غیرمسلموں کی ارتھی اٹھانا اوران کی چتاؤں کو جلاناگناہ ہے

کتبہ:(مفتی)محمد اشرف قاسمی،
خادم الافتاء:شہرمہدپور، اُجین، ایم پی
کیافرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام درج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ۔
اس وقت کووڈ19کی وجہ سے بکثرت اموات ہورہی ہیں۔ لوگ میتوں کی تدفین سے گھبرارہے ہیں،خاص طور پرغیرمسلموں کی میتوں کو اٹھانے اور پھرانھیں جلانے کی کارروائی کے سلسلے میں اُن کے اعزاء واقرباء دوربھاگ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کچھ مسلمان آگے آکر ان کی ارتھی کوکندھا دیتے اور ان کے مذہبی دستور کے مطابق ان کی چتاؤں کو آگ لگاتے ہیں، اورمرنے والے غیرمسلموں کے گھروالوں کے لیے کھانے کا انتظام اوران کی دل بستگی ودلداری کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ:غیرمسلموں کی موت پر ان کے گھر والوں کے لیے کھانے وغیرہ کا انتظام کرنا، اوران کی تعزیت کرناجا ئز ہے یا نہیں؟
نیزغیرمسلموں کی میتوں کوکاندھا دینا اور ان کے مذہب کے مطابق ان کو چتاؤں میں جلانے کا کیا حکم ہے۔؟
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ انسانیت اورہمدردی کی بات ہے، اس سے غیر مسلموں کے اندراسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے ہمدردی پیدا ہوگی۔ یہ سوچناکہاں تک صحیح ہے؟
عبداللہ، بھوپال، ایم پی۔
الجواب حامداومصلیا ومسلما امابعد
غیرمسلم کے یہاں کسی کی موت ہوجائے تو اس کے اہلِ خانہ کی تعزیت جائز ہے۔
اورغیر مسلم میت کے گھر والوں کے لیے کھانے وغیرہ کا انتظام کرنا بھی جائز ہے۔(1)
لیکن غیرمسلم میت کو کاندھا لگانا،اس کی ارتھی اٹھا اوراس کی چتا کو آگ لگانا کسی مسلمان کے لیے ہرگزجائز نہیں ہے۔(2)
مفتی کفایت اللہ صاحب ؒفرما تے ہیں کہ:
"غیرمسلموں کی تجہیز وتکفین اورجنازہ کے ساتھ چلنے اور اُس کے جلانے میں شرکت کرنے یا اِس سلسلہ میں اُس کا مالی تعاون کرنے کی شرعاً اِجازت نہیں ہے، اِس لیے کہ یہ چیزیں اُن کے مذہبی شعائر میں داخل ہیں، اگرکوئی مسلمان اس میں شرکت کرے تو وہ سخت گناہ گارہوگا،جس کے لیے اس پرتوبہ و استغفارضروری ہوگا. (3)
اللہ تعالی نے قرآن مجید سورہ توبہ آیت 84میں حضرت رسول اللہ ﷺکو غیر مسلموں کی میتوں کے لیے دعا اور ان کی تدفین سے منع فرمایاہے۔ (4)
علامہ الوسی بغدادی لکھتے ہیں اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی حکم فرماتے ہیں کہ کفارکی میتوں کے پاس دعا کے لیے آپ صلی الله عليه وسلم نہ کھڑے ہوں اور نہ ہی ان کی تدفین کے لیے توجہ فرمائیں۔ (5)
انسانی جسموں کو انسانوں کے ذریعہ چتاؤں میں جلانا انسانیت نہیں بلکہ انسانیت کی توہین اور معصیت ہے، معصیت میں کسی بھی طرح شمولیت گناہ ہے۔(6)
جہاں تک غیر مسلم ارتھیوں کو کاندھا دے کریا ان کی چتاؤں کو جلاکر غیر مسلموں کی ہمدرد حاصل کرنے کی بات ہے، یہ سراسر غلط ہے۔ جوناسمجھ مسلمان غیر مسلموں کی ارتھیوں کو کاندھا دیتے اور ان کی چتاؤں کو جلاتے ہیں اُن مسلمانوں کوچور،اور انتہائی ذلیل غلام سمجھاجاتا ہے۔ غیرمسلموں کی ایسی متعدد پوسٹیں نظر سے گذری ہیں کہ عبدُل نے فلاں غیر مسلم کی چتاکو آگ لگائی ہے،لیکن میت کے ہاتھ میں موجود سونے کی انگوٹھی بھی عبدُل نے چرا لی،مسلمان چوری کے لیے چتاؤں کوآگ لگاتے ہیں ۔
یعنی چتاؤں کو آگ لگانے والے مسلمان اپنے متاع ایمان کا تو سودا کرتے ہی ہیں، ذلیل چوری اور رسواترین غلامی کا قلادہ بھی وہ اپنے گلے میں ڈالتے ہیں۔
ہزاروں سال سے ظلم کی چکی میں پسنے والی چمارقوم غالب اورحکمران طبقے کوخوش کرنے کے لیے شہروں سے باہرندی نالوں کے کنارے انتہائی عسرت وافلاس کی زندگی گذاررہی ہے۔اورظالم وحکمران طبقے کی خوشنودی کے لیے مردہ جانوروں کو شہرسے اٹھا کرلاتی، اس کی کھال نکالتی اورمُردوں کا گوشت کھاتی رہی ہے۔ تو کیاغالب ومستولی طبقہ نے بےچارے چماروں کے مذہب کوقبول کرلیا؟ یاچماروں کےتعلق سے اُن خوش پوشاکوں کے دل میں ہمدردی ومحبت کی روشنی پیداہوئی؟ہرگز نہیں!
یہی حال غیرمسلموں کی ارتھی کو کاندھا دینے اوران کی چتاؤں کوجلانے والے مسلمانوں کا ہوگا۔ یہ نہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے ۔العیاذباللہ
(1)ویجوزعیادۃ الذمي، کذا في التبیین۔(الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ/الباب الرابع عشرج 5ص348)
وفی النوادر:جاریھودی او مجوسی مات ابن لہ اوقریب ینبغی ان یعزیہ ویقول ‘اخلف اللہ علیک خیرا منہ واصلحک (ردالمحتارمع الدرالمختارج9ص 556زکریا)
ویستحب لجیران اھل المیت والاقرباء الاباعد تھئیۃ طعام لھم یشبعھم یومھم ولیلتھم۔ (رد المحتار مع الدرالمختار ج 3ص 148زکریا)
(2)عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من کثر سواد قوم فہومنہم، ومن رضي عمل قوم کان شریکًا في عملہ۔ (کنز العمال/کتاب الصحبۃ من قسم الأقوال2، 11 رقم: 24730
(3)مستفاد ازکفایت المفتی:ج 4ص203، فتاویٰ رحیمیۃ ج8 ص 180،فتاویٰ محمودیہ ج 14ص292، احسن الفتاوی ج 4ص232)
(4)
قال تعالی: ولاتصل علی احدمنھم مات ابدا، ولاتقم علی قبرہ۔ (التوبۃ آیت 84)
(5) فی روح المعانی :قولولہ
ولاتقم علی قبرہ؛ ای لاتقف علیہ ولا تتول دفنہ، (روح المعانی ج 6ص 225/)
(6) ولاتعاونواعلی الاثم والعدوان، (المائدہ آیت 2)
قال ابن کثیرتحت ھذہ الآیۃ: یأمر تعالی عبادۃ المؤمنین بالمعاونۃ علی فعل الخیرات، وھو البر وترک المنکرات، وھوالتقوی، وینھاھم عن التناصر علی الباطل والتعاون علی المآثم والمحارم (تفسیر ابن کثیر، ج2 ص10) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ:
(مفتی)محمد اشرف قاسمی،
خادم الافتاء:شہرمہدپور، اُجین، ایم پی۔
تصدیق :
(مفتی)محمد سلمان ناگوری۔
ناقل: محمد فیضان خان مہدپور
Comments are closed.