اے پیرِ حرم! تیری مناجات سحَر کیا ؟
[قضیہ فلسطین - عرب اور ترکی]

محمد صابر حسین ندوی
قیامت کی گھڑی ہے، بیت المقدس یہودی نرغے میں میزائل کی چوٹ سے خون آلود ہے، فلسطینیوں کی شہادت، مالی نقصان اور تعمیری زیاں زوروں پر ہے، مگر یہودیوں کے حلق میں بھی خشکی آگئی ہے، ان کا سینہ بھی تنگ ہوچکا ہے، خواہ ان کے اعلی اور جدید ترین ٹیکنالوجی انہیں بچانے اور مزید حملے کرنے میں معاون ہیں؛ لیکن عام شہری تو ان کے بھی بلبلا اٹھے ہیں، دنیا بھر میں احتجاج ہورہے ہیں، ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ اسرائیل نے یورشلم پر قبضہ کر رکھا ہے، اس نے ناجائز طور پر فلسطینیوں کی زمین چھین رکھی ہے، وہ ان سب کو دہشت گرد بتلا کر پوری نسل پر حملہ کر رہے ہیں، یہ عالمی قوانین، تاریخی حقائق اور انسانی حقوق کے اعتبار سے ناجائز ہے، ساتھ ہی جو عرب اسرائیل کا در پردہ معاونت کرتے ہیں، ان کی گود میں بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں، اپنے ڈر اور خوف کی دوا پاتے ہیں، ١٩٦٧ء کی شکست کا سامنا کرنے سے بچتے ہیں اور اس طرح کے حالات سے خود کو بچاتے ہیں، ان ممالک کی عوام بھی سڑکوں پر ہے، لبنان، اردن سے یہ خبریں تو آہی رہی تھیں، اب عراق کے شہری بھی بڑی تعداد میں سڑکوں کو پاٹ چکے ہیں، بہت سے عربی ٹویٹ کے ذریعے عربوں اور اسرائیلی جارحیت کو بے نقاب کر رہے ہیں، آہ – – – یہ کیسا لمحہ ہے کہ عوام ایمانی جوش، اسلامی حمیت اور انسانی حقوق کی پاسدار معلوم ہوتی ہے، مگر ان کے حکمران شیطان کے گرگے، دوست، ساتھی اور معین لگتے ہیں، چنانچہ باوثوق ذرائع سے خبر ملی رہی ہے کہ ناجائز صیہونی ریاست کو کسی بھی باہری ملک کے حملے سے بچانے کی غرض (بہانے) سے امریکا نے اپنے زیر انتظام سعودی ہوائی اڈوں پر اپنے جدید ترین F18 جنگی طیارے پہنچا دئے ہیں، ساتھ ہی سعودی عرب میں موجود امریکی افواج اور شام میں موجود امریکی اور فرانسیسی حمایت یافتہ کرد باغی گروپس کو بھی متحرک کردیا گیا ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ خبر اتنی پختہ نہ ہو؛ لیکن اگر آپ شواہد و قرائن پر غور کریں گے تو یہ بات کوئی بعید نہیں لگے گی، اس لئے کہ اگر تین دن پہلے کے امریکی و دیگر یوروپین ممالک اور نیتن یاہو کے بیانات کا تجزیہ کیا جائے، خصوصاً امریکی وزیر خارجہ اور نتن یاہو کا متکبرانہ انداز دیکھا جائے اور کل صبح سے غزہ پر زمینی، فضائی اور سمندری حملوں کی شدت کو ناپا جائے تو سمجھنا مشکل نہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو مکمل اعتماد میں لیکر غزہ ، اور بیت المقدس سمیت پوری فلسطینی زمین پر مکمل قبضہ کرنے کے خواب پر عمل شروع ہوچکا ہے، ترکی، ایران وغیرہ کو یکطرفہ قانونی کارروائیوں میں الجھا کر اور بیان بازیوں، اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور ان کی جانب سے صلح و صفائی کی کاوشوں کا جھانسا دے کر یہ دجالی ٹولہ پیش قدمی کرنے والا ہے، ابلیس اور اس کے تمام عرب شورائی کردار ادا کر رہے ہیں، یہ واضح ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریین دور دراز مسافت سے فلسطین پر حملہ نہیں کرسکتے؛ ایسے میں ایک ہموار زمین اور فضا کی ضرورت ہے جو انہیں عرب فراہم کر رہا ہے یا کرے گا، تبھی یہ سب ممکن ہے، بدیگر صورت امریکہ وغیرہ کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا، کل غزہ میں موجود الجزیرہ اور دیگر عالمی خبر رساں اداروں پر حملہ آور ہونے اور انہیں برباد کردئے جانے کے بعد یہ حقیقت گردش کر رہی ہے کہ کسی بھی باہری مسلم ملک کی مداخلت کی کوشش کو ناکام کرنے کیلئے ان کے تمام اتحادی بھی تیار ہیں-
بلاشک و شبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بظاہر تو کوئی مسلم ملک عملی طور پر فلسطینی مسلمانوں کی مدد کرتا نظر نہیں آرہا اور نہ ہی کسی مسلم حکمران کو فلسطینی مسلمانوں اور بیت المقدس کے کلی طور پر صیہونیوں کے ہاتھوں چلے جانے کا کوئی غم ہے، سوائے یہ کہ بعض حکمران صرف بیان بازی سے ہی خانہ پوری کر رہے ہیں، وہ بار بار یہ جتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں فلسطین کی نازک صورتحال اور بیت المقدس کی پامالی کا بہت درد ہے؛ لیکن عملی طور پر ندارد ہیں، سچی بات یہی ہے کہ اب تک علی الإعلان کسی نے بھی جنگی حمایت کا اقرار نہیں کیا ہے، البتہ اگر کسی مسلم حکمران کی بیان بازی میں تھوڑی بہت شدت نظر آتی ہے تو وہ ترک صدر أردوغان مدظلہ ہیں؛ بلکہ اب تک جو کچھ پیش قدمی انہوں نے کی ہے وہ کسی اور سے نہ ہوسکا ہے، بتایا جاتا ہے کہ بہت سی خفیہ کاروائیاں بھی ان کی جانب سے کی گئی ہیں، بعضوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر اس وقت کوئی پیش قدمی کرسکتا ہے تو صرف اور صرف ترک صدر ہی ہیں؛ لیکن برملا ترکی فلسطین اور بیت المقدس کیلئے عملی اقدام کرے یہ ضروری نہیں ہے، ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ عمل خود ترکی کیلئے بھی خطرے سے خالی نہ ہوگا، ترکی مسلمانوں کیلئے ایک امید ہے، ایسے میں اگر ایسا کچھ ہوا تو ظاہر ہے کہ اس کو نہ صرف روکنے؛ بلکہ خطے میں تھوڑے بہت ترکی اثر و رسوخ کو ہمیشہ ہمیش کیلئے ختم کردینے پر امریکی اور اتحادی افواج بنا وقت گنوائے سامنے آجائیں گی، اور ترکی بیک وقت تمام محاذ پر کامیاب ہوجائے یہ ممکن نہیں ہے، دانشور کہتے ہیں کہ ایک ساتھ دو جنگی محاذ نہیں کھولنا چاہیے؛ بلکہ ایک سے وقتی صلح اور دوسرے سے برسر پیکار ہونا چاہئے، بالخصوص اس وقت جبکہ گزشتہ چار پانچ سالوں سے پورپین ممالک اور امریکہ کسی بھی بہانے سے ترکی کو نشانہ بنانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں، ہردَم ان کی لار ٹپک رہی ہے کہ بَس ایک موقع ملے اور ترکی کی اینٹ سے اینٹ بجادیں، خصوصاً امریکی حمایت سے ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک صدر کی جانب سے خطے میں برابر امریکی اور یورپی مفاد پر کاری ضربیں لگائی گئی ہیں، ادھر حال ہی میں آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ میں ترکی کا آذربائیجان کی حمایت کرنا اور آذربائیجان کا کاراباخ پر قابو حاصل کر لینا صیہونی اور عیسائی دنیا کو اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے، دوسری جانب سعودی عرب اور امارات کو بھی طاقتور ترکی برداشت نہیں، وہ بھی ترکی کی تباہی کے منتظر ہیں؛ ان حالات میں أردوغان کی حکمت عملی اور دور بینی کا امتحان ہے، اللہ ان کا حامی و ناصر ہو – اب تک کے حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو اس اندیشے کو تقویت ملتی ہے کہ حماس اور صیہونی ریاست کے درمیان یہ معرکہ آرائی ترکی کو مداخلت پر مجبور کرنے کے بعد ترکی کی تباہی اور ترکی، جارڈن، لبنان یا دو تین یوروپین ممالک کی تباہی تک ہی نہیں رکے گی؛ بلکہ یہ قیامت بن کر گرے گی اور تمام مسلم ممالک کی دھجیاں اڑا دی جائیں گی، عرب ممالک جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت صرف فلسطینی نشانے پر ہیں اور وہ بچ جائیں گے تو یہ ان کی نادانی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، اس وقت اشد ضرورت ہے کہ ہر حال میں حماس کی در پردہ مدد کی جائے، عرب ہوش میں آئیں اور اپنی زمین شیطانی ہاتھوں کھلونا نہ بننے دیں، اسرائیل کے خلاف اپنی دور اندیشی کا مظاہرہ کریں، بیت المقدس سے محبت و شغف اور انسانی خون کی قیمت کا لحاظ کریں –
مجھ کو تو یہ دُنیا نظر آتی ہے دگر گوں
معلوم نہیں دیکھتی ہے تیری نظر کیا
ہر سینے میں اک صُبحِ قیامت ہے نمودار
افکار جوانوں کے ہوئے زیر و زبر کیا
کر سکتی ہے بے معرکہ جِینے کی تلافی
اے پیرِ حرم تیری مناجات سحَر کیا
ممکن نہیں تخلیق خودی خانقہوں سے
اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرَر کیا
[email protected]
7987972043
Comments are closed.