فلسطین! لہولہان مگرحقوق انسانی کے علمبردارخاموش

محمدطفیل ندوی
جنرل سکریٹری امام الہندفاؤنڈیشن ممبئی
یہ سرزمین فلسطین انبیاء ؑ کی ہےاوربیت المقدس تمام عالم اسلام کا قبلہ اول رہاہےاسی مسجداقصی کی طرف رخ فرماکر سولہ ماہ نماز اداکی گئیںیہی وہ جگہ ہے جہاں سے نبی اکرم ﷺ کو معراج جیسی عظیم دولت نصیب ہوئی یہی وہ مقام اقدس ہے جہاں آپ ﷺ نے انبیاءکرام ؑ کی امامت فرمائی یہی وہ تیسرامقام ہے جہاں مسجدنبوی ﷺ کےعلاوہ ایک نماز پر پچاس ہزارنمازوں کے ثواب کاوعدہ ہےکیا آپ اس مقدس مقام کو باغیان خدا ،قاتلان انبیاءؑ،اورمنکران مصطفی ﷺکےحوالہ کرنےپرراضی ہیں ؟ اگرنہیں اورہرگزنہیں تو آئیے اوردیکھیے یہاں کی حالت زار اوران فلسطینیوں کی بےبسی اورباغیان خداکی بربریت ابھی حالیہ چندروز قبل ماہ رمضان المبارک میں الوداعی جمعہ سے اسرائیل اورفلسطین کے درمیان شدیدحملوں کاسلسلہ جاری ہیں الوداعی جمعہ کوروزےکی حالت اورنمازکےدوران اسرائیل کی جانب سےمسجداقصی کی بےحرمتی کی گئی اورہرچہارجانب سے گولیوں، بارودوںاوردیگرچیزوںسے نمازیوں کوچھلنی کیاگیاان فلسطینیوں پرزبردست حملےکئےگئےجس میں شدیدطورپربچے،جوان ،بوڑھےاورخواتین زخمی ہوگئے اورکچھ تاب نہ لاکر راہ خدامیں تحفظ’’ بیت المقدس ‘‘کی خاطر شہیدہوگئےلیکن جب ہم نے وہاں کےبچوں کودیکھا جوشاید ابھی بالکل بچےاوران کی عمر گڑیا اوردیگرکھلونوں کیساتھ کھیلنےکی ہےمگر کروڑوں سلام ہوں ان نونہالوں کےجذبوں اورحوصلوں کوجنہوں نےاپناسینہ ان ظالموں کےسامنے پیش کردیا اورآنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ بات ثابت کردی کہ ہم وہ عرب اوراسلام کےصرف نام لیوانہیں جوتمہاری بندوقوں کی نوک سے خوف کھاجائیں بلکہ جب تک ہماری سانسیں چلتی رہےگی ہم آخری سانس تک ’’بیت المقدس‘‘ کی تحفظ کی خاطر سینہ سپررہیں گےیہ ہماراقبلہ اول ہی نہیں ہمارےایمان کاحصہ بھی ہے۔
مگرہمیںاس بات پر توضرورافسوس ہےکہ ہمارے عرب حکمراں اپنی عیاشی اورسرخ راتوں میں مست ہیں ان کاضمیر ڈالروں اورعیش وعشرت میں رہ کر مردہ ہوچکاہے ان کے اندر اب وہ خون اورایمانی جذبہ نہیں کہ وہ ہماری آوازاورآنسوئوں پراپنے دولت کدےکوچھوڑدیں بلکہ ہماری تڑپتی اورخون میں لت پت لاشوں کودیکھ کر بھی وہ اپنی عیاشی اورسرخ راتوں میں ڈوبےہوں گےہمیں معلوم ہےکہ اب ابابیل اپنی چونچوں میں کنکریاں لےکر نہیں آئیگا مگراللہ کی ذات سے ناامیدبھی نہیں اگر وہ آبھی گیاتو شاید ان ظالم وجابر اسرائیلیوں کوتباہ کرنےسے قبل ان ضمیرفروش حکمرانوں کوپہلےتباہ کریگا کیوں کہ ان حکمرانوں کاضمیر مردہ ہوچکاہےجسم ایک زندہ لاش کےمانندہے کیوں کہ وہ ایمانی قوت سے محروم ہوچکےہیں اورحقوق انسانی کی علمبردارتنظیمیں خاموش تماشائی بنکر اس وحشیانہ مظالم کانظارہ دیکھ رہےہیں ہائے افسوس !
کیاان کے سامنے ہماری اس نوجوان بہن ’’مریم عساف ‘‘کی تصویر نہیں گئی ہوگی جس کی گردن پراسرائیلی فوج کاگھٹنا تھا میں سمجھتاہوںکہ یہ گردن کے اوپرنہیں بلکہ ان ممالک اسلامیہ کے ضمیرفروش حکمرانوںکی عزت وغیرت کےاوپرہیں اوران افواج کےاوپربھی ایک بدنماداغ ہے جواپنےآپ کو ایک طاقتور فوج سمجھنےکی خوش فہمی میں رہتےہیں اگردل میں درد مسلم ،درد اسلام ہےاورانسانیت کو ظلم سےنہ بچاسکیں تو ملک کی خاطر دینےوالی قربانیاںکس کام کی اگرکوئی زندہ ضمیرہوتوضرورمحسوس کررہاہوگا مگرضمیرزندہ ہوتوکیسےکیوں کہ یہ ایک مظلوم فلسطینی لڑکی ہے ،ایک محکوم قوم کی فردہے،ایک ایسافلسطین جس سےکسی ملک کاکوئی تجارتی فائدہ منسلک نہیں ،جہاں سے زکوۃ وصدقات اوردیگرعطیات کےملنےکاکوئی امکان نہیں لہذااس کےحق میں کون آوازبلند کریگا یااس پر ظلم کی مذمت کرنےکی کس کو حاجت ہوگی ۔
کیااس دس سالہ معصوم لڑکی کی مظلومانہ داستان نہیں پہونچی ہوگی جس کاساراکنبہ اس حملہ میں جام شہادت نوش کرگیاروروکر اورچیخ چیخ کر اپنی بے بسی ودردوالم کی داستان بیاںکررہی ہیں وہ کہہ رہی ہےکہ میں ڈاکٹربنناچاہتی ہوں، میری عمر دس سال ہے،میںگھروالوں سے پوچھتی ہوں کہ ہم پرمیزائیل کیوں برسائےجارہےہیں تووہ جواب دیتےہیں اس لئےکہ ہم مسلمان ہیں میں کیاکروں ہماراکیاقصورہیں ۔
کیاانسانیت کادرس دینےوالی انسانی حقوق کی تنظیموں کوملبےکےڈھیر میں پڑی ہوئی لاشیں نظرنہیں آرہی ہیں کہاں مرگئے انسانیت کادرس دینےوالے ،کہاں مرگئے ۵۶ اسلامی ملکوں کےاتحاد والےنمائندے،زمیں کھاگئی، ہروقت ٹیلی ویژن پربیٹھ کر ضیاع وقت کیساتھ فضول بحث میں ایک دوسرےکےدرمیان نفرت کارس گھولنےوالے میڈیااینکرز خداکیلئے کچھ توبولو اس سے قبل کہ تمہارے منہ ،تمہارےہاتھ ،تمہارے پائوں خداکےدربارمیں تمہاری مجرمانہ خاموشی کیخلاف بول اٹھیں پھریہ سلطنت ،یہ کرسی،یہ عہدیں اللہ کی پکڑسےبچانہیں سکتے پھرجرنیل،سیاستداںسب ایک ہی صف میں اس ظلم میں برابر کے شریک ٹھہرےہوئےہوں گے جیسے آج مظلوم فلسطینیوں کونہیں بچارہےہوایسے تمہیں بھی کوئی نہیں بچائیگاوقت ایک جیسانہیں رہتاقدرت کی لاٹھی بےآوازہے آج ارض فلسطین چیخ رہی ہے ،بیت المقدس تمہیں پکاررہی ہیں اوراس درد کیساتھ صدائیں بلندکررہی ہیںکہ۔
ستم جو ڈھائے درندوں نے دوران روزہ وہاں
تو غرق خون میں دیکھی ہے مسجداقصی
کوئی چھڑائےگا ظالم کی قید سے اس کو
اس انتظار میں بیٹھی ہے مسجد اقصی
چند ممالک اسلامیہ کےسربرآوردہ حکمراںاوراس کے نمائندوںنےایک میز پربیٹھ کر تبادلہ خیال توضرورکیا مگرعملی اقدامات پرکوئی تبادلہ خیال نہیں بس رسمی طورپر صرف مذمتی الفاظ بیان جاری کرکے ایک رسم اداکردی اس سے بہتراندازمیں تووہ مذمتی بیان دےرہےہیں جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ فلسطین کیاہے اوراسرائیل کیاہے مگرانہیں یہ معلوم ہےکہ فلسطین اس وقت ظلم وبربریت کاشکارہےاس پر ظلم کیاجارہاہے بس اسی کودیکھتےہوئے سخت الفاظ میں مذمت کررہےہیں اسی طرح’’ اقوام متحدہ ‘‘جوشاید اب وہ ایک کٹھ پتلی بن کررہ گئی ہے اس طرف سے بھی کوئی آوازنہیں آئیں ۔
تم شہراماں کے رہنےوالے دردہماراکیاجانو
ساحل کی ہواتم موج صبا طوفان کادھاراکیاجانو
اسرائیلی بربریت کےدل دہلادینےوالے مظالم کی تفصیلات بیان کرتےہوئے سینئرفلسطینی تجزیہ کار’’ جلال محمود‘‘اپنے جذبات پر قابونہ پاکر آبدیدہ ہوگئے اوراسی آبدیدہ نگاہوں کیساتھ وہ عالمی برادری،عالمی طاقتوں اورعرب حکمرانوں سے سوال کررہےہیں کہ کیا ان فلسطینیوں کےخون کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ کیااسرائیلی طاقتوں کوکوئی نہیں روک سکتا؟ کیافلسطینی جس بربریت اوروحشیانہ طریقےسے جام شہادت نوش فرمارہےہیں اوران پر جومظالم ڈھائیں جارہےہیں اس سےممالک اسلامیہ کی غیرت نہیں جاگ رہی ہیں؟ اسی طرح وہ حقوق انسانی کی علمبردار جواپنےآپ کو انسانیت کےعلمبردارکہتےہیں جن کے ہاتھوں میں حقوق انسانی کےجھنڈےہواکرتےہیں اوروہ کسی جانور کےمرنےپرباہرنکلتےہیں اوراپنی زندہ دلی کاثبوت پیش کرتےنہیں تھکتے آج ان کو فلسطین کے اندرخون کا بازارگرم ہوتاہوانظرنہیں آتا؟آج ان کو فلسطین کے اندر بچے،جوان ،بوڑھے اورخواتین کی لاشیں نظرنہیں آتی ؟آج ان کوفلسطین کی مسجد اقصی کی مقدس سرزمین کےاوپر مسلمانوں کابہتاہوالہونظرنہیں آتا؟ آج ان تمام عالمی برادران جوکہ کسی بھی چھوٹےواقعہ کو ناگہانی کےطورپرپیش کرکے دردناک بناتےہیں اورسڑکوں پردندناتےپھرتےہیں آج ان کو مسلمانوں کاقتل عام نظرنہیں آتا؟آج ان کو یہ نظرنہیں آتا کہ کس طرح مسلمانوں کو زندہ درگور کیاجارہاہے ؟پوری دنیا منافقت کالبادہ اوڑھ کر خاموش تماشائی بنےبیٹھیں ہیں کیاتمہاری خاموشی اس بات کاثبوت نہیں پیش کررہی ہیں کہ
بجھی ہوئی عشق کی آگ اندھیرہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیرہے
آج بیت المقدس جل رہاہے بچوں کوزندہ درگورکیاجارہاہے،ماؤں بہنوں کی عصمتیں لوٹی جارہی ہیں ،بزرگوں اورنوجوانوں کو ماراپیٹاجارہاہیں اورایک عرب سینتالیس کروڑمسلمان انگشت بدنداں کھڑےہیں کہ ہمارےساتھ کیاہورہاہےاورسوال کررہےہیں بین الاقوامی کمیونٹی سے کہ وہ کمیونٹی جوحقوق انسانی کی علمبرداربنی ہے اورآج وہ دادرسی کیلئے تیارنہیں سوال توضرورپوچھاجائیگا پوری مسلم امۃ سے کہ آج مسلم امۃ کہاں ہیں ،ہمارے پاس پیٹرول کی طاقت،افواج کی طاقت،ریاست کی عربی طاقتیں،ممالک کی طاقتیں کیوں نہیں فلسطین کے حق میں یہ ساری طاقتیں استعمال ہوتی ہیں کیااسرائیلی یہودی آبادکاروں اوراسرائیلی حکومت کامقابلہ جکارتہ سے افریقہ ،ملیشیاءوانڈونیشیاءسےلےکر ترکی وعرب تک تمام کی تمام طاقتیں کیوں نہیں اکٹھاہوتی بس ہمارےاندرغیرت وحمیت کی ضرورت ہے ،صلاح الدین ایوبی جیسی ہمت وجرات کی ضرورت ہے اس پس منظرمیں یہ بھی یادرکھناچاہیےکہ اس وقت پوری امت مسلمہ کی طرف سے فرض کفایہ کےطورپر حماس اوراخوان کے لوگ فلسطین کی کازکیلئے لڑرہےہیں مگرافسوس اس بات پرہےکہ ہمارے درمیان کچھ ایسے افراد پیداہوگئے ہیں جو انہیں دہشت گردبتاتےہیں جس کی بناپر حماس اوراخوان سے لوگ بدظن ہوئےاورہورہےہیں اوراس کی حمایت کرنیوالے مسلم ممالک تھے اوریورپی ممالک سے یہ شیڈول تیارکیاگیاکہ حماس اوراخوان کےسلسلےمیں عوام الناس کےاندربدظنی عام کیاجائیں اوریہی ہوااس پروپیگنڈےسے ہمارانوجوان طبقہ اس سے بدظن ہوگیا اسلئے یہ ضروری ہے کہ ہم نوجوانوں کواس سے آگاہ کریں۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ وقفہ وقفہ کےطورپرچالیس سالوں سے ان فلسطینیوںپربمباری اورگولیاں داغی جارہی ہیں دنیابھرکے ہتھیاران پر استعمال کئے جارہےہیں ان پر بربریت طیاروں ،ٹینکوں ،توپوںاورجدیدترین ہتھیاروں سے کی جارہی ہیں مگر اس کاجواب وہ پتھرسے دےرہےہیں ،ایک طرف غاصب اسرائیل دوسری طرف نہتے فلسطینی ،وہ جدید ترین ہتھیارسے لیس اوریہ جذبہ ایمانی سے سرشار ان کے چہروں پر اس دہشت زدہ ماحول میں بھی ایک مسکراہٹ ہیں ان کے جذبہ بلند ہیں وہ اپنی حالت زارسے کہہ رہےہیں ہمیں گرفتارکیاجائیگا ہم مسکرائیں گے ،ہمیں شہیدکیاجائیگا تب بھی ہم مسکرارہےہوں گے اوراس مسکراہٹ سے ہم اس قوم کو پیغام دیں گےجوکہ جنگی صلاحیتوں میں توشاید بہت آگےہیں لیکن انسانیت میں صفرکے مترادف ہیں ان کے اندرانسانیت نہیں ہے ۔
ہم دیکھتےہیں کہ وہیل چیئرپربیٹھ کر جودونوں پیرسے محروم ہے’’فادی ابوصلاح‘‘اپنی شجاعت وبہاری سے ان اسرائیلیوں کے توپوں ،ٹینکوں،اورگولیوں کامقابلہ اپنے گلیل سے کرتاہےاورتمغہ شہادت کواپنے سینےپہ سجالیتاہے اس کی ہمت وجرات کوسلام جس کے دونوں پیرنہیں مگر حوصلہ ساتویں آسمان پر واہ! میرےبھائی فلسطینی اسلام وبیت المقدس کےسپاہی ومحافظ تمہیں ہم کس منہ سےسلام پیش کریں ہمیں شرم آتی ہے صحیح کہاکسی نے ’’ہرچیزچائنامیں بن جاتی ہیں سوائے مردانگی کے کیوں کہ وہ صرف فلسطین میں پائی جاتی ہے ‘‘
یہی وجہ ہےکہ وہاں کےچھوٹےچھوٹےبچے وہ کھیل بھی پیش کررہےہیں جس سے سوئی ہوئی انسانیت اورممالک اسلامیہ کی غیرت جاگے جس کامنظریہ ہےکہ ایک بچہ شہیدہونےکی اداکاری کرتاہے اورباقی سب بچےاس کے جنازےکوکندھادیتےہیں یقینایہ فلسطینی بچوں کےکھیل بھی تمام امت مسلمہ کی غیرت کوجھنجھوڑنےکیلئے کافی ہے اسی طرح وہ بچے اپنے جذبے اورحوصلوں سے ان بدبخت اسرائیلی افواج پر عقاب کی طرح جھپٹ رہےہیں اورشیرکی طرح آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر مقابلہ کررہےہیں ،ان مظلوم فلسطینیوں کی اشکبارنگاہیںاب بھی اس بات پر منتظرہےکہ ممالک اسلامیہ اورحکمران عرب آخر خواب خروگوش سے کب بیدارہوں گے اوروہ یہ کہہ رہی ہیں ۔
مومن ہے توکیوں آنکھ تیری خوف زدہ ہے
اٹھو کندھےمیرےکندھوں سےملادوآج

 

 

 

Comments are closed.