Baseerat Online News Portal

آہ! ایک عظیم مصنف اسیرادروی رح رخصت ہوگئے

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی

اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کو اگر علماء گڑھ کہا جائے تو بے جا نہیں ہے، یہاں ہر دور میں اہل علم ، پڑھنے لکھنے کے شیدا پیدا ہوتے رہے ہیں، جن کے علمی کارنامے سے ایک عالم فیضاب ہورہے ہیں۔
انہیں علماء کرام کے سلسلہ طلائے ناب میں ایک نام حضرت مولانا نظام الدین اسیر ادروی رحمہ اللہ کا بھی ہے، جنہیں اب رحمہ اللہ لکھتے کلیجہ منھ کو آرہا ہے۔
کل گذشتہ (7/شوال المکرم،1442/ھ،مطابق،20/مئ ،2021 ء،روز جمعرات) یہ جانکاہ اور دل سوز خبر شوشل میڈیا پر دیکھنے اور پڑھنے کو ملا کہ ملک کہ مایہ عالم دین،عمدہ قلم کار حضرت مولانا نظام الدین اسیر ادروی رحمہ اللہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے، کلمہ استرجاع زبان پر جاری ہوا:
*انا لله وانا اليه راجعون اللهم اغفر له وارحمه وادخله في فسيح جناتك ياارحم الراحمين.*
راقم السطور آپ رحمہ اللہ کے غائبانہ عاشقوں میں سے ایک عاشق ہے، آپ سے کبھی دید و لقاء نہیں ہوئی، آپ کی خدمت میں کبھی جسمانی حاضری نہیں ہوئی، تاہم *”داستان ناتمام“* پڑھنے کے بعد ایسا معلوم ہوا کہ یہ حقیر سراپا تقصیر آپ کی خدمت میں حاضر ہے اور آپ بنفس نفیس اپنی زندگی کی کہانی سنا رہے ہیں۔
آپ رحمہ اللہ کی کئی کتابوں سے استفادہ کرنے کا شرف ہے، غالباً سب سے پہلے "کاروان رفتہ”(جس میں شخصیات کا مختصر تعارف ہے) پڑھنے کا موقع ملا، غالباً اس عنوان پر یہ سب سے پہلی کتاب ہے، آج بھی یہ ہماری ڈائس پر موجود ہے، حال ہی میں راقم السطور نے اپنے ایک مضمون *علامہ تمنا عمادی رح اور ان کی کتاب جمع القرآن* میں علامہ کی تعارف کے لئے کاروان رفتہ سے ہی استفادہ کیا تھا، پھر اس مضمون پر بغرض تبصرہ مشہور عالم دین عبدالمتین منیری صاحب دامت برکاتہم(واٹس ایپ کے علمی گروپ”علم وکتاب“ کے ایڈمن) کی خدمت میں بھیجا، انہوں نے مندرجہ ذیل کلمات لکھا:
*کاروان رفتہ کی عبارت شاید مصنف (حضرت مولانا ادروی رحمہ اللہ) کی اپنی عبارت نہیں ہے، انہوں نے ماہرالقادری سے یہ عبارت لے کر اپنی طرف منسوب کی ہے۔*
یہ تبصرہ پڑھ کر دل قبول نہیں کیا کہ اتنے بڑے مصنف یہ کیسے کرسکتے ہیں؟
مولانا رحمہ اللہ کی دوسری کتاب "داستان ناتمام ” کا کیا کہنا، اس میں اپنے دارالعلوم دیوبند میں حاضری، اور امتحان کا ہونا، اور پھر داخلہ کا نہ ہونا یہ تمام بڑے ہی اچھوتے انداز میں تحریر فرمایا ہے۔
تیسری کتاب "غار حرا سے گنبد خضرا تک” یہ کتاب بھی بہت ہی نرالی انداز میں ہے۔
چوتھی کتاب "افکار عالم” یقیناً یہ کتاب اسم بامسمٰی ہے۔
اس کے علاوہ بھی درجنوں کتاب کے آپ رح مصنف ہیں،
خلاق عالم نے آپ کی تحریر میں جادو کی اثر رکھی تھی، آپ کو شعر و شاعری سے بھی دلچسپی تھی،آپ اس ہنگامہ عالم میں 1926/ء میں آنکھیں کھولیں ،آپ فاضل مدرسہ شاہی مراد آباد تھے۔
اللہ تعالی آپ کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے۔( آمین )

مضمون نگار جامعہ نعمانیہ وی کوٹہ آندھرا پردیش میں تدریس خدمات انجام دے رہے ہیں۔

Comments are closed.