Baseerat Online News Portal

آہ! علم وادب کاایک اورستون گرگیا

ازقلم: مفتی صدیق احمد بن مفتی شفیق الرحمن قاسمی
موبائل نمبر:8000109710

گندمی رنگ،خوبصورت پُرگوشت کتابی چہرہ، متوسط قدوقامت،کشادہ پیشانی،سفیدداڑھی، نستعلیقی مزاج،حددرجہ لطیف اورنفاست پسند،ظریف الطبع،تخلیقی صلاحیتوں کےمالک،رجال ساز،مثالی معلم اورعالمی شہرت یافتہ اردو وعربی زبان کےنامورادیب،صاحب طرزانشاپرداز،ممتازنقاد،حضرت مولاناوحیدالزماں کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ کی جملہ خصوصیات کےحامل، متواضع، ملنسار،نمونۂ اسلاف، اردو وعربی کی درجنوں معیاری کتابوں کےمصنف،کامیاب مترجم،مقبول عربی مجلہ "الداعی” کےچیف ایڈیٹر،ام المدارس دارالعلوم دیوبندکےقدیم باکمال استاذِ ادب ،حضرت مولانانورعالم خلیل امینی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کامختصر علالت کےبعدقضائے الٰہی سے یوں اچانک روپوش ہوجانا،علمی وادبی دنیاکاعظیم خسارہ اورایسا خلاہےجس کی بھرپائ مشکل ہے،یقیناہم نےقیمتی ادبی سرمایہ اورخاندان کا نایاب ہیرا کھودیا۔

آپ کا نام :
نور عالم خلیل امینی اورکنیت :ابو اسامہ نور تھی ـ،اورآپ کےوالدماجد کا نام حافظ خلیل احمد،اوردادا کا نام :رشید احمد بن محمد فاضل بن کرامت علی صدیقی تھاـ،والدہ کا نام :سُلیمہ خاتون ،ناناکانام :بابو جان بن محمد نتھو بن محمد یار علی صدیقی تھاـ۔

آپ کی پیدائش:
جمعرات کوفجرکےوقت 18 دسمبر 1952ء مطابق یکم ربیع الآخر ١٣۷٢ھ کواپنے ننھیال بہارمیں واقع مظفرپورضلع کے ایک گاؤں ہرپور بیشی میں ہوئ ـ۔

آپ کاوطن اصلی:
رائےپور حالیہ ضلع سیتامڑھی، سابقہ ضلع مظفر پور بہارہےـ۔

زمانئہ شیرخوارگی میں ہی تقریباتین ماہ بعد والدماجدکاسایہ سرسے اُٹھ گیا،ـ
والدہ محترمہ کی دوسری شادی محی الدین بن محمد نتھو سے ہوئی، جو مولانا کے چچیرے ماموں بھی تھے۔ مئی 1967ء میں ان کا بھی انتقال ہوگیا ۔

ادھرپردادا کی زندگی میں ہی دادا کا انتقال ہوگیاتھا؛ـ لہٰذاآپ شرعی طور پر محجوب ہوگئےتھےـ۔

آپ کی دادی مقیمہ خاتون نے ابتدائی پرورش کی، دادی کے انتقال کے بعد بقیہ پرورش والدہ محترمہ نے کی۔
تعلیم: قاعدہ بغدادی کی شروعات نانا جان سے کی، اس کے بعد رائے پور میں مولوی ابراہیم عرف مولوی ٹھگن کے مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

آپ کےتعلیمی مراکزمدرسہ نور الہدی پوکھریرا، مدرسہ امدادیہ دربھنگہ ،دارالعلوم مؤ،دارالعلوم دیوبند، مدرسہ امینیہ دہلی تھے۔

چنانچہ محرم ١٣٨٠ھ مطابق جون 1960ء کودرجہ حفظ میں مدرسہ امدادیہ میں داخلہ لیا، جس میں سات پارے حفظ کے بعد ١٣٨١ھ مطابق 1961ء کو درجہ ششم اردو میں، اس کےبعد1964 ء مطابق ١٣٨٣ھ کودارالعلوم مؤ میں،اخیرمیں ۱۶/شوال ۱۳۸۷ ھ مطابق 20 دسمبر 1967 ء کوام المدارس دارالعلوم دیوبندمیں داخل درس ہوئے،ـ 1970ء میں مولانا نے درس نظامی کی تکمیل کے لیے مدرسہ امینیہ میں داخلہ لیا۔

فراغت کےبعددارالعلوم ندوۃ العلماء میں تقریباً دس سال جون 1972 ءسے 1982ء تک اپنی علوم وفنون سےطلبہ کوسیراب کرتے رہیں۔

نکاح :
اسی درمیان 8۔9ستمبر 1979ءمیں آپ ؒ کاعقدِنکاح، بہار کے مدھوبنی ضلع میں واقع پرسونی گاؤں میں جناب قمرالزماں صاحب ؒ المعروف امین صاحب ؒ کی دختر ِنیک اختر سے ہوا ۔

1983ء میں آپ نےعربی زبان میں تدریس کی مہارت کاسہ ماہی کورس ،کنگ سعودی یونیورسٹی ،ریاض سےمکمل کیا۔ـ

بعدازاں دارالعلوم دیوبند میں تقریباً انتالیس سال 1982 ءسے تاحال، علمی وادبی خدمات انجام دینے میںہمہ وقت مصروف رہیں۔

عربی زبان کی خدمات پر2017ء میں انھیں صدرجمہوریہ ایوارڈسےنوازاگیاـ۔

تصنیفات بزبان اردو :
وہ کوہ کن کی بات”… ، پسِ مرگ زندہ ،رفتگان نارفتہ، ( زیر طبع) فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں، صحابہ رسول اسلام کی نظر میں، کیا اسلام پسپا ہورہا ہے؟، عالم اسلام کے خلاف صلیبی صہیونی جنگ… حقائق اور دلائل، حرف شیریں، خط رقعہ کیسے لکھیں؟۔

تصنیفات بزبان عربی :
مجتمعاتناالمعاصرہ والطریق الی الاسلام، المسلمون فی الہند، الدعوہ الاسلامیہ بین الامس والیوم، مفتاح العربیہ، دوجلدیں، العالم الھندی الفرید :الشیخ المقری محمد طیب، فلسطین فی انتظار صلاح الدین، الصحابۃ ومکانتہم فی الاسلام، من وحی الخاطر پانچ جلدوں میں اشراقہ کا مجموعہ۔
تراجم اردو سے عربی : تقریباً پچیس کتابوں کا اردو سے آپؒنے عربی زبان میں ترجمہ کیا ہے؛ جس میں سے مشہور کتابیں یہ ہیں ـ۔
(۱)عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح (مولانا سید ابوالحسن الندویؒ) التفسیر السیاسی للاسلام فی مرآۃ کتابات الاستاد ابی الاعلی المودودی والشھید سید قطب ـ
(۲)پاکستانیوں سے صاف صاف باتیں (مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ) احادیث صریحۃ فی باکستان ـ
(۳)مولانا الیاس ؒاور ان کی دینی دعوت (مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ) الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد الیاس الکاندھلوی ـ
(۴)حضرت امیر معاویہ اور تاریخی حقائق (مفتی تقی عثمانی) سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فی ضوء الوثائق الاسلامیہ ـ
(۵)عیسائیت کیا ہے؟ ماھی المسیحیۃ؟ (مفتی تقی عثمانی) ـ
(۶)علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج (حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ) علماء دیوبند واتجاھم الدینی و مزاجھم المذہبی ـ
(۷)من الظلمات الی النور (کرشن لال) ماساۃ شاب ھندوسی اعتنق الاسلام ۔
(۸)ہندوستان کی تعلیمی حالت انگریزی سامراج سے پہلے اور اس کی آمد کے بعد (مولانا حسین احمد مدنیؒ) الحالۃ التعلیمیہ فی الھند فیما قبل عھد الاستعمار الانجلیزی وفیما بعدہ ۔
(۹)ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعیت (مولانا منظور احمد نعمانیؒ) الثورۃ الایرانیہ فی ضوء الاسلام ۔
(۱۰) بر صغیر میں شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے خلاف پروپیگنڈے کے علمائے حق پر اثرات (مولانا منظور احمد نعمانی ؒ) دعایات مکثفۃ ضد الشیخ محمد بن عبد الوھاب النجدی ۔
(۱۱)دعوت اسلامی مسائل و مشکلات (مولانا امین احسن اصلاحی) الدعوۃ الاسلامیہ قضا یا و مشکلات ۔
(۱۲)مقالات حکمت، ومجادلات معدلت (حکیم الاسلام حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ) لآلی منثورۃ فی التعبرات الحکیمہ عن قضایا الدین و الاخلاق والاجتماع ۔
(۱۳)اشتراکیت اور اسلام (ڈاکٹر خورشید احمد) الاشتراکیۃ والاسلام
( مولانا سعید الرحمن ندوی کے ساتھ) ـ
(۱۴)حضرت مدنیؒ کے مختلف مضامین کا ترجمہ. بحوث فی الدعوۃ والفکر الاسلامی ۔

آپؒ کےاب تک ہندوستان و پاکستان کےمختلف عربی ممالک سے شائع ہونے والے اردو عربی رسائل میں تقریباً پانچ سو سےزائدمضامین و مقالات شائع ہوچکے ہیں ـ۔

وفات:
ماہ ِرمضان المبارک سےکچھ روز قبل ہی سےبخارکاآناجانالگاہواتھا،جس کےبعدکمزروری بڑھ گئ تھی، علاج ومعالجہ چل رہاتھا، شوگرکےعلاوہ اوربھی متعددامراض مسلسل ساتھ لگے ہوئےتھے، جن کی وجہ سےدواؤں کی ایک گٹھری ساتھ رہتی تھی، رمضان المبارک میں بھی طبیعت نرم گرم ہورہی تھی،اچانک سانس لینےمیں دشوری ہونےلگی، تومظفرنگر کے قدیم فیملی ڈاکٹر کے پاس گئے،اور ان کے مشورے سے گھرپرہی آکسیجن لگادیاگیا، جس سے طبیعت اچھی ہونے لگی،اسی درمیان ایک دن اپنے چھوٹے صاحبزادے مولاناثمامہ صاحب کو بلاکریہ چند اشعار پڑھ کررونےلگے۔

اتنے مانوس صیاد سے ھوگئے
اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے

آشیاں جل گیا، گلستاں لٹ گیا
ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے

اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

اور کچھ دن یہ دستور مے خانہ ہے
تشنہ کامی کے یہ دن گزر جائیں گے

میرے ساقی کو نظریں اٹھانے تو دو،
جتنے خالی ہیں سب جام بھر جائیں گے

اے نسیم سحر تجھ کو ان کی قسم
ان سے جا کر نہ کہنا مرا حال غم

اپنے مٹنے کا غم تو نہیں ہے مگر
ڈر یہ ہے ان کے گیسو بکھر جائیں گے

اشک غم لے کے آخر کدھر جائیں ہم
آنسوؤں کی یہاں کوئی قیمت نہیں

آپ ہی اپنا دامن بڑھا دیجیے
ورنہ موتی زمیں پر بکھر جائیں گے

کالے کالے وہ گیسو شکن در شکن
وہ تبسم کا عالم چمن در چمن

کھینچ لی ان کی تصویر دل نے مرے
اب وہ دامن بچا کر کدھر جائیں گے

اس کے بعدگھر پر تقریبا ہفتہ،عشرہ آکسیجن لیتے رہے، پھرچند ایام کےبعدمیرٹھ کے آنندہسپتال میں داخل کرایاگیا،جہاں علاج چل رہاتھا،آکسیجن کی سہولت بھی دستیاب تھی، طبیعت بہ تدریج بحال ہورہی تھی، افاقہ بھی ہورہاتھا؛ تب ہی اچانک رمضان المبارک کی بیسویں شب میں طبیعت علیل ہوگئی،اس کےبعدسےمسلسل زباں پروِردجاری رہا،اور۲۰/رمضان ۱۴۴۲ھ مطابق 3/ مئی2021ء بروز پیر تہجدکے وقت 1بجنےمیں کچھ منٹ باقی تھےکہ تقریبا70 سال کی عمر میں روح قفسِ عنصری سےپروازکرگئ ـ۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ ـ

اللہ تعالی حضرتؒ کی بال بال مغفرت فرمائے، قبرکونورسےمنورفرمائے، خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت سےنوازے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطافرمائے، پسِ ماندگان کو صبرجمیل کی توفیق عطافرمائے، اہل خانہ کی بہترین کفالت کاانتظام فرمائے اورامت کوآپ کانعم البدل عطافرمائے۔ ـ آمین یارب العالمین ـ ۔

آخری پیغام:
آپ ؒ جاتے جاتے اپنی عملی زندگی سے ہمیں یہ پیغام دے گئے کہ : غربت چاہے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو،اگرآپ کےاندر ذوق ،فکر ، احساسِ ذمہ داری ،بلند ہمتی اور پابندی ہے،توآپ کوکام یابی سےکوئی بھی روک نہیں سکتا۔
نیزکسی بھی فن میں کمال حاصل کرنے کےلیے اِک اِک لمحے کی قدرکرتے ہوئے شوق ورغبت اورمحنت سے استقامت کے ساتھ اس فن کی باکمال شخصیت کو اپنے لیے نمونہ بناکران ہی کے نقش قدم پرچلتے رہیں،ان شاء اللہ بہت جلدمنزل تک پہنچ جائیں گے۔

پسِ ماندگان:
آپؒ کے پسِ ماندگان میں اہلیہ محترمہ؛تین لڑکے: مولانااسامہ نور صاحب ،جناب عمارہ نورصاحب،مولاناثمامہ نورصاحب اورچار لڑکیاں ہیں۔ اللہ تعالی سبھوں کو صحت وعافیت اور توفیقِ کارِ خیرکےساتھ عمرِدرازنصیب فرمائے۔ـ آمین۔
نمازجنازہ:
آپ کی نمازجنازہ۲۰/رمضان المبارک ١۴۴٢ھ مطابق 3مئی2021ء بروز پیر بعدنمازظہر،دارالعلوم دیوبند کےاحاطۂ مولسری کےاندرحضرت مولاناارشدمدنی دامت برکاتہم کی اقتدامیں ادا کی گئ۔ آپ کی تدفین دیوبندکےتاریخی قبرستان مزارقاسمی میں ہوئی۔

Comments are closed.