Baseerat Online News Portal

مولانا اسیر ادروی: ایک تعارف

جو بادہ کش پرانے تھے وہ اٹھتے جاتے ہیں

سید انعام الحسن

 

موجودہ وقت میں ایک اور جہاں امت مسلمہ کو فلسطین پر بڑھتے اسرائیلی ظلم و تسلط کا مسئلہ درپیش ہے،وہیں دوسری اور اہل علم و تقوی اکابرین کی رحلت نے امت کو حزن و ملال سے دو چار کر رکھا ہے۔یوں تو قحط الرجال کی اس وبا سے تمام عالم اسلام مضحمل ہے لیکن بر صغیر ہند و پاک اس کا خاص طور پر شکار ہوا ہے۔
آج کثیر التصانیف عالم،باکمال ادیب اور عظیم مورخ مولانا نظام الدین اسیر ادروی بھی اس عالم ناپائدار سے عالم جاودانی کی جانب کوچ کر گئے اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کی حیات و خدمات کا مختصر تعارف پیش کیا جائے۔
مولانا کی پیدائش سن ۱۹۲۶ میں ادری ضلع اعظم گڑہ میں ہوئی۔ان کے والد شیخ عبد الکریم ایک نیک سیرت اور غیور شخص تھے مولانا کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی،کچھ بڑے ہوے تو مقامی مدرسہ فیض الغرباء میں داخل کرا دئے گئے یہاں مولانا نے قرآن کریم مکمل کیا کچھ مسلکی تنازعات کی بناء پر وہ یہاں تعملیم جاری نہ رکھ سکے-۹ سال کی عمر میں انہوں نے مفتاح العلوم موء میں داخلہ لیا یہاں مولانا نے منشی ظہیر الحق نشاط سیمابی سے یوسف زلیخہ،سکندر نامہ وغیرہ فارسی کی ابتدائی کتب پڑھیں۔مولوی محمد یحی مرحوم سے مولانا نے’’القراتہ الراشدہ‘‘ ،’’دروس الادب‘‘ ، ’’میزان منشعب‘‘، ’’نحو میر‘‘، ’’پنج گنج‘‘، ’’فصول اکبری‘‘ اور ’’علم الصیغہ‘‘ جیسی کتابیں پڑھیں-تیسرے استاذ مولانا عبد اللطیف نعمانی سے "شرح تہذیب” کا درس لیا یہاں کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین مولانا حبیب الرحمان اعظمی تھے جن سے مولانا کے والد کے خوشگوار تعلقات تھے-یہاں مولانا نے چار سال تعلیم حاصل کی-چونکہ لڑکپن کا زمانہ تھا جو متنوع امنگوں اور ماحول سے بغاوت پر مبنی خواہشات کا حامل ہوتا ہے مولانا اپنے دو دوستوں کے ہمراہ فرار ہو کر غازی پور کے ایک مدرسہ گئے لیکن وہاں گرمیوں کی تعطیل کا آغاز ہونے کو تھا لہذا وہاں سے جونپور کا قصد کیا-یہاں مولانا نے مدرسہ حنفیہ میں داخلہ لیا جو کہ نواب صاحب کا مدرسہ کہلاتا تھا یہاں مولانا نے شکوٰۃ شریف اور ہدایہ پڑھی جونپور اس وقت ادری جیسے چھوٹے قصبہ کے کمسن لڑکوں کے لئے بہت بڑا اور رنگا رنگ شہر تھا بقول ان کے”مدرسہ حنفیہ میں امتحان بھی نہیں ہوتا تھا اسلئے کتابوں کو درس کے علاوہ کبھی ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے،سچ مچ یہ مدرسہ نواب صاحب کا تھا،ہم لوگ بھی سال بھر نوابی کرتے رہے،نکما ہونا نوابی کا سب سے بڑا جوہر تھا،ہمارا دامن بھی اس سے مالامال ہو رہا تھا،ہمیں ساری کتابیں دوبارہ پڑھنی پڑھیں،پورا سال ہم نے ضائع کیا،البتہ دنیا خوب دیکھی،دنیا کے کئی رنگ دیکھے،شعبان آیا تو ہم نے رخت سفر باندھ لیا”
آگے کی تعلیم کے حصول کے لئے مولانا نے کافی غور و خوض کے بعد احیاء العلوم مبارکپور کا انتخاب کیا اس مدرسہ کے روحِ رواں مولانا شکر اللہ مبارکپوری تھے آپ مشہور محدث مولانا ماجد علی جونپوری اور امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری کے خاص تلامذہ میں سے تھے۔مولانا کو ان سے بے پناہ عقیدت تھی-
احیاء العلوم میں ان کے اساتذہ صدر المدرسین مولانا مفتی محمد یسین صاحب مولانا محمد عمر مظاہری اور مولانا بشیر احمد مظاہری تھے۔ سبعہ معلقہ، دیوانِ حماسہ، مختصر المعانی وغیرہ مولانا محمد عمر صاحب سے پڑھیں اور ہدیہ سعدیہ اور میبذی کے علاوہ منطق و فلسفہ کی دیگر کتابیں مولانا بشیر احمد صاحب سے پڑھیں۔ مفتی محمد یسین صاحب سے بھی بہت سی کتابیں پڑھیں۔ یہاں مولانا نے دو سال تعلیم حاصل کی اس عرصہ میں مولانا نے درسی کتابوں پر عبور حاصل کرنے کے ساتھ ہی ادبی صلاحیتوں کو بھی فروغ دیا اور مدرسہ میں منعقد مشاعرہ میں داد سخن حاصل کی اور شاعری ہی کے سلسہ میں کچھ بیباکانہ تنقیدوں کی بناء پر ان کا اخراج کر دیا گیا
احیاء العلوم میں بتایا دو سالہ عرصہ مولانا کے لئے بڑی اہمیت کا حامل تھا- خود فرماتے ہیں”احیاء العلوم مبارکپور کی اس دو سالہ زندگی نے علمی اعتبار سے مجھے بہت زیادہ فائدی پہنچایا،میرے علم و شعور کی بلوغت یہیں ہوئی،ذہنی و فکری پختگی مجھے یہیں سے نصیب ہوئی مطالعہ کا چسکا مجھے یہیں پڑا” آگے چل کر فرماتے ہیں”غور و فکر کی ایک مستقل شاہراہ مجھے یہیں نظر آئی جس پر میں اپنی پوری زندگی چلتا رہا،میرے اوپر احیاء العلوم کا ایک بڑا احسان ہے جس کا شکریہ ادا نہیں ہو سکتا”
احیاء العلوم مبارکپور میں دو سال قیام کے بعد مولانا نے دار العلوم مئو کی جانب قدم بڑھایا۔
دار العلوم مئو میں مشکوۃ شریف مولانا عبد الرشید الحسینی سے پڑھی، جلالین شریف قاری ریاست علی صاحب سے۔ دار العلوم مئو سے کچھ وجوہ سے اخراج ہوا اور مولانا دار العلوم دیوبند کی جانب چل پڑے۔یہاں مولانا کے کئی شناسا زیر تعلیم تھے اور اعظم گڑھ سے بھی کئی لڑکے داخلے کے لئے پہنچے تھے-چونکہ مولانا باوجود ذہین اور محنتی طالب علم ہونے کے شوخ طبیعت کے نوجوان تھے اور ان کا حلقہ احباب بھی ایسے ہی لڑکوں پر مشتمل تھا-امتحانات داخلہ کے دوران قیام میں کچھ ایسی تفریحی محفلییں سجیں کہ شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہوی نے برگشتہ ہو کر اعظم گڑھ والوں کا داخلہ رد کر دیا-
ان سب طلبہ نے مدرسہ شاہی مراد آباد میں داخلہ کا فیصلہ کیا جہاں اس وقت مولانا فخر الدین احمد کا درس بخاری شہرہ آفاق حیثیت رکھتا تھا۔مدرسہ شاہی میں اس وقت دورہ حدیث میں صرف چار کتابیں پڑھائی جاتی تھیں ۔ بخاری شریف، مسلم شریف ، ابو داؤد شریف اور ترمذی شریف۔بخاری شریف اور ابو داؤد شریف کے استاذ مولانا سید فخر الدین احمد تھے آپ حضرت شیخ الھند اور علامہ انور شاہ کشمیری کے علوم و معارف کے امین تھے-مسلم شریف کا درس مولانا محمد اسمعیل سنبھلی صاحب کے ذمہ تھا-ترمذی شریف کا درس حضرت سید الملت مولانا محمد میاں دیوبندی کے ذمہ تھا باکمال مؤرخ اور مصنف۔ درجنوں کتابوں کے مصنف۔’’ علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘،’’ علمائے حق کے مجاہدانہ کارنامے‘‘،’’ تحریک ریشمی رومال‘‘ وغیرہ ان کی شاہکار ہیں۔مراد آباد میں مولانا کی تعلیم مکمل ہوئی یہ وہ دور تھا جب”بھارت چھوڑو” تحریک اپنے شباب پر تھی اور مولانا کے اساتذہ عظیم مجاھد آزادی،شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے حلقہ بگوش تھے اور جمیعت علماء ہند سے وابستہ تھے لہذا مدرسہ شاہی بھی تحریکی مرکز قرار پایا اور بجز مولانا فخر الدین احمد کے مولانا کے تمام اساتذہ گرفتار ہوئے-مولانا نے بھے تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس جدو جھد نے مولانا کے دل میں ظلم و استبداد کے خلاف بھڑکتی آگ کو مزید جلا بخشی-
وطن واپسی کے بعد مولانا نے لاہور کا سفر کیا جسمیں قاضی اطہر مبارکپوری آور معروف شاعر احسان دانش کی صحبتوں سے فیضیاب ہوئے-مولانا کو احسان دانش صاحب سے خاص انس ہو گیا تھا۔
لاہور سے واپسی کے بعد مولانا نے اپنے وطن ادری میں مدرسہ چشمہ فیض کی نظامت کے فرائض بخیر و خوبی انجام دئے-اسی اثناء میں ہندوستان آزاد ہو گیا اور ملک کی تقسیم کے نتیجے میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ لگی-اس وقت ہندوستان میں رہ جانے والے مسلم بہت ہی سراسیمگی کے عالم میں تھے اور خوف و ہراس کا دور دورہ تھا ایسے نازک وقت میں مولانا نے لوگوں کو تصلی اور ہمت دلائی اور جو کچھ حفاظتی تدابیر اختیار کی جا سکتی تھیں کیں-مولانا جمیعت کے ساتھ ہی اس وقت کانگریس کے بھی کارکن تھے لہذا انہیں مقامی حکام کا بھی تعاون حاصل رہا۔اس کے بعد مولانا اپنے وطن مسلسل تعلیمی اور تحریکی کاموں میں مصروف رہے۔۱۹۷۲ میں اعظم گڑہ میں فرقہ وارانہ فسادات کے متاثرین کو مولانا نے جس تندہی سے امداد فراہم کی اسے دیکھتے ہوئے انہیں لکھنوء میں جمیعت کے سوبائی دفتر کا انچارج بنا دیا گیا-یہاں پر مولانا کی انتظامی صلاحیتیں کھل کر سامنے ائیں اور مولانا نے اپنی کارگزایوں سے جمیعت اور عوام دونوں کو ہرممکن فائدہ پہنچایا-*جو بادہ کش پرانے تھے وہ اٹھتے جاتے ہیں*
موجودہ وقت میں ایک اور جہاں امت مسلمہ کو فلسطین پر بڑھتے اسرائیلی ظلم و تسلط کا مسئلہ درپیش ہے،وہیں دوسری اور اہل علم و تقوی اکابرین کی رحلت نے امت کو حزن و ملال سے دو چار کر رکھا ہے۔یوں تو قحط الرجال کی اس وبا سے تمام عالم اسلام مضحمل ہے لیکن بر صغیر ہند و پاک اس کا خاص طور پر شکار ہوا ہے۔
۲۰ مئی ۲۰۲۱ کو جامعہ اسلامیہ بنارس کے بانی،کثیر التصانیف عالم اور عظیم مورخ مولانا نظام الدین اسیر ادروی بھی اس عالم ناپائدار سے عالم جاودانی کی جانب کوچ کر گئے اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کی حیات و خدمات کا مختصر تعارف پیش کیا جائے۔
مولانا کی پیدائش سن ۱۹۲۶ میں ادری ضلع اعظم گڑہ میں ہوئی۔ان کے والد شیخ عبد الکریم ایک نیک سیرت اور غیور شخص تھے مولانا کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی،کچھ بڑے ہوے تو مقامی مدرسہ فیض الغرباء میں داخل کرا دئے گئے یہاں مولانا نے قرآن کریم مکمل کیا کچھ مسلکی تنازعات کی بناء پر وہ یہاں تعملیم جاری نہ رکھ سکے-۹ سال کی عمر میں انہوں نے مفتاح العلوم موء میں داخلہ لیا یہاں مولانا نے منشی ظہیر الحق نشاط سیمابی سے یوسف زلیخہ،سکندر نامہ وغیرہ فارسی کی ابتدائی کتب پڑھیں۔مولوی محمد یحی مرحوم سے مولانا نے’’القراتہ الراشدہ‘‘ ،’’دروس الادب‘‘ ، ’’میزان منشعب‘‘، ’’نحو میر‘‘، ’’پنج گنج‘‘، ’’فصول اکبری‘‘ اور ’’علم الصیغہ‘‘ جیسی کتابیں پڑھیں-تیسرے استاذ مولانا عبد اللطیف نعمانی سے "شرح تہذیب” کا درس لیا یہاں کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین مولانا حبیب الرحمان اعظمی تھے جن سے مولانا کے والد کے خوشگوار تعلقات تھے-یہاں مولانا نے چار سال تعلیم حاصل کی-چونکہ لڑکپن کا زمانہ تھا جو متنوع امنگوں اور ماحول سے بغاوت پر مبنی خواہشات کا حامل ہوتا ہے مولانا اپنے دو دوستوں کے ہمراہ فرار ہو کر غازی پور کے ایک مدرسہ گئے لیکن وہاں گرمیوں کی تعطیل کا آغاز ہونے کو تھا لہذا وہاں سے جونپور کا قصد کیا-یہاں مولانا نے مدرسہ حنفیہ میں داخلہ لیا جو کہ نواب صاحب کا مدرسہ کہلاتا تھا یہاں مولانا نے شکوٰۃ شریف اور ہدایہ پڑھی جونپور اس وقت ادری جیسے چھوٹے قصبہ کے کمسن لڑکوں کے لئے بہت بڑا اور رنگا رنگ شہر تھا بقول ان کے”مدرسہ حنفیہ میں امتحان بھی نہیں ہوتا تھا اسلئے کتابوں کو درس کے علاوہ کبھی ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے،سچ مچ یہ مدرسہ نواب صاحب کا تھا،ہم لوگ بھی سال بھر نوابی کرتے رہے،نکما ہونا نوابی کا سب سے بڑا جوہر تھا،ہمارا دامن بھی اس سے مالامال ہو رہا تھا،ہمیں ساری کتابیں دوبارہ پڑھنی پڑھیں،پورا سال ہم نے ضائع کیا،البتہ دنیا خوب دیکھی،دنیا کے کئی رنگ دیکھے،شعبان آیا تو ہم نے رخت سفر باندھ لیا”
آگے کی تعلیم کے حصول کے لئے مولانا نے کافی غور و خوض کے بعد احیاء العلوم مبارکپور کا انتخاب کیا اس مدرسہ کے روحِ رواں مولانا شکر اللہ مبارکپوری تھے آپ مشہور محدث مولانا ماجد علی جونپوری اور امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری کے خاص تلامذہ میں سے تھے۔مولانا کو ان سے بے پناہ عقیدت تھی-
احیاء العلوم میں ان کے اساتذہ صدر المدرسین مولانا مفتی محمد یسین صاحب مولانا محمد عمر مظاہری اور مولانا بشیر احمد مظاہری تھے۔ سبعہ معلقہ، دیوانِ حماسہ، مختصر المعانی وغیرہ مولانا محمد عمر صاحب سے پڑھیں اور ہدیہ سعدیہ اور میبذی کے علاوہ منطق و فلسفہ کی دیگر کتابیں مولانا بشیر احمد صاحب سے پڑھیں۔ مفتی محمد یسین صاحب سے بھی بہت سی کتابیں پڑھیں۔ یہاں مولانا نے دو سال تعلیم حاصل کی اس عرصہ میں مولانا نے درسی کتابوں پر عبور حاصل کرنے کے ساتھ ہی ادبی صلاحیتوں کو بھی فروغ دیا اور مدرسہ میں منعقد مشاعرہ میں داد سخن حاصل کی اور شاعری ہی کے سلسہ میں کچھ بیباکانہ تنقیدوں کی بناء پر ان کا اخراج کر دیا گیا
احیاء العلوم میں بتایا دو سالہ عرصہ مولانا کے لئے بڑی اہمیت کا حامل تھا- خود فرماتے ہیں”احیاء العلوم مبارکپور کی اس دو سالہ زندگی نے علمی اعتبار سے مجھے بہت زیادہ فائدی پہنچایا،میرے علم و شعور کی بلوغت یہیں ہوئی،ذہنی و فکری پختگی مجھے یہیں سے نصیب ہوئی مطالعہ کا چسکا مجھے یہیں پڑا” آگے چل کر فرماتے ہیں”غور و فکر کی ایک مستقل شاہراہ مجھے یہیں نظر آئی جس پر میں اپنی پوری زندگی چلتا رہا،میرے اوپر احیاء العلوم کا ایک بڑا احسان ہے جس کا شکریہ ادا نہیں ہو سکتا”
احیاء العلوم مبارکپور میں دو سال قیام کے بعد مولانا نے دار العلوم مئو کی جانب قدم بڑھایا۔
دار العلوم مئو میں مشکوۃ شریف مولانا عبد الرشید الحسینی سے پڑھی، جلالین شریف قاری ریاست علی صاحب سے۔ دار العلوم مئو سے کچھ وجوہ سے اخراج ہوا اور مولانا دار العلوم دیوبند کی جانب چل پڑے۔یہاں مولانا کے کئی شناسا زیر تعلیم تھے اور اعظم گڑھ سے بھی کئی لڑکے داخلے کے لئے پہنچے تھے-چونکہ مولانا باوجود ذہین اور محنتی طالب علم ہونے کے شوخ طبیعت کے نوجوان تھے اور ان کا حلقہ احباب بھی ایسے ہی لڑکوں پر مشتمل تھا-امتحانات داخلہ کے دوران قیام میں کچھ ایسی تفریحی محفلییں سجیں کہ شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہوی نے برگشتہ ہو کر اعظم گڑھ والوں کا داخلہ رد کر دیا-
ان سب طلبہ نے مدرسہ شاہی مراد آباد میں داخلہ کا فیصلہ کیا جہاں اس وقت مولانا فخر الدین احمد کا درس بخاری شہرہ آفاق حیثیت رکھتا تھا۔مدرسہ شاہی میں اس وقت دورہ حدیث میں صرف چار کتابیں پڑھائی جاتی تھیں ۔ بخاری شریف، مسلم شریف ، ابو داؤد شریف اور ترمذی شریف۔بخاری شریف اور ابو داؤد شریف کے استاذ مولانا سید فخر الدین احمد تھے آپ حضرت شیخ الھند اور علامہ انور شاہ کشمیری کے علوم و معارف کے امین تھے-مسلم شریف کا درس مولانا محمد اسمعیل سنبھلی صاحب کے ذمہ تھا-ترمذی شریف کا درس حضرت سید الملت مولانا محمد میاں دیوبندی کے ذمہ تھا باکمال مؤرخ اور مصنف۔ درجنوں کتابوں کے مصنف۔’’ علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘،’’ علمائے حق کے مجاہدانہ کارنامے‘‘،’’ تحریک ریشمی رومال‘‘ وغیرہ ان کی شاہکار ہیں۔مراد آباد میں مولانا کی تعلیم مکمل ہوئی یہ وہ دور تھا جب”بھارت چھوڑو” تحریک اپنے شباب پر تھی اور مولانا کے اساتذہ عظیم مجاھد آزادی،شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے حلقہ بگوش تھے اور جمیعت علماء ہند سے وابستہ تھے لہذا مدرسہ شاہی بھی تحریکی مرکز قرار پایا اور بجز مولانا فخر الدین احمد کے مولانا کے تمام اساتذہ گرفتار ہوئے-مولانا نے بھے تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس جدو جھد نے مولانا کے دل میں ظلم و استبداد کے خلاف بھڑکتی آگ کو مزید جلا بخشی-
وطن واپسی کے بعد مولانا نے لاہور کا سفر کیا جسمیں قاضی اطہر مبارکپوری آور معروف شاعر احسان دانش کی صحبتوں سے فیضیاب ہوئے-مولانا کو احسان دانش صاحب سے خاص انس ہو گیا تھا۔
لاہور سے واپسی کے بعد مولانا نے اپنے وطن ادری میں مدرسہ چشمہ فیض کی نظامت کے فرائض بخیر و خوبی انجام دئے-اسی اثناء میں ہندوستان آزاد ہو گیا اور ملک کی تقسیم کے نتیجے میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ لگی-اس وقت ہندوستان میں رہ جانے والے مسلم بہت ہی سراسیمگی کے عالم میں تھے اور خوف و ہراس کا دور دورہ تھا ایسے نازک وقت میں مولانا نے لوگوں کو تصلی اور ہمت دلائی اور جو کچھ حفاظتی تدابیر اختیار کی جا سکتی تھیں کیں-مولانا جمیعت کے ساتھ ہی اس وقت کانگریس کے بھی کارکن تھے لہذا انہیں مقامی حکام کا بھی تعاون حاصل رہا۔اس کے بعد مولانا اپنے وطن میں مسلسل تعلیمی اور تحریکی کاموں میں مصروف رہے۔۱۹۵۴ء میں دار السلام نام سے ادری میں ایک مدرسہ کی نیو ڈالی۔ اپنے رفیق مولانا محمد قاسمی کے انتقال کے بعد تنہا رہ گئے۔ بعد میں مدرسہ کا الحاق الہ آباد بورڈ سے کرادیا ۔ قریب پندرہ سولہ برسوں تک ادری میں ہی کئی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۷۲ میں اعظم گڑہ میں فرقہ وارانہ فسادات کے متاثرین کو مولانا نے جس تندہی سے امداد فراہم کی اسے دیکھتے ہوئے انہیں لکھنوء میں جمیعت کے سوبائی دفتر کا انچارج بنا دیا گیا-یہاں پر مولانا کی انتظامی صلاحیتیں کھل کر سامنے ائیں اور مولانا نے اپنی کارگزایوں سے جمیعت اور عوام دونوں کو ہرممکن فائدہ پہنچایا۔ چار برس تک لکھنؤ میں جمعیت کے دفتر سے وابستہ رہے۔ تیس پینتیس ضلعوں میں جمعیتہ علماء کو بیدار کیا۔ دفتر کو ایک ویران کھنڈرسے نکال کر قلبِ شہر امین آباد میں شاہراہِ عام پر ایک خوبصورت سہ منزلہ شاندار عمارت میں منتقل کیا۔ اسی اثناء میں مولانا نے اپنی پہلی مطبوعہ کتاب "ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار”مرتب کی-
مولانا کی بےچین طبیعت کو کہیں سکون نہیں حاصل ہوتا تھا اور وہ ہمیشا خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتی تھی لہذا چار سال لکھنوء میں رہ کر مولانا پھر اپنے وطن آئے اور یہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد ۴؍ فروری ۱۹۷۸ء کو جامعہ اسلامیہ بنارس تشنہ گانِ علم کی پیاس بجھانے پہنچے اور عرصہ تک اسی سے وابستہ رہے۔ آپ نے اپنی بیشتر کتابیں اپنے قیامِ بنارس کے دوران ہی لکھیں۔
مولانا عرصہ سے صاحب فراش تھے اور اپنے وطن ادری میں سکونت پذیر تھے بلآخر ۲۰ مئی ۲۰۲۱ کو وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے-
مولانا کی تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ ’’افکارِ عالم: فکرِ اسلامی کی روشنی میں‘‘۔ دو جلدوں پر مشتمل مولانا کے مقالات کا مجموعہ ہے-
۲۔ ’’تحریکِ آزادی اور مسلمان‘‘۔ جنگِ آزادی میں مسلمان علماء اور عوام کی قربانیوں پر مشتمل ایک مختصر انسائیکلوپیڈیا ہے-
۳۔ ’’دار العلوم دیوبند: احیٔا اسلام کی عظیم تحریک‘‘۔ مشایخِ دیوبند کی علمی، سیاسی اور دیگر خدمات کے متعلق ۴۷۰ صفحات پر مشتمل ہے۔
۴۔’’ دبستانِ دیوبند کی علمی خدمات‘‘۔ ۱۸۲ صفحات پر مشتمل معلومات کا خزینہ ہے۔
۵۔ ’’حجتہ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی: حیات اور کارنامے‘‘۔
۶۔’’ مولانا رشید احمد گنگوہی: حیات اور کارنامے‘‘۔
۷۔’’ حضرت شیخ الھند: حیات اور کارنامے‘‘۔
۸۔’’ مآثر شیخ الاسلام‘‘ حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی حیات و خدمات پر مشتمل ہے۔
۹۔ ’’ولی و شیخ: مولانا امام الدین پنجابی‘‘۔ بانی دار العلوم مئو۔ایک عظیم مصلح۔ مولانا امام الدین پنجابی قدس سرہکی سوانح حیات ہے۔
۱۰۔ تاریخ جمعیت علماء ہند ۔ دو جلدوں پر مشتمل جمعیت علمائے ہند کی تاریخ ہے۔
۱۱۔’’ کاروانِ رفتہ یعنی تذکرہ مشاہیرِ ہند‘‘۔
۱۲-فن اسماء الرجال
۱۳۔اردو شرح دیوان متنبی (۵۲۶ صفحات پر مشتمل ہے)۔۱۴۔ تاریخ طبری کا تحقیقی جائزہ۔۱۵۔ تفسیروں میں اسرائیلی روایات۔ ۱۶۔ عہدِ رسالت: غارِ حرا سے گنبد خضری تک۔ ۱۷۔تبلیغی جماعت: احیاء اسلام کی عالمگیر تحریک۔ ۱۸۔ گلزارِ تعلیم۔ ۱۹۔ عقیدہ توحید اور اس کے عملی تقاضے۔ ۲۰۔ جواہرِ حدیث۔ ۲۱۔ احادیث کے جواہر پارے۔ ۲۲۔ عورت اور اسلام۔ ۲۳۔ معجم رجال البخاری۔ ۴۲۔ داستان ناتمام (خودنوشت سوانح)۔۲۳- سوانح مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور چار کتابیں گُم شدہ ہیں۔ ۱۔ کمیونزم: تجربات کی کسوٹی پر۔ ۲۔ غدارانِ وطن۔ ۳۔ نشیب و فراز (افسانوں کا مجموعہ)۔ ۴۔ رودادِ قفس(مجموعہ ہائے کلام)
مولانا نے تمام عمر ملت کی بے لوث خدمت کی نہ ستائش کی تمنہ کی، صلہ کی پرواہ-
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را !

Comments are closed.