عیدالفطرکاپیغام امت مسلمہ کےنام

ازقلم: مفتی صدیق احمدبن مفتی شفیق الرحمن قاسمی
موبائل نمبر:8000109710
عیدمسلمانوں کاایک مذہبی خوشی کادن ہے؛ جس طرح دیگرقومیں پورےسال میں کسی نہ کسی موقعےسے خوشیاں مناتی رہتی ہیں،اسی طرح مسلمانوں کوبھی رب ذوالجلال نےیہ خوشی کاموقع عطافرمایا،تاکہ وہ بھی اس دن عمدہ لباس زیبِ تن کرکےخوشیاں منائیں،اورخوشی خوشی دورکعت عیدکی نمازاداکریں؛عیدکادن درحقیقت انعام کادن ہے،عمومی طورپرسب کےلیےاورخصوصی طورپراُن حضرات کےحق میں جنہوں نےرمضان المبارک کےماہ کوصحیح طورپراصول وضوابط کی رعایت کےساتھ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں گزارا،اوراس ماہ کےاک اک لمحے کی قدرکرکے،اپنےتمام اوقات کوعبادت وریاضت میں مشغول رکھا،رضائے الٰہی کےلیے دن بھرروزے رکھےاورراتوں کوقیام کیا،تہجدکی پابندی کی،اورتلاوت کلام پاک کا اہتمام کیا،ان ہی تمام عبادتوں اور ریاضتوں کابدلہ دینےکےلیےاللہ تبارک وتعالی نےعیدکی رات ودن کومنتخب فرمایا،اورعیدکےدن کوخوشی کادن قراردیاـ۔
عِیددراصل عَادَ/یَعُوْدُ سےمشتق ہے،جس کےمعنی لوٹنے کےہیں،اوریہ چونکہ ہرسال لوٹ کرآتاہے، اس لیے اس کو عید کہتے ہیں،اورفطرکےمعنی روزہ توڑنےیاختم کرنےکےہیں؛ چونکہ روزوں کاسلسلہ اب ختم ہوجائےگا،اس لیے اسےعیدالفطرکےنام سےیادکیاجاتاہےـ۔
یوں توعیدکاآغاز624عیسوی سےہی ہوچکاتھا؛لیکن مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اس وقت شروع ہوئ، جب حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ طیبہ آگئے،عیدالفطراورعیدالاضحی کابھی سلسلہ اُسی وقت سےشروع ہواـ۔
دلیل:ابوداؤدشریف کی روایت میں ہے:حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سےمروی ہے فرماتے ہیں کہ: حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت سےقبل اہل مدینہ دوعیدیں مناتے تھے،جس میں لہوولعب کرتے، ان سےپوچھاگیاکہ اس کی حقیقت کیاہے؟انہوں نےجواب دیا،زمانۂ جاہلیت سےہم اس طرح دوتہوارمناتے چلےآرہے ہیں،حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ اللہ تبارک وتعالی نےاس سےبہتردودن تمہیں عطاکیےہیں،عیدالفطراورعیدالاضحی ـ۔(الحدیث)
مزیددوتین باتیں قابل ذکرہیں، جن میں امت کی ایک بڑی تعدادغفلت برت رہی ہے،حالاں کہ اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہےـ۔
عیدالفطرکی رات کی فضیلت: عیدالفطرکی رات عام طورسےغفلت ولاپرواہی، لہوولعب اورشوروشغب میں گزرجاتی ہے؛حالاںکہ عیدکی رات کولیلۃالجائزہ اورعیدکےدن کویوم الجائزہ قراردیاگیاہے؛اسی وجہ سےعلماء کرام نےپوری رات عبادت کرنےاورنفلیں پڑھنےکومستحب قراردیاہےـ اس رات میں عبادت کےبےشمارفضائل ہیں۔اس رات عبادت کرنے والے کا دل قیامت کے دن مُردہ نہیں ہوگا ، عبادت کرنے والے کے لیے جنت واجب ہوجائےگی ،چاند رات میں کی جانے والی دعاء رد نہیں ہوتی ہےـ۔
علماءنےتویہاں تک فرمایاہےکہ:اس شخص کادل دنیاکی محبت میں دیوانہ نہ ہوگا،جوحقیقت میں دلوں کی موت ہے،اوریہ شخص بری موت سےمحفوظ رہےگاـ۔
نیزحضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ میری امت کوپانچ چیزیں دی گئ جوپچھلی امتوں کونہیں ملی ہیں،جن میں سےایک یہ ہےکہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کردی جاتی ہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نےعرض کیا،یارسول اللہ! شب مغفرت شب قدر تونہیں؟آپ نےفرمایانہیں، بلکہ دستورہےکہ مزدورکاکام ختم ہوتے ہی اسےمزدوری دیدی جاتی ہےـ (مسنداحمد)
غرباء کی امداد:ملک میں جس طرح کی افراتفری کی صورتحال ہےغربت،فقروفاقہ اورتنگدستی نےنہ جانےکتنےگھروں پردستک دیدی ہے،بھوک پیاس کی شدت اورظلم وتشددکی کثرت نےنہ معلوم کتنےگھروں کواجاڑکررکھدیاہے؛وبا،اسپتال کی لاپرواہی اورحکومت کی غفلت و ناکامی کی وجہ سےکتنے لوگوں نےدم توڑیاہے؛اس لیےایسے سنگین ترین حالات میں ہمیں دیگرعیدکےمقابلےمیں قدرےقربانی دینی ہوگی،خرچ کوکم کرکےمحتاجوں،ضرورتمندوں،فقراء، غرباء اورمساکین کاخیال رکھنااورانکو خاطرخواہ امدادفراہم کرنااہم فریضہ اوروقت کی ضرورت ہے؛نیزایسےمتوسط درجےکےلوگوں کی مددکرنی ہوگی، جن کوفقروفاقہ نےآدبوچاہواورایسےمالداروں کی بھی مددکرنی ہوگی جن کےمال ودولت موجودہ حالات میں کسی وجہ سےکچھ بھی کام نہیں آرہے ہیں ـ۔
ہم میں سے ہرایک کوچاہیےکہ ان دونوں کاموں کواپنااپناواجبی فریضہ سمجھ کرانجام دیں؛ تاکہ ایک طرف ہم انعامِ خداوندی سےلطف اندوزہوسکیں تودوسری طرف ہمارےساتھ ہمارےدیگرمسلمان بھائ بھی عیدکی خوشی سےمحظوظ ہوسکیں، اورانکےچہرےپرمایوسی، غم اورفقروفاقہ، غیض وغضب کاشکن نہ دکھائ دے؛ اخوّت ومحبت بھی پروان چڑھےـ۔
احادیث مبارکہ سےمعلوم ہوتاہےکہ: حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم غرباء،فقراء اورمساکین کابےحدخیال رکھتے تھےـ ۔نیزحضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ میں نے جنت میں جھانکا،میں نےاس میں اکثرفقراء کودیکھاـ (بخاری)
مزیدبرآں اِس وقت قفراء کےامدادکی ضرورت اوربھی زیادہ بڑھ جاتی ہے،چونکہ عیسائ مشنری مستقل کام کررہی ہے،جس کامقصدضرورت مندلوگوں کی ضرورت پوری کرکےاس کاناجائزفائدہ اٹھانااورعیسائیت کی تبلیغ کرناہے،وہ لوگ پسِ پردہ مال ودولت کی لالچ دےکر،علاج ومعالجہ کی سہولت فراہم کرکےارتدادکی دعوت دیتے ہیں اورکمزورعقائدکےلوگ ایسےوقت میں آسانی سے پھسل جاتے ہیں ـ ۔الامان والحفیظ ـ۔
اس لیےہمیں باطل کےہتھکنڈوں کوسمجھ کران کی شاطرانہ چالوں کوناکام بناناہوگا،اورضرورت مندحضرات کی حسب استطاعت خاطرخواہ مددکرنی ہوگی، تاکہ وہ اہل باطل کےچنگل میں پھنسنےسے بھی بچ جائیں اور خوشی کےموقعے پران کےچہرےبھی خوش وخرم نظرآئیں ـ۔
صدقۃ الفطر:عید کی نماز کےلیے گھر سے نکلنے سے قبل ہی صدقۃ الفطر اداکرنا مستحب ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوں کو فضول و لایعنی اور فحش باتوں کے اثرات سے پاک صاف کرنے کے لیے اور مسکینوں محتاجوں کے کھانے کا بندوبست کرنے کے لیے صدقۂ فطر واجب قرار دیا ۔
نصاب:جو مسلمان اتنا مال دار ہے کہ اس پر زکاۃ واجب ہے یا اس پر زکاۃ واجب نہیں، لیکن قرض اور ضروری اسباب اور استعمال کی اشیاء سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں عید الفطر کی صبح صادق کے وقت موجود ہے، جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہوـ۔
مقدار:گیہوں اورآٹاسے ایک کیلو 633 گرام ـیااسکی موجودہ قیمت۔ جَو،کھجور،کشمش اورچھوہارہ سےتین کیلو266 گرام یااسکی موجودہ قیمت۔
عیدکےدن کی فضیلت:شیخ زکریارحمۃ اللہ علیہ نےفضائل اعمال میں الترغیب والترہیب کےحوالے سےاوربعض حضرات نے کنزالعمال اورمشکوۃکےحوالےسے ایک روایت بیان کی ہے کہ: جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالٰی شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیج دیتے ہیں، وہ زمین پر آکر تمام گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جسے انسانوں اور جنات کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، اعلان کرتے ہیں:
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت! اس کریم رب کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف کرنے والا ہے۔
پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف جاتے ہیں تو حق تعالٰی شانہ فرشتوں سے پوچھتے ہیں:
اُس مزدور کی کیا اجرت ہونی چاہیے جو اپنا کام پورا کر چکا ہے۔
وہ عرض کرتے ہیں:اس کی اجرت یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے۔تب اللہ تعالی فرماتے ہیں : "اے فرشتوں! گواہ رہو، میں نے رمضان کے روزوں اور نماز تراویح کے بدلے انھیں اپنی رضا اور مغفرت عطاکردی۔
پھر اللہ پاک بندوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں:اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت اور جلال کی قسم آج کے دن اس اجتماع میں تم مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو مانگوگے میں عطا کروں گا ۔اور دنیا کے بارے میں جو مانگو گے اس میں تمھاری مصلحت دیکھتے ہوئے عنایت کروں گا۔میری عزت و جلال کی قسم میں تمھیں مجرموں (اور کافروں) کے سامنے بے عزت اور رسوا نہیں کروں گا۔ بس اب تم بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔ فرشتے بھی اس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو عید الفطر کے دن ملتا ہے، مسرور ہوتے ہیں۔{مشکوۃ، کنزالعمال، باب عید الفطر}
معلوم ہواکہ عیدکی رات کی قدرکرنااورعیدکےدن کوبھی شرعی اصول وضوابط کےمطابق گزارناازحدضروری ہے؛ تاکہ ہم دونوں کےثواب کوپاسکیں ـ۔
ایک غلط فہمی کاازالہ:اخیرمیں ایک اہم بات پیش کرنامناسب سمجھتاہوں کہ: آج کل عمومی طورپر ہرایک شخص کےرشتہ داروں میں سےکسی نہ کسی کےگھرمیت ہوئ ہے،بہت سوں نےاپنےعزیزترین رشتہ داروں کوکھودیا،واقعی بڑاہی مشکل وقت ہے؛ لیکن شریعت نےہرایک چیزکاایک اصول مقررکیاہے،جس کےدائرےمیں رہ کرہمیں اپنےزندگی کےلمحات کوگزارناہے،خوشی کاموقع ہویاغمی کا،ہرایک کی حدمقررہے؛لہٰذارسم ورواج کےبہاؤمیں آکرہمیں شریعت کادامن نہیں چھوڑناہے، بلکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہی روزمرّہ کی زندگی گزارنی ہےـ۔اس کےلیےہمیں اس رسم کوچھوڑناہوگاـ۔
یہ جوایک رسم چل پڑی ہےکہ کسی کےگھرپرمیت ہوجائےتواس سال کی پہلی عیداوربقرعید پراہل خانہ نئے کپڑےنہیں پہنتے اورخوشی نہیں مناتے ہیں،بلکہ غم میں ڈوبےرہتےہیں،اچھاکھانانہیں بناتے،کسی کےگھرنہیں جاتے ہیں؛ اورستم بالائےستم تویہ ہےکہ اس کےخلاف کرنے کومعیوب سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ سب غیرشرعی رسومات ہیں،شریعت میں اس کی کوئ حیثیت نہیں ہے،یہ غیروں کاطریقہ ہےاسلامی طریقہ نہیں ہے،لہٰذایہ قابل ترک ہےـ ۔(فتاوی رحیمیہ ج۹/ص۱۰۱)
عیدکےدن کےمسنون اعمال: عید کے دن غسل کرنا، مسواک کرنا، حسب استطاعت اچھے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، صبح ہونے کے بعد عید کی نماز سے پہلے کھجور یا کوئی میٹھی چیز کھانا، عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا، ایک راستہ سے عیدگاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا، نماز کے لیےجاتے ہوئے تکبیر کہنا اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر،لَا اِلہَ اِلَّا اللّٰہ، وَاللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر، وَلِلّٰہِ الْحَمْد۔
عید الفطر کے دن دو رکعت شکرانہ کےطورپر جماعت کے ساتھ ا دا کرنا واجب ہے۔جس کا وقت طلوع آفتاب کے بعد سے شروع ہوجاتاہے، جو زوال آفتاب کے وقت تک رہتاہے، مگر زیادہ تاخیر کرنا مناسب نہیں ہے۔ عید کی نماز میں 6 زائد تکبیریں ہیں۔ یادرہے! نمازجمعہ کے لیےجو شرائط ہیں وہی عیدین کی نماز کے لئے بھی ہیں۔
عیدکی نمازکاطریقہ:سب سے پہلے نماز کی نیت کریں۔ نیت اصل میں دل کے ارادہ کا نام ہے، زبان سے بھی کہہ لیں تو بہتر ہے کہ میں دو رکعت واجب نمازِ عید کی پڑھتاہوںچھ زائد تکبیروں کے ساتھ ۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں اور ثنا یعنی سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالی جدک ولاالہ غیرکپڑھیں۔ اس کے بعد تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہوئے اللہ اکبر کہیں،اور دونوں ہاتھوں کوچھوڑدیں۔ پھرتکبیرتحریمہ کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہوئےاللہ اکبرکہیں اوردونوں ہاتھوں کوچھوڑ دیں۔ اب اخیرمیں تیسری مرتبہ تکبیرتحریمہ کی طرح کانوں تک ہاتھ اٹھاکراللہ اکبرکہیں اوردونوں ہاتھوں کوباندھ لیں۔ہاتھ باندھنے کے بعد امام صاحب سورۂ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھیں ،مقتدی خاموش رہ کر سنیں۔ اس کے بعد پہلی رکعت عام نماز کی طرح پڑھیں۔ دوسری رکعت میں امام صاحب سب سے پہلے سورۂ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھیں، مقتدی خاموش رہ کر سنیں۔ دوسری رکعت میں سورت پڑھنے کے بعد دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر تین مرتبہ تکبیر کہیں اور ہاتھ چھوڑدیں۔ اورچوتھی مرتبہ بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں چلےجائیں، اور باقی نماز عام نماز کی طرح مکمل کرلیں۔ نماز عید کے فورابعد دعا مانگ سکتے ہیں ؛لیکن خطبہ کے بعد دعا مسنون نہیں ہے۔
عید الفطر کی نماز کے بعد امام کا خطبہ پڑھنا سنت ہے، خطبہ شروع ہوجائے تو خاموش بیٹھ کر اس کو سننا چاہیےاورخطبہ بعینہ اسی طرح ہوگاجیساکہ جمعہ کےدن ہوتاہے۔نمازِ عید سے فراغت کے بعد گلے ملنا یا مصافحہ کرنا عید کی سنت نہیں ہے،اس لیے اسے ترک بھی کیاجاسکتاہے۔
خلاصئہ کلام یہ ہےکہ: ہمیں عیدالفطر ایثاروہمدردی، غرباء، فقراء اورمساکین کی امدادکاپیغام دیتاہے؛اورلیلۃ الجائزہ اوریوم الجائزہ کوعبادت میں مشغول رہ کراس کےمکمل انعام کوحاصل کرنےکی ترغیب دیتاہے؛لہٰذاہمیں ایسے موقعےپرخاص انعام کوحاصل کرنےکی کوشش کرنی چاہیے، اورعیدکےدن مسنون اعمال کااہتمام کرتے ہوئےعیدکی نمازکواچھے سےاداکرناچاہیے۔کیاخبرآنےوالے سالوں میں ہماری زندگی باقی رہے نہ رہے،اوراس کےفضائل کےحصول سےمحرومی پرکفِ افسوس ملناپڑےـ۔
اخیرمیں رب ذوالجلال کی بارگاہ میں دعاگوہوں کہ مجھےاورآپ کواِن سب باتوں پرعمل کی توفیق عطافرمائے۔ـ آمین یارب العالمین ـ۔
Comments are closed.