Baseerat Online News Portal

آہ ۔ مولانا امتیاز الدین قاسمی شکری!

از ۔ محمد شاہد ناصری الحنفی ۔ مدیر ماہنامہ مکہ میگزین ممبئ

یہ خبر صاعقئہ اثر تو تین دن پہلے ہی مل چکی تھی کہ شکری دربھنگہ کے ایک نوجوان صالح فعال متحرک عالم دین مولانا امتیازالدین قاسمی بھی راہی ملک بقاء ہوگئے ۔ اس خبر نے تو جناب سکتے میں ڈال دیا اس لئے کہ جب سے کرونا نے کرئہ ارض پر اپنا ڈیرا ڈنڈا ڈالا ہے دن بھر میں نہ جانے کتنی بار کلمئہ استرجاع انا للہ وانا الیہ راجعون بوجھل دل سے نامعلوم انجانی سی وحشت والی کیفیت سے زبان پر جاری وساری ہوجاتا ہے اوراسی وقت ارشاد ربانی کل نفس ذائقتہ الموت کا استحضار بھی ہوجاتا ہے اور پھر یہ مصرعہ بھی زبان زد ہوتا ہے کہ
موت سے کس کو رستگاری ہے ۔
آج وہ کل ہماری باری ہے ۔
لیکن اس دل کا کیا کیا جائے جو بسا اوقات بہت زیادہ کسی سے متاثر ہوجاتا ہے یا کسی کے کسی خاص کام سے متاثر ہوجاتا ہے ۔
مفتی امتیاز الدین سے دودہائ قبل گوونڈی میں پہلی ملاقات ہوئ تھی وہ دیوبند سے نئے نئے فارغ ہوکر خدمت کے جذبوں سے لیس ہوکر ممبئ نگری پہونچے تھے ۔
ایک چھوٹی سی مسجد جو عمارت کے اعتبارسے بوسیدہ اورخستہ حال تھی وہاں منصب امامت پر فائز ہوئے اپنی صالحیت اورصلاحیت نیز فعالیت کے اعتبارسے بہت جلد مسجد سے ملحق علاقے میں مفتی صاحب متعارف ہوگئے اورلوگوں سے قدردانی اورتوقیر واکرام کی سوغات بھی وافر مقدار میں ملنے لگی ۔ علاقے میں اس عقیدت کے منظر کو دیکھ کر مسجد کے ذمہ داروں نے مفتی صاحب کوآمادہ کیا کہ اگرآپ میدان میں چندے کے لئے نکل جائیں تو مسجد کی تعمیر آسانی سے ہوجائے گی ۔ مفتی صاحب مرحوم جوجذبئہ خدمت سے معمور ہوکراور بلند عزائم اورکچھ کرنے کی خواہش اپنے دل میں رکھتے تھے تیار ہوگئے اورمسجد کی تعمیر کیلئے ایسی تیز تحریک چھیڑی جیسے کہ انہیں میدان جنگ میں فتح حاصل کرنی ہو ۔ شب وروز اس طرح تعمیرمسجد کیلئے ممبئ شہر کے چپہ چپہ کی خاک کوچھا ن ڈالا کہ جتنا زیادہ ہوسکے تعمیرکے لئے سیم وزر حاصل کر لیا جائے ۔
اس بھاگم بھاگ اورذہنی دباؤ کے نتیجے میں مفتی صاحب کے دماغ پر زبردست حملہ ہوا اور ان کو ہوسپیٹل میں داخل ہوناپڑا ۔ اللہ پاک نے فضل فرمایا اورمخلصین کی دعاؤں سے وہ شفایاب ہوئے اورپھر تعمیر مسجد کے لئے تگ ودو شروع کردی تاآنکہ مفتی صاحب کے خلوص اورجدوجہد کی برکت سے بہت جلد مسجد کی خوب صورت تعمیر ہوگئ لیکن افسوس صد افسوس کہ عصبیت جاہلیہ اور ٹرسٹیان مسجد کی جہالت اورامام مسجد پرچودھراہٹ اورغلبہ کے اثرات کی شدت اوراس پر ان کے نکیر نے اس مسجد کی امامت کو خیرباد کہنے پر مجبور کردیا ۔
چونکہ علم غیور ہوتا ہے وہ اپنی غیرت کو جاہلوں اورچاپلوسوں اورمنافقوں کے سامنے رسوا نہیں ہونے دے تا۔
مفتی صاحب مرحوم کو بے علم وعمل تبلیغی دینداروں سے ایسا تلخ تجربہ ہوا کہ وہ اس کو برداشت نہیں کرسکے اور طبیعت نے ایسا اثر قبول کیا کہ وہ مکمل روبہ صحت بھی نہ ہوسکے ۔
گوونڈی کی مسجد کی امامت سے عدم تعلق کے بعد بھی وہ مجھ سے ملتے رہے ۔ انہوں نے اپنے گاؤں میں اورپٹنہ میں بھی ادارے قائم کئے تھے مگر اس میں ان کو استقلال حاصل نہ ہوسکا اوراس کی وجہ ان کی فعالیت پر حاسدین کی ریشہ دوانیاں رہیں ۔ بہرحال وہ اپنی ذات سے ملت کی خدمت اوردین کی نشرواشاعت کی جدوجہد کرتے رہے جویقینا ان کے حسنات میں شامل ہے چونکہ آدمی صرف کوشش کا مکلف ہے ۔
پرسوں جب ان کے انتقال کی خبرملی تو واقعی دل رنجور ہوا اور ان کیلئے رب کریم کے حضور دعائے مغفرت کی ۔
کاش کم ازکم مولویوں کا طبقہ جوقرآن وحدیث کے علم کا دعویدار ہے وہ تو دجل وفریب اورفسق وفجور غیبت حسد سے دور رہے کہ عوام اس باب میں ان کی اقتداء نہ کرسکیں ۔ مفتی امتیازالدین مرحوم ایسے ہی لوگوں کے گزیدہ تھے ۔
اللہ پاک مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے اوران کے اہل وعیال کے تکفل کا ازغیب انتظام فرمائے اورانہیں صبر جمیل مرحمت فرمائے آمین ۔

Comments are closed.