Baseerat Online News Portal

روزہ کے اثرات و ثمرات شریعت کی نظر میں

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

اللہ تعالی کا یہ خاص فضل و کرم اور احسان عظیم ہوا کہ ہم ایمان والوں کو رمضان المبارک کا مہینہ نصیب فرمایا ، جس کا اکثر حصہ گزر چکا،اور آج رمضان المبارک کی ۲۹/ تاریخ ہے۔
رمضان المبارک کا یہ مہینہ تمام مہینوں سے افضل اور مبارک مہینہ ہے اس مہینہ کی نسبت اللہ تعالی نے اپنی طرف کی ہے ۔
یہ مہینہ رحمت خداوندی وہ موسم بہار ہے، جس میں اللہ تعالی کی خاص انعامات اور عنایتیں بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہیں ۔ جس میں بے شمار انسانوں کی مغفرت کی جاتی ہے اور جس کی ہر ساعت اور ہر لمحہ و گھڑی عذاب دوزخ اور نار جہنم سے آزادی کا پیام لے کر آتی ہے ۔
اس مہینہ میں بندے کے لئے نیک اعمال کرنا ،گناہوں کو بخشوانا اور آخرت کو سنوارنا اللہ تعالی آسان کر دیتا ہے اور مومن بندے کے لئے ایسا ماحول فراہم کر دیتا ہے اور اس راہ کی رکاوٹوں کو اس طرح دور کر دیتا ہے کہ اس کے لئے نیک اعمال کرنے، گناہوں کو بخشوانے میں کوئی دقت اور پریشانی نہ ہو ۔ چناچہ اللہ تعالی اس ماہ مبارک میں جنت کے دروازے کو کھول دیتے ہیں جہنم کے دروازے کو بند کر دیتے ہیں اور سرکش شیاطین کو جکڑ دیتے ہیں ۔
روزہ کے اندر اللہ تعالی نے ایسی تاثیر رکھی ہے کہ جب انسان روزہ کی حالت میں ہوتا ہے اور دل برائ اور گناہ کی طرف امادہ ہوتا ہے تو یہی روزہ، روزہ دار کے لئے گناہ کے مقابلے میں ڈھال بن جاتا ہے اور اس کو گناہ سے باز رکھتا ہے ۔ چنانچہ حدیث کی کتابوں میں یہ روایت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
الصیام جنة مالم یخرقھا
روزہ انسان کے لئے ڈھال ہے جب تک کہ روزہ دار خود اس کو پھاڑ نہ دے ۔
یہ مہینہ عبادت کا ہے اس میں کم ہمت سے کم ہمت اور بے حوصلہ مسلمان کو بھی عبادت و بندگی کا شوق نصیب ہوجاتا ہے ۔اور وہ بھی عبادت و ریاضت اور تراویح و تلاوت کے لئے اپنے کو فارغ کر لیتا ہے ۔
رمضان المبارک دعا ومناجات کا موسم ہے اس ماہ مقدس میں دعاؤں کی قبولیت کا دروازہ ہر آن کھلا رہتا ہے، بلکہ بندوں سے ہر رات فرمائش کی جاتی ہے کہ وہ اپنی جائز مرادیں پیش کریں جو مانگیں گے دیا جائے گا ۔
چنانچہ ایک خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اس ماہ مبارک میں ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے اے خیر کے چاہنے والے! آگے بڑھ اور اے برائ کے چاہنے والے باز آجا !
رمضان المبارک کا یہ مہینہ در اصل ہم جیسے گنہگاروں کے لئے توبہ و استغفار کا زمانہ اور مہینہ ہے اور اس میں بندوں کو بخشنے اور نوازنے کے لئے معمولی معمولی بہانے تلاش کئے جاتے ہیں ۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس شخص کے حق میں محرومی اور نامرادی کی بدعا فرمائی ہے جس پر رمضان المبارک کا پورا مہینہ گزر جائے لیکن وہ اپنی مغفرت نہ کرا سکے ۔ رمضان المبارک رحمت خداوندی کا گویا سالانہ جشن ہے ،جس میں ہر لمحہ اور آن رحمتوں اور برکتوں کے خزانے لٹتے ہیں اس ماہ مبارک کا حقیقی پیغام اور بنیادی تقاضا صرف ایک ہے اور وہ ہے اللہ کی طرف رجوع اور انابت ، آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وعدہ ہے ،جس کا رمضان سلامتی سے گزر گیا اس کا پورا سال سلامتی سے گزرے گا ۔
روزہ کے جسمانی اور روحانی فوائد ہیں، اس ثمرات و برکات ظاہر ہیں، روزہ دار خود اس کو محسوس کرتا ہے، علماء کرام اور اہل علم نے بھی اس کے فوائد بیان کئے ہیں۔
چنانچہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : "روزہ جوارح ظاہری اور قوائے باطنی کی حفاظت میں بڑی تاثیر رکھتا ہے، فاسد مادے کے جمع ہوجانے سے انسان میں جو خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں، اس سے وہ اس کی حفاظت کرتا ہے، جو چیز مانع صحت ہیں، ان کو خارج کر دیتا ہے اور اعضاء و جوارح میں جو خرابیاں ہوا وہوس کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہیں، وہ اس سے دفع ہوتی ہیں، وہ صحت کیلئے مفید اور تقوی کی زندگی اختیار کرنے میں ممد و معاون ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون __ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں عجب نہیں کہ تم. متقی بن جاؤ__ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :الصوم جنۃ__ روزہ ڈھال ہے، چنانچہ ایسے شخص کو جو نکاح کا خواہشمند ہو اور نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو روزہ رکھنے کی ہدایت کی گئی اور اس کو اس کا تریاق قرار دیا گیا، مقصود یہ ہے کہ روزہ کے مصالح و فوائد چونکہ عقل سلیم اور فطرت صحیحہ کی رو سے مسلم تھے اس لئے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کی خاطر محض اپنی رحمت اور احسان سے فرض کیا ہے”(زاد المعاد:١/٥٢). اس ماہ کا تعلق قرآن کریم سے بہت اہم. ہے، اس مہینہ میں قرآن نازل ہوا، اللہ تعاکی کا ارشاد ہے، شهر رمضان الذي أنزل القرآن (بقرۃ:١٨٥)، چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:” اس مہینہ کو قرآن مجید کے ساتھ بہت خاص مناسبت ہے، قرآن مجید اسی مہینہ میں نازل کیا گیا، یہ مہینہ ہر قسم کی خیر و برکت کا جامع ہے، آدمی کو سال بھر میں مجموعی طور پر جتنی برکتیں حاصل ہوتی ہیں، وہ اس مہینہ کے سامنے اس طرح ہیں، جس طرح کے سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ، اس مہینہ میں جمعیت باطنی کا حصول. پورے سال جمعیت باطنی کیلئے کافی ہوتا ہے، اور اس میں انتشار اور پریشان خاطری بقیہ تمام دنوں بلکہ پورے سام. کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے، قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جن سے یہ مہینہ راضی ہو کر گیا اور ناکام اور بدنصیب ہیں، وہ جو اس کو ناراض کر کے ہر قسم کے خیر و برکت سے محروم ہوگئے” ایک دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں :” اگر اس مہینے میں کسی آدمی کو اعمال صالحہ کی توفیق مل جائے تو پورے سال اس کے شامل حال رہے گی، اور اگر یہ مہینہ بےادبی، فکر و تردد اور انتشار کے ساتھ گزرے تو پورا سال اسی حال میں گزرنے کا اندیشہ ہے "( مکتوبات امام ربانی: ١/٨_٤٨).
حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی علیہ الرحمہ اپنے خاص اسلوب میں روزہ کے مختلف ثمرات و فوائد پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:”یہ پر بہار موسم جب کسی کے شوق و ارمان میں گزرے گا، یہ متبرک گھڑیاں جب کسی کی یاد میں بسر ہوں گی ، یہ مبارک دن جب کسی کے اشتیاق میں بغیر بھوک پیاس کے صرف ہوں گے، یہ برکت والی راتیں جب کسی کے انتظار میں آنکھوں ہی میں کٹیں گی تو نا ممکن ہے کہ روح میں لطافت ، قلب میں صفائی اور نفس میں پاکیزگی پیدا نہ ہو جائے۔ حیوانیت دور ہوگی۔ ملکوتیت نزدیک آئے گی اور انسان خود اپنی ایک جدید زندگی محسوس کرے گا، ایسی حالت میں بالکل قدرتی ہے کہ سوز دل اور تیز ہوجائے، قرب و وصل کی تڑپ اور بڑھ جائے، تزکیہ و مجاہدہ کے اثر سے زنگ دور ہوکر کسی کا عکس قبول کرنے کے لئے آئینہ قلب بے قرار اور مضطر ہونے لگے۔ نماز میں جس طرح عبدیت کی تکمیل ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح روزہ دار کو اخلاق الٰہی کے ساتھ کسی درجہ مناسبت و شباہت پیدا ہوجاتی ہے۔ بھوک اور پیاس سے بے نیازی، صبر و ضبط ، قوت و اختیار، حلم و تحمل ، عفو و درگزر یہ سب شانیں بندہ کی ہیں یا مولیٰ کی؟ عبد کی یا معبود کی؟ پھر یہ کیوں کرہے کہ جو شئی کچھ ہی دیر کے لئے سہی آپ میں اس کیفیت سے مناسبت پیدا کررہی ہو، جوشئی ذرہ میں آفتاب کا پر توڈال رہی ہو، جو شئی آئینہ میں جلا پیدا کرکے اسے نورانیت کا ملہ کا عکس قبول کرنے کے قابل بنارہی ہو آپ اس نعمت عظیم کی جانب لپکنے میں تامل کرر ہے ہیں۔( تفسیر ماجدی ۱؍۵۲۷ ۔ ۵۲۸).

Comments are closed.