آندھی و طوفان کا سبب اور اس کا نبوی طریقۂ کار

محمد حنیف ٹنکاروی
اس وقت آسمان و زمین کے تیور بدل چکے ہیں۔ ایک طرف وبائی مرض (کورونا) عروج پر ہے دوسری طرف آندھی، طوفانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، ان ایام میں طوفانوں اور زلزلوں کی آمد کی جواطلاع ومشاہدہ ہے، زمانۂ ماضی میں اتنی کثرت سے طوفانوں کی آمد کا سلسلہ نہیں تھا، دو چار ماہ نہیں گزرتے کہ ایک نئے طوفان کی آمد اوراس کے ذریعہ تباہی وبربادی کی خبریں زور پکڑتی جارہی ہیں، اخبار ورسائل میں اسی کی سرخیاں نمایاں ہوتی ہیں، اس کے ذریعہ ایک بڑی تعداد میں ملت کا جانی ومالی نقصان ہوتا ہے، لوگ تباہی وبربادی کی ایسی صورت حال میں لوگوں کے حالات دگرگوں ہوجاتے ہیں، پریشانیاں قابو سے باہر ہوجاتی ہیں، فی الفور کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، سوائے خدائے بزرگ وبرتر کے اور کوئی سہارا نظر نہیں آتا، لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، اوربھی طرح طرح کے مصائب کا شکارہو جاتے ہیں۔ .
بار بار حالات کا پیش آنا یہ قہر الہی کی علامت ہے، جو کہ دراصل انسانی کرتوتوں کا نتیجہ ہے، اوریہ بندوں کو راہ راست پر لانے کا پیش خیمہ ہوتا ہے، مگرانسان چوں کہ مشاہدہ کی دنیا کا عادی ہوچکا ہے، اورظاہر پرستی کا دلدادہ ہونے کی بنا پرمادی نفع وضررکو ہی نگاہوں میں سمائے ہوئے ہے، وہ آفات ومصائب اور بگڑتے حالات کا اصل سبب تلاش کرنے کے بجائے، ظاہری اسباب وعلل پرہی تکیہ کئے رہتا ہے، مگر مذہب اسلام نے انسان کی حقیقی آنکھیں ایسے موقع پر کھولی ہیں اور انسان کو ظاہر کے ساتھ ساتھ باطنی وروحانی خزانوں کا ایک بیش بہا قیمتی ایمانی سرمایہ عطا کیا ہے، جو کہ ظاہر سے زیادہ طاقتوراورمادیت سے زیادہ قوی ترہے۔
طوفانوں کی آمد کا سلسلہ اتنا تیز تر ہوچکا ہے کہ ایک طوفان کا اثر ابھی ختم بھی نہیں ہوتا کہ دوسرے طوفان کی پیش قیاسی کردی جاتی ہے، ابھی کیرالا میں ایک بدترین طوفان آیا ، جس سے جانی ومالی ہونے والے نقصان نے اپنی تاریخ رقم کرڈالی، مالی اعتبار سے لوگ اتنے متأثر ہوئے ہیں کہ ایک ایک کوڑی کے لیے محتاج ہوگئے ہیں ، گھر کے گھر طوفان کی زد میں بہہ گئے، اور ہوائی طوفان آگے بڑھ کر گجرات میں بھی داخل ہو گیا ہے چنانچہ گزشتہ کل بھروچ، سورت، بلساڑ کے بعض علاقوں میں ایک لہر آئی جس سے کافی سے زیادہ نقصان ہوا اور آج ١٧ مئی ٢٠٢١ کی صبح کہیں کہیں زلزلے کی خبریں بھی آ رہی ہیں ۔
ان طوفانوں کا سلسلہ روزافزوں ہی بڑھتا جارہا ہے، اوردنیاوالے ان طوفانوں کوجوبھی نام دے دیں، جیسے کسی طوفان کا نام سینڈی، کسی کا نام ہیان تو کسی کا یولانڈا، تو کسی کا نام ٹوکٹے، اوراس کا سائنسی نقطۂ نظرکچھ بھی ہو، اورظاہر پرست حضرات اس کی کچھ بھی وجہِ صدور متعین کرڈالیں، لیکن حقیقت اورلاریب بات بس یہی ہے کہ یہ سب انسانی کرتوتوں اوراعمال بد کا نتیجہ ہے، اس لیے کہ آج بڑی تیزی سے امت کے قدم اعمال سوء کی جانب اٹھ رہے ہیں، اورمعصیتِ الہی کی جانب تیز گامی اتنی شدت کے ساتھ بڑھ چکی ہے کہ جس کا اندازہ لگانا واقعۃً مشکل اورتخیل انسانی سے بالاتر ہے، اورگناہ کے ارتکاب میں امت اتنی زیادہ جری ہوچکی ہے کہ اپنے بزرگوں کی موجودگی اوران کی نگاہوں کے بالکل سامنے کھلے عام غیر اخلاقی تو غیر اخلاقی ؛بلکہ غیر فطری عمل تک گریز نہیں کیا جارہا ہے، والدین کے روبرو ان کی لاڈلی اولاد وہ تمام حرکتیں کرڈالتی ہیں کہ جس کی وجہ سے ان کا سر شرم سے جھک جائے، بلکہ بسا اوقات تو ارتکاب جرم پر فخر بھی محسوس کیا جارہا ہے اور زنا کا بازار بھی گرم ہے۔
جب کبھی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سخت آندھی چلتی یا کوئی سخت معاملہ پیش آجاتا تو رسول اللہ ﷺ کا معمول مبارک یہ تھا کہ آپﷺ نماز کی جانب متوجہ ہوجایا کرتے تھے اوراللہ کی رحمت کو طلب فرمایا کرتے تھے، ’’ کان رسول اللہ ﷺ اذا حزبہ أمرصلی۔ ‘‘(ابوداؤد، حدیث نمبر:۱۳۱۹، عن حذیفہ، باب وقت قیام النبیﷺ)حدیث شریف کی تشریح کرتے ہوئے حضرت ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں :جب کوئی ناگوار واقعہ پیش آجاتا تو نبئ اکرم ﷺنماز کی طرف متوجہ ہوجایاکرتے تھے، اس لیے کہ نمازتمام اذکاروادعیہ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، نماز ہر مصیبت سے راحت دلاتی ہے، ہرغم سے خلاصی نصیب کرتی ہے، تنگیوں میں آسانی پیدا کرتی ہے، اسی وجہ سے حضورﷺ فرمایا کرتے تھے :’’أرحنا بھا یا بلال۔ ‘‘اے بلال نماز کے ذریعہ ہمیں راحت پہونچاؤ۔ (مرقاۃ المفاتیح: ۳؍۱۰۹۳، دارالفکر بیروت) .
بلا شبہ بارش کی گرج، بجلی کی کڑکڑاہٹ اورسمندری طوفان کا تموج اللہ کے جلال کا مظہر ہے، اورجب خدا پرست بندہ ان چیزوں سے دوچارہوتا ہے تواسے چاہیے کہ وہ پوری عاجزی وانکساری کے ساتھ اللہ کے رحم وکرم کا طلبگار ہوجائے، اور اسی سے عافیت مانگے، اورخوب اللہ سے دعا کرنی چاہیے ، یہی رسول اللہ ﷺ کا اسوہ ہے، رسول اللہ ﷺ ایسے موقع پر یہ دعا فرمایا کرتے تھے :’’أللہم لا تقتلنا بغضبک ولا تہلکنا بعذابک وعافنا قبل ذلک۔ ‘‘(معارف الحدیث: ۵؍۲۴۳)
اے اللہ! ہمیں اپنے غضب سے قتل نہ کرنا، اوراپنے عذاب سے ہمیں ہلاک نہ کرنا اورہمیں اس سے پہلے ہی عافیت بخش دینا۔
اور یہ دعا بھی حدیث سے ثابت ہے ۔
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْئَلُكَ مِنْ خَيْرِهَا وَ خَيْرِ مَا فِيْهَا وَ خَيْرِ مَا اُرْسِلَتْ بِهٖ وَ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَ شَرِّ مَا فِيْهَا وَ شَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِهٖ (مسلم شریف)
تیز وتند آندھیاں اورطوفان اکثر غضب الہی کا مظہر ہوتے ہیں، اس لیے خدا شناس بندے کو چاہئے کہ وہ ایسے وقت میں جلال خداوندی کے خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے اللہ کی رحمت کا طلبگارہوجائے کہ یہ ہوائیں رحمت کا سبب بنیں نہ کہ عذاب کا ذریعہ بنیں۔
ایسے موقعوں پر صدقات دے کر خوب توبہ کرنی چاہیے اور آنسوؤں کے سیلاب سے زمینی سیلاب کو ہٹانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ معافی اور عاجزی کو بہت پسند فرماتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ پوری امت کو گناہوں سے بچنے کی اور توبہ تائب ہونے کی توفیق عطا فرما کر رضا کا پروانہ نصیب فرمائے۔ آمین
Comments are closed.