکی ہیں۔ اسی لیے انہوں نے قلم اٹھایا، پہلے تو سورۂ قاف سے سورۂ ناس تک کا ترجمہ لکھا، اس کے بعد سورۂ فاتحہ سے مابقی کی تکمیل کی۔ یہ عظیم علمی شاہ کار لاک ڈاؤن کے زمانے میں وجود میں آیا ہے۔ اسی تکمیل کی خوشی میں دارالعلوم کے مہمان خانے میں ایک شان دار تقریب رکھی، جس میں دیوبند کی متعدد علمی شخصیات نے شرکت کی۔ بلاشبہ یہ سراج المحدثین کا بڑا کارنامہ ہے۔

 

حضرت الاستاذ میں وفورِ علم کے ساتھ تواضع بھی بھرپور ہے۔ اب علم اور تواضع کا اجتماع کم و بیش محال ہو چکا ہے۔ اللہ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ عمرِ خضر عطا فرمائے، کیوں کہ ان کا وجود سراپا غنیمت اور مجسم نعمت ہے۔

Comments are closed.