سیر و تفریح یا خودکشی کی راہ؟

بے احتیاطی، لاپرواہی اور جان لیوا رجحانات کا المیہ (اوّل و دوّم)
مسعود محبوب خان (ممبئی)
09422724040
(حصّہ اوّل)
"وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ”۔ (اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو)۔ (سورۃ البقرۃ: 195)
اسلام، جو دینِ فطرت ہے، انسان کی ہر ضرورت کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کی حدود و قیود کا تعین بھی مہذب انداز میں کرتا ہے۔ دینِ اسلام جہاں عبادت، زہد اور تقویٰ کی تعلیم دیتا ہے، وہیں فطرت کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے، دل و دماغ کو تازگی دینے اور جسم و جان کی راحت کے لیے تفریح کی بھی اجازت دیتا ہے۔ بشرطیکہ وہ تفریح عقل، شریعت اور تحفّظِ جان کے دائرے میں ہو۔ زندگی اللّٰہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک امانت ہے۔ اس کی حفاظت نہ صرف اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے بلکہ شرعی ذمّہ داری بھی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: "لا ضررَ ولا ضرارَ”۔ (نہ خود کو نقصان دو، نہ دوسرے کو نقصان پہنچاؤ)۔
افسوس کہ آج کے دور میں ہم نے تفریح کو عقل اور شعور سے جدا کر دیا ہے۔ لمحاتی لذت، سستی شہرت، اور غیر سنجیدہ جرأت نے ہمیں اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ہم اپنی جان کی قدر کھو بیٹھے ہیں۔ قرآن ہمیں بار بار اپنی جان، اپنے مال اور اپنے عمل کے بارے میں جواب دہی کا احساس دلاتا ہے، لیکن ہم اکثر اس احتساب کو تفریح کی چکاچوند میں فراموش کر دیتے ہیں۔ یاد رکھیے!!! زندگی اللّٰہ کی عطاء ہے، اور اسے ضائع کرنا خیانت ہے۔ تفریح کی اجازت ضرور ہے، مگر ایسی نہیں جو جان لیوا ہو، یا جو کسی ماں کی گود اجاڑ دے، کسی بچّے کو یتیم کر دے، یا کسی دل کو تاعمر ماتم کی آگ میں جھونک دے۔
سیر و تفریح انسانی فطرت کی ایک لازمی طلب ہے۔ فطرت کے حسین مناظر، پہاڑوں کی فلک بوس چوٹیاں، دریاؤں کی گنگناتی روانی، جھیلوں کا سکون، سمندر کی شوریدہ لہریں اور سبزہ زاروں کی ٹھنڈی چھاؤں دل و دماغ کو راحت پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج کا انسان، جو خود کو مہذب اور تعلیم یافتہ کہلاتا ہے، اکثر تفریح کی تلاش میں اس قدر اندھا ہو جاتا ہے کہ زندگی کی سب سے قیمتی متاع یعنی جان کو معمولی خطرے کے حوالے کر دیتا ہے۔ کوئی بلند پہاڑ کی چوٹی پر سیلفی لیتے ہوئے گہرائی میں جا گرتا ہے، کوئی ندی کے بہاؤ سے بے خبر تیراکی میں مشغول ہو کر ڈوب جاتا ہے، کوئی پہاڑی چشمے میں طاقت آزمانے کے شوق میں پھسل کر پتھروں سے ٹکرا جاتا ہے اور کوئی اپنی گاڑی کی رفتار کو "موج مستی” سمجھتے ہوئے زندگی کی حدیں عبور کر بیٹھتا ہے۔
یہ سب واقعات ایک سوال چھوڑ جاتے ہیں!! کیا خوشی کا حصول زندگی کی قیمت پر درست ہے؟ تفریح، بے شک، انسانی جذبات کی تازگی، ذہنی سکون اور جسمانی توانائی کا اہم ذریعہ ہے۔ لیکن جب یہ تفریح شعور سے خالی ہو جائے، جب خوشی کا معیار محض مہم جوئی اور خطرہ مول لینا بن جائے، تو یہی تفریح افسوس، ماتم اور پچھتاوے کا سبب بن جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیر و تفریح کو ایک "میدانِ مقابلہ” سمجھ لیا گیا ہے۔ ہر کوئی دوسروں سے زیادہ جرات مند، زیادہ بہادر اور زیادہ "ایڈونچرس” دکھائی دینا چاہتا ہے، چاہے اس کے لیے عقل کو پس پشت ڈالنا پڑے یا خطرات سے آنکھیں چرا کر خود کو موت کے منہ میں ڈالنا پڑے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تفریح کے اصل مقصد کو سمجھیں۔ سیر و سیاحت کا مقصد فطرت سے قربت، ذہنی سکون، قلبی طمانیت اور روحانی جِلا ہے، نہ کہ خود نمائی، مقابلہ بازی یا جان لیوا حرکات۔ زندگی ایک انمول تحفہ ہے، جس کی حفاظت ہر فرد کی اولین ذمّہ داری ہے۔ اگر تفریح سے زندگی سنورنے کے بجائے برباد ہو جائے تو ایسی تفریح محض نادانی ہے، دانشمندی نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم خود بھی شعور حاصل کریں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں کہ زندگی کی خوشیوں میں وہی لطف ہے، جو سلامت جسم و جان کے ساتھ ہو۔ تفریح ضرور کیجیے، لیکن ہوش کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑیے، کیونکہ موج مستی وہی خوب ہے جو زندگی کو زندگی رکھے، نہ کہ زندگی کو موت سے بدل دے۔
دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ اب سیر و تفریح، سکون و سرور کا ذریعہ بننے کے بجائے اکثر جان لیوا حادثات کا پیش خیمہ بن گئی ہے۔ نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ پورے خاندان، پورے گروہوں کی زندگیاں ایسی بے احتیاطی کی نذر ہو رہی ہیں، جنہیں محض ایک لمحہ کی ہوش مندی سے بچایا جا سکتا تھا۔ کہیں ایک خاندان سمندر کی بے رحم موجوں کے سامنے محض تصویریں کھنچوانے کی خاطر خود کو اور اپنے معصوم بچّوں کو قربان کر دیتا ہے، کہیں ندی کی روانی سے انجان نوجوان جوش میں آ کر ایسا قدم اٹھا لیتے ہیں جو پلٹ کر زندگی کو ہی نگل لیتا ہے، اور کہیں صرف ایک کپ چائے پینے کی تمنا انسان کو رات گئے غیر ضروری سفر پر لے جاتی ہے، جہاں کسی موڑ، کسی کھڈے یا کسی ٹائر کے پھٹنے سے زندگی کی گاڑی ہمیشہ کے لیے رک جاتی ہے۔
ابھی حال ہی میں مہاراشٹر کے کوکن خطے کی ایک آبشار پر نوجوانوں کا ایک گروہ محض تفریح کے لیے جمع ہوا، اور پھر چند لمحوں میں خوشی کا وہ منظر موت کی چیخوں میں بدل گیا۔ وہ لمحہ کسی کے لیے دوست کی جدائی، کسی کے لیے بیٹے کا بچھڑنا، اور کسی ماں کے لیے ہمیشہ کا نوحہ بن گیا۔ سوال یہ نہیں کہ وہ کون تھے، سوال یہ ہے کہ ہم سب ان جیسے ہیں، اور ہم سب کسی دن انہی راستوں پر جا رہے ہوتے ہیں۔ اسی غفلت، اسی لاپرواہی، اور اسی "کیا فرق پڑتا ہے” کے خطرناک نظریے کے ساتھ۔
آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کون سی ایسی چیز ہے جو انسان کو اپنی قیمتی جان کے بارے میں بے حس بنا رہی ہے؟ کیا یہ صرف لاعلمی ہے؟ نہیں، ہم تعلیم یافتہ ہیں۔ کیا یہ صرف جذبہ ہے؟ نہیں، جذبہ عقل کے تابع ہو تو خوبصورتی بنتا ہے، ورنہ جنون کہلاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آج کا انسان لمحاتی خوشی کا اسیر بن چکا ہے۔ ہمیں فوری لطف، فوری سکون، فوری شہرت اور فوری واہ واہ چاہیے۔ چاہے اس کے لیے ہمیں جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ سوشل میڈیا نے ہمیں تماشہ بننے کی ایسی لت لگا دی ہے کہ اب ہم زندگی کو اسکرین کے زاویے سے ناپتے ہیں، اور موت کو "ریسک” کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ موت کو ‘ریسک’ کہتے کہتے، ہم خود موت کا رزق بن جاتے ہیں۔
ہم یہ بھول چکے ہیں کہ فطرت بے رحم ہوتی ہے۔ پانی، آگ، اونچائی، رفتار!!! یہ سب اپنے اصول رکھتے ہیں، اور ان اصولوں کی خلاف ورزی صرف ایک انجام رکھتی ہے: موت۔
سیر و تفریح کی منصوبہ بندی یا مالی استحصال؟ ریکٹ کا اصل چہرہ
ریکٹ کا مطلب ہوتا ہے!! ایک ایسا منظم، غیر اخلاقی یا غیر قانونی نظام، جو کسی عام ضرورت یا جذبات کو بنیاد بنا کر لوگوں کو نقصان پہنچائے اور خود نفع کمائے۔ یعنی ایک ایسا غیر محسوس مگر فعال معاشی، تجارتی اور سماجی جال جو لوگوں کی فطری خواہش (یعنی تفریح) کو اپنی کمائی، نمائش اور ناجائز مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ خطرناک جگہوں کو جان بوجھ کر پرکشش بنایا جاتا ہے۔ جن مقامات پر پانی کی روانی تیز ہوتی ہے، یا پہاڑ خطرناک ہوتے ہیں، وہاں مصنوعی خوبصورتی، لائٹنگ، بورڈز اور انسٹاگرامی "اسپاٹس” بنا دیے جاتے ہیں تاکہ نوجوان اور فیملیز بلا جھجک پہنچیں۔ مقامی انتظامیہ یا پرائیویٹ گروپ ان خطرات کا ذکر نہیں کرتے، کیونکہ وہ "رش” اور "ریونیو” کھونا نہیں چاہتے۔
ایڈونچر ٹورزم کے نام پر جان لیوا سرگرمیاں شروع کی جاتی ہیں۔ "ریسک” کو "فن” بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے بغیر تربیت کے راک کلائمبنگ، رافٹنگ، جنگل کیمپنگ، نائٹ ہائکنگ، بغیر لائف گارڈ کے تیراکی۔ ٹور آپریٹرز ناتجربہ کار نوجوانوں کو دلکش پیکیج میں لپیٹ کر خطرے میں جھونک دیتے ہیں۔ بہت سے تفریحی مقامات پر ہوٹل، ٹیکسی، فوڈ، پارکنگ اور گائیڈ سروسز ایک خاص مافیا یا "لوکل پاور نیٹ ورک” کے قبضے میں ہوتی ہیں۔ وہ لوگ خطرے کو چھپاتے ہیں، جعلی سیکیورٹی دکھاتے ہیں، اور احتیاط کی کسی بھی آواز کو "گھبراہٹ پھیلانا” کہہ کر دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔
حادثات کے بجائے "خوبصورت تصاویر” کو وائرل کیا جاتا ہے، تاکہ وہ جگہ ایک "ٹِرینڈنگ لوکیشن” بن جائے۔ حادثہ ہو بھی جائے تو رپورٹنگ نرم، ہمدردی سے بھرپور یا خاموش رہتی ہے تاکہ بزنس متاثر نہ ہو۔ لوگ جعلی گائیڈز، غیر رجسٹرڈ کیمپ سائٹس، اور غیر تربیت یافتہ رافٹنگ/کائیکنگ انسٹرکٹرز کے چکر میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ مگر کوئی کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ وہ بھی اسی ریکٹ کا حصّہ ہوتے ہیں۔ پیسہ کماؤ، خواہ موت کیوں نہ بیچنی پڑے۔ خطرے کو حسین بنا دو، تاکہ لوگ خود چل کر موت کے منہ میں آئیں۔ احتیاط کی بات کو بزدلی، اور ریسک کو بہادری بنا کر بیچو۔
(حصّہ دوّم)
ریکٹ کا اثر — ایک ہمہ گیر زنجیر
تفریحی مقامات پر قائم ریکٹ کا اثر محدود نہیں، بلکہ اس کی زہریلی لپیٹ میں سماج کے مختلف طبقات آہستہ آہستہ اپنی صورتِ حال کھو دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا اندھا نظام ہے جو خوشنما خواب دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں وجود کے تانے بانے کو کاٹتا چلا جاتا ہے۔ سب سے پہلا اور سب سے کمزور شکار بنتی ہے ہماری نوجوان نسل۔ سستی شہرت کا خواب، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر چند لمحوں کی واہ واہ، خطرناک جگہوں پر سیلفیاں، اور "ایڈونچر چیلنجز” کا جنون، یہ سب نوجوانوں کو موت کے دہانے تک لے جاتا ہے۔ ریکٹ ان کے جذبات کو خوبصورتی سے استعمال کرتا ہے، اور ان کے جوش کو سرمایہ بنا کر بیچتا ہے۔
اس کے بعد آتی ہیں فیملیز — جو تفریح کے سپنے لے کر نکلتی ہیں، اور اکثر حادثات کے اندھے کنویں میں جا گرتی ہیں۔ کسی ماں کی گود خالی ہو جاتی ہے، کسی باپ کا سایہ اٹھ جاتا ہے، اور کسی بچے کی ہنسی ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جاتی ہے۔ ان کے خواب، ان کا سکون، اور ان کی دنیا، سب کچھ ایک مصنوعی "پُرکشش مقام” کی نظر ہو جاتا ہے، جہاں خطرے کو خوبصورتی میں چھپا دیا گیا تھا۔ مقامی عوام کا حال اور بھی عجیب ہے۔ اگر وہ اس ریکٹ کا حصّہ نہ بنیں، تو روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں؛ اور اگر بن جائیں، تو غیر ارادی طور پر ان جان لیوا دھندوں کے سہولت کار بن جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب خطرناک ہے، مگر مجبوری، بے بسی، یا لالچ انہیں خاموش رکھتی ہے، یوں وہ یا تو مظلوم بنتے ہیں، یا خطرے کے ساتھی۔
اور آخر میں آتی ہے ریاست — جو حادثہ ہونے کے بعد جاگتی ہے، مگر دیر سے۔ کبھی وقتی ہمدردی، کبھی سیاسی بیانات، اور کبھی فرضی انکوائریاں۔ مگر مستقل اصلاح کا کوئی واضح راستہ نہیں اپنایا جاتا۔ وہی خطرناک مقامات دوبارہ کھل جاتے ہیں، وہی غیر تربیت یافتہ گائیڈز پھر سرگرم ہو جاتے ہیں، اور وہی جانیں پھر داؤ پر لگتی ہیں۔ یوں ریاست کی خاموشی ریکٹ کے لیے ایک نیا لائسنس بن جاتی ہے۔ یہ ریکٹ صرف معاشی نہیں، اخلاقی، سماجی اور انسانی تباہی کی ایک زنجیر ہے۔ جس میں ہر حلقہ کسی نہ کسی انداز سے جکڑا جا چکا ہے۔ جب تک ہم اس جال کو پہچان کر توڑنے کا اجتماعی شعور پیدا نہیں کرتے، یہ خاموش درندہ ہماری خوشیوں کو نگلتا رہے گا۔
اس ریکٹ کا توڑ — ذمّہ داری، ضابطہ، اور شعور
جب سیر و تفریح کا ایک خوبصورت عمل، جان لیوا حادثات اور منظم استحصال کا شکار بن جائے، تو صرف افسوس یا تعزیت کافی نہیں ہوتی۔ پھر ضرورت ہوتی ہے ایسے منظم اقدامات کی جو اس بے رحم ریکٹ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، اور انسانی زندگی کو دوبارہ وقار اور تحفّظ بخشیں۔ اس کے لیے چند بنیادی اور ضروری اصلاحی پہلو سامنے رکھے جانے چاہئیں:
مکمل لائسنسنگ اور ریگولیشن کا نظام: سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہر قسم کی ایڈونچر سروس، کیمپنگ، گائیڈنگ، اور ٹور آپریٹنگ کو ریاستی منظوری، ضابطوں اور باقاعدہ لائسنسنگ کے تحت لایا جائے۔ جو ادارے یا افراد بغیر تربیت، تجربے یا اجازت کے یہ سرگرمیاں کر رہے ہیں، ان پر سختی سے پابندی عائد کی جائے۔ تفریحی خدمات اب صرف کاروبار نہیں رہیں، یہ انسانی زندگی سے جڑی ذمّہ داریاں ہیں اور ان کا حساب ہونا چاہیے۔
حادثات کی شفاف رپورٹنگ: میڈیا کا کردار محض حسین مناظر دکھانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ سچائی یہ ہے کہ جو مقام کسی کے لیے "پرفیکٹ انسٹا اسپاٹ” ہے، وہی کسی دوسرے کے لیے موت کا دروازہ بھی بن چکا ہے۔ جب تک میڈیا، سوشل پلیٹ فارمز اور مقامی اطلاعات حادثات کی تفصیلات کو ایمانداری سے سامنے نہیں لائیں گے، عوام لاشعور ہی رہیں گے۔ ہر حادثے کی مکمل رپورٹنگ، تحقیق، اور سبق آموز پیشکش ضروری ہے تاکہ ایک کی غلطی دوسروں کے لیے وارننگ بن سکے۔
قانونی سزائیں اور ذمّہ داری کا نفاذ: اگر کوئی گائیڈ، ٹور آپریٹر، یا منتظم کسی ایسی جگہ سیاحوں کو لے جاتا ہے جو خطرناک اور غیر محفوظ ہے یا احتیاطی تدابیر کے بغیر کسی سرگرمی کی اجازت دیتا ہے تو اس پر قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ محض "حادثہ ہو گیا” کہہ کر ذمّہ داری سے پیچھا نہیں چھڑایا جا سکتا۔ جب تک قانون کی گرفت مضبوط نہ ہو، لالچ انسانی زندگی سے جیتتا رہے گا۔
سیاحوں میں تربیت اور شعور بیدار کیا جائے: ریکٹ صرف بیچنے والوں کا کھیل نہیں، خریدار بھی اگر اندھا ہو تو یہ نظام پھلتا پھولتا ہے۔ ہمیں سیاحوں، خاص طور پر نوجوان نسل میں یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ ہر منظر کی خوبصورتی کے پیچھے خطرہ بھی پوشیدہ ہو سکتا ہے۔ صرف دلکش مقامات کو دیکھنا کافی نہیں، وہاں کی حفاظت، موسم، حالات اور ذاتی صلاحیتوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ ذمّہ دار سیاح وہ ہے جو اپنے ساتھ اپنی جان، اپنے خاندان، اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی محفوظ رہے۔
ریکٹ کو توڑنے کے لیے صرف حکومت کی نہیں، سماج کی بھی ذمّہ داری ہے۔ جب قانون حرکت میں آئے، میڈیا سچ دکھائے، عوام ہوشیار ہو جائیں، اور سیاح دانشمند ہو جائیں۔ تب جا کر تفریح، تفریح رہے گی، موت کا جال نہیں۔ جب تفریح بزنس بن جائے اور انسان صرف گاہک سمجھا جائے، تو خوشی بیچنے والے موت بھی بیچنے لگتے ہیں۔ یہی تفریحی ریکٹ ہے، جسے توڑنا صرف حکومت نہیں، عوام کی بھی ذمّہ داری ہے۔ جب بے احتیاطی، لاپرواہی، اور لمحاتی جذبات کی بنیاد پر سیر و تفریح، انسانی جان کے لیے خطرہ بن چکی ہے تو پھر ہم کیا کریں؟ ذیل میں اس المیے کے تدارک کے لیے چند اہم اور قابلِ عمل اسلامی، اخلاقی، سماجی اور عملی نکات پیش کیے جا رہے ہیں:
اسلامی و اخلاقی سطح اور شعوری و تعلیمی سطح پر تدارک: تحفۂ زندگی کا شعور پیدا کیا جائے: قرآن و سنّت سے یہ پیغام عام کیا جائے کہ زندگی اللّٰہ کی دی ہوئی ایک امانت ہے، اور اس کی حفاظت فرض ہے۔ "وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا”۔ "اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو، بے شک اللّٰہ تم پر مہربان ہے” (النساء: 29)۔ تفریح میں تقویٰ شامل کیا جائے: تفریح اور سیر و تفریح کو بھی "اللّٰہ کی رضا” اور شکر گزاری کے جذبے سے کیا جائے، نہ کہ تکبر، نمائش یا غفلت کے ساتھ۔ نصابِ تعلیم میں "تفریح کی تہذیب” شامل ہو۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے نصاب میں تفریح کے آداب، خطرات، فطری حدود اور ذمّہ داریوں کو ایک مستقل موضوع بنایا جائے۔ والدین اور اساتذہ کردار ادا کریں۔ بچّوں اور نوجوانوں کو شروع سے ہی یہ سکھایا جائے کہ "بہادری” عقل کے ساتھ ہوتی ہے، اور "جان کی حفاظت” ہی اصل دانشمندی ہے۔
سوشل میڈیا و ڈیجیٹل کلچر اور قانونی اور انتظامی سطح پر تدارک: خود نمائی کا کلچر توڑا جائے۔ سوشل میڈیا پر خطرناک اسٹنٹس، غیر ذمّہ دارانہ وڈیوز، اور لائکس کے لیے جان کو داؤ پر لگانے کو "فخر” کی بجائے "نادانی” کے طور پر پیش کیا جائے۔ بامقصد کمپینز چلائی جائیں۔ سوشل میڈیا اور عوامی پلیٹ فارمز پر مہمات چلائی جائیں جن میں بتایا جائے کہ ایک لمحے کا شوق، پوری زندگی کا پچھتاوا بن سکتا ہے۔ خطرناک مقامات پر انتباہی سائن اور پابندیاں۔ آبشاروں، پہاڑی علاقوں، سمندری کناروں اور خطرناک سڑکوں پر واضح وارننگ بورڈز لگائے جائیں اور قانوناً عمل کروایا جائے۔ ریسکیو سروسز کی موجودگی۔ تفریحی مقامات پر مستعد ریسکیو ٹیمیں، لائف گارڈز اور ایمرجنسی سہولیات دستیاب ہوں تاکہ ہنگامی صورت میں جان بچائی جا سکے۔ حادثات کے بعد تفتیش اور سبق آموز رپورٹنگ۔ ہر بڑے حادثے کے بعد میڈیا اور انتظامیہ اس کی وجوہات پر روشنی ڈالے اور اس سے سبق اخذ کرنے کی اجتماعی ترغیب دے۔
انفرادی اور معاشرتی رویے کا تدارک: "نہیں” کہنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ نوجوانوں کو یہ سکھایا جائے کہ ہر مہم جوئی میں شریک ہونا ضروری نہیں۔ اپنی عقل، حد اور صلاحیت کو پہچاننا بہادری ہے۔ اجتماعی ذمّہ داری اگر آپ کسی دوست، عزیز یا شناسا کو خطرناک حرکت کرنے سے روکتے ہیں تو آپ دراصل اس کی زندگی بچا رہے ہیں۔ مساجد، مدارس، دروسِ قرآن اور عوامی بیانات میں اس طرز کی بے احتیاطی کے نقصانات کو موضوع بنایا جائے تاکہ شعور پیدا ہو۔
ضرورت ہے کہ ہم اجتماعی شعور پیدا کریں، اور سیر و تفریح کو بے خوفی یا دلیری نہیں، بلکہ ذہانت اور فہم کے ساتھ جوڑیں۔
ہمیں نوجوانوں کو سمجھانا ہو گا کہ زندگی کی سب سے بڑی بہادری یہی ہے کہ ہم اسے ضائع نہ ہونے دیں۔ ہمیں یہ احساس عام کرنا ہوگا کہ جان کی قیمت کسی بھی منظر، کسی بھی چائے، کسی بھی تصویر یا کسی وقتی خوشی سے زیادہ ہے۔ "تفریح کا مطلب فرار نہیں، فرحت ہے۔ اور خوشی کا مطلب دیوانگی نہیں، زندگی ہے۔ سیر کیجیے، مگر شعور کے ساتھ۔ جیے، مگر ذمّہ داری کے ساتھ”۔ خدارا! سیر کیجیے، خوش رہیے، جئیں! مگر سمجھداری کے ساتھ، ذمّہ داری کے ساتھ، اور اپنی جان کو سب سے قیمتی اثاثہ سمجھتے ہوئے۔ کیونکہ جو زندگی کھو جاتی ہے، وہ صرف ایک انسان کی نہیں جاتی! وہ کئی دلوں کو عمر بھر کے لیے ویران کر جاتی ہے.
Comments are closed.