رمضان کی بابرکت گھڑیوں میں ’’اسرائیل‘‘ کا ظلم وبربریت

۵۷ مسلم ممالک، ۲۲ عرب ممالک اور ۷ خلیجی ممالک کے حکمرانوں کی اسرائیلی مظالم کے خلاف خاموشی یا صرف بیان بازی جرم عظیم سے کم نہیں
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
۱۹۶۷ء میں فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضہ کے بعد سے ’’اسرائیل‘‘ نہتھے فلسطینی مسلمانوں پر برابر ظلم کرتا رہتا ہے تاکہ مظلوم مسلمان ظلم وستم سے تنگ آکر فلسطینی علاقوں کو خالی کردیں اور اس طرح یہودیوں کا بیت المقدس خاص کر مسلمانوں کے قبلہ اوّل یعنی مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرنے کا خواب پورا ہوسکے، جو ان شاء اللہ کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔ اسرائیل کی ناجائز حکومت کی طرح وہاں کی ظالم عدالتیں بھی فلسطینی مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کے لئے اسرائیلی حکومت کے اشارہ پر کام کرتی ہیں۔ چند روز قبل اسرائیل کی سپریم کورٹ نے مشرقی یروشلم کے علاقہ ’’شیخ جرح‘‘ میں فلسطینی مسلمانوں کو اپنے مکان خالے کرکے یہودیوں کو سونپ دینے کا حکم جاری کردیا۔ اقوام متحدہ اور دنیا میں امن وسکون کے ظاہری ٹھیکیدار بھی مشرقی یروشلم (جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے) پر اسرائیل کے قبضہ کو ناجائز مانتے ہیں، حالانکہ اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ نیز بین الاقوامی قوانین کے مطابق اسرائیل کی عدالتوں کو اس طرح کا فیصلہ سنانے کا حق ہی نہیں ہے۔ اسرائیل اپنی غنڈہ گردی سے برابر یہودیوں کی کالونیاں بنواکر وہاں یہودیوں کو بسا رہا ہے۔ اس نوعیت کے ظالمانہ فیصلے اس سے قبل بھی ہوچکے ہیں جس کے تحت زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو فلسطینی علاقوں میں آباد کرنا مقصد ہے۔ آپ خود سوچیں کہ جس مکان میں آپ آباؤ واجداد سے رہتے چلے آرہے ہیں، آپ سے کہہ دیا جائے کہ اپنے گھروں کو خالی کردو اور سڑکوں پر آجاؤ، تو آپ کیا کریں گے؟ یقینا آپ اپنا حق لینے کے لئے سڑکوں پر آئیں گے۔ چنانچہ اس ظالمانہ فیصلہ کے خلاف فلسطینی مسلمانوں نے اپنا احتجاج شروع کیا۔ جس کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے اپنے مذموم مقاصد کے تحت رمضان کے آخری جمعہ سے فلسطینی مسلمانوں پر گولے، ربر کی گولیاں اور لاٹھیاں برسائیں جس کے نتیجہ میں ۹ فلسطینی، جن میں تین بچے بھی ہیں، شہید ہوگئے اور تقریباً ۳۰۰ فلسطینی مسلمان زخمی ہوگئے۔
ایسے حالات میں مسلم حکمرانوں کو چاہئے کہ آپسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک آواز سے بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے ذریعہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے مذموم فیصلہ کو پہلی فرصت میں واپس لے۔ اگر ۵۷ مسلم ممالک یا ۲۲ عرب ممالک یا صرف ۷ خلیجی ممالک اسرائیل مظالم کے خلاف ایک آواز کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو اللہ کی ذات سے یقین ہے کہ کسی دوسرے صلاح الدین ایوبی کے آئے بغیر ہی مسجد اقصیٰ کا فیصلہ ہوجائے گا۔ مگرتمام مسلم حکمران اپنے ذاتی مفادات کے لئے صرف بیان تو جاری کردیتے ہیں لیکن کوئی قدم اٹھانے لئے تیار نہیں ہے، بلکہ اسرائیل سے خفیہ ملاقاتیں بھی کرتے رہتے ہیں۔
اس موقع پر مسلمانوں سے درخواست ہے کہ قبلۂ اوّل کی یہودیوں کے چنگل سے مکمل آزادی اور فلسطینی مسلمانوں کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعائیں کریں کیونکہ مسجد اقصیٰ میں یقینا پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے لیکن جس شہر میں مسجد اقصیٰ واقع ہے ، یعنی بیت المقدس اُس کا مکمل نظم ونسق اسرائیلی حکومت کے پاس ہے۔ اور اس مقدس شہر میں مسلمانوں کی آبادی کو کم کرنے اور یہودیوں کی آبادی کو بڑھانے پر مکمل پلاننگ کے تحت کام کیا جارہا ہے۔
آئیے اس موقع پر اس مقدس سرزمین کے متعلق تاریخی حقائق سے آگاہی حاصل کریں۔
فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کی حدود اِس وقت اردن، سوریا، لبنان اور مصر سے ملتی ہیں۔ یہ در اصل پورا علاقہ( سوریا، لبنان، فلسطین اور اردن) تاریخی کتابوں میں ملک شام سے موسوم ہے۔ فلسطین کا سب سے مشہور شہر القدس ہے، جسے بیت المقدس بھی کہتے ہیں اور اسرائیل اسے یروشلم (Jerusalem) کہتا ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں تینوں بڑے آسمانی مذہبوں کے لیے یہ مقدس شہر ہے۔ اسی مبارک شہر ’’القدس‘‘ میں قبلہ اوّل واقع ہے جس کی طرف نبی اکرم ﷺاور صحابۂ کرام نے تقریباً ۱۶ یا ۱۸ ماہ نمازیں ادا فرمائی ہیں۔ اس قبلۂ اول کا قیام مسجد حرام (مکہ مکرمہ) کے چالیس سال بعد ہوا۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد سب سے بابرکت وفضیلت کی جگہ مسجد اقصیٰ ہے، جس کی زیارت کے لیے نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کی تعلیم دی ہے۔ اسی سرزمین میں واقع مسجد اقصیٰ کی طرف ایک رات آپ ﷺکو مکہ مکرمہ سے لے جایا گیا اوروہاں آپﷺنے تمام انبیاء کی امامت فرماکر نماز پڑھائی، پھر بعد میں اسی سرزمین سے آپ ﷺکو آسمانوں کے اوپر لے جایا گیا جہاں آپ ﷺکی اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری ہوئی۔ اس سفر میں آپ ﷺ نے جنت وجہنم کے مختلف مناظر دیکھے اور سات آسمانوں پر آپ ﷺ کی مختلف انبیاء کرام سے ملاقات ہوئی۔ یہ مکمل واقعہ رات کے ایک حصہ میں انجام پایا۔ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کے اس سفر کو اسراء اور مسجد اقصیٰ سے اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری کے اس سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔
۱۶ ہجری (۶۳۷ء) میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اس مبارک شہر (بیت المقدس) کو فتح کرکے وہاں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں عالیشان مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخراء کی تعمیر کی گئی۔ بیت المقدس کی فتحیابی کے ۴۶۲سال بعد ۱۰۹۹ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر عیسائیوں نے اس شہر پر قبضہ کرکے ۷۰ ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا تھا، مگر صرف ۸۸ سال بعد ۱۱۸۷ء میں حضرت صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے القدس شہر کو عیسائیوں کے قبضہ سے چھڑایا۔ ۱۲۲۸ء سے ۱۲۴۴ء تک بھی اس شہر کو مسلمانوں سے چھین لیا گیا تھا۔ غرضیکہ یہ مبارک شہر (بیت المقدس) صرف سو سال کے علاوہ ۶۳۷ء سے ۱۹۱۷ء تک مسلسل مسلمانوں کے ہی قبضہ میں رہا ہے۔ اور اس شہر میں رہنے والوں کی بڑی تعداد مذہب اسلام کو ہی ماننے والی رہی ہے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ہی ۱۹۱۷ء میں اس شہر اور فلسطین کے دوسرے علاقوں پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا تھا اورپھر آہستہ آہستہ دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کو آباد کرکے مسلمانوں کی اس سرزمین (فلسطین) پر ۱۹۴۸ء میں ایک ایسے ناجائز ملک کے قیام کا اعلان کردیا جو آج تک پورے خطہ کے امن وسکون کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے آخری باختیار خلیفہ عبدالحمید ثانی پر جب مغربی طاقتوں نے فلسطین کو یہودیوں کو دینے یا وہاں یہودیوں کو آباد کرنے کے تعلق سے دباؤ ڈالا تو اُن کا جواب تاریخ کا حصہ بن گیا: میں سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا کیونکہ فلسطین میرا نہیں بلکہ امت کا ہے اور امت نے اس سرزمین کی حفاظت کے لیے اپنا خون بہایا ہے۔ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۷ء تک القدس شہر مسلمانوں کے ملک ’’اردن‘‘ کا ہی ایک حصہ رہا۔ ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد مغربی ممالک کی بھرپور مدد سے فلسطین کے دیگر علاقوں کے ساتھ القدس شہر پر بھی اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ اس طرح ۱۹۶۷ء میں وہ مقدس شہر بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا، جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے۔
شہر القدس (یروشلم) سے جہاں مسلمانوں کا خصوصی تعلق ہے، وہیں یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے بھی یہ مقدس سرزمین ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت فرمائی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے ایک بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء کرام (حضرت یعقوب، حضرت سلیمان ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ) کا تعلق اسی سرزمین سے ہے۔ عیسائیوںکا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش بھی یہی شہر ہے۔ یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کی تیار کردہ عبادت گاہ (ہیکل سلیمانی) کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے۔ سرور کائنات وآخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں جو مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اس شہر پر مسلمانوں کی فتح یابی سے قبل تک اس سرزمین میں یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان متعدد جنگیں ہوئی ہیں جن میں ہزاروں افراد کا قتل عام ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فلسطینی علاقے خاص کر بیت المقدس پر جو اسرائیل نے ناجائز قبضہ کررکھا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی آزادی کا فیصلہ فرمائے اور مظلوم نہتھے فلسطینی مسلمانوں کی مدد فرمائے۔ آمین۔
Comments are closed.