Baseerat Online News Portal

کتابِ ہدایت کو مشعل راہ بنایئے!

مولانامحمد منہاج عالم ندوی
امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ7320818304
قرآن کریم انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل ہوا، اس میں دین دنیا کی سعادت ،بنی نوع انسان کی ہدایت اور اخروی نجات کی ضمانت ہے اس کی شان اعلیٰ و ارفع ہے ،یقیناً یہ قرآن کریم کا اعجاز اور نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کو عطا کردہ وہ معجزہ ٔربانی ہے جو اس کے پڑھنے سننے اور اس کے معانی و مفاہیم کے سمجھنے والے کے دلوں پر اثر کرتی ہے ، اس کی تلاوت کرنے والے کے سامنے آج بھی دنیا کی بہت ساری موسیقی اور میوزک پھیکی اور ہیچ ہے یہی وجہ ہے کہ دور نبوی سے لیکر آج تک سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں وہ لوگ جنہوں نے اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے خلاف طرح طرح کے حربے استعمال کئے ،ہرطرح کی سازشیں کیں اور اس کی آفاقیت کو ختم کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا؛لیکن سبھوں نے اپنے منھ کی کھائی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے اندرایسی حلاوت،مٹھاس اور مقناطیسی صفات رکھی ہیں کہ اس کی آواز جن کے کانوں میں پڑی اسے اپنانے پر مجبور ہوگئے قرآن کریم کے اثرآفرینی کا پختہ یقین اہل مکہ کو بھی تھا ۔یہی وجہ ہے انہیںایسالگتاتھا کہ اگر محمدؐ کی باتیں اور ان کے اس کلام کی آواز جسے لیکر وہ آئے ہیں ہماری کانوں کے ساتھ ٹکرائی تو بچ نہیں پائیں گے جس کی وجہ سے وہ لوگ قرآن کی آواز کوسننا ہی پسند نہیں کرتے تھے اور اس سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوششوں میں لگے رہتے بلکہ اپنی اپنی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیا کرتے تھے کہ حق کی آواز سے بچ جائیں؛ مگر ان سب کے باوجودجب ان کے کانوں سے قرآن کی آواز ٹکرائی تو ان کے دل کی اجڑی ہوئی دنیا یکلخت بدل گئی اور ان کا دل نور ایمان سے جگمگا اٹھا،ان کی کیفیت یہ ہوگئی کہ جس چیزسے جان بچاکربھاگتے تھے اسی کے عاشق ہو گئے اور جس نبی سے جان چھڑانے کے درپے تھے ان پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کو زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ اور سرمایہ سمجھا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر نہ رہ سکے، ایسا کیوں کر نہ ہو قرآن کہتا ہے’’کہ یہ کتاب راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے‘‘ (سورہ بنی اسرائیل آیت :9)اور قرآن کریم تو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے اور اجر عظیم کی بشارتیں سناتا ہے اور بدی کے مہلک نتائج سے آگاہ کرتا ہے ۔
قرآن کریم کے اندر کسی طرح کی کوئی بھی تبدیلی اورالٹ پھیر نہیں ہوسکتی،اس پیغام ربانی کو حضرت جبریل علیہ الصلاۃ والسلام لیکر آئے اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو پہونچا دیا،اس میں کسی طرح کے تغیر و تبدل کا کوئی امکان ہی نہیں،اس کی کسی سورہ اور پارے تو کیا ایک لفظ،ایک حرف اور نقطہ کی بھی چینجنگ نہیں ہوسکتی،اور ایسا اس وجہ سے بھی ناممکن ہے کہ خود خالق کائنات نے اس کی حفاظت کا ذمہ اپنے اوپر لے لیا ہے قرآن کہتا ہے کہ’’ ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے ہم ہی اسکی حفاظت کریں گے ، (الحجر:88 )اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے تفسیر عثمانی میں لکھا ہے کہ ’’یاد رکھو اس قرآن کے اتارنے والے ہم ہیں اور ہم ہی نے اس کی ہر قسم کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے ،جس شان اور ہیئت سے وہ اتراہے بدون ایک شوشہ یا زبر زیر کی تبدیلی کے چار دانگ عالم میں پہونچ کر رہے گا،اور قیامت تک ہر طرح کی تحریف لفظی و معنوی سے محفوظ رکھا جائے گا ،زمانہ کتنا ہی بدل جائے مگر اس کے اصول و احکام کبھی نہ بدلیں گے ،زبان کی فصاحت و بلاغت اور علم وحکمت کی موشگافیاں کتنی ہی ترقی کرجائےں پر قرآن کی سوری ومعنوی اعجاز میں اصلا ضعف وانحطاط محسوس نہ ہوگا،قومیں اور سلطنتیں قرآن کی آواز کودبانے یا کم کردینے میں ساعی ہوں گی لیکن اس کے ایک نقطہ کو کم نہ کرسکیںگی،حفاظت قرآن کے متعلق یہ عظیم الشان وعدۂ الٰہی ایسی صفائی اور حیرت انگیز طریقہ سے پورا ہوکر رہاجسے دیکھ کر بڑے بڑے متعصب و مغرور مخالفوںکے سر نیچے ہوگئے،’’میور‘‘کہتاہے جہاں تک ہماری معلومات ہے دنیا بھر میں ایک بھی ایسی کتاب نہیں جو قرآن کی طرح بارہ صدیوں تک ہرقسم کی تحریف سے پاک رہی ہو،ایک اوریورپین محقق لکھتاہے کہ ہم ایسے ہی یقین سے قرآن کو بعینہ(محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کے منھ سے نکلے ہوئے الفاظ سمجھتے ہیں،جیسے مسلمان اسے خداکاکلام سمجھتے ہیں،واقعات بتلاتے ہیں کہ ہر زمانہ میں ایک جم غفیر علمائ کا جن کی تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے ایسا رہاجس نے قرآن کے علوم ومطالب اورغیر منقضی عجائب کی حفاظت کی ،کاتبوں نے رسم الخط کی ،قاریوں نے طرز ادا کی ،حافظوں نے اس کے الفاظ و عبارت کی، یہی وجہ ہے کہ نزول کے وقت سے آج تک ایک زیرزبرتبدیل نہ ہوسکا،کسی نے قرآن کے رکوع گن لیے ،کسی نے آیتیں شمارکیں،کسی نے حروف کی تعداد بتلائی حتی کہ بعض نے ایک ایک اعراب اور ایک ایک نقطہ کو شمار کرڈالا ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے آج تک کوئی لمحہ اور کوئی ساعت نہیں بتلائی جاسکتی جس میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد حفاظ قرآن کی جماعت موجود نہ رہی ہو،خیال کروآٹھ دس سال کا ہندوستانی بچہ جسے اپنی مادری زبان میں دوتین جزء کارسالہ یادکرانا دشوار ہے وہ ایک اجنبی زبان کی اتنی ضخیم کتاب جو متشابہات سے پر ہے کس طرح فرفر سنادیتاہے ،پھر کسی مجلس میں ایک بڑے باوجاہت عالم وحافظ سے کوئی حرف چھوٹ جائے یا اعراب کی فروگذاشت ہوجائے تو ایک بچہ اس کو بلاجھجک ٹوک دیتاہے ،چاروں طرف سے تصحیح کرنے والے للکارتے ہیں ،ممکن ہی نہیں پڑھنے والے کو غلطی پر قائم رہنے دیں‘‘
قرآن نے ڈنکے کی چوٹ پر چیلینج کیا اور فرمایا ’’فرما دیجیے : اگر تمام انسان اور جنّات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے جیسا کوئی دوسرا کلام بنا کر لے آئیں تو وہ ایسا ہرگز نہیں کرسکتے،اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں۔‘‘ (الاسراء:88)
جس وقت قرآن نازل ہورہا تھا اس وقت لوگوں نے کہا کہ اس کتاب کو تو محمدؐ خود سے گڑھ کر بیان کرتے ہیں ہم بھی اگر چاہیں تو اس طرح کئی کتابیں پیش کردیں، قرآن نے ایسے لوگوں سے کہا:’’کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو آپ نے گھڑ لیا ہے،اے نبیؐ ! آپ ان سے کہیے تم بھی اس جیسی دس سورتیں بنا کر لے آؤ اور اللہ کو چھوڑ کر جسے چاہو بلالو اگر تم سچے ہو‘‘(ھود:31)
اور اگر دس سورتیں بھی نہ پیش کرسکو تو ایک ہی سورہ پیش کرکے دکھادو ،یقین مانو تم ایسا ہزگز نہیں کرسکتے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’اگر تم لوگوں کو شک ہے اس کلام کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پرنازل کیا ہے تو اس جیسی ایک سورہ تم بھی بناکر پیش کردو، اور اللہ کو چھوڑکر اپنے تمام مددگاروں کو بلا لواگر تم سچے ہو اور اگر تم ایسا نہ کر سکو‘ اورہرگز تم ایسا نہ کر سکو گے ‘ تو بچواُس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے ‘‘ ( البقرۃ:23/24)
چنانچہ آج تک باطل طاقتوں کی طرف سے تحریف کی جو بھی کوشش کی گئی یا اس میں کسی طرح کی انگشت نمائی کرنے کی سازش ہوئی سبھوں نے منہ کی کھائی اور ذلت و رسوائی ان کا مقدر بنی،ابھی حالیہ دنوں میں قرآن مجید میں یہودیوں نے تحریف کرنے کی کوشش کی اور کتاب التوحید کے نام سے ایک کتاب مرتب کی مگر خود اس حلقہ میں بے اثر ثابت ہوئی۔
اس لیے قرآن کا معجزہ آج بھی سر چڑھ کر بول رہا اور لوگ اسے اپنا کر اپنی دنیا و آخرت سنوار رہے ہیں، نہ جانیں کتنے لوگوں نے اس کے ذریعہ اپنی عاقبت سنوار لی،ہمیں بھی اس کی تلاوت سے دل کی تاریکی کو روشن کرنا چاہئے ،ہمیں سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس کی تلاوت ضرور کریں بلکہ اسکے معانی میں غور وفکر کرکے دل کی اجڑی ہوئی دنیا کو سکون بخشےں۔
خصوصا اس ماہ مقدس میں جس کی قرآن سے غایت درجہ کی مناسبت اور ہم آہنگی بھی ہے کہ اسی مہینے کی ایک مبارک رات میں قرآن کریم کا نزول ہوا قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ہم نے اسے بابرکت رات میں نازل فرمایا ہے (القدر:1)
اللہ تعالیٰ نے اس کے ایک ایک حرف کے پڑھنے پر ثواب رکھا ہے اور اس کا پڑھنا،لکھنا،سمجھنا،دیکھنا،چھونا،عبادت اور کار ثواب ہے اس لئے ہمیں سمجھ میں آئے یا نہ آئے جب بھی اسکی تلاوت ضرور کرنی چاہیے اور اگر اسکی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس میں تفکر اور تدبر اور پورے انہماک سے کام لیں تو یہ رب دوجہاں پر ایمان و عقیدہ کو اور بھی مضبوط اور ٹھوس کرتا ہے ؛کیونکہ قرآن کریم کی حقیقی برکت اور اس کی رحمت تو اسی میں مضمر ہے اورقران کریم بار بار اس کی طرف واضح الفاظ میں دعوت دیتاہے کہ اگر وہ لوگ اس کتاب کے بارے میں حسد،بغض وعناد اور ہٹ دھرمی سے پرے ٹھنڈے دل سے سوچیں اوراس کے معانی مفاہیم،حرکات و سکنات،اس کی ترتیبوں پرغورو فکر کریں توسمجھ میں آجائے گا کہ یہ کسی مخلوق کا کلام نہیں بلکہ کلام خداوندی ہی ہے جو تمام طرح کے نقائص اور عیوب سے مبرّا اور پاک ہیں ارشاد باری ہے:کیا وہ لوگ قرآن کریم میں غور وفکر نہیں کرتے کہ اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ لوگ اس میں بہت سارے اختلاف پاتے ، (النساء 28)نیز دوسری جگہ ارشاد ہے:کیا قرآن مجید میں تدبر سے کام نہیں لیتے ؟یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟ (محمد:24)آج یہ جو ہمارے سامنے طرح طرح کی پریشانیاں اور نت نئے مشکلات کھڑی ہیں وجہ قرآن کریم اور تعیلمات نبوی سے غفلت ، دوری اور عدم التفات ہے ،جس کی وجہ سے آج ہم چہار دانگ عالم میں ذلت و پستی کے شکار ہورہے ہیں۔اللہ کے محبوب پیغمبر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:کہ اے لوگو!میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ایک تو اللہ کی کتاب (قرآن کریم )دوسری اس کے پیغمبر کا طریقہ،تم جب تک مضبوطی کے ساتھ اسے پکڑے رہوگے گمراہ نہیں ہوگے ، اس لیے قرآن کو اپنا گائڈ،رہنماتسلیم کر کے زندگی گزاریںاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی زندگی پر عمل پیرا ہوجائیے ان شاء اللہ دنیا کی کامیابیاں ہمارے قدم بوسی کے لیے تیار ہے ،اور آخرت میں بھی سرخ رو ہونگے۔

Comments are closed.